Lalachi Shohar Aur Bechari Doctor Biwi
میرا نام نورین ہے، اور میں ایک میڈیکل اسٹوڈنٹ تھی… ایک خواب دیکھنے والی بیٹی… ایک عزت دار باپ کی بیٹی…
میرے والد ایک پرائمری سکول کے ریٹائرڈ استاد تھے۔ ہمارا تعلق ایک چھوٹے سے قصبے سے تھا، مگر میرے خواب بڑے تھے۔ میں ہمیشہ سے ڈاکٹر بننا چاہتی تھی تاکہ اپنے والد کی خدمت کر سکوں، جنہوں نے اپنی پوری زندگی میری تعلیم پر لگا دی تھی۔
میری ایم بی بی ایس کی فائنل ائیر چل رہی تھی جب میرے لیے ایک رشتہ آیا۔ لڑکے کا نام کامران تھا۔ ہینڈسم، پڑھے لکھے ہونے کا دعویٰ کرنے والا، اور سب سے بڑھ کر، بزنس مین۔ میرے والد نے جب سنا کہ لڑکے کا کاروبار ہے تو وہ مان گئے، اور رشتہ طے پا گیا۔
شادی ہوئی… خوابوں کا آغاز… مگر حقیقت بہت مختلف تھی۔
شادی کے فوراً بعد ہی کامران کا رویہ بدل گیا۔ پہلے وہ مجھے کہتا تھا کہ تم اپنی پڑھائی مکمل کرو، میں سپورٹ کروں گا، لیکن اب وہ کہنے لگا:
"ڈاکٹری چھوڑو… اتنی پڑھائی کا کیا فائدہ؟ میں کما رہا ہوں نا!"
میں حیران تھی۔ جب میں نے احتجاج کیا تو اُس نے کہا:
"اگر پڑھائی اتنی عزیز ہے تو اپنے باپ کے گھر چلی جاؤ!"
میرے دل پر چوٹ لگی… وہ شخص جس کے ساتھ میں نے نئی زندگی کی امید جوڑی تھی، وہ میرے خوابوں کا قاتل بن رہا تھا۔
چند مہینوں بعد… لالچ کی انتہا ہو گئی۔
کامران روز میرے والد سے پیسے مانگتا، کبھی کہتا “کار خراب ہے”، کبھی “نیا بزنس شروع کر رہا ہوں”، اور میرے سادہ لوح والد بیٹی کی خوشی کے لیے خاموشی سے دے دیتے۔ مگر یہ سلسلہ رکا نہیں، بڑھتا گیا۔
ایک دن میں نے سچائی جاننے کے لیے اُس کا فون چیک کیا، تو مجھے وہ پیغامات ملے جو دل کو چیر گئے۔ وہ ایک اور لڑکی سے رابطے میں تھا… اور میرے بارے میں کہہ رہا تھا:
"اس سے تو بس پیسے نکالنے ہیں، پڑھاکو لڑکی ہے، دماغ خراب ہے اس کا۔"
میری دنیا اندھیر ہو گئی۔ میں نے خاموشی سے وہ اسکرین شاٹس لیے اور اپنے والد کو دکھائے۔ ابا کی آنکھوں میں آنسو تھے… اور اُنہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا:
- "بیٹی… تم اب واپس آ جاؤ… تمہارا خواب ابھی باقی ہے۔"
میں نے فیصلہ کیا…
میں نے کامران سے طلاق لے لی۔ اُس کا اصل چہرہ سب کے سامنے آیا۔ اور میں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ آج میں ڈاکٹر نورین ہوں، ایک گورنمنٹ ہسپتال میں کام کر رہی ہوں، اور غریب مریضوں کا مفت علاج کرتی ہوں۔
کامران…؟
وہ اب شہر کے ایک سستے بازار میں ایک پرانی دکان چلاتا ہے… اور سنا ہے کہ کئی دھوکے دے کر بدنام ہو چکا ہے۔
لیکن زندگی نے ابھی اس کے صبر کا مکمل امتحان لینا باقی رکھا تھا۔ جب اس نے میڈیکل کی تعلیم مکمل کی، تب اس کا شوہر، جو پہلے ہی اس کی کامیابیوں سے جل رہا تھا، اسے نوکری کرنے سے روکنے لگا۔
"اب ڈاکٹر بن گئی ہو، کیا اب تم مجھے حکم دو گی؟" اس نے ایک دن غصے میں آ کر کہا۔
"نہیں، میں صرف اپنی تعلیم کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہتی۔ میں نے دن رات محنت کی ہے، صرف اس لیے نہیں کہ تم مجھ پر شک کرو۔"
اس نے اپنے شوہر کے ہر طعنہ، ہر روک کو صبر سے برداشت کیا، مگر اب بات اس کے وقار پر آ گئی تھی۔ ایک دن وہ ہسپتال میں نوکری کے لیے انٹرویو دے آئی — اور قبول بھی ہو گئی۔
جب اسے پہلا دن کام پر جانا تھا، اس کا شوہر دروازے پر کھڑا ہو گیا:
"اگر تم باہر نکلی، تو سمجھو میرا تم سے کوئی تعلق نہیں!"
