دل کی پرچھائیاں


  • "تم جیسی جاہل لڑکی کو میں اپنی بیوی نہیں مانتا۔" اپنے سے دس سال چھوٹی زینب کو دور دھکیلتا کمرے سے نکل گیا اور اپنے گھر والوں کے لاکھ روکنے کے باوجود وہ ہمیشہ کے لیے امریکہ چلا گیا تھا۔ امریکہ میں گزرتے وقت کے ساتھ وہ ایک لڑکی کو پسند کرنے لگا تھا اور زینب کو بالکل فراموش کر چکا تھا۔ جب اچانک اسے اپنے دادا کے انتقال کی خبر ملی تھی تو وہ چار سال بعد پاکستان حویلی لوٹا تھا اور انتقال کے تیسرے دن ہی اس معصوم پری کو دیکھ کر مبہوت رہ گیا تھا جو اس کے نکاح میں تھی، پر یہ دیکھ کر تن بدن میں آگ لگی تھی کہ وہ تو اس سے کتراتی اسے مکمل نظر انداز کر رہی تھی۔ اسے اپنے کزن کے ساتھ بے تکلف ہوتا دیکھ وہ غصے سے پاگل ہو گیا...

ہو چکی تھی۔ "دادا ایک ہی بات کہوں گا! اور اپنی پسند سے کروں گا۔۔"

"اتنی لڑکیوں کے ساتھ میں تمہیں دیکھ چکا ہوں ظفر۔۔ کیا وہ تمہیں پسند نہیں ہوتیں؟"

"نہیں! بس وقتی پسند دادا! کیا کروں میرے اسٹینڈرڈ کی نہیں ملتی۔۔ جو ملتی ہے کچھ دن ٹھیک رہتی ہے پھر اپنی اوقات پر آ جاتی ہے۔۔۔ پیسہ چاہیے تو تحفے چاہیے۔۔ عورت پیسے کے لیے ہی مرد کے پاس آتی ہے۔۔ بس! اگر آپ کے پاس بے پناہ دولت نہ ہوتی تو آپ کی چار شادیاں ہوتیں۔۔"

"بالکل نہیں!" وہ بلا کا بد لحاظ اور منہ پھٹ تھا۔

"ظفر تم ساری عمر مجھے میری شادیوں کے طعنے دینا نہیں چھوڑو گے؟ ارے مت کرنا چار! ایک ہی کرلے بس! زینب بہت اچھی بچی ہے۔۔ بہت سیدھی سادی معصوم!"

دادا: "یہ ایک دم سیدھی سادی معصوم والا لاجک میرے بھیجے میں نہیں بیٹھتا۔۔"

"بیٹھے یا لیٹے میں اشفاق کو زبان دے چکا ہوں۔۔ ساری زندگی تم سے کچھ نہیں مانگا، آج پہلی اور آخری خواہش سمجھ کر ہاں کر دو۔۔ میری عزت رکھ لو۔۔ کسی یتیم کو عزت کی چھت مل جائے گی اللہ تمہیں اس کا بہت اجر دے گا۔۔"

اس کے ساتھ ٹور بھی۔۔ وہ یک دم ہی خوش دکھائی دینے لگا، ٹور پر اسے لے کر نہ جانے کا کوئی نہ کوئی بندوبست وہ کر ہی لے گا۔

"تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے مجھے۔۔"

"میں ٹھیک ہوں دادا! آپ بتائیں ضروری بات کرنی تھی آپ کو؟"

"ہاں بیٹا! فرقان آیا تھا۔۔"

"جی وہ تو اکثر آتے ہیں ناں۔" اس نے وہیں بیٹھتے ہوئے کہا۔

فرقان نیازی دادا کے بہت پرانے دوست تھے جو اکثر اوقات آتے رہتے تھے۔

"اچھا ہے ابو؟ ہمیں ماں باپ تو اس لے پین میں ہی موت ہونے کے بیٹا! اکلوتا بیٹا ہے۔۔" ایک پل کو وہ رکی پھر سر اثبات میں ہلا کر پلٹ گئی۔

"یہ کیسا علاقہ ہے ماں! کیا دادا کو ظفر کے لیے یہاں سے لڑکی پسند آئی ہے؟"

گاڑی جیسے ہی اس طویل گلی میں داخل ہوئی کرن استہزائیہ انداز میں بولا۔

"تمہارے دادا کو کون ہی سمجھا سکتا ہے۔۔ رانیہ کا دل ہی ٹوٹ گیا میری معصوم بچی!!"

