ضد کر دیا اردو سٹوری
کہاں گئی ساری تنخواہ؟ کہاں جیب کٹ گئی میری
کیا کرو میں جان بوجھ کہ جب کوئی ہے یہاں کے بازار سے یا یہاں چکی تھی پ اماں جھگڑا بڑھنے کے ڈر سے خاموش ہو گئی۔ اب تو اماں روز روز ابا کے ایسے بہانوں سے تنگ آچکی تھی پتہ نہیں ابا کی تنخواہ کہاں جا رہی تھی کبھی جیب کٹنے کا بہانہ تو کبھی قرض چکانے کا کبھی کوئی اور بہانہ سارا مہینہ تنگی میں گزرتا داب تو اماں کو بھی شک ہونے لگا تھا ایک دن اماں نے صاف کہہ ڈالا مجھے تو یقین ہو گیا کہ محلے والے بیچ
ارے اب کیا ہوگا کیسے ئے گا پورا مہینہ میں پریشان ہوکر بولی
کہتے ہیں تم جو کھیلتے ہوا سنتے ہی آپے سے باہر ہو گئے ہاں ہاں کھیلتا ہوں جو محلے والوں کو کیا پریشانی ہے ابا جینے اماں کا شک یقین میں بدل گیا اب تو آئے روز اماں ابا کا جھگڑا رہتا ...
میں شمع میری چھوٹی بہن اور بھائی اماں ابا کے روز کے جھگڑوں سے بہت پریشان ہوتے خیر بہن بھائی
دونوں چھوٹے تھے اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنی میں ہر وقت کے لڑائی جھگڑے بہت پریشان رکھتے مجھے
۔۔۔ جوے کے بڑھتے شوق نے ابا کو کنگال کر دیا۔
شمع بیٹی جا ساتھ والی دوکان سے سرف لے آئیں کپڑے دھولو سرف ختم ہو گیا“
اچھا اماں شمع ابھی دروازے تک پہنچی محلے کی دو عورتیں گلی میں کھڑی باتیں کر رہی تھی اے بہن اس راشدہ کے جھگڑوں نے تو پورے محلے کو پریشان کر رکھا ہے میاں سے ہر وقت لڑتی رہتی دوسری بولی وہ بھی کیا
کرے شوہر جواری ہے جو کھیلتا ، شمع کو غصہ آگیا۔ اے خالہ میرا ابا جواری نہیں ہے سوچ کے بات کرو
ہائے ہائے دیکھو تو لڑکی کو بھی راشدہ نے بات کرنے کی تمیز نہیں سکھائی۔ خالہ نے زور زور سے آواز لگائی کو بھی
محلے کی کچھ عورتیں خالہ کی آواز سن کر دروازوں سے جھانکنے لگی۔
اماں نے بازو سے پکڑ کر شمع کو اندر کھینچا چل اندر اپنے باپ کی طرح محلے میں میرا تماشہ لگوا رہی
ہے۔ شمع کے آنسو ہی نہیں رک رہے تھے دروازہ بند کر کے بیٹھ گئی اماں کپڑے دھوتی رہی اور ساتھ ساتھ شوہر اور بچوں کو برا بھلا کہتی رہی ۔ معاشرہ عموما ان لڑکیوں کے لیے خطرناک ہو جاتا ہے جن کے باپ جو کھیلتے ہوں
اور نشہ کرتے ہوں شمع کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔
کون ہے دروازہ اتنی زور سے بجائے جا رہے شمع نے دوڑ کر دروازہ کھولا، چا چارمضان سامنے۔
چا چا تم بہت دن بعد آئے آؤ اندر
دو نہیں بیٹی میں بہت جلدی میں تیری ماں کدھر ہے
" وہ تو پھپھو کے گھر ہے اچھا اسے جا کہ جلدی سے بتا دے تیرا باپ جوئے میں تجھے ہار گیا ہے اسے کہنا
جلدی سے تمھیں یہاں سے بھگا دے نہیں تو وہ لوگ تجھے لے جائیں گے
یہ کہہ کر چا چار رمضان چلا گیا شمع کے پیروں سے زمین نکل گئی وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی اس کا باپ جوئے میں اس حد تک چلا جائے گا کہ اپنی عزت اور غیرت کا سودا کر دے گا وہ دوڑی دوڑی پھپھو کے گھر گئی۔۔ امان امان
ارے کیا ہوا؟ شمع اماں اور پھپھو ایک ساتھ بولی۔ شمع نے رمضان چاچا والی ساری بات اماں اور پھپھو کو بتائی ۔ ماں تو سن کر شدید صدمے میں چلی گئی اس کا شوہر اس قدر گر جائے گا اس نے سوچا نہ تھا اپنی جوان بیٹی کا سودا کر دے گا۔۔۔ پھپھو بھی شرمندہ ہو گئی بھائی کا
کارنامہ سن کے شمع پھپھو سے لپٹ گئی۔ پھپھو بچالے مجھے میں نہیں جاؤں گی ان کے ساتھ سب گھٹیا کمینے لوگ ہیں، جب باپ بیٹی کے ساتھ ایسے کر سکتا تو وہ کیا سلوک کریں گئے پھپھونے غور سے بھتیجی کو دیکھا سولہ برس کی خوبصورت جوان لڑکی کی زندگی
