Be-Wafa Biwi Ki Sachi Kahani | Dard Bhari Emotional Urdu Story | True Incident
جب بیوی بےوفا ہو جائے… گھر ٹوٹ ہی جاتا ہے
"ایک شوہر کا ٹوٹا ہوا بھروسہ سب سے بڑا درد ہے
اٹلی کے ٹھنڈے شہر میں شام دھیرے دھیرے اتر رہی تھی۔ فیکٹری کی طویل شفٹ کے بعد زیشان جب اپنے چھوٹے سے کمرے میں داخل ہوا تو ایک مانوس تنہائی نے اس کا استقبال کیا۔ پردیس کی اجنبی ہواؤں میں اس کے دل کی دھڑکن اکیلی سی لگتی تھی۔ ہاتھ میں موبائل تھامے وہ ہمیشہ کی طرح سب سے پہلے اپنے بیٹے کی تصویر کھول کر دیکھتا، پھر آہ بھرتا—
"اللہ میرا بچہ خوش ہو، اور میری رامشہ سلامت رہے…"
زیشان کے دل میں ایک ہی سہارا تھا—اس کی خوبصورت بیوی رامشہ، جو پاکستان میں ان کی بوڑھی، بیمار ماں کی خدمت بھی کر رہی تھی اور چھوٹے سے بیٹے کو بھی سنبھال رہی تھی۔
زیشان خود کو دلاسہ دیتا کہ وہ مضبوط ہوگی، وفادار ہوگی، گھر سنبھال رہی ہوگی، میرا انتظار کر رہی ہوگی… مگر تنہائی اکثر شک اور وسوسے بھی پیدا کر دیتی تھی۔ وہ ان سب کو نظر انداز کرکے مسکرا کر ویڈیو کال کر لیتا تھا۔
مگر پچھلے کچھ مہینوں سے رامشہ کی آواز میں عجیب سی بدلی ہوئی کیفیت شامل ہونے لگی تھی۔
وہ باتیں تو کرتی تھی، لیکن جیسے دل کہیں اور ہو…
ہنستی تو تھی، مگر ہنسی میں وہ پرانی محبت، پرانی چمک باقی نہ رہی تھی۔
زیشان سوچ میں پڑ جاتا،
"شاید تھک گئی ہوگی… شاید بچے نے تنگ کیا ہوگا… شاید امی کی طبیعت خراب ہوگی…"
اسے کیا خبر تھی کہ پاکستان میں حالات کچھ اور رخ اختیار کر چکے تھے۔
محلے میں ایک نوجوان تھا، نادر۔ دولت مند، خوبرو، اور اپنی چالاک مسکراہٹ کے ساتھ ہمیشہ لوگوں کی توجہ لینے کا عادی۔
زیشان کی ماں بیمار رہتی تھی — اکثر بستر پر۔ گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ رامشہ کے ناتواں کندھوں پر آ پڑا تھا۔
اور یہی وہ لمحے تھے جہاں نادر نے ہمدردی اور خیرخواہی کے نام پر راستہ نکال لیا۔
پہلے سلام دعا… پھر روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے کام میں مدد…
پھر باتیں…
پھر وہ جان پہچان جو آہستہ آہستہ حدود کو دھندلا کرنے لگتی ہے۔
رامشہ جوان تھی، تنہا تھی، اور شوہر پردیس میں۔
نادر امیر تھا، فارغ تھا، اور سب سے بڑھ کر باتوں میں میٹھا۔
ابتدا میں سب “اچھا اخلاق” لگتا رہا، مگر پھر وہ “اچھی نظر” آہستہ آہستہ بدلنے لگی۔
اور یوں ایک دن نادر کی دوستی بے تکلفی میں بدل گئی۔
پہلے دروازے تک… پھر آنگن تک…
وقت گزرتا گیا، اور یہ حدیں خاموشی سے ٹوٹتی گئیں۔
زیشان دور بیٹھا، ہر رات ویڈیو کال پر مسکراتا رہا۔
رامشہ اپنے دل کا بھاری پن چُھپاتی رہی۔
نادر موقع پرست بن کر نزدیک آتا رہا۔
اور کہیں دور پردیس میں زیشان کو یہ احساس تک نہ تھا کہ جس گھر کی دیواریں وہ اپنی محنت سے مضبوط سمجھتا ہے، وہیں اندر سے اینٹیں ہلنے لگی ہیں…
اور ایک ایسا راز جنم لے چکا ہے جو اس کی پوری زندگی بدلنے والا تھا۔
یہ وہ آغاز تھا جسے دیکھ کر آنے والے دنوں میں تقدیر نے ایک ایسا موڑ لینا تھا، جو تینوں کی زندگیاں ہلا کر رکھ دے گا۔
