Chhupa Hua Nikah | 7 Saal Baad Shohar Ki Wapsi | Urdu Emotional Story
چھپا ہو نکاح
وہ رات کی فلائٹ سے تھکا ہارا اترنے والا عارف جب گھر پہنچا، تو دل میں بہت سی دعائیں لے کر آیا تھا۔ سات سال کی جدائی کے بعد واپسی کا خیال اس کے دل میں امید کی ایک کرن جگا رہا تھا، مگر وہ کچھ نہیں جانتا تھا کہ گھر کی دیواروں کے اندر کیا ہوا تھا۔
جب وہ نیچے آیا، تو اسے اپنی ماں کو لڑکی پر چلاتے ہوئے پایا۔ وہ لڑکی کوئی اور نہیں بلکہ وہی زینب تھی، جس سے عارف نے چھپ کر نکاح کیا تھا۔ زینب کو بد کردار اور بد چلن کا طعنہ دیا جا رہا تھا، اور عارف کا دل زخمی ہونے لگا۔ وہ پلٹنے لگا کہ اچانک اس کا چھ سالہ بیٹا اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
بیٹے کی معصوم آنکھوں میں بے چینی اور الجھن صاف نظر آ رہی تھی۔ عارف نے اپنے دل کو سنبھالا اور بیٹے کو گلے لگا لیا، مگر دل کے اندر اٹھنے والے طوفان کو روکا نہ جا سکا۔
اس رات عارف نے زینب سے پہلی بار مل کر بات کی۔ وہ جانتا تھا کہ سات سال کی دوری نے بہت کچھ بدل دیا ہے، مگر دل کی گہرائیوں میں محبت ابھی بھی زندہ تھی۔
زینب نے عارف کو بتایا کہ ان سالوں میں اس نے کتنے دکھ سہے ہیں، کس طرح اس کی زندگی میں مشکلات آئیں اور وہ کس طرح اپنے بیٹے کے لیے تنہا لڑتی رہی۔ عارف نے اپنی آنکھوں سے آنسو روکتے ہوئے وعدہ کیا کہ اب وہ کبھی زینب اور اپنے بیٹے کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔
آگے کے دنوں میں، عارف نے اپنی ماں کو قائل کرنے کی کوشش کی، مگر ماں کی ضد بہت زیادہ تھی۔ وہ زینب کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھی۔ عارف نے یہ سمجھ لیا کہ محبت کے لیے صرف دل ہی کافی نہیں، بلکہ جنگ لڑنی پڑتی ہے۔
زینب اور عارف نے اپنے رشتے کو بچانے کے لیے مل کر فیصلے کیے۔ عارف نے کام کی جگہ پر بھی مشکلات کا سامنا کیا کیونکہ اس کے سات سال کی غیر موجودگی میں اس کا کاروبار بھی ٹھپ ہو چکا تھا۔
زینب نے بیٹے کی پرورش کے ساتھ عارف کے خوابوں کو سہارا دیا۔ وہ جانتی تھی کہ یہ سفر آسان نہیں ہوگا، مگر زینب کی ہمت اور عارف کے عزم نے انہیں ایک دوسرے کے قریب کر دیا۔
ایک دن عارف کی ماں نے گھر میں ایک محفل سجائی، جہاں سب رشتہ دار اور قریبی لوگ موجود تھے۔ ماں کا ارادہ تھا کہ زینب کو شرمندہ کرے، مگر عارف نے ہمت دکھائی اور سب کے سامنے زینب کے حق میں بات کی۔
زینب نے اپنی داستان سنائی، اپنے دکھوں اور مشکلات کو بیان کیا، اور سب کو یقین دلایا کہ وہ عارف کے لیے کتنی وفادار اور محبت کرنے والی ہے۔
محفل کے آخر میں، عارف کی ماں کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ اس نے پہچانا کہ محبت کی طاقت سے زیادہ کوئی چیز نہیں ہے، اور وہ اپنی ضد چھوڑ کر زینب کو قبول کرنے پر مجبور ہو گئی۔
اس دن کے بعد، عارف، زینب اور ان کا بیٹا ایک ساتھ خوشحال زندگی گزارنے لگے۔ زینب نے عارف کی زندگی میں جو رنگ بھرے، وہ عارف کبھی نہیں بھول سکتا تھا۔
وقت کے ساتھ، ان کے تعلقات مضبوط ہوتے گئے۔ عارف نے اپنے کاروبار کو دوبارہ کھڑا کیا، اور زینب نے اپنے بیٹے کی تعلیم کا خاص خیال رکھا۔
ایک شام، جب عارف اور زینب سمندر کے کنارے بیٹھے تھے، عارف نے کہا، "زینب، تم نے مجھے وہ سب کچھ دیا جس کی میں نے کبھی امید نہیں کی تھی۔ تمہاری محبت نے مجھے زندہ کیا ہے۔"
زینب نے مسکرا کر جواب دیا، "عارف، ہماری کہانی مشکل تھی، مگر ہم نے اسے اپنی محبت سے جیت لیا۔ یہی سب سے خوبصورت بات ہے۔"
