Heart Touching Sachi Kahani | Urdu kahani | Mohabbat Aur Sacchai | Moral Story

 

آج زارا کی خالہ کی بیٹی کی شادی تھی، مگر قسمت نے ایسا موڑ لیا کہ بارات آئی ہی نہیں۔ عزت بچانے کے لیے سب کی نظریں ایک ہی شخص پر گئیں — ریحان۔ کسی نے اس کی رضامندی بھی نہ لی، بس فوراً نکاح پڑھا دیا گیا۔ ریحان دل ہی دل میں گھبرا گیا، دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئی تھیں، اور اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ کمرے میں آیا تو دلہن — عالیہ — سہمی بیٹھی تھی۔ جیسے ہی اس نے ریحان کو دیکھا، تن کر بولی:

"خبر دار، مجھے ہاتھ بھی لگایا تو… میں سب کو بتا دوں گی کہ تم مرد ہی نہیں ہو، طلاق لے لوں گی!"

ریحان گنگ رہ گیا۔ پوری رات وہ جاگتا رہا، پریشانی کے پہاڑ تلے دب گیا جبکہ عالیہ مزے سے سو رہی تھی۔ رات کی خاموشی میں ایک شیطانی خیال نے جنم لیا — لیکن وہ صرف سوچ تھا، عمل نہ کر سکا۔ دل میں احساس اور خوف کی ملی جلی کیفیت تھی، جیسے خوشی اور اندوہ ایک ساتھ لپٹے ہوں۔

اگلی صبح ریحان اپنی معمولی سی جاب پر نکل گیا — ایک فوڈ ڈیلیوری رائیڈر۔ ڈیوٹی ختم کر کے جب وہ ریستوران کے باہر کھڑا تھا تو اچانک سامنے اپنی کزن مہک اور اس کا منگیتر نظر آئے۔ دل کی دھڑکن بے قابو ہو گئی۔ مہک وہ لڑکی تھی جس کے لیے وہ برسوں سے دیوانہ تھا، مگر اس کی محبت ہمیشہ یکطرفہ رہی۔ ریحان نے نظریں چرا لیں، مگر مہک کے چہرے پر وہی پرکشش مسکراہٹ تھی جو کبھی اس کے خوابوں میں بسی رہتی تھی۔

وہ یاد کرنے لگا جب اپنی پاکٹ منی سے چھپ کر گفٹ لایا کرتا تھا اور مہک پوچھا کرتی تھی:

"کتنے کا لیا ہے؟"

اور وہ ہمیشہ جواب دیتا: "محبت سے خریدا ہے، قیمت مت پوچھو۔"

مگر آج منظر مختلف تھا۔ مہک کا منگیتر ہنستے ہوئے بولا:

"یار، کتنا حسین اتفاق ہے، مہک کو آج پیزا کھانا تھا تو میں میکڈونلڈ لے آیا۔ اور یہاں تم بھی مل گئے۔"

اس کی باتوں میں تکبر چھلک رہا تھا۔ ریحان نے زبردستی ہاتھ ملایا اور خاموشی سے نکل گیا۔ دل بھاری تھا، آنکھوں میں دھند سی چھا گئی تھی۔

گھر پہنچا تو ماں نے پوچھا:

"بیٹا، کیا ہوا؟ اتنے اُداس کیوں ہو؟"

ریحان نے سر جھکا کر کہا:

"کچھ نہیں، بس تھکن ہے۔"

ماں کو کیسے بتاتا کہ فوڈ ڈیلیوری بوائے بن کر وہ اپنی محبت کو کسی اور کی بانہوں میں جاتا دیکھ رہا ہے۔ دل جلن اور محبت کے درمیان پھنس گیا تھا۔

اسی شام اسے ایک خاص آرڈر ملا — کسی مشہور اداکارہ ندا شہزاد کے گھر ڈلیوری۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ندا نے خاص طور پر اسی کا نام لیا تھا۔ ریحان کو کچھ سمجھ نہ آیا، لیکن کام تو کرنا ہی تھا۔

