"Best Urdu Kahani | Islamic Story | Moral Lesson Story for Kids & Adults"


 "ایک جذباتی کہانی – اسلامی سبق کے ساتھ"

میری شادی ایک معزز گھرانے میں ہوئی تھی۔ میں کئی سال غیر ملکی ملکوں میں گھومتی رہی، اور اماں ابا کا فون آتا تو میں اکثر بیزاری سے کال کاٹ دیتی۔ چار سال بعد جب میں پاکستان واپس لوٹی تو فوراً اماں ابا سے ملنے ان کے گھر گئی۔ جیسے ہی میں گھر کے قریب پہنچی، سب لوگ حیرت سے مجھے دیکھنے لگے۔
میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں جب میں نے اپنی ماں کو گھر کے سامنے بیٹھا، بغیر چادر کے اپنے اوپر مٹی ڈالتے ہوئے دیکھا، اور بچے اسے پاگل کہہ رہے تھے۔ فوراً میں نے انہیں اٹھایا اور گھر کے اندر لے گئی۔ اندر قدم رکھتے ہی میرا دل دھڑکنے لگا کیونکہ ابا آنگن میں جھاڑو لگا رہے تھے اور بھائی بھابھی ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔ میں غصے سے چلائی اور ابا کو ساتھ لے جانے لگی، لیکن ابا نے روتے ہوئے میرا ہاتھ جھٹک کر کہا:
> "بیٹی، یہ سب تمہارے لیے نہیں۔"
پاکستان کے ایئر پورٹ پر لینڈ ہوئے مجھے تقریباً پندرہ منٹ ہو چکے تھے۔ باہر نکلتے نکلتے دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے کر مسل دیا۔ چار سال بعد میں واپس آئی تھی اور دل میں ماں باپ کی محبت جاگ اٹھی تھی۔
ان چار سالوں میں دل سے ان کی محبت کبھی ختم نہ ہوئی تھی، بس وقتی طور پر دھول مٹی نے اسے چھپا دیا تھا۔ اب سارا گرد و غبار اڑ گیا تھا اور ان کی محبت صاف اور واضح میرے دل میں محسوس ہو رہی تھی۔ میں دل ہی دل میں دعا کر رہی تھی کہ یا اللہ، میں جس گھر جا رہی ہوں، میرے ماں باپ مجھے ویسے ہی ملیں جیسے میں چاہتی ہوں۔
جب میں محلے میں قدم رکھا، میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر آیا جو کبھی بھول نہ پاؤں گی۔ میری ماں، انتہائی دگرگوں حالت میں، عجیب و غریب حرکات کر رہی تھی، اور میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ چار سال بعد ماں باپ سے ملنے کی خوشی جیسے غائب ہو گئی اور دل غم سے بھر گیا۔
میرے ابا، کانپتے ہوئے ہاتھوں اور لرزتے قدموں کے ساتھ، گھر کے کام کر رہے تھے۔ اندر قدم رکھتے ہی میں جم سی گئی، پھر دوڑ کر ماں کے پاس گئی اور اسے گلے لگا لیا۔ دل پر ہاتھ رکھ کر میں رونے لگی۔
ماضی کے دن یاد آئے، جب میں اس گھر میں چھوٹی بچی تھی۔ گھر چھوٹا سا تھا، ایک ہی کمرہ جس میں غسل خانہ بھی، کچن بھی، اور ہم سب سوتے کھاتے تھے۔ ابو سخت محنت کرتے، ہم بہن بھائیوں کے لیے بہتر مستقبل چاہتے، لیکن قسمت نے جدوجہد ہی لکھی تھی۔
بھائی نکمہ اور بہن خاموش مزاج تھی۔ میں ہی تھی جو پڑھنے میں آگے تھی۔ محلے کے بچوں کو کم فیس میں ٹیوشن پڑھانا شروع کیا، تاکہ نہ صرف میں بلکہ دوسرے بھی تعلیم حاصل کر سکیں۔
چند سال بعد میری شادی ہوئی، لیکن سسرال میں میری حیثیت صرف ایک ملازمہ کی سی تھی۔ شوہر اور بھابھی کی تلخ باتیں، ماں باپ کے فون پر بیزاری، یہ سب برداشت کیا۔ صبح اٹھ کر گھر کے کام اور ڈے کیئر چلانا میری ذمہ داری بن گئی۔
میں نے جیسے ہی اپنے ماں باپ کو قریب سے دیکھا، دل میں عجیب سی تڑپ اٹھی۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی زندگی کی تمام قربانیاں مجھے بہتر بنانے کے لیے دی تھیں، اور میں نے ان سے دور رہ کر ان کے دکھ کا سبب بنائی تھی۔ دل پر ہاتھ رکھ کر میں نے خود سے کہا، "اب وقت ہے کہ سب کچھ بدلوں۔"
گھر کے اندر قدم رکھتے ہی، میں نے دیکھا کہ ہر چیز ویسی ہی تھی جیسی میں نے چھوڑا تھا، لیکن وقت کی مار نے ہر گوشہ چھو لیا تھا۔ صوفے کے پرانے کپڑے، کھڑکی کے پردے، باورچی خانے کے برتن، ہر چیز میں وقت کا اثر تھا۔ لیکن سب سے زیادہ دل دکھانے والا منظر میری ماں کا تھا، جو ایک کونے میں بیٹھ کر خاموش آنسو بہا رہی تھی۔
میں فوراً اس کے پاس گئی، اسے کندھے سے تھام کر بولا، "ماں، میں واپس آ گئی ہوں۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔" ماں نے مجھے دیکھا، آنکھوں میں خوف اور حیرت کے ساتھ، پھر آہستہ آہستہ مسکرائی، لیکن آنسو رکتے نہ تھے۔
ابا بھی آنگن سے اندر آئے، کانپتے ہاتھوں کے ساتھ۔ میں نے فوراً ان کے ہاتھ پکڑے اور کہا، "ابا، آپ کو اب محنت نہیں کرنی، میں سب سنبھال لوں گی۔" ابا نے پہلی بار بغیر الفاظ کے مجھے دیکھا، آنکھوں میں آنسو، اور دل کی گہرائیوں سے سکون محسوس کیا۔
میرے بھائی اور بھابھی بھی اندر آئے، لیکن میں نے فوراً سب کو سمجھا دیا کہ یہاں اب کوئی تلخ بات نہیں ہوگی، کوئی نفرت نہیں، سب کو مل کر رہنا ہے۔ بھائی نے سر جھکایا، شاید اس نے اپنی غلطیوں کا ادراک کیا، اور بھابھی خاموش ہو گئی۔

