Heart Touching Romantic Urdu Story | Dard Bhari Mohabbat Kahani | Emotional Urdu Kahani


 بارش میں بھیگی حنا… اور شامیر کا دیا ہوا پہلا آسرا


اسلام آباد کی سرد شامیں ہمیشہ خاموش رہتی ہیں، مگر اس شام کی خاموشی میں ایک عجیب سی بےچینی گھلی ہوئی تھی۔ شاہمیر اپنی کتابوں کی دکان بند کرنے ہی والا تھا کہ ہلکی سی بارش ہونے لگی۔ وہ تالہ لگانے کو جھکا ہی تھا کہ پیچھے سے ایک لڑکی کی گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی۔

“براہِ کرم… دکان بند نہ کریں… مجھے اندر آنے دیں، میں بھیگ گئی ہوں…”

شاہمیر پلٹا تو اس نے ایک لڑکی کو دیکھا—
نرم گلابی دوپٹہ بارش سے بھیگا ہوا، آنکھوں میں خوف اور تھکن، قدموں میں لرزش۔
اس کا نام حنا تھا۔

شاہمیر نے دروازہ دوبارہ کھول دیا اور آہستہ سے بولا،
“آ جائیں… بارش کافی تیز ہو رہی ہے۔”

حنا اندر داخل ہوئی تو سردی سے کانپ رہی تھی۔ شاہمیر نے اسے کرسی دی اور اپنے پاس رکھی کیتلی سے گرم چائے کا کپ بنا کر اس کے آگے رکھ دیا۔
حنا نے کپ تھاما تو اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ وہ چند لمحوں تک خاموش رہی، پھر دھیرے سے بولی:

“شاید میں آپ کو پریشان کر بیٹھی ہوں… مگر میرا یہاں کوئی نہیں۔ میں ہوٹل جا رہی تھی کہ راستے میں موبائل بھیگ کر بند ہوگیا… اور میں ڈر گئی…”

شاہمیر نے اس کی طرف دیکھا۔
پتہ نہیں کیوں… مگر وہ پہلی ہی نظر میں اس لڑکی کے دکھ کو محسوس کر پایا تھا، جیسے اس کی آنکھیں برسوں سے روکی ہوئی کوئی آواز بن کر سامنے کھڑی ہوں۔

چائے کے دو گھونٹ پینے کے بعد حنا کی آواز بگڑ گئی،
“مجھے لگتا ہے میں بہت تھک گئی ہوں… زندگی جیسے ہر طرف سے مجھے دبا رہی ہے…”

یہ سنتے ہی شاہمیر چند لمحے خاموش رہا۔ پھر بولا،
“اگر آپ چاہیں تو کچھ دیر یہیں بیٹھ جائیں… بارش رک جائے تو خود چھوڑ آؤں گا۔”

حنا نے سر ہلایا، مگر اگلے ہی لمحے اس کی آنکھوں سے دو موٹے آنسو ٹپکے۔
شاہمیر چونک گیا۔

“آپ… رو کیوں رہی ہیں؟”

حنا نے دھیرے سے دوپٹہ سمیٹا اور بہت آہستہ آواز میں بولی،
“کیونکہ میں ٹوٹنے کے آخری کنارے پر ہوں… اور کسی کو بتانے کے لئے میرے پاس کوئی نہیں…”

یہ جملہ سیدھا شاہمیر کے دل میں اتر گیا۔
وہ اس کا درد محسوس کر سکتا تھا مگر سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ آخر ایسا کون سا دکھ ہے جو ایک اجنبی شہر میں، اجنبی لوگوں کے درمیان، ایک لڑکی کو اس حال تک لے آیا ہے۔

بارش اب تیز سے تیز ہو رہی تھی۔
دکان کی چھت پر گرتی بوندیں جیسے ان دونوں کے درمیان کوئی ان لکھا رشتہ بنا رہی تھیں—
ایک کا دل ٹوٹ کر بکھرا ہوا،
اور دوسرا جو خود برسوں کی تنہائی میں ڈوبا ہوا تھا۔

شاہمیر نے چپ رہنے کے بجائے پہلی بار ہمت کی،
“اگر آپ چاہیں… تو مجھے بتا سکتی ہیں۔ کبھی کبھی دل کا بوجھ بانٹنے سے آدھا ہو جاتا ہے…”

حنا نے نیچی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا،
پھر گہری سانس لی… جیسے وہ ایک بہت بڑا فیصلہ کرنے والی ہو۔