ندا شہزاد نے مسکرا کر کہا:

"تم ہی ریحان ہو؟ سنو، مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔ یہ لڑکی مہک جس سے تم محبت کرتے ہو… اس کا منگیتر راحیل کوئی شریف انسان نہیں۔"

ریحان چونک گیا:

"آپ راحیل کو جانتی ہیں؟"

ندا بولیں:

"وہ میرا شوہر ہے۔ اور جب تک میں زندہ ہوں وہ دوسری شادی نہیں کر سکتا۔"

ریحان کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ مہک جس کے لیے وہ سب کچھ قربان کرنے کو تیار تھا، وہ ایک ایسے شخص کی منگیتر تھی جو پہلے سے شادی شدہ اور دھوکے باز تھا۔ آنکھوں میں دھند چھا گئی، دل سکون نہ پا سکا۔

ندا نے کہا:

"اگر تم چاہو تو میں یہ سچ سب کے سامنے لا سکتی ہوں۔ مگر یاد رکھنا، اس سے ہنگامہ ہو گا۔ کیا تم تیار ہو؟"

ریحان خاموش کھڑا تھا۔ آنکھوں میں طوفان تھا — کیا وہ یہ راز کھولے گا یا محبت کو خاموشی سے دفن کر دے گا؟ دل میں اضطراب اور ہمت کی جنگ جاری تھی۔

اگلے دن شادی کا فنکشن تھا۔ ریحان وہاں نہیں جانا چاہتا تھا مگر ماں کے اصرار پر مجبوراً گیا۔ جیسے ہی مہک اور راحیل ہال میں داخل ہوئے، ندا شہزاد بھی وہاں پہنچ گئی۔ پورا مجمع حیران رہ گیا کہ ایک فلم اسٹار اس تقریب میں کیوں آئی ہے۔

ندا نے سب کے سامنے بلند آواز میں کہا:

"یہ شخص میرا شوہر ہے، اور مجھے چھوڑ کر کسی اور لڑکی سے شادی کرنے جا رہا ہے۔"

پورا ہال سن ہو گیا۔ مہک کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ خالہ سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔ راحیل مجرم کی طرح سر جھکائے کھڑا تھا۔

مہک نے ایک لمحے کے لیے ریحان کی طرف دیکھا — وہی ریحان جو ہمیشہ خاموشی سے اس کی خوشی چاہتا تھا۔ اس کی نظریں کہہ رہی تھیں: "تم نے مجھے بچا لیا…"

ندا نے راحیل کو وہاں سے کھینچ کر باہر نکال دیا۔ شادی منسوخ ہو گئی۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کرنے لگے مگر ریحان نے کسی کو کچھ نہ کہا۔ وہ بس ہال سے نکل گیا اور رات دیر تک شہر کی سڑکوں پر موٹر سائیکل دوڑاتا رہا۔

گھر واپس آیا تو ماں نے پوچھا:

"بیٹا، سب خیریت ہے؟"

ریحان نے ہلکی مسکراہٹ سے کہا:

"اللہ نے عزت رکھ لی، اماں۔"

اس رات ریحان نے سوچا کہ محبت کسی کو پانے کا نام نہیں، بلکہ اس کی خوشی چاہنے کا نام ہے — چاہے اس کے بدلے دل ٹوٹ جائے۔

کمرے میں واپس آیا تو عالیہ بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھوں میں نرمی تھی۔ بولی:

"مجھے آج احساس ہوا کہ تم برے انسان نہیں ہو۔ شاید میں نے تمہیں غلط سمجھا۔"

ریحان نے سر جھکا کر کہا:

"ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے مجبور تھے، لیکن شاید یہ مجبوری کسی دن رشتہ بھی بن جائے۔"