یہ لمحہ ان کی زندگی کا سب سے حسین لمحہ تھا، جہاں انہوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی سے تھامے اور محبت کی نئی داستان لکھی۔
سات سال کی دوری نے عارف اور زینب کی زندگی میں بہت کچھ بدل دیا تھا۔ عارف نے جو خواب دیکھے تھے، وہ سب ادھورے رہ گئے تھے، مگر دل میں زینب کے لیے محبت آج بھی زندہ تھی۔ زینب کی آنکھوں میں چھپی اداسی اور گہری تکلیف عارف کو اندر تک چُھو گئی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ وہ صرف اپنا نہیں بلکہ اپنے بیٹے کے لیے بھی لڑ رہا تھا۔
زینب کے ساتھ زندگی شروع کرنا آسان نہیں تھا۔ اس کے دل پر گزرے ہوئے دکھوں کا بوجھ تھا، جو ہر روز اسے کمزور کرتا جا رہا تھا۔ لیکن عارف نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ وہ ہر دن نئی امید کے ساتھ زینب کے قریب آیا، اس کی ہر بات کو سمجھنے کی کوشش کی، اور اس کی حفاظت کا وعدہ دہرایا۔
زینب کے لیے سب سے بڑا امتحان تب آیا جب اس کے ماضی کی کچھ تلخ حقیقتیں سامنے آئیں۔ کچھ لوگ عارف کو سمجھانے لگے کہ زینب کا ماضی صاف نہیں ہے، لیکن عارف نے ہر حرف کو رد کر دیا۔ اس نے زینب کی آنکھوں میں دیکھا اور کہا، "جو بھی ہو، تم میری ہو، اور میں تمہارے ساتھ ہوں۔"
ان دنوں عارف نے اپنی محنت کو دوگنا کر دیا۔ وہ جانتا تھا کہ اب نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے خاندان کے لیے بھی مضبوط بننا ہے۔ اس کی محنت رنگ لائی، اس کا کاروبار پھلا پھولا اور اس نے گھر میں خوشیوں کی فضا قائم کی۔
زینب نے بھی اپنے آپ کو مضبوط بنایا۔ اس نے نوکری حاصل کی، اور اپنے بیٹے کے لیے ایک اچھی ماں بننے کی کوشش کی۔ وہ جانتی تھی کہ عارف نے اسے کبھی تنہا نہیں چھوڑا، اور اسی یقین نے اسے ہر دن مضبوط کیا۔
ایک دن، عارف کے والدین نے اپنی ضد چھوڑ دی اور زینب کو قبول کیا۔ ان کے دل میں محبت کی روشنی نے نفرت کو ختم کر دیا تھا۔ زینب نے انہیں معاف کیا، اور خاندان پھر سے مکمل ہوا۔
عارف اور زینب کی کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ محبت کبھی آسان نہیں ہوتی، مگر اگر دل سے ہو تو ہر رکاوٹ پار کی جا سکتی ہے۔ جدوجہد، قربانی اور اعتماد ہی وہ راستے ہیں جو محبت کو زندگی بخشتے ہیں۔
عارف اور زینب کی زندگی میں جو خوشیاں دوبارہ لوٹ کر آئی تھیں، وہ آسانی سے حاصل نہیں ہوئیں۔ سات سال کی جدائی نے ان کے دلوں میں کئی زخم چھوڑے تھے، اور وہ زخم بھرتے بھرتے کئی بار ان کی محبت کو بھی کمزور کر دیا تھا۔ مگر عارف اور زینب نے ہار نہیں مانی، وہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔
زینب کے لیے سب سے بڑا چیلنج اس کی اپنی ماں کا رویہ تھا۔ وہ اپنی بیٹی کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بناتی رہی۔ "تم نے اپنا وقار گنوایا ہے،" وہ اکثر زینب سے کہتی تھی، "اتنے سالوں بعد بھی تم میرے گھر میں عزت سے نہیں رہ سکتی۔" زینب کے دل میں یہ باتیں گہرائی تک چبھتی تھیں، مگر وہ چپ رہتی، اپنے بیٹے کے لیے صبر سے کام لیتی۔
عارف نے بھی اپنی ماں کے رویے کو برداشت کیا، مگر کبھی کبھار وہ اس بات پر دل ہی دل میں غصہ محسوس کرتا کہ اس کے اپنے ہی گھر میں اس کی محبت کو قبول نہیں کیا جا رہا۔ مگر وہ جانتا تھا کہ اب لڑائی کا وقت نہیں، بلکہ صبر اور محبت کا وقت ہے۔
وقت گزرتا گیا، اور زینب نے اپنے بیٹے کی تعلیم پر خاص توجہ دی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کا بیٹا کسی بھی طرح اپنی زندگی میں ناکامی نہ دیکھے۔ وہ دن رات محنت کرتی، گھر کے کاموں کے ساتھ ساتھ نوکری بھی کرتی رہی تاکہ بیٹے کے لیے بہتر کل یقینی بنایا جا سکے۔