رانیہ پلڑی تھی، وہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھی تو ظفر بھی کسی سے کم نہ تھا، دراز قد، خوش شکل، مغرور ناک و نقشے لیے، وہ دیکھنے پر ہی زینب کی دھڑکنیں تیز کر گیا تھا۔ وہ شرمائی، لجائی سی بیٹھی تھی جب نکاح کی مبارک باد کا وقت آیا، سب اسے گلے لگا رہے تھے۔ سادگی سے ہوئی تقریب میں نم آنکھوں سے دادا دادی نے اسے رخصت کیا تھا۔ قیمتی گاڑی میں وہ ظفر کے قریب ہی بیٹھی تھی۔ ظفر نے سرسری نگاہ اس کے سجے سنورے روپ پر ڈالی مگر چہرہ ظاہر نہ تھا، وہ گھونگھٹ ڈالے بیٹھی تھی۔

دل تمام سلوہ، حصے اور تعریف کے باعث دھڑک اٹھا۔ اس نے اٹھ کر لیٹ ہولا سامنے ہی کرن کھڑا تھا۔

"سوتی ہی رہیں گی؟ یا اپنے دلہے کی کچھ خبر بھی رکھیں گی۔۔؟"

"کیا مطلب؟ صبح صبح یہ چہرہ اور یہ لہجہ؟" اسے بری طرح تیا۔

"مطلب یہ ہے کہ آپ کے نصیب کے قدموں سے شادی کی پہلی ہی رات ظفر کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔۔" وہ طنزیہ انداز میں اسے گھورتے بولی۔

اس کا دل یک دم خوف سے لرز اٹھا، چہرے پر پریشانی ظاہر ہوئی۔

"کیسے ہوا ایکسیڈنٹ؟"

ظفر کی طبیعت واقعی بگڑ چکی تھی۔ ایکسیڈنٹ کے بعد وہ ہسپتال کے ایک کمرے میں بیہوش پڑا تھا۔ زینب کی آنکھیں اس کے لئے بے چینی اور فکر سے نم تھیں۔ ہر وقت اس کی حالت کے بارے میں سوچتی اور دعا کرتی رہتی۔

دادا نے سب کو سمجھایا تھا کہ اب ظفر کی ذمہ داری زینب کی ہے۔ "بیٹا، تمہاری زندگی میں اب ایک اور راستہ ہے، اسے سنبھالو، ورنہ وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔"

زینب نے دل ہی دل میں عہد کیا تھا کہ وہ اپنی محبت کا ثبوت دے گی، چاہے ظفر اسے نظرانداز کرے یا بدلہ لے۔

اس دوران ظفر کی ذہنی کیفیت پیچیدہ ہو گئی تھی۔ امریکہ میں جو زندگی گزاری تھی، وہ سب یاد آ رہا تھا۔ وہ زینب کی سادگی، اس کی معصومیت کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ دل میں کہیں ایک جنگ چل رہی تھی — ایک طرف غرور اور خودپسندی، دوسری طرف شاید محبت کی مہر۔

ایک دن جب ظفر کی طبیعت کچھ بہتر ہوئی تو اس نے زینب کو بلا کر کہا، "زینب، تم نے میرے ساتھ جو صبر کیا، میں اسے کبھی نہیں بھول سکتا۔ لیکن میری زندگی کا ایک راز ہے جو میں تم سے چھپاتا رہا۔"

زینب نے نرمی سے پوچھا، "کیا راز ہے؟"

ظفر نے آنکھیں جھکاتے ہوئے کہا، "امریکہ میں، میری زندگی میں ایک اور لڑکی تھی۔ میں نے اسے پسند کیا، شاید محبت کی غلط تعبیر سمجھ لی۔ مگر وہ کبھی میرا دل نہیں جیت سکی۔ اب جب میں نے تمہیں پایا ہے، مجھے پتہ چلا کہ اصل محبت کیا ہوتی ہے۔"

