فاطمہ اور عمران کی موٹر وے پر آخری ملاقات — ایک دل کو چھو لینے والی کہانی
فاطمہ اور عمران کی موٹر وے پر آخری ملاقات — ایک دل کو چھو لینے والی کہانی
مس فاطمہ دو پٹہ اتار دیں، میں آپ کو نہی گا
عمران خان نے طنزیہ نظر اپنی سیکریٹری پر ڈالی جو گرمی سے پسینے میں بھیگی ہوئی تھی۔ موٹروے پر گرمی کی شدت کی وجہ سے عمران کی گاڑی کا اے سی بند ہو گیا تھا، تو اس نے گرمی سے بچنے کے لیے اپنی شرٹ کے بٹن کھول دیے، مگر فاطمہ کی موٹی چادر نے اسے بے ہوش کر دیا۔ عمران غصے سے گاڑی روکا۔
"پاگل لڑکی!" وہ اس کی چادر ہٹانے لگا اور اسے پانی پلانے لگا، لیکن آدھا پانی اس کی گردن سے گزر کر قمیض میں جذب ہو گیا۔ عمران بے اختیار فاطمہ کے دھڑکنوں پر ہاتھ رکھے رہ گیا۔
رات دھیرے دھیرے سرد ہوتی جا رہی تھی۔ گاڑی کے اندر مدھم سی روشنی تھی، لیکن باہر گہری تاریکی اور سناٹا تھا۔ فاطمہ گھبرا کر چادر سر پر سیدھی کرتے ہوئے باہر دیکھنے کی کوشش کی، مگر صرف سناٹے کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا۔
مایوسی سے اس نے اپنا رخ موڑ کر عمران کو دیکھا جو گاڑی کی سیٹ پر ایک ہاتھ سٹیئرنگ ویل پر اور دوسرے ہاتھ کی مٹھی بنا کر اپنی ٹانگ پر رکھے کسی گہرے سوچ میں تھا۔ فاطمہ نے گہرا سانس لیا، "اب ہمیں یہاں اور کتنی دیر رکنا پڑے گا؟" اس کی آواز میں گھبراہٹ جھلک رہی تھی۔
عمران نے پلٹ کر اسے دیکھا، "موٹر وے پولیس کو کال کی ہے، لیکن ابھی تک کوئی نظر نہیں آیا۔" اس کے انداز میں بیزاری تھی۔
فاطمہ نے پسینے سے بھیگے بالوں کو پیچھے کیا اور بولی، "گاڑی کا اے سی بند ہو چکا ہے، بہت گرمی ہے، کیوں نہ باہر اتر جائیں؟"
عمران نے اسے ایک تیز نظر دی اور بولا، "ابھی نہیں۔"
فاطمہ کو اس سیاہ آنکھوں والے شخص سے ہمیشہ سے خوف محسوس ہوتا تھا، جو اس سے پندرہ سال بڑا تھا۔ وہ صرف اٹھارہ سال کی تھی اور عمران تیس برس کے قریب۔ فاطمہ بول چکی تھی کہ اسے لوگوں سے بات کرنے میں مشکل ہوتی ہے، مگر وہ انٹرنیشنل کلائنٹس کے سامنے اپنی بات جرات سے کہہ سکتی تھی۔
وہ انزل نہیں، بلکہ فاطمہ افریدی تھی، جو ہمیشہ حالات کی کٹھنائیوں میں گھرے رہتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو چھپائے، وہ بمشکل گھر سے باہر نکلتی تھی۔ اور عمران خان تھا، ایک بڑے بزنس ایمپائر کا مالک، ملک کے اشرافیہ میں شامل۔ جس کے ایک فون کال پر لوگ تیار رہتے تھے۔ وہ مسکراتا کم تھا، مگر اس کی مسکراہٹ میں ہزاروں لڑکیاں دیوانی تھیں۔
گاڑی کا دروازہ اچانک کھلا اور چند لوگ فاطمہ کو باہر نکالنے لگے۔ وہ چیخ رہی تھی، مدد کے لیے پکار رہی تھی، مگر اسے سننے والا کوئی نہ تھا۔ ایک زور دار فائر کی آواز گونجی۔ فاطمہ کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔ عمران نے اس کا کندھا پکڑا اور اسے سنبھالا۔
فاطمہ نے جلدی سے اپنی ماں کے پاس جا کر دیکھا، جو روتی ہوئی تھی۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔
"امی، کیا ہوا؟" وہ کانپتی ہوئی بولی۔