عالیہ مسکرا دی — اور یوں وہ رات خاموشی سے محبت کی ایک نئی کرن جگا گئی۔

اگلے دن ریحان کی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا۔ عالیہ کے ساتھ رات کی وہ گفتگو اس کے ذہن میں بار بار گونج رہی تھی۔ دل چاہ رہا تھا کہ ہر پل اسے گلے لگا لے، لیکن حیا اور شرم اسے روک رہی تھی۔ اس نے سوچا کہ صبر کا دامن تھامے رکھنا ہی بہتر ہے، کیونکہ محبت کا مطلب کبھی کسی پر دباؤ ڈالنا نہیں ہوتا، بلکہ اس کی خوشی چاہنا ہوتا ہے۔

صبح کا سورج دھیرے دھیرے شہر پر اپنی روشنی بکھیر رہا تھا۔ ریحان معمول کے مطابق اپنی جاب پر نکلا۔ فوڈ ڈیلیوری کے دوران اس کی نظر اکثر عالیہ پر جاتی۔ وہ سڑک پار کرتی، بازار میں خریداری کرتی، یا کیفے میں چائے پیتی، اس کی ہر حرکت ریحان کے دل کو چھو جاتی۔ مگر اس بار دل میں ایک نئی ہمت جاگی تھی — وہ چاہتا تھا کہ عالیہ کے دل میں بھی وہ مقام حاصل کرے جو اس کے دل میں تھا۔

ریفلیکشن کے طور پر وہ اکثر سوچتا: کیا میں کبھی اس کے جذبات بدل سکتا ہوں؟ یا یہ صرف ایک خواب ہی رہے گا؟

دو دن بعد ایک اور خصوصی آرڈر آیا۔ ریحان نے جیسے ہی عالیہ کو دیکھا، اس کی نظریں سیدھی عالیہ کی آنکھوں میں جا کر ٹھہر گئیں۔ عالیہ نے مسکرا کر ہاتھ ہلایا، اور ریحان کے دل کی دھڑکن پھر بے قابو ہو گئی۔ لیکن وہ خاموش رہا، صرف مسکراہٹ کے ساتھ سلام کیا۔

گھر واپس آیا تو ماں نے پوچھا:

"بیٹا، آج کی ڈلیوری کیسی رہی؟"

ریحان نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا:

"سب ٹھیک تھا اماں، بس عالیہ آج کچھ زیادہ خوش لگ رہی تھی۔"

ماں نے سر ہلاتے ہوئے کہا: "بیٹا، محبت میں صبر سب سے بڑی طاقت ہے۔"

اسی دوران عالیہ کی زندگی میں بھی ایک تبدیلی آ رہی تھی۔ اس نے محسوس کیا کہ ریحان ہمیشہ اس کے لیے موجود رہا، چاہے حالات جیسے بھی ہوں۔ رات کو جب وہ اپنے کمرے میں بیٹھی، اس نے دل ہی دل میں سوچا: شاید میں نے ریحان کو صحیح نہیں سمجھا تھا۔ وہ ہمیشہ میرا خیال رکھتا رہا، اور میں نے اسے جان بوجھ کر نظر انداز کیا۔

ایک دن عالیہ نے اپنے والدین سے بات کی اور کہا کہ وہ ریحان کے قریب آنا چاہتی ہے، تاکہ دونوں ایک دوسرے کو بہتر سمجھ سکیں۔ والدین نے ہچکچاتے ہوئے اجازت دے دی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ریحان ایک ایماندار اور شریف لڑکا ہے۔

ریحان اور عالیہ کی ملاقات ایک پارک میں طے ہوئی۔ وہ پہلا لمحہ جب وہ آنکھوں سے ایک دوسرے کو دیکھے، دلوں میں ایک خاموش خوشی جاگی۔ ریحان نے ہلکے انداز میں کہا:

"عالیہ، میں ہمیشہ تمہاری خوشی چاہتا رہا ہوں۔ چاہے میں دور رہوں، چاہے حالات مشکل ہوں، لیکن میری نیت صاف رہی ہے۔"

عالیہ نے سر جھکایا اور بولی:

"میں بھی تمہارے جذبات سمجھ گئی ہوں، ریحان۔ اور اب میں چاہتی ہوں کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب ہوں۔"

