Zameendar Ki Beti Aur Faqeer Ka Beta | Jazbati Aur Romantic Urdu Story | Love Story


 "زمیندار کی بیٹی اور فقیر کا بیٹا – محبت جو تقدیر سے ٹکرا گئی"

رات کے اندھیرے میں گاؤں کے کنارے پر واقع وہی پرانی حویلی چمک رہی تھی۔ زمیندار کریم داد کی حویلی — جس کے در و دیوار سے دولت، رعب اور طاقت ٹپکتی تھی۔ پورے گاؤں میں کوئی ایسا نہیں تھا جو زمیندار کے نام سے واقف نہ ہو۔ اس کے قدموں میں زمین، کھیت، مزارع، نوکر سب جھکے رہتے تھے۔ مگر اس کے دل میں ایک ہی کمزوری تھی — اس کی اکلوتی بیٹی "ماہ نور"۔

ماہ نور، چاند کی طرح چمکتی، نازک سی، مگر آنکھوں میں ایک الگ خاموشی لیے پھرتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں کبھی کبھی اتنی گہری اداسی چھپ جاتی کہ لگتا جیسے وہ کسی قید میں ہے — مگر خود بھی نہیں جانتی کہ قید کیا ہے۔

زمیندار کے گھر میں دنیا کی ہر آسائش تھی مگر محبت کی خوشبو کہیں گم تھی۔ ماں بچپن میں فوت ہو گئی تھی، باپ کاروبار میں مصروف رہتا، اور بیٹی تنہائی میں بڑی ہوئی۔

گاؤں کے باہر، دریا کنارے ایک جھونپڑی میں فقیر بخش کا بیٹا “عادل” رہتا تھا۔ عادل دن بھر مزدوری کرتا، رات کو اپنے باپ کے ساتھ مسجد کے پاس بیٹھ کر روٹی کھاتا۔ چہرہ سادہ مگر آنکھوں میں ایک عجب سکون — جیسے غربت نے اسے توڑنے کے بجائے مضبوط کر دیا ہو۔

عادل اکثر زمیندار کے کھیتوں میں کام کے لیے جاتا، مگر ہمیشہ خاموش رہتا۔ کبھی آنکھ اٹھا کر حویلی کی طرف نہیں دیکھتا تھا، شاید قسمت کی لکیر جانتا تھا۔


ایک دن صبح سویرے جب دھوپ ہلکی سی زرد تھی، ماہ نور اپنی بگھی سے اتری اور کھیتوں کی طرف چلی گئی۔ ہوا میں کھیتوں کی خوشبو تھی، اور دور سے اذان کی آواز آ رہی تھی۔ وہ اپنی سہیلی کے ساتھ باتوں میں مگن تھی کہ اچانک اس کی نظر سامنے جھکے ہوئے ایک مزدور پر پڑی۔

وہی عادل… جس کے ہاتھ مٹی سے بھرے ہوئے تھے مگر آنکھوں میں ایمان کی روشنی تھی۔


ماہ نور چند لمحے کے لیے ٹھٹک گئی، جیسے وقت رک گیا ہو۔

عادل نے بھی اچانک سر اٹھایا، اور دونوں کی آنکھیں ملی۔

ایک لمحے میں جیسے دونوں کے درمیان خاموشی کا کوئی وعدہ ہو گیا —

نہ کسی نے کچھ کہا، نہ کسی نے کچھ سنا، مگر دل کے اندر کہیں کچھ ہل گیا۔

اس دن کے بعد ماہ نور اکثر کھیتوں کی سیر کے بہانے نکلنے لگی۔

اور عادل؟ وہ ہر روز دعا کرتا کہ آج وہ دوبارہ اسے دیکھ سکے۔

دونوں کے بیچ خاموشی تھی مگر جذبات کی لہر بڑھتی جا رہی تھی۔

انہیں خود بھی احساس نہ ہوا کہ یہ خاموشی کب محبت میں بدل گئی۔


دن گزرتے گئے مگر ماہ نور کے دل میں وہ ایک لمحہ بار بار لوٹ آتا۔ وہ لمحہ جب عادل نے پہلی بار آنکھ اٹھا کر دیکھا تھا، جیسے اس کے اندر کوئی کہانی چھپی ہو۔ وہ خود سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کیوں ہر روز صبح اسے کھیتوں کی طرف جانے کی خواہش ہونے لگتی تھی، کیوں ہر بار دل بےچین ہو جاتا جب عادل سامنے نہ آتا۔ وہ خود کو سمجھانے کی کوشش کرتی مگر دل کی ضد تھی کہ اب وہ خود کو روک نہیں سکتی۔