زینب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے مگر اس نے حوصلہ دیا، "میں تمہارے ساتھ ہوں، ظفر۔ جو بھی ہوا، ماضی میں رہ گیا۔ اب ہم دونوں کا مستقبل ہے۔"

لیکن خاندان میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئی تھیں۔ کرن جو ظفر کی شادی سے ہمیشہ حسد کرتی رہی، اب اور بھی سخت ہو گئی تھی۔ وہ ہر موقع پر زینب کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتی اور ظفر کو مشورے دیتی کہ وہ زینب کو چھوڑ دے۔

"ظفر، یہ لڑکی تمہارے لئے نہیں بنی۔ تمہیں ایک ایسی لڑکی چاہیے جو تمہاری زندگی کے معیار پر پورا اترے، جو تمہاری عزت کرے، نہ کہ سادگی کے نام پر تمہیں ذلیل کرے۔" کرن کی باتوں نے ظفر کے ذہن میں اب بھی شک و شبہات پیدا کر دیے تھے۔

ظفر دل ہی دل میں جھک رہا تھا کہ کہیں وہ اپنی پہلی محبت کی گمراہ کن یادوں میں نہ پھنس جائے۔ لیکن زینب کی محبت اور وفاداری نے اسے بار بار سنبھالا۔

ایک شام، جب وہ دونوں حویلی کے خوبصورت باغ میں بیٹھے تھے، ظفر نے کہا، "زینب، میں چاہتا ہوں کہ تم میرے ساتھ پورا ساتھ دو، چاہے دنیا کچھ بھی کہے۔"

زینب نے مسکرا کر جواب دیا، "ظفر، میرا ساتھ ہمیشہ تمہارے ساتھ ہے۔

اب آگے کا سفر کیسا ہوگا؟ کیا ظفر اپنی سوچ بدل سکے گا؟ کیا کرن کے حسد کی آگ بجھ پائے گی؟ اور زینب کی محبت کے امتحان کیا ہوں گے؟

یہ کہانی ابھی بہت کچھ کہنے والی ہے...

اگر آپ چاہیں تو میں اگلے حصے بھی لکھتا رہوں گا۔ بس بتائیں کہ کتنے الفاظ میں آگے کا حصہ چاہیے؟

ہسپتال کی کھڑکی سے باہر بہار کی نرم ہوا چل رہی تھی، لیکن ظفر کے دل میں ابھی طوفان چھپا تھا۔ زینب کی موجودگی نے اس کے اندر کچھ نرمی ضرور پیدا کی تھی، مگر وہ اپنے ماضی کے بھنور سے نکلنے میں ابھی بھی ناکام تھا۔ وہ اکثر تنہائی میں بیٹھ کر اپنے فیصلوں پر غور کرتا۔

ایک دن ظفر نے زینب کو بتایا،

"زینب، مجھے اپنی زندگی کا کچھ حصہ تم سے شیئر کرنا ہے۔ تمہاری سمجھ بوجھ کا امتحان بھی ہے۔"

زینب نے دھیما سا مسکرا کر کہا، "میں سننے کے لیے تیار ہوں، جو بھی ہو۔"

ظفر نے اپنی زندگی کی ان تاریک کہانیوں کو زینب کے سامنے رکھا جو اس نے کبھی کسی کو بتائی نہیں تھیں۔ امریکہ میں اس کے تجربات، اس کی غلطیاں، اور وہ لڑکی جسے وہ کبھی چاہتا تھا مگر وہ اس کے لیے نہیں تھی۔ زینب خاموشی سے سنتی رہی، ہر بات پر اس کے چہرے پر درد اور ہمدردی کے جلوے تھے۔

"میں جانتا ہوں کہ میں تمہارے لیے مکمل نہیں ہوں، لیکن میں اپنی پوری کوشش کروں گا کہ تمہیں وہ زندگی دوں جو تمہاری ہمت اور محبت کے قابل ہو۔"

زینب نے نرم آواز میں جواب دیا،

"ظفر، محبت صرف مکمل ہونا نہیں، بلکہ ایک دوسرے کی کمیوں کو سمجھ کر قبول کرنا بھی ہے۔ تم جتنے بھی ہو، میں تمہارے ساتھ ہوں۔"