اور اگلے ہی لمحے اس نے وہ بات کہہ دی جس نے کہانی کا رخ بدل دینا تھا—

“میں یہاں بھاگ کر آئی ہوں… اور شاید میرے پیچھے کوئی آ بھی رہا ہے…”

حنا کے آخری جملے نے شاہمیر کے دل کی دھڑکن بے ترتیب کر دی تھی
وہ اسے گھور کر دیکھ رہا تھا جیسے اس کی آنکھوں کے اندر چھپا ہوا سچ پڑھنے کی کوشش کر رہا ہو
بارش اب تیز طوفان کی طرح برس رہی تھی اور دکان کے اندر خوف اور خاموشی کی ایک موٹی دیوار کھڑی ہو گئی تھی
شاہمیر نے آہستہ سے پوچھا
آپ بھاگ کر کیوں آئی ہیں آپ کے پیچھے کون ہے

حنا نے اپنے دونوں ہاتھ ایک دوسرے میں بھینچ لئے
اس کی انگلیاں کانپ رہی تھیں
آنکھوں میں پانی تیرنے لگا تھا
وہ بہت دیر تک کچھ بول نہیں پائی پھر دھیرے سے بولی
میں ایک جھوٹے رشتے سے بھاگی ہوں ایک ایسے رشتے سے جو میری مرضی کے بغیر مجھ پر ٹھونس دیا گیا تھا میرا نکاح ایک ایسے شخص سے طے کر دیا گیا تھا جس کے ساتھ رہنے کا تصور بھی میرے لئے کسی سزا سے کم نہیں تھا

شاہمیر نے اس کی طرف دیکھا لیکن اسے لگا حنا صرف بات نہیں کر رہی بلکہ ٹوٹ رہی ہے
اس کے چہرے پر ایسا درد تھا جیسے وہ پچھلے کئی برسوں سے کسی قید میں بیٹھی ہو
شاہمیر نے خود کو مضبوط رکھا
یہ سب سن کر اس کا دل بیٹھنے لگا تھا
مگر وہ حنا کو اور خوفزدہ نہیں کرنا چاہتا تھا
وہ ہولے سے بولا
حنا آپ ابھی محفوظ ہیں کوئی یہاں نہیں آئے گا آپ سکون سے بیٹھیں

حنا کی آنکھوں سے آنسو تیزی سے بہنے لگے
وہ رو رہی تھی لیکن ایسی خاموشی سے جیسے اس کا رونا بھی دنیا سے چھپایا ہوا کوئی راز ہو
اس نے آہستہ سے کہا
میں نے بہت برداشت کیا ہے شاہمیر بہت میں نے کئی راتیں رو کر گزاری ہیں میرا کوئی نہیں تھا جو میری بات سمجھتا میری ماں بھی مجھ سے کہتی کہ صبر کرو مگر میں اب مزید برداشت نہیں کر سکتی تھی اس لئے میں نے گھر چھوڑ دیا اور یہاں آ گئی ہوں

شاہمیر اس کے سامنے بیٹھ گیا
اس نے پہلی بار اس کے ہاتھ تھامے
حنا نے چونک کر اسے دیکھا
شاہمیر کے ہاتھ گرم تھے مضبوط تھے اور اس کے لہجے میں عجیب سی سچائی تھی
وہ بولا
حنا کچھ رشتے نبھانے کے لئے نہیں ہوتے کچھ رشتے ہمارے دل کو مار دیتے ہیں میں آپ کے ساتھ ہوں آپ اکیلی نہیں ہیں

حنا نے پہلی بار ہلکا سا سانس لیا
جیسے اس نے برسوں بعد کوئی محفوظ جگہ چھوئی ہو
دکان کی خاموشی میں صرف بارش کی آواز تھی
لیکن ان دونوں کے دلوں میں ایک ایسا طوفان چل رہا تھا جو دونوں کی زندگیاں بدل سکتا تھا

شاہمیر نے فیصلہ کیا کہ وہ حنا کو یہاں نہیں چھوڑ سکتا
اس نے نرمی سے کہا
حنا بارش رکنے والی نہیں بہتر ہے کہ میں آپ کو کسی محفوظ جگہ چھوڑ آؤں آپ ہوٹل میں نہیں رہ سکتیں وہ لوگ آپ کو وہاں ڈھونڈ سکتے ہیں