ایک دن وہ اکیلی نکل پڑی۔ اس کے دل میں ایک عجب سا سکون تھا مگر قدم لرز رہے تھے۔ عادل دریا کنارے مٹی اٹھا رہا تھا، پسینہ اس کے ماتھے پر چمک رہا تھا۔ ماہ نور چند قدم دور رکی، اور پہلی بار اس نے نرم آواز میں کہا،

“یہ سب دن بھر تم اکیلے کرتے ہو؟”

عادل چونک گیا، پیچھے مڑا تو وہی چہرہ، وہی چاند سا حسن۔ وہ کچھ بول نہ سکا، بس نظریں جھکا لیں۔

“جی… یہ میرا کام ہے بی بی صاحبہ…” وہ آہستہ سے بولا۔

“بی بی صاحبہ نہیں، میرا نام ماہ نور ہے۔”

یہ کہہ کر وہ مسکرا دی، اور وہ مسکراہٹ جیسے عادل کے دل میں کسی نے روشنی بھر دی ہو۔


اس دن پہلی بار بات ہوئی۔ چھوٹی چھوٹی باتیں، مگر دلوں کے بیچ فاصلہ کم ہونے لگا۔ وہ دن بھر سوچتا رہتا، “کیا واقعی وہ مجھ سے بات کر گئی؟” اور وہ رات بھر چھت تلے جاگتی رہتی، “کیا اس کے دل میں بھی وہی جذبہ ہے جو میرے اندر جاگا ہے؟”


دن گزرتے گئے، ملاقاتیں بڑھتی گئیں۔ کبھی دریا کے کنارے، کبھی کھیت کے بیچ۔

ماہ نور کی آنکھوں میں چمک بڑھ گئی، اور عادل کے لبوں پر دعا۔ وہ محبت جو چھپ کر پیدا ہوئی تھی، اب ان کی سانسوں میں گھل چکی تھی۔

عادل نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ زمیندار کی بیٹی اس کے دل کی دنیا میں قدم رکھے گی، مگر تقدیر کی لکیریں کبھی امیری اور غریبی نہیں دیکھتیں، وہ بس دل دیکھتی ہیں۔


ایک دن وہ دونوں درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔

ماہ نور نے آہستہ سے کہا، “عادل… اگر میرے باپ کو پتہ چل گیا تو؟”

عادل کی آنکھوں میں ایک لمحے کے لیے خوف آیا مگر اس نے نرمی سے جواب دیا،

“اللہ سچائی کا ساتھ دیتا ہے، ماہ نور۔ اگر ہمارا دل صاف ہے تو دنیا چاہے کچھ بھی کہے، ایک دن سچائی جیتے گی۔”

ماہ نور کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی، مگر آنکھوں میں نمی تھی۔

عادل نے پہلی بار اس کے آنسو دیکھے، اور دل جیسے کسی نے مٹھی میں دبا لیا ہو۔


اسی لمحے ایک سایہ ان دونوں پر پڑا —

زمیندار کریم داد، غصے سے سرخ چہرہ، ہاتھ میں چھڑی، اور نگاہوں میں وہ آگ جو سب کچھ جلا دے۔

“ماہ نور… یہ کیا دیکھ رہا ہوں میں؟ تم اس فقیر کے بیٹے کے ساتھ…؟”

ماہ نور ساکت رہ گئی، آواز گلے میں اٹک گئی۔

عادل نے نظریں نیچی کر لیں مگر دل میں خوف کے ساتھ عزم تھا۔

زمیندار چیخا، “یہ تمہاری جرأت کیسے ہوئی؟ میری بیٹی سے بات کرنے کی؟”

عادل خاموش کھڑا رہا، صرف ایک بار بولا،

“محبت اجازت نہیں مانگتی، زمیندار صاحب، یہ دل میں خود اتر جاتی ہے…”

وہ لمحہ زمیندار کے لیے آگ تھا اور ان دونوں کے لیے تقدیر کا دروازہ۔

کریم داد نے غصے میں اپنے ملازموں کو اشارہ کیا،

“اسے حویلی کے باہر دیکھوں تو ٹانگیں توڑ دینا، اور ماہ نور… تم اب گھر سے باہر نہیں نکلو گی!”