اس دوران کرن کی سازشیں بڑھتی گئیں۔ وہ خاندان میں سب کے سامنے زینب کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتی، چھوٹے چھوٹے بہانے بناتی کہ ظفر کی محبت زینب سے کمزور ہے۔ وہ جانتی تھی کہ اگر ظفر کا دل مکمل طور پر زینب کے ساتھ جڑ گیا تو اس کا منصوبہ ناکام ہو جائے گا۔

ایک دن کرن نے ظفر کو قائل کرنے کی کوشش کی،

"ظفر، تمہیں سوچنا چاہیے۔ یہ شادی تمہاری زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ ہے۔ تمہارے لیے بہتر ہوگا کہ تم اپنی خوشی کے لیے صحیح انتخاب کرو۔"

ظفر کے دل میں ایک طوفان سا اٹھا، مگر اس نے کرن کو صاف صاف کہا،

"کرن، میری زندگی کے فیصلے میں تمہارا کوئی حصہ نہیں۔ زینب میرے لیے سب کچھ ہے۔"

زینب اور ظفر کے تعلقات میں اب محبت کے ساتھ ساتھ برداشت اور قربانی بھی شامل ہونے لگی تھی۔ وہ دونوں زندگی کی ہر مشکل کو ساتھ جھیلنے کے لیے تیار تھے۔

ایک شام جب وہ دونوں چاندنی رات میں باغ میں چل رہے تھے، ظفر نے کہا،

"زینب، کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں تمہارے قریب نہیں آ پا رہا۔ میرا ماضی، میرے خوف، سب میرے درمیان دیوار کھڑی کر رہے ہیں۔"

زینب نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا،

"ظفر، تمہیں بس یقین رکھنا ہوگا۔ میں تمہارے ساتھ ہوں، تمہاری ہر دیوار کو گرا دوں گی۔"

اب دیکھنا یہ ہے کہ ظفر اپنی اندرونی الجھنوں کو کیسے ختم کرتا ہے اور زینب کی محبت اسے کس حد تک سنبھالتی ہے۔ کیا وہ کرن کی سازشوں کا مقابلہ کر پائے گا؟ یا پھر کہیں کوئی اور موڑ ان کی زندگی کا رخ بدل دے گا؟

وقت گزرتا گیا اور ظفر کی صحت میں دن بہ دن بہتری آ رہی تھی۔ ہسپتال سے گھر آ کر زینب کی محبت اور نگہداشت نے اس کی زندگی میں نئی روشنی بھردی تھی۔ مگر گھر کے ماحول میں کشیدگی اور تلخی برقرار تھی۔ خاص طور پر کرن کی ضد اور سازشیں بڑھتی جا رہی تھیں۔

ایک دن ظفر کے والدین نے ظفر کو اکیلے بلا کر بات کی،

"بیٹا، تمہاری زندگی میں جو بھی ہو رہا ہے، ہمیں تمہاری خوشی چاہیے۔ لیکن تمہیں سمجھنا ہوگا کہ تمہاری شادی کے بعد گھر میں سکون اور عزت دونوں ضروری ہیں۔ زینب تم سے محبت کرتی ہے، مگر کرن کے بہانے بھی سننے چاہئیں۔"

ظفر نے غصے میں کہا،

"امی ابو، زینب نے ہر مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا ہے۔ میں اس کے خلاف کچھ نہیں چاہتا۔"

مگر والدین کی باتیں ظفر کے دل میں شکوک پیدا کرنے لگیں۔ وہ اندر سے الجھن میں مبتلا تھا۔ کرن نے بھی موقع پا کر خاندان کے دیگر افراد سے باتیں شروع کر دی تھیں کہ زینب شاید ظفر کے معیار پر پورا نہیں اترتی۔

زینب نے سب کچھ برداشت کرتے ہوئے ظفر سے کہا،

"ظفر، ہمیں اپنے گھر والوں کو قائل کرنا ہوگا کہ ہمارا رشتہ مضبوط ہے۔ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی، اور میں چاہتی ہوں کہ تم بھی میرا ساتھ دو۔"