اس شام، جب سب کے لیے کھانا تیار ہوا، میں نے محسوس کیا کہ یہ صرف کھانا نہیں، بلکہ محبت اور سکون کا پہلا لمحہ تھا۔ میں نے سوچا، "یہی میری جنت ہے، یہی میری زندگی کی اصل خوشی ہے۔"
رات کو میں نے اپنے کمرے میں بیٹھ کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ چار سال کی دوری، غیر ملکی زندگی، سسرال کی مشکلات—سب کے باوجود، آج میں واپس اپنے اصل گھر، اپنے اصل خاندان کے پاس تھی۔ دل کے ہر دھڑکن میں ماں باپ کی محبت محسوس ہو رہی تھی۔
اس رات جب سب سو رہے تھے، میں اپنے ماں باپ کے کمرے میں گئی۔ ماں کو دیکھ کر میں نے کہا، "ماں، آپ آرام کریں، سب کچھ میں دیکھوں گی۔" ماں نے ہلکی سی مسکراہٹ دی اور سر ہلایا۔ ابا نے بھی میری طرف دیکھا، اور دل میں سکون محسوس ہوا کہ آخرکار سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے۔

اگلے دن میں نے گھر کے چھوٹے چھوٹے مسائل دیکھے: پانی کے ٹینک کی مرمت، کھڑکیوں کی صفائی، باورچی خانے کا سامان۔ میں نے خود سب کچھ سنبھالا، تاکہ ابا کی محنت کم ہو اور ماں کو آرام ملے۔ بچوں کے لیے بھی میں نے چھوٹا سا کلاس روم بنایا تاکہ وہ پڑھ سکیں، کیونکہ تعلیم ہی وہ طاقت ہے جو انسان کو کامیابی کی طرف لے جاتی ہے۔