ماہ نور چیخ پڑی، “ابا، یہ گناہ نہیں ہے… میں صرف اس سے—”

مگر اس کی آواز کسی نے سننا نہ چاہی، بس ہوا میں دروازہ زور سے بند ہوا،

اور ایک عشق کے خواب قید میں بدل گئے۔

رات بھر حویلی کے اندر چیخوں کی بازگشت گونجتی رہی۔ ماہ نور اپنے کمرے میں بند تھی، دروازے کے باہر پہرے دار کھڑے تھے۔ اس کے آنسو ختم نہیں ہو رہے تھے، دل جیسے سینے سے نکل کر باہر آنا چاہتا ہو۔ وہ بار بار آئینے میں خود کو دیکھتی اور سوچتی، کیا محبت واقعی اتنی بڑی غلطی تھی کہ اس کی سزا قید بن گئی؟

کھڑکی کے پار درختوں کے پیچھے سے چاند جھانک رہا تھا، جیسے اس کی تنہائی کا ساتھی ہو۔ وہ ہلکی آواز میں بولی، "عادل… تم کہاں ہو؟ کیا تم بھی رو رہے ہو؟"

ادھر دوسری طرف گاؤں کے کنارے ہنگامہ مچا ہوا تھا۔ زمیندار کے آدمیوں نے عادل کو پکڑ لیا تھا، کپڑے پھٹے ہوئے، چہرے پر مٹی، مگر آنکھوں میں وہی سکون جو ایمان والے کو ہوتا ہے۔ ایک ملازم نے اسے دھکا دے کر زمین پر گرا دیا۔

“زمیندار کی بیٹی پر نظر ڈالنے کی ہمت کی؟ تجھے گاؤں سے زندہ نہیں جانے دیں گے!”

عادل نے سر اٹھا کر بس اتنا کہا، “میں نے اس پر نظر نہیں ڈالی، میں نے اس کے دل کو دیکھا تھا… جو سب سے زیادہ خوبصورت تھا۔”

مگر ان الفاظ کی قیمت اسے سخت مار کے ساتھ چکانی پڑی۔

رات کے سناٹے میں جب سب سو گئے، عادل کو گاؤں سے نکال دیا گیا۔ وہ زخمی حالت میں دریا کے کنارے پہنچا، جہاں وہ اکثر ماہ نور کے ساتھ بیٹھا کرتا تھا۔ ہوا میں اس کی خوشبو تھی، پانی میں ان کی ہنسی گونج رہی تھی۔

عادل نے آسمان کی طرف دیکھا اور دھیرے سے بولا، “یا اللہ، اگر یہ محبت تیری دی ہوئی ہے تو ایک دن ہم ضرور ملیں گے، چاہے دنیا کے خلاف جانا پڑے۔”

پھر وہ دریا کے کنارے بیٹھ کر خاموشی سے رونے لگا۔

ماہ نور نے اگلے دن جب دروازے سے باہر جھانکا تو کھیتوں میں عادل نہیں تھا۔

اس نے نوکر سے پوچھا تو اس نے طنز سے کہا، “تمہارا فقیر تو رات ہی بھاگ گیا، شاید اب کبھی نہ آئے۔”

وہ لمحہ ماہ نور کے دل پر خنجر بن کر لگا۔

وہ زمین پر بیٹھ گئی، ہاتھوں سے منہ ڈھانپ لیا اور زاروقطار رونے لگی۔

دل چیخ چیخ کر کہتا تھا، “نہیں، وہ ایسا نہیں کر سکتا… وہ مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتا…”

دن ہفتوں میں بدل گئے۔

ماہ نور خاموش، چپ، جیسے سانسیں زندہ ہوں مگر روح مر چکی ہو۔

کھانا پینا چھوڑ دیا، آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے، اور دل میں ایک ہی نام — “عادل”۔

زمیندار پریشان ہونے لگا، مگر اس کے غرور نے اسے نرم نہ ہونے دیا۔

ایک دن اس نے اپنی بیٹی کے کمرے میں آ کر سخت لہجے میں کہا،

“ماہ نور، تمہارے رونے سے وقت واپس نہیں آئے گا۔ میں نے تمہارے لیے شہر کے بڑے نواب زادے سے رشتہ طے کر دیا ہے۔ اب یہی تمہارا نصیب ہے!”