پاکستان میں دن ایسے ہی گزرتے جا رہے تھے مگر رامشہ کے اندر ایک عجیب سی بےقراری بڑھنے لگی تھی وہ پہلے کبھی اس طرح تنہا محسوس نہیں کرتی تھی لیکن اب جیسے گھر کی خاموش دیواریں اسے گھیرنے لگتی تھیں اور دل میں ایک خلا سا جاگتا رہتا تھا اسی خلا سے نکلنے کے لیے وہ نادر کی باتوں میں سکون ڈھونڈنے لگی نادر کی موجودگی اسے سہولت دیتی تھی اس کی باتوں میں وہ اپنائیت محسوس کرتی تھی جو شاید پردیس میں بیٹھے شوہر کی کالوں سے پوری نہیں ہو پا رہی تھی وہ یہ سوچ کر اپنے دل کو بہلاتی رہی کہ نادر تو محلے کا لڑکا ہے ہمدردی کر رہا ہے بس وقت گزاری کے لیے چند باتیں ہیں مگر حقیقت یہ تھی کہ وہ حدیں آہستہ آہستہ خود ہی مٹا رہی تھی اسے احساس نہ ہوا کہ اس کے قدم کس طرف بڑھ رہے ہیں یا اس کی نگاہیں کب کسی اور کے لہجے میں نرمی تلاش کرنے لگیں وہ اپنی جوانی کے جذبات کو سمجھ نہ سکی اور نادر ان جذبات کو پہچانتا جا رہا تھا اس کی چالاک آنکھیں ہر کمزور لمحہ پڑھ لیتی تھیں اور وہ اسی کمزوری کو اپنی طاقت بنا رہا تھا
ادھر زیشان پردیس میں ہر رات اپنا دل تھام کر میسج کرتا تھا کبھی کال کرتا تھا کبھی اپنی بیوی کے چہرے سے تھکن جانچنے کی کوشش کرتا تھا مگر ہر بار رامشہ کڑوی سچائی کو میٹھی مسکراہٹ میں چھپا دیتی تھی وہ زبردستی خوش نظر آنے کی کوشش کرتی تھی اور زیشان بے خبر ہو کر اس کی ادھوری خوشی کو مکمل سچ سمجھ لیتا تھا ہر کال پر وہ کھڑا رہ کر پوچھتا تھا کہ امی کی طبیعت کیسی ہے بچے نے کھانا کھایا یا نہیں تم ٹھیک ہو نا تمہارا چہرہ آج کچھ اداس لگ رہا ہے مگر رامشہ الفاظ کے پیچھے سب چھپا دیتی تھی وہ اپنے شوہر سے جھوٹ نہیں بولنا چاہتی تھی مگر سچ بولنے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتی تھی اس کا دل دھڑکتا رہتا تھا کہ کہیں یہ بھٹکا ہوا راستہ اسے کسی کھائی میں نہ دھکیل دے مگر پھر خود کو تسلی دیتی تھی کہ کچھ بھی غلط نہیں ہو رہا بس وقت ہے جو تھکا رہا ہے تنہائی ہے جو بہکا رہی ہے لیکن دل کے کسی کونے میں وہ جانتی تھی کہ یہ بہکنا حقیقت میں ایک خطرناک قدم ہے
نادر اب پہلے سے زیادہ بےتکلف ہو گیا تھا اس نے آنا جانا معمول بنا لیا تھا وہ کبھی آٹے کا تھیلا اٹھا کر لاتا کبھی بچے کے لیے چاکلیٹ پکڑا دیتا کبھی رامشہ کی ماں ساس کے لیے دوا دے جاتا اور یوں آہستہ آہستہ گھر کا ماحول اس کے لیے راستہ صاف کرتا جا رہا تھا رامشہ اس سب کو روکنا چاہتی تھی مگر وہ خود اپنے اندر وہ طاقت پیدا نہ کر سکی جو اسے حدود یاد دلاتی وہ خاموش رہتی رہی اور خاموشی ہی سب سے بڑی کمزوری بن گئی نادر اس خاموشی کو اجازت سمجھ بیٹھا تھا اور وقت وہیں سے بگڑنا شروع ہوا تھا جہاں رامشہ نے "نہیں" کہنا چھوڑ دیا تھا
زیشان کو خبر نہ تھی کہ جس گھر کو وہ ہر رات دعاؤں میں محفوظ مانگتا تھا اس گھر میں فیصلے اب اس کی غیر موجودگی میں بدل رہے تھے پردیس کی محنت اس کے ہاتھوں میں چھالے ڈال رہی تھی مگر دل یہ سوچ کر مطمئن رہتا تھا کہ گھر والے اس کے انتظار میں مضبوط کھڑے ہیں وہ راتوں کو جاگ کر کام کرتا رہتا تھا تاکہ لوٹ کر ایک بہتر زندگی دے سکے مگر اسے اندازہ تک نہیں تھا کہ کہانی کا رخ کچھ اور ہو چکا ہے اور یہ رخ اب وقت کے ساتھ ایسا موڑ لینے والا ہے جو آنے والے دنوں میں اس کا پورا وجود ہلا کر رکھ دے گا
