"مجھے طلاق نہیں چاہیئے – ایک عورت کی صبر، محبت اور قربانی کی داستان"
منتہا اپنے شوہر سرفراز کے قدموں میں گری تھی۔ شادی کو ایک سال ہو چکا تھا، مگر سرفراز نے نہ صرف کبھی محبت نہیں کی، بلکہ وہ اسے انسان بھی نہیں سمجھتا تھا۔
وہ یہ رشتہ صرف اپنی ماں کے دباؤ پر قبول کر چکا تھا۔ اس کی دل کی دنیا کسی اور کے گرد گھومتی تھی… اور اب وہ منتہا کو طلاق دے کر، اپنی محبوبہ سے نکاح کرنا چاہتا تھا۔
باب 1: منتہا کی شادی
منتہا ایک سادہ، باحیا اور نرم مزاج لڑکی تھی۔ اُس کی ماں کی وفات کے بعد، اس کی خالہ نے اسے اپنی بیٹی کی طرح پالا تھا۔ خالہ کی خواہش تھی کہ اس کی بیٹی منتہا کی شادی اس کے بیٹے سرفراز سے ہو۔
سرفراز ایک خوبرو، تعلیم یافتہ مگر مغرور لڑکا تھا۔ اس کے دل میں پہلے ہی کسی اور کی محبت بسی ہوئی تھی۔ مگر ماں کے دباؤ پر وہ نکاح کے لیے راضی ہو گیا، بس صرف رسمی طور پر۔ نکاح کی رات، سرفراز نے منتہا کو صرف ایک جملہ کہا تھا:
"یہ شادی میرے لیے صرف ایک مجبوری ہے… میری دل کی دنیا کہیں اور ہے… تم مجھ سے کوئی توقع نہ رکھنا۔"
منتہا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، مگر اُس نے سر جھکا لیا اور کہا:
"اگر میری قسمت میں یہی ہے، تو میں صبر کروں گی۔"
باب 2: سرد دیواریں اور تنہائی
پورے ایک سال گزر گیا، لیکن سرفراز نے نہ تو منتہا سے محبت کی، نہ اس کے قریب آیا۔ وہ دن رات موبائل پر کسی اور سے بات کرتا، اور منتہا خاموشی سے اپنا دل جلاتی رہتی۔
وہ کبھی نماز میں، کبھی دعا میں اور کبھی تنہائی میں سجدے میں گر کر رب سے فریاد کرتی:
"اے میرے رب… مجھے میرے شوہر کا دل عطا کر دے، یا مجھے اس رشتے کا صبر عطا فرما…"
باب 3: محبوبہ کا نکاح
آخر کار، سرفراز نے اعلان کیا کہ وہ اپنی محبوبہ سے نکاح کر رہا ہے۔ ماں باپ نے روکا، منتہا نے گڑگڑا کر التجا کی، لیکن سرفراز نے سب کچھ روند کر، دوسری شادی کر لی۔
شادی کے بعد وہ اپنی دوسری بیوی "حنا" کو اسی گھر میں لے آیا۔ حنا نہایت مغرور، خودسر اور بدتمیز لڑکی تھی۔ وہ منتہا کو نوکرانی سمجھتی، اور ہر وقت اسے نیچا دکھاتی۔
سرفراز کو بھی کچھ فرق نہیں پڑتا تھا… وہ حنا کی محبت میں اندھا ہو چکا تھا۔
باب 4: ایک رات کا فیصلہ
ایک رات، سرفراز غصے میں کچن میں آیا۔ حنا اس سے لڑ جھگڑ کر میکے چلی گئی تھی۔ سرفراز کی آنکھوں میں بیزاری تھی، دل میں تپش۔ جیسے ہی وہ کچن میں آیا، منتہا کو دیکھا جو چپ چاپ روٹی بنا رہی تھی۔
"مجھے سکون چاہیے!" وہ چلایا، اور منتہا کی طرف بڑھا۔
منتہا نے چونک کر سر اٹھایا، کچھ کہنے ہی والی تھی کہ سرفراز نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
لیکن وہ جیسے ہی قریب ہوا، منتہا نے لرزتی آواز میں کہا:
"یہ سکون اگر زبردستی سے آئے، تو وہ گناہ بن جاتا ہے سرفراز۔"
سرفراز کے قدم رک گئے… اور دل میں کچھ چبھ سا گیا۔
باب 5: حنا کی حقیقت
کچھ ہی دنوں میں سرفراز کو حنا کی حقیقت کا اندازہ ہونے لگا۔ وہ بے وفا تھی، بدزبان تھی، اور صرف سرفراز کے پیسوں سے محبت رکھتی تھی۔
ایک دن، سرفراز نے اسے کسی غیر مرد سے فون پر بات کرتے پکڑ لیا۔ اس کی دنیا اندھیر ہو گئی۔