تباہ ہو جائے گی ان درندوں کے ہاتھوں۔ را شده سن ایسا کرتے ہیں عدنان سے شمع کا نکاح کر دیتے ہیں پھر کسی کو جرات نہیں ہوگی ۔“ پھپھونے
اماں کو آواز دی۔ شمع کو لے جانے کی اماں کو جلدی میں کچھ نہ سوجھی اور اس نے ہاں کر دی, پھپھو کا بیٹا عدنان ہر لحاظ سے
خوبصورت کریانہ کی دکان تھی اپنی، اچھا کماتا تھا گر بیچارہ پولیو کا مریض تھا ایک ٹانگ سے لنگڑا ۔ جبکہ شمع خوبصورت تندرست ہر لحاظ سے پر فیکٹ تھی اماں نے اس ٹائم برے وقت میں نکاح تو کر دیا مگر اسے اس بات کا بے حد دکھ تھا کہ وہ اپنی خوبصورت بیٹی کو ایک معذور شخص کے ساتھ بیاہ دیا اور وہ اس بات کا اظہار بھی کرتی رہتی تھی ۔۔ حالانکہ شمع کی زندگی میں وہ خوشیوں کی نوید بن کہ آیا تھا بے پناہ محبت کرنے والا اور خیال رکھنے والا ۔۔۔ چاہے تو یہ تھا کہ اماں خوش ہوتی شکر کرتی کہ اللہ نے اسکی بیٹی کو ان درندوں سے بچالیا پھپھونے برے وقت میں مدد کی اور جواریوں کے مرنے سے بچالیا مگر نہیں ماں تو نہ شکری بن گئی وہ ہر وقت ایک ہی رٹ لگائے تھے۔ رکھتی اپنی خوبصورت بیٹی مجبوری میں معذور شخص سے بیاہ دی میں نے یہ باتیں محلے کے لوگوں کے ذریعے عدنان پھپھو اور ان کے شوہر تک پہنچتی مگر انہوں نے کبھی شکایت نہیں کی ہمیشہ خاموش ہو گئے۔ شمع بھی بہت سمجھاتی
اماں کو کہ وہ خوش ہے عدنان کے ساتھ مگر اماں کہاں سنتی ... کے مگر اس بار اماں اسے لے جانے کے لیے آئی بہت دن ہو گئے شمع میکے نہیں آئی عدنان نے کہا مامی مجھے ماموں کا غیر لوگوں کو گھر کے سامنے بٹھانا پسند نہیں آپ شمع کو لے جاتی اور وہ گھر کے سامنے سارا دن لفنگوں کے لے کے
بیٹھا رہتا آپ اسے نہ لے جائے اماں کو غصہ آگیا وہ ضد کر کے شمع کو گھر لے آئی۔ جب شمع نے دو دن رہ کر واپس جانے کا کہا اماں نے روک لیا کہا کہ پولیو کے مریض کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں مکان میری بیٹی کے نام کر دے پھر جانے دوں گی یہ پیغام شمع کے سرال پہنچادیا شمع نے بہت سمجھایا اماں کو اماں میں امید سے ہوں میرا گھر کیوں خراب کر رہی ہو مگر پتہ نہیں اماں کو کیا خوف تھا یا پھر اپنی گزاری اماں زندگی کی محرومی وہ چاہتی میری بیٹی سرال میں کسی کی محتاج نہ ہو یہ سوچنا بھول گئی تھی کہ اس طرح کرنے سے معاملہ بگڑ بھی سکتا ہے عدنان یہ سن کر خود لینے آگیا اماں بولی اب تو تیری بیوی ماں بننے والی ہے کل کو تیری زندگی کا
بھروسہ نہیں مکان میری بیٹی کے نام کر دے پھر لے جانا عدنان اٹھ کر چلا گیا۔۔ اماں کو یقین تھا عدنان ہونے والے بچے کا نام سن کر مکان ضرور شمع کے نام کر دے گا اماں شمع کے امید سے ہونے کو ہتھیار بنارہی تھی ۔۔ مگر پھپھو اور ان کے شوہر کو غصہ آگیا پھوپھا بولے ایک تو اس کی بیٹی کو جواری کے ہتھے چڑھنے سے بچایا اب یہ صلہ دے رہی ہے خدا جانے ان دونوں میاں بیوی نے ایسا کیا کہا بیٹے سے کہ وہ طلاق دینے پر راضی ہو گیا۔۔۔ عدنان نے طلاق کے کاغذ کے ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ شمع کی کوکھ میں جو دیا بچہ ہے میرا
نہیں لہذا انچے کا میرے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔ شمع پر دکھوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اللہ نے شمع کو بیٹی دی شمع کی ماں نے اس کا گھر بسانے کے بجائے بر باد کر دیا بے جا ضد کی وجہ سے اماں کی ضد نے نہ صرف شمع کی زندگی برباد کی بلکہ ایک معصوم بچی کو باپ کے پیار
کے لیے ہمیشہ سے محروم کر دیا۔

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
"Shukriya! Apka comment hamaray liye qeemati hai."