محبوب اردو سچی سٹوری


 اولر کی رکھ دے یہ ناول ۔ " دادی اماں اس کے سر پر آکھڑی ہوئی تھیں۔ جو ناول پڑھنے میں مگن تھی۔ اتنی مگن کہ اس کے سرال والے آئے ہوئے تھے لیکن اسے کوئی خبر نہیں تھی۔ " کیا ہے دادی اماں... آپ اسی وقت آتی ہیں جب میرے ہیرو ہیروئن کی انٹری ہو رہی ہوتی ہے۔"

ایک نظر اٹھا کر اس نے ناگواری سے کہا تھا۔ اٹھ جالڑ کی ... رکھ دے اسے ... تیرے ماموں مامی آئیں ہیں اور راحب بھی ... جا... جا کر تیار ہو جا۔" اس کے پاس بیٹھ کر انھوں نے اسے پیار سے بتایا۔ اب کیوں آگئے ؟ کل ہی تو انگوٹھی پہنا کر گئے تھے ۔ " وہ تلملا اٹھی تھی اور ایک نظر اپنے ہاتھ میں پہنی

ہوئی انگوٹھی کو دیکھا تھا۔

" تیری شادی کی تاریخ لینے آئے ہیں۔ انھوں نے خوشی سے بتایا۔

" کیا ؟؟؟؟؟؟؟ شادی کی تاریخ ؟؟؟؟؟؟" وہ تو پوری طرح کرنٹ کھا کر رہ گئی تھی۔ رہ

ہاں تو .. کیا صرف تیری منگنی کرنی تھی ... شادی نہ کریں؟ انھوں نے اس کے ماتھے پر آتی ہوئی لٹ کو

اپنے ہاتھ سے پیار میں پیچھے کیا۔ پر میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی دادی۔ " وہ اداس ہو گئی۔ ہے بھلا کیوں ابھی نہیں کرنا چاہتی ؟“ وہ روٹھ کی گئیں۔ دادی ابھی تو میں نے ماسٹرز ایجو کیشن میں ایڈمیشن لینا ہے۔ " اس نے جلد وجہ بتائی۔ ارے کیا کرلے گی اتنا پڑھ لکھ کر ... آخر چولہا ہی جھونکتا ہے۔ " وہ غصہ ہوگئی تھیں۔ " حیات ... تم ابھی تک اٹھی نہیں ہو... جاؤ جا کر کپڑے بدلو اور جو کچن میں ٹرے رکھی ہوئی ہے وہ

مہمانوں کے سامنے جا کر رکھو ۔ “ اماں بھی سر پر آکھڑی ہوئی تھیں۔ وہ خاموشی سے اٹھ گئی تھی اور ان کی بات مان لی تھی۔ مہمانوں کے جاتے ہی اس نے پورا گھر سر پر اٹھا لیا تھا کہ اسے ابھی شادی نہیں کرنی کیونکہ مامی صاف کہہ کر گئی تھیں کہ وہ ایک ہفتے بعد برات لے آئیں گی اور اسے پڑھنے کی اجازت نہیں دیں گی ... سب سے زیادہ اسے دکھ اس بات کا تھا کہ انھوں نے ناول پڑھنے سے بھی منع کر دیا تھا۔

" دیکھو میرے بچے .. چاہتے ہیں ۔ " جتنا تم نے پڑھنا تھا پڑھ چکی ہو... اب بس ہم اپنا فرض باد کے پاپانے اسے پیار سے سم

پر پاپا میرے ناولز ۔ " وہ دکھی لہجے میں بولی۔ ناول پڑھ پڑھ کر م ناولز کی ہی دنیامیں رہنے گئی ہو۔ ” وہ غصے سے اٹھ کر چلے گئے تھے۔

آخر کار وہ دلہن بنی اس کے کمرے میں موجود تھی۔

گلابی رنگ کا کھلتا ہوا رنگ اس کے رنگ کو مزید کھلا رہا تھا۔

راحب کا کمرہ کافی بڑا تھا اور ساری چیزیں قرینے سے رکھی ہوئی تھیں۔ ایک چیز پر دمکتی ہوئی چادر ڈالی ہوئی تھی شاید وہ کوئی شیلف تھا۔

اس میں کیا ہے؟ پہلے تو نہیں دیکھا ۔ " وہ راحب کے کمرے کو پہلے بھی دیکھ چکی تھی لیکن اس وقت وہ چیز وہاں موجود نہ تھی۔ مجھ سے بھی کا مطلب؟" وہ سمجھی نہیں ۔ نہیں۔

اتنے میں ہی راحب کمرے میں داخل ہوا تھا۔ جلد اس نے نظریں جھکالی تھیں۔ وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گیا تھا۔ " سے ہیں ؟ " کیا آپ مجھ سے بھی ناراض ہیں؟" کافی دیر کی خاموشی کے بعد راحب کے ہونٹوں نے حرکت کی۔

" مطلب کہ آپ تو اپنی مامی سے ناراض تھیں نا ۔ " جلد اس نے مطلب سمجھایا۔ میں کسی سے ناراض نہیں ہوں ۔ " اس کا لہجہ ابھی بھی خفا تھا۔

اگر آپ چاہیں تو مجھ سے شئیر کر سکتی ہیں ۔ " اس نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔ نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔ " شاید وہ گھبرا گئی تھی۔

ٹھیک ہے... آپ چینج کر لیں ۔ ” وہ اس کے پاس سے اٹھ گیا تھا۔

وہ چینج کر کے شیشے کے سامنے اپنے بال ٹھیک سے باندھنے کی کوشش کر رہی تھی۔

وہ بھی چینج کر چکا تھا کہ وہ اس کے پیچھے آکھڑا ہوا تھا اور اس کے بال بائیں کندھے پر ڈال کر اس نے اپنی