اس نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا:
"پھر بہتر یہی ہے کہ تمہارا یہ تعلق آج ہی ختم ہو جائے، کیونکہ میں اپنی خودی کو قربان نہیں کر سکتی۔"
اس دن وہ صرف اسپتال نہیں گئی، بلکہ اپنی زندگی کی نئی شروعات کے لیے نکلی۔ وہ دن رات مریضوں کی خدمت میں لگی رہتی، اور ہر روز، ایک نئی امید، ایک نیا عزم لے کر لوٹتی۔
وقت گزرتا گیا۔ ایک دن اس کا شوہر، جو اب تنہائی اور مایوسی کی زندگی گزار رہا تھا، اس کے کلینک کے دروازے پر کھڑا تھا۔ وہ بیمار تھا، کمزور ہو چکا تھا۔
"میں نے تمہیں صرف روکا نہیں، تمہارا حق بھی چھینا۔ مگر آج میں تم سے ایک موقع مانگنے آیا ہوں۔"
وہ چند لمحے خاموش رہی، پھر بولی:
"میں نے تمہیں معاف کیا، کیونکہ میرے رب نے مجھے طاقت دی، اور میں اب کمزور نہیں ہوں۔ مگر یہ زندگی جو میں نے بنائی ہے، وہ صرف میری ہے، اور میں اسے دوبارہ کسی کی خودغرضی کی نذر نہیں کر سکتی۔"
اس دن اس نے اپنے ماضی کو مکمل طور پر پیچھے چھوڑ دیا۔ اب وہ نہ صرف ایک کامیاب ڈاکٹر تھی بلکہ بہت سی عورتوں کے لیے امید کی کرن بھی۔
ندا کی آنکھوں میں آنسو تھے، پر اس کی آواز میں اب ہچکچاہٹ نہیں تھی۔ وہ اسپتال کی ایمرجنسی ڈیوٹی سے واپس آ چکی تھی، تھکی ہوئی، پر دل میں ایک نیا حوصلہ لیے۔
عدیل حسبِ معمول گھر پر نہیں تھا، اور جب آیا تو اس کے ہاتھ میں کچھ شاپنگ بیگز تھے، جو اس نے اپنی بہن کو تحفے میں دینے کے لیے لیے تھے۔ماہین نے اس بار خاموش رہنے کی بجائے اس سے پوچھ ہی لیا:
"کامران، یہ سب کچھ میرے پیسوں سے خریدا ہے؟"
کامران نے لاپرواہی سے کہا، "تو؟ بیوی ہو تم میری، تمھارا سب کچھ میرا ہے۔"
ندا نے گہری سانس لی، آنکھوں کے آنسو پونچھے، اور پہلی بار مضبوط لہجے میں بولی، "میرا سب کچھ میرا ہے، اور اب سے تمھیں اس میں سے کچھ نہیں ملے گا، کیونکہ میں تمھارا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔"کامران ہنسا، "کیا کرو گی؟ طلاق لو گی؟"
ندا نے کہا، "نہیں، طلاق نہیں، خود کو آزاد کروں گی، تمھارے بغیر جینا سیکھوں گی۔"
اس رات ندا نے خاموشی سے اپنے تمام ضروری کاغذات، ڈاکٹری سرٹیفیکیٹس، بینک اسٹیٹمنٹس، اور کپڑے ایک بیگ میں رکھے، اور اگلے دن اسپتال کے ایک ہوسٹل میں شفٹ ہو گئی۔
وہ جانتی تھی کہ یہ راستہ آسان نہیں، پر وہ خود اپنے لیے جینا چاہتی تھی، اپنے خوابوں کو حقیقت بنتے دیکھنا چاہتی تھی، بغیر کسی لالچی سائے کے۔
چند ماہ میں اس نے ایک بہترین اسپتال میں ریذیڈنسی حاصل کی، اور اپنے لیے ایک چھوٹا سا فلیٹ لے لیا۔ اس کی محنت، اخلاص اور پیشہ ورانہ مہارت نے اسے عزت بھی دلائی اور سکون بھی۔
کامران کو جلد ہی احساس ہوا کہ اس کی کمائی کا ذریعہ اب اس کی بیوی نہیں رہی۔ اس کی بہنیں بھی اب اس کی طرف دیکھنا چھوڑ چکی تھیں۔ اس کی دنیا سکڑنے لگی، اور ندا کی دنیا روشن ہونے لگی۔
