"اداکارہ کی جذباتی کہانی،
بھائی شکریہ، میں خود چلی جاؤنگی۔“ اس نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
باتیں نہ بناؤ و یسے بھی آدھا دن گزر چکا ہے۔ کہاں پھر وگی ۔ میں آپ کو دوسرے راستے
پر لے جا کر دور چھوڑ آؤنگا۔“ گر
مگر وگر چھوڑ و ... آؤ
وقت کو دیکھ کر اسے شاہکار کی بات ماننی پڑی۔ اچھے سے چادر اوڑھ کر وہ اس کے ساتھ
بائیک پر بیٹھ گئی۔ واقعی میلے میں کافی رونق تھی۔ وہاں سے کچھ دور ہی اس نے چادرا تار کر تھیلے
میں رکھ دی اور کمائی پر لگ گئی۔
بہت تیزی سے پوشیدہ تھیلا پیسوں کے مڑے تڑے نوٹوں سے بھر نے لگا تو اس کا دل خوشی کے مارے اچھلنے لگا۔ شام کے سائے پھیلنے لگے تو اس نے واپسی کا راستہ لیا۔ دو تین بار پولیس نے روکنے اور تلاشی لینے کی کوشش کی مگر وہ مالک کا بلیو پاس انہیں دکھاتی تو وہ لوگ کمپنی ہنسی نہیں کر پیچھے ہٹ جاتے۔ وہ جانتی تھی مالک شہر کا سرگرم مافیا ہے اور پولیس کو ہر ماہ اچھی خاصی رقم بطور نوالا ملتی ہے۔ اس کا بلیو پاس نہ صرف اس کی پولیس سے حفاظت کرتی ہے بلکہ شہر کے غنڈوں سے
بھی اس کو بچاتی ہے۔۔ بے خبر ہے تو صرف معصوم شہری۔ مالک سے کہنا کبھی محفل میں ہمیں بھی دعوت دینا ایک پولیس والے نے پیچھے سے
آواز لگائی مگر وہ ا سی کر کے آگے بڑھی۔ صبح کی نکلی شام کا اندھیرا گہرا ہونے کو تھا۔ پیٹ نے مزید برداشت کرنے سے انکار کیا تو وہ
ایک سموسے کے ٹھیلے کی طرف بڑھ گئی۔
بھائی! صبح کی بھوکی ہوں اللہ کے نام پر ایک سموسہ کھلا دے۔ اللہ مال و عیال میں برکت ڈال دے۔“
سموسے والے نے ایک اچٹتی نظر اس پر ڈال دی اور اخبار کے ایک ٹکڑے پر سموسہ رکھ کر اس کے سامنے رکھ دیا۔
”اوئے جمال چاچا اتنی ہٹی کٹی لڑکی اور ایک سموسہ۔ آپ دوسمو سے اور دیں، پے منٹ میں کر دیتا ہوں ۔
یہ ایک جانی پہچانی آواز تھی۔ رمشا کا ہاتھ لرزا اور ڈرتے ڈرتے آواز کی طرف دیکھا۔ اور ڈر کبھی کبھار بیچ بھی ہوتا ہے یہ باسط تھا اپنے چار دوستوں کے ساتھ مگر باسط اور میلے پر اس کا تو کوئی پروجیکٹ تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا۔ واہ یار اتنی فراخ دلی۔ باسط، کچھ دوستوں پر بھی نظر کرم کر لیا کرونا ۔ ایک لڑکے نے باسط کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ تم بھی نا نعمان۔ کل ہی تو اتنا بڑھیا پنچ کر وایا تھا۔ دوسرے لڑکے نے ہنس کر نعمان کوٹو کا۔ ارے نہ لڑو آپس میں۔ جتنے سموسے کھانے ہیں کھاؤ ۔ باسط نے شان بے نیازی سے کہا۔ واقعی جیسا
واقعی سچا اور کھر ادوست ہے باسط
سب لڑکے اسے سراہنے لگے۔
ہوگا۔
جمال
پاچا، پہلے اس فقیرنی کو دو اور سمو سے دوسرا
جی اچھا باسط با بو
فقیر
میں سے اسے گھر جانا
رمشا ہنس پڑی۔ ہاں وہ فقیرنی ہی تو تھی ۔ چہرے پر کالا میک اپ، ناک میں لوہے کا زنگ آلود لونگ، پاؤں میں گندے ٹوٹے جوتے، ایک پھٹا پرانا بد بودار گھیر دار فراک، بالوں کی عجیب شکل میں چوٹیاں۔ وہ فقیر نی تو نہیں ادا کارہ تھی۔ بس سارا دن فقیرنی کی اداکاری کرتی۔ لوگوں کو جھوٹی دعائیں دیتیں ۔ بھوک کا واویلا کرتی۔ بیماریوں کا رونا روتی ۔ جوانوں کی منتیں کرتی۔ بچوں کے سروں پر ہاتھ رکھ کر ان کی والدین کو التجا بھری نگاہوں سے دیکھتی ۔ وہ بس ایسی اداکارہ تھی۔
رمشا کو یہ جان کر جھٹکا لگا تھا کہ دس دس اور ہیں ہیں روپے جو وہ ہاتھ پھیلا پھیلا کر مانگتی تھی وہ کن پروجیکٹوں پر خرچ کیا جا رہا تھا۔ مگر جیسا کہ وہ اداکارہ تھی سو وہ جذبات چھپا گئی اور ویسے بھی وہ پہچانی نہیں جارہی تھی۔ ” جمال چاچا کتنے ہوئے؟“ باسط با بو، پانچ سوروپے“
بڑھا دیا۔ دوست ہو تو باسط جیسا۔“ واقعی یاروں کا یار ہے باسط اور باسط کا سینہ خوشی سے پھولا جا رہا تھا۔ اس سے ۔ یہ لو جمال چاچا، پانچ سوس ے خبر کہ پاس کھڑی فقیر نی آنسو بہانا شروع کر چکی ہے تا کہ مزید بوجھ اٹھانے کے لیے دل تیار رہے۔ رمشا نے ایک رکشے کو اشارہ کیا اور مالک کے بنگے کا پتا سجھا دیا۔ اسے جلدی سے اپنا چالیس فیصد لے کر گھر جانا تھا اور ہاں راستے میں باسط کے لیے بریانی بھی لینی تھی۔ ج کی دن
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
"Shukriya! Apka comment hamaray liye qeemati hai."