ماہ نور کے لب کانپ گئے۔

“ابا… آپ مجھے کسی اور کو دے دیں گے؟”

زمیندار نے کہا، “تم میری عزت ہو، اور عزت کو محبت سے نہیں، فیصلے سے جیتا جاتا ہے۔”

اس رات ماہ نور نے پہلی بار آسمان کی طرف دیکھا اور وہی دعا دہرائی جو کبھی عادل نے کی تھی —

“یا اللہ، اگر میرا دل سچا ہے، تو ایک دن وہ ضرور واپس آئے گا…”

چاند اس رات جیسے کچھ کہہ رہا تھا، ہوا جیسے وعدہ کر رہی تھی

 کہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔

شہر میں نکاح کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ حویلی میں روشنی، ڈھول، خوشبو، مگر ماہ نور کے دل میں اندھیرا۔ وہ خاموش بیٹھی تھی، جیسے جسم موجود مگر روح کہیں اور۔

زمیندار کریم داد خوش تھا کہ اب اس کی بیٹی کی شادی ایک بڑے نواب زادے سے ہونے جا رہی ہے۔

مگر اسے کیا خبر تھی کہ بیٹی کے دل میں صرف ایک نام لکھا ہے — عادل۔

نکاح کی رات آئی، سب کچھ سجا، محفل جمی، مگر ماہ نور کے چہرے پر وہی سناٹا۔

مولوی صاحب نے کہا، “قبول ہے؟”

وہ لب ہلانا چاہتی تھی مگر آواز گلے میں دب گئی۔

اسی لمحے حویلی کے دروازے پر شور ہوا۔ سب کی نظریں باہر کی طرف گئیں۔

دھول میں لپٹا ایک شخص اندر آ رہا تھا —

زخمی، کمزور، مگر نگاہ میں روشنی…

وہ عادل تھا۔

حویلی کے اندر سناٹا چھا گیا۔

زمیندار غصے سے اٹھا، “کس نے اسے اندر آنے دیا؟”

عادل نے ہلکی آواز میں کہا،

“میں بھاگا نہیں تھا زمیندار صاحب، میں قسمت کے پیچھے گیا تھا… اور جب اس نے کہا لوٹ آؤ، تو میں واپس آ گیا۔”

ماہ نور کی آنکھوں سے آنسو پھوٹ پڑے۔ وہ اٹھی، دو قدم آگے بڑھی مگر باپ کے سخت لہجے نے روک دیا۔

“ایک فقیر کا بیٹا میری بیٹی کے نام کی زبان کیسے لے سکتا ہے؟”

عادل مسکرایا، “فقیر کا بیٹا ضرور ہوں، مگر میرا دل دولت سے نہیں، سچائی سے بھرا ہے۔ میں اس سے محبت کرتا ہوں، اور محبت جرم نہیں ہوتی۔”

حویلی کے لوگ سرگوشیاں کرنے لگے، مولوی صاحب خاموش کھڑے تھے۔

ماہ نور نے پہلی بار باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا،

“ابا… اگر محبت گناہ ہے تو مجھے اس گناہ کی سزا قبول ہے۔

میں عادل کی ہوں، تھی، اور ہمیشہ رہوں گی۔”

زمیندار کا ہاتھ کانپ گیا، چھڑی زمین پر گر گئی۔

اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔

“ماہ نور… تُو بھی ماں کی طرح ضدی نکلی…”

پھر اس نے ہلکی آواز میں کہا،

“مولوی صاحب، نکاح پڑھا دو…”

پورا مجمع ساکت ہو گیا۔

عادل کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، ماہ نور نے روتے ہوئے ہاتھ جوڑے،

اور نکاح کے الفاظ گونج اٹھے —

“قبول ہے… قبول ہے… قبول ہے…”

دریا کے کنارے جہاں کبھی وہ دونوں خاموش بیٹھا کرتے تھے،

اب وہی دو دل ایک دوسرے کے ساتھ تھے۔

غربت اور امیری کی دیوار گر گئی،

اور محبت نے ثابت کر دیا کہ سچے دل کبھی ہار نہیں مانتے۔

چاندنی رات میں حویلی کے دروازے کے باہر فقیر بخش دعا مانگ رہا تھا،

“یا اللہ، جس محبت میں تیرا نام ہو،

اسے کبھی جدائی نہ دینا…”

ہوا نرم تھی، چاند روشن تھا،

اور گاؤں کی فضا می

ں صرف ایک نام گونج رہا تھا —

ماہ نور اور عادل۔



تبصرے

New Urdu Stories

ماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانیماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

فاطمہ اور عمران کی موٹر وے پر آخری ملاقات — ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

امتحان کی گزرگاہ: ایک مخلص انسان کی کہانی"