نادر کے قدم اب معمول بن چکے تھے رات کی خاموشی اس کے لیے پردہ تھی اور دن کی مصروفیت رامشہ کے لیے بہانہ تھی دونوں ایک ایسی ڈھلوان پر تھے جس سے واپسی مشکل تھی اور گناہ کا بوجھ دھیرے دھیرے دونوں کے دل میں گھر کرنے لگا تھا مگر سب کچھ ابھی اندھیروں میں تھا کسی کو علم نہ تھا کہ حقیقت کب بےنقاب ہوگی کب خاموش دیواریں بول اٹھیں گی اور کب زیشان کی دنیا اس طرح ٹوٹے گی جیسے کسی نے اس کی سمجھ سے باہر جا کر اس کی عزت، اس کی محبت اور اس کے گھر کو روند ڈالا ہو
یہ داستان ابھی اس امتحان تک پہنچی بھی نہ تھی جس نے آگے چل کر تینوں کی زندگیوں کو ایک ایسے فیصلے پر لا کھڑا کرنا تھا جس سے واپسی ممکن نہ ہوگی۔
ر کی فضا اب پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔ رامشہ خود بھی محسوس کرنے لگی تھی کہ نادر کے آنے جانے نے محلے والوں کی نظریں بدل دی ہیں۔ کہیں دور کھڑی عورتیں سرگوشیاں کرتی دکھتی تھیں، اور ساس کی خاموش نگاہوں میں بھی کبھی کبھی ایک عجیب سا شک لہراتا تھا، مگر رامشہ خود کو تسلی دیتی رہی —
“میں نے کچھ غلط تھوڑی کیا ہے… بس حالات ایسے ہیں.”
مگر انسان کا دل حقیقت کو سب سے پہلے سمجھتا ہے، اور رامشہ کے دل میں اب ہر وقت ایک بوجھ رہنے لگا تھا۔ وہ نادر کی طرف دیکھتے ہوئے بھی نظریں جھکا لیتی تھی، جیسے اس کے وجود میں کوئی پردہ سا آ گیا ہو جو پہلے نہیں تھا۔ اس نے اپنے دل کو بارہا سمجھایا کہ یہ سب بس وقتی کمزوری ہے، مگر وقت کمزوری کو عادت بننے میں دیر نہیں لگاتا۔
ایک دن دوپہر کے وقت جب گھر میں صرف رامشہ اور اس کا بچہ تھا، نادر حسبِ معمول کوئی بہانہ لے کر آ گیا۔ دروازے پر دستک ہوئی تو رامشہ چونک گئی۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔
اس نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا:
“نادر… آج کیوں آئے؟ کوئی ضرورت تھی تو فون کر دیتے۔”
نادر نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا:
“دوا دینے آیا تھا بی بی جی… آپ کی ساس نے کل کہا تھا لینی ہے۔”
رامشہ نے پہلی بار محسوس کیا کہ اس مسکراہٹ میں کچھ اور بھی تھا… کچھ ایسا جس سے وہ ہمیشہ نظریں چراتی رہی تھی۔
اس نے فوراً دوا پکڑی اور کہا:
“شکریہ… آپ اب جائیں۔”
نادر اس جواب پر رک گیا۔
اس کے چہرے پر حیرانی بھی تھی… اور ناراضی بھی۔
“رامشہ باجی… آپ پہلے کبھی یوں نہیں بولیں… کیا بات ہے؟”
رامشہ نے مضبوط لہجے میں کہا:
“بس بات یہ ہے کہ اب آپ کا بار بار آنا ٹھیک نہیں لگتا… لوگوں کی زبانیں ہوتی ہیں نادر… اور میں اپنے گھر کی عزت کا خیال رکھتی ہوں۔”
یہ وہ جملہ تھا جسے کہنے میں اسے اتنے دن لگ گئے تھے۔
نادر چند لمحے خاموش رہا۔ پھر اس کی آنکھوں میں وہ چمک ابھری جو رامشہ نے پہلے نہیں دیکھی تھی —
ایک ایسی چمک جو بتا رہی تھی کہ وہ رامشہ کی کمزوریوں کو سمجھ چکا ہے…
اور اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ آج وہ کمزوری اس کے ہاتھ سے پھسل رہی ہے۔
“ٹھیک ہے…”
اس نے سخت لہجے میں کہا اور واپس پلٹ گیا۔
رامشہ نے دروازہ بند کیا تو اس کا دل زور سے دھڑک رہا تھا۔
جیسے بڑی دیر بعد اس نے خود کو کسی غلط رستے سے واپس موڑا ہو۔
مگر حقیقت یہ تھی کہ نادر اب اتنی آسانی سے نہیں رُکنے والا تھا۔