دن گزرتے گئے، اور میں نے اپنی زندگی کا مقصد واضح کر لیا: ماں باپ کے ساتھ سکون سے زندگی گزارنا، ان کے دن خوشیوں سے بھرنا، اور اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا۔ ہر دن میں نے انہیں اپنی محنت اور محبت سے خوش رکھنے کی کوشش کی۔

کچھ مہینوں کے بعد، میں نے محسوس کیا کہ ماں اب پہلے جیسی دگرگوں حالت میں نہیں تھیں۔ وہ ہنستی، باتیں کرتی، اور کبھی کبھار مجھے وہ کہانیاں سناتی جو بچپن میں سنایا کرتی تھیں۔ ابا بھی اب محنت کے باوجود خوش نظر آنے لگے، کیونکہ وہ جان گئے کہ ان کی بیٹی نے ان کے لیے سب کچھ بدل دیا ہے۔
میں نے سوچا، "یہی اصل کامیابی ہے، یہی حقیقی خوشی ہے۔" میرے دل کی دھڑکن میں سکون، آنکھوں میں چمک، اور روح میں امن پیدا ہو گیا۔ وہ چار سال کی جدائی، دکھ اور مشکلات کی مکمل تلافی تھی۔

ایک دن جب میں نے اپنے گھر والوں کی حالت دیکھی—ماں بوڑھی، ابا مزدوری کرتے، بھائی و بہن اپنی حالت میں—تو دل جیسے ٹوٹ گیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اپنی زندگی بدلوں گی اور ماں باپ کو اپنی زندگی میں لے آؤں گی۔ اللہ تعالی نے میرا ساتھ دیا اور آج میں اپنے ماں باپ کے ساتھ چھوٹے مگر پر سکون گھر میں خوش ہوں، غربت اور طعنوں سے آزاد۔
اگلے دن میں نے سوچا کہ گھر کے اندر موجود ہر مسئلے کو حل کرنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے میں نے گھر کی چھت اور آنگن کی صفائی کی، تاکہ ماحول صاف اور خوشگوار ہو۔ پھر میں نے باورچی خانے میں سامان ترتیب دیا اور کھانے پکانے کا انتظام خود سنبھالا۔ ابا اور ماں کو اب زیادہ محنت نہیں کرنی پڑ رہی تھی، اور وہ دونوں پہلی بار سکون محسوس کر رہے تھے۔

