آنٹی .. غیاث شادی کے بندھن سے آزاد تھا

 

غیاث اپنی زندگی کی تین دہائیوں سے تھوڑا سا ہی فاصلے پر تھا اور ابھی شادی کے بندھن سے آزاد تھا۔ جب بھی ماں رشتے کے حوالے سے بات کرتی فوراماں کے گھنٹوں پر ہاتھ رکھ کر کہتا

امی شادی بھی ہو جائے گی ذرا گھر کے حالات ٹھیک ہو جائیں

حالات تو محض ایک بہانہ تھا اور وہ جانتا تھا کہ اس جیسے غریب لوگوں کے حالات ابتر تو ہو سکتے ہیں بہتر کبھی نا ابتر نہیں ہو سکتے ۔ غیاث کے لئے مسئلہ یہ تھا کہ خاندان میں اس کی سوچ کے مطابق کوئی مناسب رشتہ نہ تھا۔ ماں نے خاندان سے باہر کے چند لوگوں کے حوالے سے بات کی مگر وہ تذبذب کا شکار تھا۔ اس کا خیال تھا کہ جیون ساتھی سے مکمل انڈرسٹینڈنگ ہی زندگی کو جنت کا روپ دے سکتی ہے وگر نہ تو زندگی کیڑے مکوڑے بھی گزار کر چلے جاتے ہیں ۔ وہ اسی انتظار میں تھا کہ اس کی خواہش کے مطابق لڑکی اس کی زندگی میں آئے اور زندگی کی
عنائیوں سے لطف اٹھائ
غیاث گاڑی کی زندگی کا پہیہ چلانے کے لئے گھر سے چالی کلومیٹر دور ایک فیکٹری میں سیکنڈ شفٹ میں کام کرتا تھا۔ اس کا معمول تھا کہ پورے بارہ بجے گھر سے نکلتا بس سٹاپ تک پہنچنے میں اسے دس منٹ لگتے اور
ایک مخصوص گاڑی کے ذریعے وہ با آسانی ایک بجے سے پہلے اپنی ڈیوٹی پر پہنچ جاتا۔ اس گاڑی میں کچھ دیگر افراد بھی سیکنڈ شفٹ میں کام کے لئے جاتے تھے۔ سواریوں کی تعداد پوری کرنے کے لئے کنڈیکٹر چھ سات دیگر مسافروں کو بھی آوازیں دے کر بٹھا لیتا۔ اس گاڑی میں گزشتہ کچھ عرصے سے ایک ادھیڑ عمر خاتون ایک چوہیں پچیس سالہ لڑکی کے ساتھ سفر کر رہی تھیں۔ لڑکی نے یوں تو چادر سے اپنے چہرے کو ڈھانپا ہوتا تھا مگر حسن کا سورج بھلا کسی بادل کو کب آڑے آنے دیتا ہے؟ اس لڑکی کی آنکھیں اور چال ڈھال اس کی دلکش حسن کی غمازی کرتیں گاڑی پر سوار ہوتے وقت کبھی کبھار اس کی نگاہ لڑکی کے خوبصورت سفید ہاتھوں اور پیروں پر پڑتی تو وہ حسن کی فراوانی پر دم بخود رہ جاتا۔ بعض اوقات گاڑی میں سوار ہوتے ہوئے لڑکی غیاث پر نگاہ ڈالتی تو اسے یوں لگتا جیسے آنکھوں کی مقناطیسیت نے اس کے دل کو کھینچ لیا ہے۔

گزشتہ کچھ دنوں سے غیاث اور اس لڑکی کے درمیان آنکھوں سے گفتگو اور مسکراہٹوں کا تبادلہ بھی جاری تھا

کسی دن یہ خواتین تھوڑا سا لیٹ ہوتیں تو وہ بے چین ہو جاتا۔ یا کبھی کبھار نہ آتیں تو اسے سفر بہت پھیکا سا محسوس