اسی شام جب رامشہ نماز کے بعد دعا مانگ رہی تھی، اس کے اندر عجیب سی گھبراہٹ جاگنے لگی۔
جیسے آنے والے دنوں میں کوئی طوفان اٹھنے والا ہو۔
جیسے اس کی ایک ہچکچاہٹ نے نادر کے اندر کچھ بدل دیا ہو۔
اُدھر زیشان نے رات کو حسبِ معمول کال کی۔
اس کی تھکی ہوئی آواز میں امید تھی…
“رامشہ… بس چند مہینے اور… پھر میں واپس آ جاؤں گا۔ تمہیں ہر تکلیف کا بدلہ آسانیوں میں دوں گا۔”
رامشہ کا دل اس جملے پر کانپ گیا۔
اس کا گلا رندھ گیا۔
وہ چاہ کر بھی سچ نہیں بول پائی… بس آہستہ سے کہہ سکی:
“جلدی آ جانا زیشان… بہت کچھ ہے جو تمہیں خود بتانا ہے…”
زیشان ہنس کر بولا،
“کیوں؟ سب ٹھیک ہے نا؟”
رامشہ نے آنکھیں بند کر لیں۔
اس کے اندر کا خوف، اس کی غلطیاں، اس کا کمزور لمحہ… سب یاد آ گیا۔
اور وہ آہستہ سے بولی:
“ہاں… سب ٹھیک ہے…”
مگر اس رات اس کے دل میں پہلی بار یہ احساس پوری طرح جاگ اٹھا تھا کہ
اُس نے خود کو خطرے کے بہت قریب پہنچا دیا ہے۔
اور اب کہانی صرف ایک نرم بہکاؤ کی نہیں رہی…
بلکہ ایک ایسے موڑ پر آ گئی تھی
جہاں ایک غلط قدم تین زندگیوں کو تباہ کر سکتا تھا۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ نادر اس کی “نہیں” کو برداشت نہیں کرے گا…
اور آنے والا وقت سب کچھ بدلنے والا ہے۔
رامشہ نے نادر کو روکنے کی جو ہمت جمع کی تھی، اس کے بعد گھر کا ماحول کچھ دن خاموش رہا، مگر یہ خاموشی طوفان سے پہلے والی تھی۔ نادر اب بھی روز گلی کے کونے سے گزرتا، مگر اس کی نظریں گھر کے دروازے پر بار بار اٹھتی تھیں۔ اس کے چہرے پر وہ تیز لہجہ صاف دیکھا جا سکتا تھا جو بتاتا تھا کہ وہ رامشہ کے انکار کو دل پر لے چکا ہے۔
ادھر رامشہ اندر ہی اندر ٹوٹ رہی تھی۔
اسے اپنے قدموں کی لرزش، اپنی کمزوری کے لمحے، سب یاد آتے تھے اور ہر رات وہ سجدے میں گر کر آہستہ سے اللہ سے دعا کرتی:
“یا اللہ… میرے گھر کو، میرے رشتے کو بچا لے… میں بہت کمزور تھی، مجھے سنبھال لے…”
پھر وہ دن آیا…
وہ دن جس نے سب چہروں سے نقاب نوچ لیا۔
زیشان اچانک گھر آ گیا۔
چھٹی ملی تھی، مگر اس نے بتانا ضروری نہیں سمجھا۔ وہ اپنی بیوی کو سرپرائز دینا چاہتا تھا۔
وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ سرپرائز کبھی کبھی انسان کی دنیا برباد بھی کر دیتے ہیں۔
جیسے ہی وہ دروازے میں داخل ہوا، رامشہ کے ہاتھ سے پانی کا گلاس گر گیا۔
اس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔
اس کے دل نے جیسے سینے میں دھڑکنا چھوڑ دیا ہو۔
زیشان نے اسے حیرت سے دیکھا،
“کیسی ہو؟ خوش نہیں ہوئی مجھے دیکھ کر…؟”
رامشہ کی ہمت جواب دینے لگی۔
آواز جیسے گلے میں پھنس گئی ہو۔
“زیشان… میں…”
مگر فجائیہ لمحہ تب آیا جب نادر گلی میں آکھڑا ہوا۔
زیشان نے اس کی نظریں، اس کی موجودگی اور رامشہ کے چہرے پر اترے خوف کو ایک ساتھ محسوس کیا۔
اور پھر زیشان نے وہ سب دیکھ لیا جو رامشہ نے چھپایا تھا —
سچ پورا نہیں،
صرف وہ بدلاؤ
جو ایک بیوی کے چہرے، لہجے اور آنکھوں میں آ جاتا ہے جب وہ کسی خوف، کسی غلطی، کسی پچھتاوے میں جینے لگتی ہے۔
زیشان نے کوئی سوال نہیں کیا۔
بس کرسی پر بیٹھ گیا۔
اور آہستہ سے کہا:
“رامشہ… اگر کچھ کہنا ہے، تو آج کہہ دو… میں برداشت کر لوں گا، مگر جھوٹ نہیں.”