عارف نے بھی اپنی ذمے داریوں کو بڑھا دیا۔ اس نے اپنے کاروبار میں نئی کوششیں کیں، نئے پروجیکٹس پر کام کیا، اور ہمیشہ زینب کی مدد کرتا رہا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ دونوں ایک ساتھ ہیں تو کوئی بھی مشکل انہیں شکست نہیں دے سکتی۔
ایک دن، عارف نے زینب کے لیے ایک خوبصورت تحفہ خریدا۔ وہ ایک چھوٹا سا گھر تھا، جو شہر کے ایک پرسکون علاقے میں تھا۔ عارف چاہتا تھا کہ وہ اور زینب اور ان کا بیٹا ایک ساتھ رہیں، ایک خاندان کی طرح۔ زینب نے جب وہ گھر دیکھا تو آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔ اس نے عارف کو گلے لگایا اور کہا، "تم نے مجھے ایک نیا جیون دیا ہے۔"
گھر میں جب پہلی بار وہ سب ساتھ بیٹھے، تو عارف کی ماں بھی وہاں موجود تھی۔ وہ پہلے تو کچھ کہنے کی کوشش کر رہی تھی، مگر زینب نے نرم لہجے میں کہا، "ہم سب کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے۔ یہی خاندان کی اصل پہچان ہے۔" عارف کی ماں کو زینب کی باتیں دل کو چھو گئیں، اور اس نے اپنی نرمی کا اظہار کیا۔
دیر تک وہ سب گھر میں بیٹھے رہے، باتیں کیں، پرانی یادیں تازہ کیں، اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کی۔ وہ لمحے عارف اور زینب کے لیے بہت قیمتی تھے، جنہوں نے ان کی محبت کو اور بھی مضبوط کر دیا۔
لیکن زندگی میں ہمیشہ خوشیاں ساتھ نہیں رہتیں۔ ایک دن عارف کو ایک بڑا کاروباری نقصان ہوا۔ اس کا ایک اہم کلائنٹ اچانک معاہدہ ختم کر گیا، اور عارف کے کاروبار کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ اس دھچکے نے عارف کو اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔
زینب نے عارف کو سہارا دیا۔ اس نے کہا، "ہم نے تو یہ طے کیا تھا کہ ہر مشکل کا مقابلہ ساتھ کریں گے۔ یہ تو ایک امتحان ہے، ہم اسے بھی جیت لیں گے۔" زینب کی یہ بات عارف کے دل کو تسلی دی اور اس نے زینب کی حمایت میں خود کو مضبوط پایا۔
عارف نے دوبارہ محنت شروع کی، لیکن اس بار وہ زیادہ ہوشیار تھا۔ اس نے اپنی ٹیم کو بہتر بنایا، نئے کلائنٹس سے رابطے کیے، اور اپنے کاروبار کو نئے سرے سے ترتیب دیا۔ زینب ہمیشہ اس کے ساتھ تھی، ہر قدم پر۔
وقت کے ساتھ ساتھ عارف کا کاروبار دوبارہ کامیابی کی طرف بڑھنے لگا۔ اس کی محنت رنگ لائی، اور وہ ایک بار پھر اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے لگا۔
بیٹے نے بھی اپنی پڑھائی میں اچھے نمبر حاصل کیے اور وہ گھر کی خوشی کا باعث بن گیا۔ زینب اور عارف کی زندگی میں آہستہ آہستہ سکون لوٹ آیا۔
ایک دن عارف نے زینب کو لے کر شہر کے سب سے خوبصورت مقام پر لے گیا۔ وہاں اس نے زینب سے کہا، "پچھلے سات سالوں میں جو کچھ بھی ہوا، وہ سب ہمیں مضبوط بنا گیا۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم اپنی زندگی کو پھر سے شروع کریں، بغیر کسی خوف کے، صرف محبت اور اعتماد کے ساتھ۔"
زینب کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ اس نے کہا، "ہاں، عارف، میں بھی یہی چاہتی ہوں۔"
اس دن سے عارف اور زینب کی زندگی میں ایک نیا باب شروع ہوا۔ وہ ایک دوسرے کے سچے ساتھی بن گئے، ہر مشکل کو مل کر جیتنے والے۔ ان کی قربانی، محبت اور صبر کی مثالیں دوسروں کے لیے بھی مشعل راہ بن گئیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
"Shukriya! Apka comment hamaray liye qeemati hai."