تھوڑی اس کے دائیں کندھے پر لگائی تھی۔

آپ صرف اپنے ماموں کی نہیں بلکہ میری بھی پسند ہیں... میں نے ہی آپ کے ماموں سے کہا تھا کہ اپنی

بھانجی میرے نام کر دیں ۔ " نئے انداز سے اس نے ظہار کیا تھا اور وہ پلکیں جھکا گئی تھی۔ آپ کچھ نہیں کہیں گی ۔ " وہ ابھی بھی اس کی ناراضگی جانا چاہتا تھا لیکن وہ ابھی بھی خاموش رہی۔

" کیا آپ اس شادی سے خوش نہیں ہیں ؟ اس نے بات کہیں اور موڑ لی۔

نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ " اب کی بار وہ بول پڑی۔

پھر کیسی بات ہے؟" اس نے جلد ہی سوال کر ڈالا۔

میں زیادہ تر خاموش رہنا پسند کرتی ہوں ۔ " اس کی نظریں ابھی بھی جھکی ہوئی تھیں۔

کوئی بات نہیں... میں بولنا سکھا دوں گا ۔ " اس نے شوخ لہجے میں کہا۔ وہ مسکرا اٹھی تھی۔ "

آپ کے لیے تحفہ ہے میرے پاس۔ " وہ الگ ہو گیا تھا اور اس کا رخ اپنی طرف کیا تھا۔ " کیا ؟" اس نے جلد پوچھا۔

وہ جوشیلف رکھا ہوا ہے اس پر سے چادر ہٹا دیں ۔ " اس نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدموں سے چلتی ہوئی گئی اور چادر ہٹا دی ۔ ناولز " وہ خوشی سے چہک اٹھی۔

وہاں نمرہ احمد کا ناول " نمل " عمیرہ احمد کا ناول "آب حیات" آمنہ ریاض کا ناول " دشت جنون جنون". "

فیلم ریاست کا ناول " جب دل ملے " اور بہت سے وہ ناولز شامل تھے جو اس نے پڑھے نہیں تھے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ خاموش نہیں رہتی ... بس اسی لیے خاموش تھیں کہ آپ کے الفاظ آپ کے ان ناولز

کے پاس تھے ۔ ” وہ چلتا ہوا اس تک آیا تھا اور اس کے ہاتھ تھام کر کہا تھا۔ وہ سرخ ہوگئی تھی کہ اس کے اس رنگ کو اس نے اپنے دل میں اتار لیا تھا۔

آپ کے ماسٹر کا فارم میں فل کر چکا ہوں ... ماما آپ کو یونی جانے کی اجازت تو نہیں دے گی مگر میں تو آپ کو گھر بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت دے سکتا ہوں نا ۔ نا۔ " اس نے اس کی ایک اور خواہش پوری کر دی۔ میں جان سکتی ہوں کہ انتناسب کس لیے ؟“ اس نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ لیے؟"

ہم ... اس کا مطلب ہے کہ اظہار کرنا پڑے گا۔ " اس نے لمبی سانس لیتے ہوئے کہا اور اس کا ہاتھ چھوڑ

کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔

وہ اس لیے حیات کہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں ... بے پناہ محبت ... کبھی کہا اس لیے نہیں کہ میں ڈرتا تھا کہ کہیں آپ برا نہ مان جائیں اور مجھے شادی سے پہلے کی محبت پسند بھی نہیں ہے کیونکہ میرے نزدیک وہ محبت ہی نہیں ہے ... اسی لیے آپ کو جلد اپنی دلہن بنالا یا... میں نے آپ کو جب پہلی دفعہ دیکھا تھا اس وقت آپ کے ہاتھ میں " پیر کامل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم " تھا جس کو پڑھتے وقت آپ کھوئی ہوئی تھیں... اور میں جان گیا تھا کہ 

آپ ناولز سے ایچ ہیں... جب آپ نے بی ایس سی میں اچھا رزلٹ شو کیا تو میں جان گیا تھا کہ آپ آگے پڑھنا چاہتی ہیں... اور یہ سب میری محبت ہے کہ میں ایک ہی لمحے میں آپ تک پہنچ گیا۔"

وہ مسلسل بول رہا تھا اور وہ آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھ رہی تھی... اس نے یہ سب واقعی صرف ناولز میں ہی پڑھا تھا کہ کوئی آپ کی چاہت پوری کر سکتا ہے فقط اس لیے کہ سامنے والے کو آپ سے محبت ہے۔ اب آنکھیں پھاڑ نا بند کریں اور ایک نظر پیار سے دیکھ لیں ۔ " اس نے شرارت ظاہر کی تھی اور وہ سٹپٹا گئی تھی۔

ہ میں ... " وہ آگے بڑھ رہا تھا اور وہ پیچھے ہوئی جارہی تھی کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر ہی اس نے اسے اپنے قریب کیا تھا ۔ وہ سب بعد میں اس کے بچکچاتے الفاظ سے بے خبر ہوتے ہوئے اس نے اپنے ہوش کھو دیے

تھے اور وہ بھی اس کی محبت کو محسوس کرنے میں مصروف ہو چکی تھی۔ مرکزی خیال: محبوب کی خوشی میں ہی محبت کی خوشی ہوتی ہے۔



تبصرے

New Urdu Stories

ماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانیماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

فاطمہ اور عمران کی موٹر وے پر آخری ملاقات — ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

امتحان کی گزرگاہ: ایک مخلص انسان کی کہانی"