ماہین کی زندگی اب ایک بھنور میں پھنسی ہوئی کشتی کی مانند ہو چکی تھی، جس کا ناخدا وہ خود تھی۔ وہ دن بھر اسپتال میں اپنی ڈیوٹی کرتی، مریضوں کی خدمت کرتی، اور شام کو گھر جا کر اپنے شوہر تیمور کی سخت زبان اور لالچی رویے کا سامنا کرتی۔ تیمور ہر روز نئی ڈیمانڈ لے کر آتا، کبھی کہتا نیا فون لے کر دو، کبھی کہتا میری گاڑی اپ گریڈ کرو، اور اگر ماہین انکار کرتی تو وہ کئی کئی دن اس سے بات نہ کرتا۔
ایک دن تیمور نے حد ہی کر دی۔ وہ ماہین کے سامنے بیٹھ کر بولا:
"اگر تم مجھے نئی گاڑی لے کر نہ دو تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا!"
یہ سن کر ماہین کے دل کی دنیا ہل کر رہ گئی۔ وہ رو پڑی، لیکن کامران کا دل نہ پسیجا۔ وہ اُٹھا اور گھر سے چلا گیا۔
اسی رات ماہین نے فیصلہ کر لیا۔ وہ اب مزید یہ زہر برداشت نہیں کرے گی۔ اس نے اپنے والدین کو سب کچھ بتا دیا۔ اگلے دن وہ خلع کے لیے عدالت گئی۔
چند مہینے بعد، جب خلع کا فیصلہ ہو گیا، تو کامران ایک برباد انسان بن چکا تھا۔ جو شخص کسی کا سچا ساتھ نہ دے سکا، وہ کسی کا نہ رہا۔ قرضوں میں ڈوبا، وہ شہر چھوڑ کر کہیں گم ہو گیا۔
دوسری طرف ماہین نے خود کو سنبھالا، اپنے خوابوں کو دوبارہ جیا۔ اس نے ایک مشہور ہسپتال میں نوکری حاصل کی، اور جلد ہی اسے ایک سچے اور ایماندار انسان کا ساتھ نصیب ہوا۔ اس نے دوبارہ شادی کی، لیکن اس بار محبت اور عزت کی بنیاد پر۔
اب ماہین نہ صرف ایک کامیاب ڈاکٹر ہے بلکہ ایک خوشحال زندگی گزار رہی ہے۔ اس کی زندگی اس بات کی مثال بن گئی کہ عورت اگر چاہے تو ظلم کے خلاف آواز اٹھا کر اپنی دنیا بدل سکتی ہے۔
- یہ تھی ایک میڈیکل اسٹوڈنٹ کی جیت کی داستان، جس نے سچائی، حوصلے اور خوداعتمادی سے اپنی تقدیر خود لکھی۔
ندا نے ایک دن اپنے اسپتال کی کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا:
"عورت اگر چاہے تو صرف سہاگن نہیں، سپاہی بھی بن سکتی ہے۔ اگر سسرال زخم دے، تو وہ مرہم بھی خود بن سکتی ہے۔ میں نے جینا سیکھا، اپنے لیے، اپنے خوابوں کے لیے۔"
کہانی ختم نہیں ہوئی تھی، بلکہ یہ ندا کی نئی زندگی کا آغاز تھا۔ اور یہی اصل جیت تھی۔
<h3>مزید پڑھیں:</h3>
<ul>
<li><a href="https://www.umairkahaniblog.uk/2025/09/noshin-ki-kahani-6-saal-baad-allah-ne.html">نوشین کی کہانی – 6 سال بعد اللہ نے</a></li>
<li><a href="https://www.umairkahaniblog.uk/2025/08/mohabbat-ka-woh-khat-jo-kabhi-post-na.html">محبت کا وہ خط جو کبھی پوسٹ نہ ہوا</a></li>
<li><a href="https://www.umairkahaniblog.uk/2025/07/mohabbat-mein-dhokay-ki-dardnaak-kahani.html">محبت میں دھوکے کی دردناک کہانی</a></li>
</ul>

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
"Shukriya! Apka comment hamaray liye qeemati hai."