ہوتا اور کام کے دوران بھی اس کا دل نہ لگتا ۔

آج وہ گاڑی میں پہلے سے موجود تھا اور اگلی سیٹ پر ہاتھ رکھے ہوئے سوچوں میں گم تھا کہ اس کے ہاتھ پر پڑنے والے بوجھ نے اسے خیالی دنیا سے باہر لا پھینکا۔ اس نے فورا اپنا ہاتھ پیچھے کھینچا جو اس لڑکی کی پشت اور سیٹ کے درمیان تھا اُس نے جوان جسم کی گرماہٹ کو اپنے پورے جسم میں اترتا ہوا محسوس کیا۔ جونہی اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لڑکی کے لبوں پر مسکراہٹ کے پھول کھل اٹھے۔ اور اس کی آنکھوں کے نیچے نظر آنے والے گالوں پر شفق کی سی لالی پھیل گئی۔ پھر سفر کے دوران دو تین بار ایسا ہوا کہ اُس نے انجانے میں اپنا ہا تھ سیٹ کی پشت پر رکھا اور اس نے حسن کی گرماہٹ کو بجلی کے سے انداز میں اپنے جسم میں دوڑتا ہوا محسوس کیا ۔ گزشتہ دو ماہ میں اس طرح کی بے باکی کا سامنا پہلی بار ہوا تھا۔ اس دن نہ تو اُس کا دل فیکٹری میں لگا اور نہ نیند کی دیوی رات
کو اس کے قریب بھٹکنے پائی۔
اگلے دن جب وہ فیکٹری کے لئے روانہ ہوا تو اس نے پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ وہ اپنا موبائل نمبر ضرور لڑکی کے حوالے کر دے گا۔ اس لئے اس نے کاغذ کے پرزے پر اپنا نمبر لکھ لیا اور اسے تعویز نما شکل دے کر مٹھی میں رکھ لیا
جو نہی منزل مقصود پر گاڑی رکی وہ خواتین گاڑی سے اتر گئیں اور وہ بھی کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر اترا۔ ادھیڑ عمر خاتون ریڑھی والے سے کچھ لینے کے لئے رک گئی جبکہ لڑ کی دس پندرہ میٹر آگے جا کر ر کی اور خاتون کا انتظار کرنے لگی۔ اس سے بھلا اچھا موقع اُس کے ہاتھ کب لگ سکتا تھا وہ فورا حسن پری کی طرف لپکا اور تعویز نما کاغذ

اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ اس لڑکی نے سرگوشی کے انداز میں کہا: کل دس بجے ہسپتال کی پچھلی گلی میں ضرور ملنا

اس نے سر ہلایا اور آگے بڑھ گیا۔ اُس کی خوشی کی انتہا نہ تھی اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ امید کی برکھا اس قدر جلد برسے گی ۔ اب بقیہ دن گزارنا غیاث کے لئے ایک صدی گزارنے کے مترادف تھا۔ ایک ایک لمحہ اس نے نہایت بے قراری سے گزارا ۔ صبح ہوتے ہی اس نے تازہ شیو بنائی اور نیا سوٹ استری کر کے زیب تین

کیا۔ ایک دوست کی طرف سے تحفے میں ملنے والی پر فیوم سے اس نے خود کو اچھی طرح مہکایا۔

وہ بالوں میں کئی بار کنگھی کر چکا تھا۔ ایک دفعہ مزید بالوں کو گیلا کرنے کے لئے وہ پانی کی بالٹی پر جھکا تو اس کا موبائل سامنے والی جیب سے پھسل کر بالٹی میں جا گرا۔ اس نے فورا بالٹی میں ہاتھ ڈالا اور موبائل کو باہر نکالا مگر اس وقت تک پانی اپنا اثر دکھا چکا تھا۔ اس نے فوراً موبائل کی بیٹری نکال لی کیونکہ وہ اپنے علم کے مطابق صرف SO

یہی احتیاطی تدابیر کر سکتا تھا ۔

وہ تھوڑا ساغمگین ہو گیا کہ اگر اس نے فون کیا تو۔۔۔۔۔

۔۔ اسے بند پا کر کیا سوچے گی؟

بہر حال اس نے موبائل کو کپڑے سے پونچھ کر جیب میں ڈال لیا اور بیٹری کو بھی کاغذ میں لپیٹ کر جیب

میں ڈال لیا کہ وقت ملنے پر مکینک کو دکھا لے گا ۔ وہ ساڑھے نو بجے ہی ہسپتال کی پچھلی گلی میں پہنچ گیا اور ادھر اُدھر نظر دوڑانے پر اسے سوائے چند کھیلتے بچوں کے کچھ نظر نہ آیا۔ وہ وقت گزارنے کے لئے دوسری گلی میں چلا گیا کہ اس طرح ایک دو چکر لگانے سے وقت کٹ جائے گا بالاخر دس بچ ہی گئے ۔ ان دونوں کو مقررہ جگہ پر پا کر اس

کی سانسوں اور دل کی دھڑکنوں کی رفتار میں تیزی آگئی۔ جیسے ہی وہ اس لڑکی کے قریب پہنچا اس نے بغیر نقاب

اپنے خوبصورت گلابی ہونٹوں کو جنبش دی۔

آنٹی سے بات کر لو
غیاث نے اپنا چہرہ خاتون کی طرف پھیر لیا اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا خاتون کے منہ سے الفاظ برآمد ہوئے : ” تین ہزار سے ایک روپیہ بھی کم نہ ہوگا اور کمرے کا بندوبست بھی تیرا ہوگا اس کو یوں محسوس ہوا جیسے ہسپتال کی بوسیدہ دیوار اس کے اوپر آن گرمی ہو اور اس کے بدن کی طاقت اس کی قوت خرید کی طرح جواب دے گئی ہو اس نے فوراً جیب میں ہاتھ ڈالا ، اور بند موبائل کو کان سے لگا کر بولنے لگا۔ ہاں عابد کدھر ہو؟ میں ایک منٹ میں آیا تم وہیں ٹھہرنا اور بوجھل قدم اٹھاتا ہوا دوسری گلی میں غائب ہو گیا۔


تبصرے

New Urdu Stories

ماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانیماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

فاطمہ اور عمران کی موٹر وے پر آخری ملاقات — ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

امتحان کی گزرگاہ: ایک مخلص انسان کی کہانی"