حنا نے ڈری ہوئی نظروں سے اس کی طرف دیکھا
اگر وہ مجھے ڈھونڈ رہے ہوئے تو

شاہمیر نے ایک گہری سانس لی
میں ہوں نا جب تک میں ہوں کوئی آپ کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا

یہ جملہ جیسے سیدھا حنا کے دل میں اتر گیا
وہ پہلی بار خود کو تنہا محسوس نہیں کر رہی تھی
اس نے آہستہ سے ہاں میں سر ہلایا

شاہمیر نے دکان کا دروازہ بند کیا
بارش میں قدم رکھتے ہی حنا نے دھیرے سے اس کا بازو تھام لیا
اس لمس میں خوف بھی تھا بھروسہ بھی تھا اور ایک ان کہی التجا بھی

اور اسی لمحے شاہمیر کو پہلی بار محسوس ہوا
کہ وہ کسی ایسی کہانی کا حصہ بن رہا ہے
جو شاید اس کے دل کی دنیا بدل دے
بارش تھم چکی تھی مگر فضا میں بکھری نمی ان دونوں کے دل کے اندر اترے ہوئے خوف جیسی ہی محسوس ہو رہی تھی اور شاہمیر حنا کو ساتھ لے کر تیز قدموں سے چل رہا تھا تاکہ وہ اسے اس دنیا کی آنکھوں سے بچا سکے جو اسے نوچ لینے کے لئے ہر وقت تیار کھڑی تھی
شہر کی رات دھند میں لپٹی ہوئی تھی اور سڑکوں پر لگے بجلی کے کھمبے ایک دوسرے سے دور کسی تھکے ہوئے سپاہی کی طرح خاموشی سے کھڑے تھے جن کی زرد روشنی میں حنا کا چہرہ اور زیادہ زندہ مگر ساتھ ہی ٹوٹا ہوا دکھائی دے رہا تھا
شاہمیر نے اس کی طرف دیکھا اور اسے یوں سہارا دیا جیسے وہ کسی کانچ کے ٹکڑے کو ہاتھ میں تھامے ہوئے ہو جو ذرا سی غفلت سے ٹوٹ کر بکھر جائے گا اور اس کی ساری زندگی زخمی کر دے گا

حنا کے قدم لرز رہے تھے اور اس نے شاہمیر کے بازو پر اپنی گرفت مضبوط کر لی جیسے وہ اس دنیا سے نہیں بلکہ خود اپنے اندر کے خوف سے چھپ رہی ہو
وہ آہستہ آواز میں بولی
شاہمیر اگر وہ لوگ مجھے ڈھونڈتے ہوئے یہاں تک آ گئے تو کیا ہوگا میں دوبارہ اس قید میں جانا نہیں چاہتی میرے اندر اتنی ہمت نہیں بچی کہ ایک اور رات بھی اس گھر میں گزار سکوں جہاں میرے وجود کو قید سمجھا جاتا ہے اور میری سانسوں کی آواز تک برداشت نہیں کی جاتی

شاہمیر نے وہیں رک کر اسے سیدھا اپنی طرف دیکھا اور پہلی بار اس کی آنکھوں میں اتنی شدت تھی کہ حنا کی سانسیں تھم سی گئیں
اس نے مضبوط لہجے میں کہا
حنا میں ہوں نا آپ کے ساتھ جب تک میں زندہ ہوں کوئی آپ کو کسی کے حوالے نہیں کر سکتا کوئی نہیں جب آپ نے مجھ پر بھروسہ کیا ہے تو میں آپ کو تنہا کیسے چھوڑ سکتا ہوں اب آپ کی حفاظت میری ذمہ داری ہے بھاگنے کی نہیں جینے کی کوشش کریں کیونکہ زندگی ابھی ختم نہیں ہوئی

یہ بات سن کر حنا کے آنسو خاموشی سے اس کے گالوں پر بہہ نکلے اور اس نے پہلی بار خود کو کسی کی بات پر یقین کرتے ہوئے محسوس کیا
جیسے اس کے اندر کی بکھری ہوئی امیدیں پھر سے سانس لینے لگی ہوں
وہ دونوں آگے بڑھے تو شاہمیر نے اسے ایک پرانی سی عمارت کے سامنے روک دیا جس کے اوپر لکھی مدھم سی روشنیاں بتا رہی تھیں کہ یہ عمارت بہت دنوں سے تنہا کھڑی تھی اور یہاں لوگوں کا آنا جانا نہ ہونے کے برابر تھا
شاہمیر نے کہا
یہ میرے ایک دوست کا فلیٹ ہے وہ مہینوں باہر رہتا ہے یہاں کوئی نہیں آتا آپ یہاں پرسکون رہ سکیں گی