ظفر نے ہاتھ پکڑ کر کہا،

"زینب، تم میری زندگی کا سب سے قیمتی حصہ ہو۔ میں سب کچھ تمہارے لیے برداشت کرنے کو تیار ہوں۔

ایک دن کرن نے ظفر کو ایک موقع دیا کہ وہ زینب کی غلطی پر بات کرے۔ وہ جانتی تھی کہ ظفر کی طبیعت ابھی بھی کمزور ہے، اور وہ جلد غصے میں آ جاتا ہے۔

کرن نے کہا،

"ظفر، تمہیں سوچنا چاہیے کہ تمہاری زندگی میں تمہارا سب سے اہم شخص کون ہے۔ زینب کے بارے میں تمہارا غصہ تمہارے تعلقات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔"

ظفر نے جواب دیا،

"کرن، میں اپنی زندگی کا فیصلہ خود کروں گا۔"

کہانی میں اب ایک نیا موڑ آ رہا تھا۔ ظفر نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے ماضی کے سائے کو پیچھے چھوڑ کر زینب کے ساتھ اپنی زندگی کی نئی شروعات کرے گا۔ وہ چاہتا تھا کہ گھر والے بھی اس رشتے کو قبول کریں۔

زینب نے دعا کی، "اللہ! میرے دل کی خواہش پوری ہو، اور ظفر کی زندگی میں خوشیاں آئیں۔"

کیا ظفر اور زینب اپنے رشتے کو مضبوط بنا سکیں گے؟ کیا خاندان کے لوگ ان کی محبت کو قبول کریں گے؟ اور کرن کی سازشیں کب تک رکے گی؟

کہانی کا مزید دلچسپ اور جذباتی حصہ جلد حاضر ہوگا۔

ظفر اور زینب کی کہانی میں اتار چڑھاؤ آئے، مشکلات بھی آئیں، مگر ان کی محبت نے ہر آزمائش کو سہارا دیا۔ ظفر نے اپنے غرور اور ماضی کی زنجیروں کو توڑ کر زینب کے ساتھ اپنی زندگی کو نئے سرے سے جینے کا فیصلہ کیا۔

گھر کے لوگ بھی آہستہ آہستہ ان کی محبت کو سمجھنے لگے، خاص طور پر دادا نے جو ابتدا میں سخت تھے، اب ظفر اور زینب کے لیے دعا گو تھے۔

کرن کی سازشیں آخرکار ناکام ہو گئیں کیونکہ سچائی کی روشنی کبھی چھپتی نہیں۔ خاندان میں محبت، برداشت اور سمجھوتے نے جگہ لے لی۔

ایک دن ظفر نے زینب کو ہاتھ پکڑ کر کہا،

"زینب، تم نے مجھے وہ سکون دیا جو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ تمہارے بغیر میری زندگی ادھوری تھی۔ آج میں دل سے کہتا ہوں کہ تم ہی میری حقیقی زندگی ہو۔"

زینب کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے،

"ظفر، محبت کا مطلب صرف الفاظ نہیں، بلکہ ایک دوسرے کا ساتھ دینا اور ہر حال میں وفادار رہنا ہے۔ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔

یوں ظفر اور زینب نے زندگی کی مشکل راہوں کو مل کر طے کیا۔ ان کی کہانی نہ صرف محبت کی، بلکہ برداشت، قربانی اور ایمان کی بھی مثال بن گئی۔

وہ دونوں نہ صرف ایک دوسرے کے لیے بلکہ پورے خاندان کے لیے امید اور محبت کی کرن ثابت ہوئے۔

آخر میں، محبت کا اصل مطلب یہی ہے کہ ہم اپنے فخر، غرور اور ماضی کی زنجیروں کو توڑ کر ایک دوسرے کے لیے دل کھول دیں۔ اور یہی سبق ہمیں ظفر اور زینب کی کہانی سے ملتا ہے۔


 

تبصرے

New Urdu Stories

ماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانیماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

فاطمہ اور عمران کی موٹر وے پر آخری ملاقات — ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

امتحان کی گزرگاہ: ایک مخلص انسان کی کہانی"