رامشہ کی ہمت ٹوٹ گئی۔
وہ اس کے قدموں میں بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس نے سب سچ نہیں بتایا…
لیکن اتنا ضرور کہا کہ
“میں بہت کمزور پڑ گئی تھی زیشان… میں نے حدود نہیں توڑیں، مگر میں نے حدود بھلا دی تھیں…”
زیشان کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے۔
وہ ٹوٹتا جا رہا تھا۔
اس کے خواب، اس کا بھروسہ، اس کا مان… سب کچھ زمین پر بکھرتا جا رہا تھا۔
نادر یہ منظر دور سے دیکھ رہا تھا۔
اس کی آنکھوں میں خوف تھا۔
وہ جان چکا تھا کہ اب اس کا کھیل ختم ہو چکا ہے۔
زیشان اٹھا، باہر نکلا، نادر کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
اس نے کوئی ہاتھ نہیں اٹھایا،
کوئی گالی نہیں دی،
بس ایک جملہ کہا —
“گناہ وہ نہیں جو کر لیا جائے… گناہ وہ ہے جو دل میں رکھنے دیا جائے۔ تو نے میرے گھر میں قدم رکھ کر میری غیرت نہیں، میری بھروسے کی بنیاد توڑی ہے۔ اور اللہ کی قسم… بھروسہ ٹوٹ جائے تو سب ٹوٹ جاتا ہے.”
نادر سر جھکا کر وہاں سے چلا گیا۔
اسے بھی احساس تھا کہ اس نے ایک خاندان برباد ہونے کے قریب پہنچا دیا۔
رامشہ اندر روتی رہی۔
زیشان نے اس کے آنسو دیکھے،
اس کی سچی توبہ،
اس کا خوف…
اور پھر آہستہ سے کہا:
“اگر تو نے گناہ کیا ہوتا… میں جا چکا ہوتا۔
مگر تو گناہ کے راستے پر تھی… اور واپس آ گئی۔
ہم دونوں غلط تھے —
تو تنہائی میں کمزور پڑ گئی،
اور میں محبت کرتے ہوئے تیرے دل کو اکیلا چھوڑ گیا۔”
رامشہ کے آنسو اور تیز بہنے لگے۔
زیشان نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا،
“آج سے ہم دونوں دوبارہ شروع کریں گے… نئے بھروسے کے ساتھ… نئے وعدے کے ساتھ.”
یہ کہانی یہاں انجام پر پہنچی —
لیکن سبق چھوڑ کر:
رشتے گناہوں سے نہیں،
کمزوریوں سے ٹوٹتے ہیں…
اور کمزوریاں تب طاقت بنتی ہیں
جب انسان سچ کا سامنا کر کے واپس پلٹ آئے۔
رامشہ نے اسی دن فیصلہ کیا
وہ اپنے گھر کو، اپنی عزت کو، اپنے رشتے کو
کبھی کسی اجنبی، کسی کمزور لمحے…یا کسی غلط نظر کے سپرد نہیں کرے گ۔
اور زیشان نے فیصلہ کیاوہ اپنی بیوی کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔
یوں کہانی ختم نہیں ہوئی —بلکہ دوبارہ شروع ہوتی ۔
https://www.umairkahaniblog.uk/2025/11/jab-uski-aankhon-ne-sab-kuch-badal-diya.html

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
"Shukriya! Apka comment hamaray liye qeemati hai."