حنا نے دروازے کے اندر قدم رکھا تو اسے پہلی بار محسوس ہوا کہ کہیں کچھ ہے جو اسے پناہ دینے کے لئے بنا تھا
کمرے میں ہلکی سی ٹھنڈک تھی مگر اس کی خاموشی میں ایک عجیب سا سکون چھپا ہوا تھا جیسے یہ جگہ اس کے لئے ہی انتظار میں تھی
شاہمیر نے اسے صوفے پر بیٹھایا اور پانی کا گلاس دیا مگر حنا نے گلاس تھامنے کے بجائے اس کا ہاتھ تھام لیا
اس لمس میں خوف بھی تھا سوال بھی تھا اور ایک ان دیکھی التجا بھی تھی
وہ دھیرے سے بولی
شاہمیر میں آپ کی زندگی میں بوجھ بن جاؤں تو

شاہمیر اس کے قریب بیٹھا اور اس نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا
اس کی آواز میں وہ گہرا درد تھا جو کسی دل کی جڑوں سے نکلتا ہے
وہ بولا
بوجھ وہ ہوتا ہے جسے دل میں جگہ نہ دی جائے اور آپ تو میرے دل پر یوں جگہ بنا چکی ہیں جیسے کوئی تحریر جو مٹائے بغیر ختم نہیں ہوتی اگر آپ میری زندگی میں آئی ہیں تو یقین رکھیں یہ اتفاق نہیں ہے بلکہ شاید اللہ نے آپ کو میری طرف بھیجا ہوگا کیونکہ آپ کے آنسو اب میرے دل سے گرتے ہیں نہ کہ آپ کی آنکھوں سے

حنا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں
اس کا دل زوروں سے دھڑکنے لگا
وہ پہلی بار کسی کے الفاظ میں گھر جیسی پناہ محسوس کر رہی تھی
اس نے اپنی آنکھیں بند کیں اور ایک گہری سانس لی
جیسے برسوں سے زمین پر بکھرا ہوا وجود اب کسی ایک سچ کے سامنے رک کر کھڑا ہونا چاہتا ہو

کمرے میں خاموشی گہری تھی
لیکن ان دونوں کے دلوں میں ایک نیا طوفان جاگ چکا تھا
ایک ایسا طوفان جو یا انہیں ہمیشہ کے لئے جوڑ دے گا
یا کسی ایسی آزمائش میں پھینک دے گا جس کا راستہ صرف تقدیر جانتی ہے

رات گہری ہو چکی تھی اور فلیٹ کی بالکونی میں نرم سی ہوائیں چل رہی تھیں جیسے وہ دونوں کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت کو خاموشی سے گواہی دے رہی ہوں اور شاہمیر نے حنا کو باہر آنے کا اشارہ کیا تو وہ آہستگی سے چلتی ہوئی اس کے پاس آ کھڑی ہوئی اور پہلی بار اس نے خود کو اس قدر بے خوف اور محفوظ محسوس کیا جیسے برسوں بھٹکتی ہوئی روح کو آخرکار اپنی منزل مل گئی ہو
بالکونی کے نیچے سڑک سنسان تھی اور آسمان پر ہلکے ہلکے بادل تیر رہے تھے جن کے پیچھے چاند پوری نرمی کے ساتھ دونوں پر اپنی روشنی بکھیر رہا تھا جیسے قدرت خود ان لمحات کو مقدس بنانے آئی ہو

شاہمیر نے دھیرے سے اس کا ہاتھ تھاما اور وہ ایک پل کو کانپ سی گئی اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کے جیسے ٹوٹے ہوئے وجود کو کوئی اس طرح عزت محبت اور نرمی سے چھو کر محسوس کرے گا
وہ آہستہ آواز میں بولی
شاہمیر کیا میں واقعی آپ پر بوجھ نہیں ہوں کیا میں آپ کی زندگی میں کوئی وزن نہیں بنوں گی