"بیٹا، تم نے مجھے پریشان کر دیا ہے، بس خیال رکھو خود کا۔" ماں نے کہانی سنائی کہ کس طرح جاوید بھائی بیمار تھے، مگر اب بہتر محسوس کر رہے تھے۔
فاطمہ نے اپنی آنکھوں میں آنسو روکنے کی کوشش کی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ کس مشکل شخص کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ جاوید کا منصوبہ سن کر اس کا دل گھبرا گیا تھا۔ مگر وہ مجبور تھی۔
عمران نے اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ فاطمہ نے اس کے ہاتھوں کو تھامے رکھا اور اپنی زندگی کی کہانی اس کے سامنے کھول دی۔ وہ جانتی تھی کہ آگے کیا مشکلات ہیں، مگر اس نے ہمت نہیں ہاری۔
گاڑی کی روشنی میں عمران کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔ اس نے فاطمہ کی طرف دیکھا جو اب بھی خوفزدہ اور بے بسی کی حالت میں تھی۔ "فاطمہ، تمہیں ڈرنا نہیں چاہیے، میں تمہارے ساتھ ہوں۔"
فاطمہ نے ہلکا سا سر ہلایا، مگر اس کے دل میں بے چینی گھوم رہی تھی۔ یہ سب کچھ بہت جلدی ہو رہا تھا، اور اس کے سامنے ایک نامعلوم مستقبل کا دروازہ کھل رہا تھا۔
"ہمیں یہاں سے جلد نکلنا ہوگا، ورنہ یہ رات ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔" عمران نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور باہر کی طرف دیکھا۔ سڑک پر خالی پن اور خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
"تمہیں یاد ہے، فاطمہ، کل تم نے دفتر میں جو بات کی تھی؟ وہ تمہاری ہمت کا ثبوت تھی۔" عمران نے ہلکے انداز میں کہا۔
فاطمہ نے تھوڑا حوصلہ پکڑا اور بولی، "میں صرف چاہتی ہوں کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے۔"
رات کی تنہائی میں گاڑی کی روشنی دھیمی پڑتی جا رہی تھی۔ عمران کی نظریں سڑک پر جمی ہوئی تھیں، مگر اس کے دل میں کئی سوالات اور خدشات نے جنم لے لیا تھا۔
فاطمہ کے چہرے پر اب بھی خوف اور بے یقینی کی چھاپ تھی۔ اس نے اپنی موٹی چادر کو تھامے رکھا تھا، جیسے کوئی نہایت قیمتی چیز ہو۔
"ہمیں جلدی سے کسی محفوظ جگہ پہنچنا ہوگا، یہ رات ہمارے لیے امتحان بن چکی ہے۔" عمران نے اپنے آپ کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
گاڑی کے باہر کا منظر سنسان اور خموش تھا، ہر طرف تاریکی کا راج تھا۔ فاطمہ نے ہچکچاتے ہوئے کہا، "کاش یہ سب کچھ ختم ہو جائے...
عمران نے اس کا ہاتھ تھاما، "ختم ہوگا، بس تم پر بھروسہ رکھو۔"
گاڑی کی کھڑکیوں سے ٹکرا کر ہوا کی نرم لہر فاطمہ کے چہرے سے ٹکرائی۔ اس نے آنکھیں بند کر کے گہرا سانس لیا، لیکن اس کے دل کی دھڑکن بے قابو تھی۔ اس نے عمران کی طرف دیکھا جو اب بھی فکر کے گھنے بادلوں میں گھرا تھا۔ رات کی تنہائی میں ان کی سانسوں کی آواز ہی واحد تھی جو اس گہری خاموشی کو توڑ رہی تھی۔
"عمران، کیا واقعی ہمیں اس رات یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ ملے گا؟" فاطمہ نے آہستہ سے پوچھا، لیکن آواز میں ابھی بھی خوف کی چھاپ تھی۔
عمران نے اپنی گرفت مضبوط کی، "فاطمہ، تمہیں یہ جان لینا ہوگا کہ زندگی میں مشکلات تو آتی رہتی ہیں۔ لیکن ہم نے ہمت نہیں ہارنی۔ یہ رات گزر جائے گی، پھر روشنی ہمارے قدم چومے گی۔"