"میں نے جس کے لیے منتہا جیسے فرشتے کو ٹھکرا دیا، وہ مجھے بیوقوف بنا رہی تھی؟"
اس رات، سرفراز پہلی بار سجدے میں گرا اور رب کے حضور رویا
باب 6: منتہا کا صبر
منتہا تب بھی اسی گھر میں تھی، سب برداشت کرتی رہی، کبھی بددعا نہ دی، کبھی زبان سے شکایت نہ کی۔ وہ نماز اور قرآن کی قاری تھی، سجدے اس کی پناہ گاہ تھے۔
سرفراز اب بدلنے لگا تھا۔ وہ منتہا کی طرف دیکھنے لگا، اس کی خاموش خدمت، اس کی محبت اور سچائی دل میں گھر کرتی گئی۔
باب 7: نئی صبح کا آغاز
سرفراز نے ایک دن، منتہا کے سامنے بیٹھ کر کہا:
"منتہا… میں نے تم سے بہت زیادتیاں کیں… تم نے سب کچھ برداشت کیا… آج میں تم سے سچے دل سے معافی مانگتا ہوں… کیا تم مجھے ایک موقع دو گی؟"
منتہا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، مگر وہ مسکرا کر بولی:
"اللہ جسے ہدایت دے، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا۔ میں تمہیں معاف کرتی ہوں…"
منتہا کی زندگی ایک طوفان کی مانند تھی، جس نے اسے ہر دن نئے امتحان میں ڈال دیا تھا۔ سرفراز کا دھوکہ اور بےوفائی اس کے دل کو توڑ چکے تھے، مگر وہ چار بچوں کی ماں تھی اور انہیں سہارا دینا اس کا فرض۔
راتیں اس کے لیے بے چین تھیں، دنوں میں تھکن کا پہاڑ اس کے کندھوں پر تھا۔ ہر بار بچوں کی بھوک دیکھ کر اس کا دل خون کے آنسو روتا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنی ذات کے لیے بھی کچھ کرے۔
ایک دن محلے کی ایک خاتون نے اسے بتایا کہ شہر میں کچھ ایسے کام ہیں جہاں عورتیں اپنی عزت اور وقار کے ساتھ کام کر کے اچھی آمدنی حاصل کر سکتی ہیں۔ منتہا کو شروع میں بہت شرم آئی، مگر حالات نے اسے مجبور کیا کہ وہ اس راستے پر قدم بڑھائے۔
اس نے ہمت جمع کی اور ان خواتین کے ساتھ رابطہ کیا۔ وہاں اسے بتایا گیا کہ کام شرعی دائرے میں ہے اور کوئی گناہ نہیں۔ منتہا نے دل مضبوط کر کے کام شروع کر دیا۔
شروع میں بچوں کا خیال اور کام کے دباؤ نے اسے تھکایا، مگر جب اسے پہلی تنخواہ ملی تو وہ خوشی سے جھوم اٹھی۔ اس نے سوچا، "اب میں اپنے بچوں کے لیے بہتر زندگی بنا سکوں گی۔"
کچھ مہینوں میں منتہا نے اپنی محنت سے نہ صرف گھر کا گزارا سنبھالا بلکہ بچوں کی تعلیم کا بھی انتظام کیا۔ وہ روز بروز مضبوط ہوتی گئی۔
لیکن سرفراز کی واپسی نے ایک نیا موڑ لیا۔ وہ واپس آیا اور منتہا کو واپس اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔ منتہا نے اپنے بچوں اور اپنی عزت کی خاطر اس سے مقابلہ کیا۔
اس کی کہانی جیت کی داستان بن گئی، جس میں ایک عورت نے ہر مشکل کے خلاف ا
پنی جگہ بنائی۔
سرفراز نے حنا کو طلاق دے دی۔ منتہا کے ساتھ ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔ وہ دونوں اب نماز باجماعت پڑھتے، قرآن کی تلاوت کرتے، اور ایک دوسرے کی عزت کرتے۔
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے:
صبر کبھی ضائع نہیں جاتا
دل سے مانگی گئی دعا ضرور قبول ہوتی ہ
رب سب دیکھتا ہے، اور بہترین وقت پر انصاف کرتا ہے
عورت کی خاموشی کمزوری نہیں، اس کی طاقت ہوتی ہے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
"Shukriya! Apka comment hamaray liye qeemati hai."