شاہمیر مسکرایا ایک ایسی مسکراہٹ جو دل کے اندر تک اتر جائے
اس نے اس کا ہاتھ اپنے سینے پر رکھا اور کہا
حنا اگر آپ بوجھ ہوتیں تو میں آپ کو اپنی دھڑکن کے اتنے قریب نہ آنے دیتا آپ وہ دعا ہیں جسے مانگنے کی ہمت بھی نہیں تھی اور آپ وہ سکون ہیں جسے دل برسوں سے تلاش کر رہا تھا
حنا کی آنکھوں میں آنسو چمک اٹھے
اور اسی لمحے شاہمیر نے آہستگی سے اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا
حنا نے اپنا چہرہ اس کے سینے پر رکھ دیا اور ایسا محسوس ہوا جیسے پوری دنیا سے ملنے والی اذیتوں کا بوجھ ایک ہی لمحے میں اتر کر کہیں دور گم ہو گیا ہو

وہ دونوں کچھ دیر یونہی ایک دوسرے کے وجود میں سما کر کھڑے رہے جیسے دونوں کے زخم ایک دوسرے کے لمس سے بھر رہے ہوں اور پھر شاہمیر نے آہستہ سے اس کے بال سہارے
وہ بولا
آؤ حنا تھوڑی دیر پاس والے پارک میں چلتے ہیں وہاں پرسکون جگہ ہے پوس کنارے بیٹھیں گے اور اپنے دل کی وہ باتیں کریں گے جو کبھی کسی سے کہی نہیں گئیں
حنا نے اثبات میں سر ہلایا اور وہ دونوں خاموش رات میں ایک ساتھ چلنے لگے جیسے ان کے قدموں کے نیچے کوئی نئی زندگی بچھ رہی ہو

پارک میں پوس کنارے بیٹھتے ہی منظر اور بھی خوبصورت ہو گیا تھا پانی ہلکی لہروں میں چاند کی روشنی سمیٹے دونوں کی کہانی بیان کر رہا تھا اور شاہمیر نے حنا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا
حنا اگر آپ اجازت دیں تو میں ایک وعدہ کرنا چاہتا ہوں
حنا نے دھڑکتے دل کے ساتھ اسے دیکھا
شاہمیر نے کہا
میں آپ کے ہر دکھ کے آگے دیوار بن کر کھڑا رہوں گا ہر خوشی میں آپ کے ساتھ مسکروں گا اور کبھی آپ کا ہاتھ نہیں چھوڑوں گا کیا آپ بھی میرے ساتھ اسی طرح کھڑی رہیں گی

حنا کی آنکھیں بھر آئیں
وہ آہستہ بولی
شاہمیر میں آپ کے ساتھ رہنے کے لئے ہی دنیا سے بھاگی ہوں میں آپ کا ساتھ آخری سانس تک نہیں چھوڑوں گی

اسی لمحے وہ دونوں قریب ہوئے
اتنے قریب کہ سانسیں ایک دوسرے کے لمس میں گھل گئیں
اور حنا نے پہلی بار محبت کو اس شدت سے محسوس کیا کہ اس کے دل کا ہر زخم بھرنے لگا

چند دن بعد شاہمیر نے اس کا ہاتھ اپنے والدین کے سامنے رکھا
اور صاف کہا
یہ میری امانت ہے اسے اپنا لیں ورنہ میں بھی اس کے ساتھ کھڑا رہوں گا
گھر والوں نے حنا کی نم آنکھیں اور تھکی ہوئی مسکراہٹ دیکھی تو ان کے دل نرم پڑ گئے
اور یوں دونوں کے نکاح کی تاریخ طے ہو گئی

نکاح کے دن حنا نے سفید دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا آنکھوں میں نمی تھی مگر دل میں عجیب سا اطمینان تھا جیسے اس کی زندگی کے تمام بکھرے راستے ایک ہی مقام پر آ کر مل گئے ہوں
قاضی نے نکاح نامہ پڑھا
اور شاہمیر نے پوری شدت کے ساتھ کہا
قبول ہے

حنا نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ جواب دیا
قبول ہے

اور یوں ان دونوں کی ٹوٹی ہوئی زندگیاں ایک ہی لفظ سے جڑ کر ہمیشہ کے لئے مکمل ہو گئیں
یہ انجام نہیں تھا
یہ تو ایک نئی شروعات تھی
محبت کی
سکون کی
اور اس زندگی کی جس نے ان دونوں کو ایک دوسرے کے لئے چنا تھا




تبصرے

New Urdu Stories

ماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانیماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

فاطمہ اور عمران کی موٹر وے پر آخری ملاقات — ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

امتحان کی گزرگاہ: ایک مخلص انسان کی کہانی"