وہ چند لمحے خاموش رہے، پھر اچانک دور کہیں سے ایک ہلکی سی روشنی نمودار ہوئی۔ دونوں کی نظریں وہاں جم گئیں۔ "دیکھو، وہ روشنی ہے!" فاطمہ نے پرامید ہو کر کہا۔
عمران نے گاڑی اسٹارٹ کی اور احتیاط سے گاڑی اس سمت بڑھائی۔ قریب پہنچ کر پتہ چلا کہ یہ ایک چھوٹا سا ہاؤسنگ سوسائٹی تھا، جہاں کچھ لوگ اپنے گھروں کے باہر کھڑے تھے۔
"کیا آپ لوگ مدد کر سکتے ہیں؟ ہماری کار کا اے سی خراب ہو گیا ہے اور ہم موٹر وے پر پھنسے ہوئے ہیں۔" عمران نے ان سے مخاطب ہو کر کہا۔
ایک بوڑھا شخص آگے آیا، "ہماری گلی تھوڑی سی سنسان ہے لیکن میں تمہیں قریب ترین موٹر وے پولیس کے اسٹیشن تک پہنچا سکتا ہوں۔"
عمران نے شکر ادا کیا اور بوڑھے کے ساتھ بات چیت کی۔ فاطمہ بھی تھوڑی راحت محسوس کر رہی تھی۔ اسے امید کی ایک کرن نظر آئی۔
نئی مشکلات
لیکن جیسے ہی وہ پولیس اسٹیشن پہنچے، انہیں معلوم ہوا کہ موٹر وے پر حادثہ ہو چکا ہے۔ ایک ٹرک اچانک سے تیز رفتاری سے گاڑی کے پیچھے جا ٹکرایا تھا اور بہت سے لوگ زخمی تھے۔
پولیس نے بتایا کہ موٹر وے کئی گھنٹوں کے لیے بند رہے گی۔ عمران اور فاطمہ کے لیے یہ خبر کسی تباہی سے کم نہ تھی۔
فاطمہ کی آنکھوں میں خوف نے پھر جگہ بنا لی۔ "اب کیا کریں گے؟ ہم پھنس گئے ہیں۔"
عمران نے ہاتھ جوڑ کر کہا، "ہمیں صبر کرنا ہوگا۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ یہ مشکل وقت بھی گزر جائے گا۔"
فاطمہ کے خواب اور حقیقت
رات گزرنے کے ساتھ، فاطمہ نے اپنی زندگی کے کئی لمحات یاد کیے۔ وہ چھوٹے سے گاؤں کی لڑکی تھی جس نے شہر کی بڑی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ ہر قدم پر مشکلات اور چیلنجز اس کے راستے میں آئے، لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔
"مجھے یاد ہے جب میں پہلی بار اس دفتر میں آئی تھی۔ سب کچھ نیا تھا، مگر میں نے خود کو ثابت کیا۔" فاطمہ نے اپنے اندر کی آواز سنی۔ "آج بھی چاہے حالات کیسے بھی ہوں، مجھے ہار نہیں ماننی۔
عمران بھی اپنی زندگی کی کہانی سنانے لگا۔ "میرے پاس سب کچھ تھا، مگر سکون نہیں۔ طاقت کی دنیا میں اکیلا پن بہت بڑا دشمن ہے۔ تم نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ انسانیت اور ہمدردی سب سے بڑی دولت ہے۔"
نیا آغاز
رات کے آخری پہر، جب آسمان پر پہلی کرن نمودار ہوئی، فاطمہ اور عمران نے ایک دوسرے کو مضبوطی سے تھام لیا۔
"یہ نئی صبح ہمارے لیے ایک نیا آغاز ہے،" عمران نے کہا۔ "ہم مل کر ہر مشکل کا مقابلہ کریں گے۔"
فاطمہ نے مسکرا کر کہا، "ہاں، چاہے کتنی بھی تاریکی ہو، روشنی ہماری منزل ہے۔"
وہ دن تھا جب ان دونوں نے اپنی زندگی کی نئی کہانی لکھی۔ نہ صرف اپنے لیے بلکہ ان تمام لوگوں کے لیے جو مشکلات میں گھرے ہوتے ہیں۔
کہانی یہی ختم نہیں ہوتی، بلکہ ایک نئے سفر کی شروعات ہوتی ہے، جہاں امید، محبت اور قربانی کی روشنی میں ہر درد کا علاج ہوتا ہے۔

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
"Shukriya! Apka comment hamaray liye qeemati hai."