اس دن کے بعد دونوں کی ملاقاتیں باقاعدہ ہونے لگیں۔ ہر ملاقات میں دونوں ایک دوسرے کی سمجھ بوجھ بڑھاتے، اور دل کی باتیں بانٹتے۔ ریحان نے عالیہ کے لیے چھوٹے چھوٹے تحائف اور محبت بھری چٹیاں بھیجنی شروع کیں۔ عالیہ نے بھی دل کی گہرائی سے اس کی محبت کو محسوس کیا۔

کچھ ہفتوں بعد ریحان نے عالیہ سے اپنے دل کی بات کہی:

"عالیہ، میں چاہتا ہوں کہ ہم زندگی کے ہر لمحے ایک ساتھ گزاریں۔ کیا تم میرے ساتھ زندگی کا سفر شروع کرو گی؟"

عالیہ نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا:

"ریحان، میں بھی تمہارے بغیر زندگی کا تصور نہیں کر سکتی۔ ہاں، میں تمہارے ساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔"

دونوں کے درمیان محبت کی نئی شروعات ہوئی۔ رشتے کی بنیاد اعتماد اور احترام پر مضبوط ہوئی۔ ریحان نے عالیہ کو یقین دلایا کہ وہ ہمیشہ اس کا ساتھ دے گا، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔

چند ماہ بعد ریحان اور عالیہ کی شادی ہوئی۔ شادی کا دن سب کے لیے خوشیوں بھرا تھا۔ عالیہ کی ماں اور ریحان کی ماں آنسوؤں سے خوشی منا رہی تھیں۔ دوست اور رشتہ دار دونوں کی خوشیوں میں شریک تھے۔ ریحان نے دل میں سوچا کہ اب وہ ہر مشکل کا سامنا عالیہ کے ساتھ کرے گا۔

شادی کے بعد ریحان نے عالیہ کے لیے ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا، تاکہ دونوں مل کر زندگی کی ذمہ داریاں سنبھال سکیں۔ عالیہ بھی اس میں مکمل تعاون کرتی، اور دونوں کی محنت سے کاروبار پھل پھولنے لگا۔

ایک دن ریحان اور عالیہ اپنے چھوٹے سے باغ میں بیٹھے تھے۔ عالیہ نے کہا:

"ریحان، میں نے سوچا ہے کہ محبت کا مطلب صرف قریب ہونا نہیں، بلکہ ایک دوسرے کی خوشیوں میں شامل ہونا بھی ہے۔"

ریحان نے مسکرا کر جواب دیا:

"بالکل، عالیہ۔ محبت کا اصل مطلب یہی ہے کہ ہم ایک دوسرے کی خوشیوں اور دکھوں میں شریک رہیں۔"

وقت گزرتا گیا، اور ریحان و عالیہ کا رشتہ مضبوط سے مضبوط ہوتا گیا۔ دونوں نے زندگی کے ہر لمحے کو ایک دوسرے کے لیے یادگار بنایا۔ ہر سال شادی کی سالگرہ پر وہ ایک دوسرے کے لیے چھوٹے چھوٹے تحائف اور محبت بھری یادیں تیار کرتے۔

یوں ریحان نے نہ صرف عالیہ کی خوشی کو یقینی بنایا بلکہ اپنی محبت کے لیے ایک مضبوط بنیاد بھی رکھی۔ دونوں نے زندگی کے ہر لمحے کو محبت، اعتماد اور احترام کے ساتھ گزارا۔

آخرکار، ریحان نے یہ سمجھ لیا کہ محبت کا مطلب کسی کو حاصل کرنا نہیں، بلکہ اس کی خوشی میں شریک ہونا ہے۔ چاہے دل ٹوٹ جائے یا حالات مشکل ہوں، اصل محب

ت وہ ہے جو صبر، قربانی اور خلوص کے ساتھ دی جائے۔




---

تبصرے

New Urdu Stories

ماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانیماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

فاطمہ اور عمران کی موٹر وے پر آخری ملاقات — ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

امتحان کی گزرگاہ: ایک مخلص انسان کی کہانی"