میرے دل میں ایک عجیب سی خوشی تھی، کیونکہ میں جانتی تھی کہ چار سال کی غیر موجودگی کے بعد یہ میری پہلی حقیقی ذمہ داری تھی جو میں پورا کر رہی تھی۔ ہر چھوٹا قدم، ہر چھوٹا کام مجھے اندر سے خوش کر رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ زندگی کا وہ حصہ ہے جس کا میں ہمیشہ خواب دیکھتی رہی تھی۔
میرے بھائی اور بھابھی کی حالت دیکھ کر میں نے ان کے لیے بھی کچھ منصوبہ بنایا۔ بھائی جو کبھی جوئے کی لت میں مبتلا رہتا تھا، اور بھابھی جو اکثر پریشانی میں گھر کے کاموں کو نہیں سنبھال پاتی تھی، اب میں چاہتی تھی کہ وہ بھی زندگی کی راہ پر آئیں۔ میں نے ان کے لیے چھوٹا سا کام کا انتظام کیا اور انہیں سیکھنے کا موقع دیا، تاکہ وہ خود مختار بن سکیں۔
دن گزرتے گئے اور گھر میں سکون بڑھتا گیا۔ ماں اب پہلے کی طرح بیمار یا دگرگوں نہیں تھیں۔ وہ ہنستی، باتیں کرتی، اور اکثر اپنے بچپن کی یادیں سناتی۔ ابا کی محنت کم ہوئی، اور وہ اکثر اپنے کاموں کے بعد آرام کر لیتے۔ میرے دل میں سکون پیدا ہو گیا، کیونکہ میں جان گئی تھی کہ یہی اصل خوشی ہے—اپنے ماں باپ کی خدمت اور ان کے لیے زندگی کا ہر لمحہ دینا۔
میں نے گھر کے بچوں کے لیے بھی ایک چھوٹا سا کلاس روم بنایا۔ میں نے سوچا کہ تعلیم ہی وہ طاقت ہے جو انہیں زندگی میں آگے لے جائے گی۔ بچوں کی آنکھوں میں جو چمک تھی، وہ مجھے اپنے بچپن کی یاد دلاتی تھی۔ میں نے انہیں پڑھاتے ہوئے خود بھی سیکھا کہ حقیقی خوشی دوسروں کی خدمت میں ہے۔
چند مہینوں کے بعد، میں نے اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کیا کہ میں نے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا ہے۔ چار سال کی غیر موجودگی، سسرال کی تلخیاں، اور مشکلات کا غم—سب کچھ اب مکمل طور پر ختم ہو گیا تھا۔ میں نے جانا کہ زندگی کا اصل مقصد محبت، خدمت، اور خاندان کی قدر کرنا ہے۔
ایک دن میں اور میری ماں باہم بیٹھ کر گپ شپ کر رہی تھیں۔ ماں نے کہا، "بیٹی، تمہارے آنے کے بعد سب کچھ بدل گیا ہے۔ ہم اب خوش ہیں۔" میری آنکھوں میں آنسو آ گئے، لیکن یہ خوشی کے آنسو تھے۔ میں نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے واپس اپنے اصل گھر، اپنے اصل خاندان کے پاس پہنچایا۔
اب گھر کا ہر دن ایک نئی خوشی لے کر آتا۔ ہم سب مل کر کھانا کھاتے، کہانیاں سناتے، اور ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتے۔ میں نے محسوس کیا کہ یہی میری حقیقی جنت ہے—اپنے ماں باپ کے ساتھ سکون اور محبت بھری زندگی گزارنا۔
میرے شوہر کے ساتھ زندگی معمول کے مطابق جاری تھی۔ لیکن غیر ملکی ملک میں رہتے ہوئے، تنہائی اور دوری کے اثرات نے میرے دل میں ایک خلا پیدا کر دیا تھا۔ ایک دن، ایک لڑکا میرے قریب آیا، اس کی باتیں، ہنسی اور توجہ نے میرے دل کو بہکایا۔ میں جانتی تھی کہ یہ غلط ہے، لیکن دل کی خواہش اور تنہائی نے مجھے اس کی محبت کی طرف کھینچ لیا۔
ہم نے کئی دنوں تک راز میں باتیں کیں، محبت کی پینگیں بنائیں، اور ایک دن میں اس کے ساتھ بھاگ گئی۔ دل میں ایک عجیب سی خوشی اور آزادی محسوس ہوئی، لیکن یہ خوشی زیادہ دیر نہ رہی۔ دو تین مہینوں کے بعد وہ لڑکا بے وفا نکلا، اور میں خود کو تنہا اور دھوکہ کھایا ہوا محسوس کر رہی تھی۔
میرے دل کا ہر ٹکڑا بکھر گیا، اور میں خود سے نفرت کرنے لگی۔ میں نے سوچا، "میں نے اپنے شوہر، اپنے خاندان اور اپنی زندگی کے اصل مقصد کو کیسے بھلا دیا؟" دل میں پچھتاوا اور غم کا طوفان تھا۔
آخرکار میں نے فیصلہ کیا کہ میں واپس جاؤں، اپنے اصل شوہر کے پاس، جس نے مجھے ہمیشہ محبت دی تھی۔ جب میں نے قدم اپنے پرانے گھر میں رکھا، دل میں خوف اور شرمندگی تھی۔ میں نہیں جانتی تھی کہ مجھے قبول کیا جائے گا یا نہیں۔
لیکن میرے شوہر نے مجھے دیکھا، آنکھوں میں غصہ اور حیرت تھی، مگر اس نے مجھے گلے لگا لیا اور کہا:
"تم واپس آ گئی ہو، یہ سب تمہارے لیے نہیں تھا۔ لیکن اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔"
میرے دل میں سکون اور خوشی کا احساس ہوا۔ میں نے جان لیا کہ اصل محبت اور خاندان کی قدر ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ میں نے اپنی غلطیوں کو قبول کیا اور اپنے شوہر کے ساتھ دوبارہ زندگی کو سنوارا۔



تبصرے

New Urdu Stories

ماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانیماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

فاطمہ اور عمران کی موٹر وے پر آخری ملاقات — ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

امتحان کی گزرگاہ: ایک مخلص انسان کی کہانی"