Mohabbat Mein Dhokay Ki Dardnaak Kahani | Heart Touching Urdu Story"

رابیعہ نے جھاڑو دی، کچرا سمیٹا، اور کمر کے درد کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک نظر باورچی خانے کی طرف ڈالی۔ چولہا بند پڑا تھا، برتن دھلے نہیں تھے، اور فریج خالی۔ اُس نے آہستہ سے سانس لی، جیسے اپنے ہی اندر کے شور کو چپ کروانے کی کوشش کر رہی ہو۔

گھر میں سکوت تھا، لیکن وہ سکوت کسی امن کی علامت نہیں، بلکہ غربت کی گونگی چیخ تھی۔ بچپن سے لے کر شادی تک، اور پھر شادی کے بعد بھی، رابیعہ کی زندگی نے کبھی خوشی کا لمبا وقفہ نہیں دیکھا تھا۔ کبھی باپ کے بیمار ہونے کی وجہ سے اسکول چھوٹا، تو کبھی ماں کے کندھوں پر محنت کے بوجھ کو بانٹنے کے لیے کام پر جانا پڑا۔

شادی ہوئی تو دل میں ایک دبی دبی سی امید تھی، کہ شاید اب قسمت مہربان ہو جائے۔ لیکن زاہد… اس کا شوہر… ایک مزدور، جو دن بھر اینٹیں ڈھوتا، شام کو سارا بوجھ رابیعہ پر ڈال دیتا۔ نہ محبت، نہ لحاظ۔ صرف ذمہ داری، وہ بھی بےرخی کے ساتھ۔

آج بھی وہ صبح سات بجے گھر سے نکل گیا تھا۔ رات کو آٹھ بجے لوٹے گا۔ جوتے کی آواز دروازے پر گونجے گی، دروازہ کھلے گا، وہ اندر آئے گا، اور خاموشی سے چارپائی پر بیٹھ جائے گا۔ بات تب ہی کرے گا جب رابیعہ پانی دیر سے دے، یا کھانے میں نمک کم ہو۔ بس۔

لیکن آج رابیعہ کا دل کچھ بوجھل تھا۔ آج وہ عام دنوں سے زیادہ تھکی ہوئی تھی۔ اور وجہ تھی اُس کی بیٹی "ماہم"… جو پچھلے تین دن سے بخار میں جل رہی تھی۔


ماہم صرف چار سال کی تھی۔ اس

 کی آنکھیں ہر وقت کچھ پوچھتی

 رہتی تھیں، جیسے اسے کچھ سمجھ

 نہیں آتا کہ دنیا اتنی سخت کیوں

 ہے۔ ماہم نے پچھلے چوبیس گھنٹوں

 میں صرف آدھا پراٹھا کھایا تھا اور

 دو گھونٹ پانی۔ دوا کے لیے پیسے

 نہیں تھے، اور گلی کی دائی صرف

 دم کر کے چلی گئی تھی۔رابیعہ نے

 ماہم کے ماتھے پر گیلا کپڑا رکھا،

 اور دل ہی دل میں دعائیں مانگنے

 لگی۔"یا اللہ… میرے بچے پر رحم

 فرما… میرے شوہر کو عقل دے، 

میرے گھر میں برکت دے… میں 

تو اب تھک گئی ہوں یا رب

دروازہ کھلا۔ زاہد آیا، اور آتے ہی

 چارپائی پر بیٹھ گیا۔کیا کھانے

 کو ہے؟" اس نے خشک لہجے میں

 پوچھا۔رابیعہ نے خاموشی سے

 چولہا جلایا۔ آٹے کی ایک چھوٹی

 سی گیند بچی تھی، وہی گوندھی

، اور آدھی پیاز کے ساتھ بھون کر

 ایک سوکھی سی روٹی تیار کی۔

"یہی ہے؟" زاہد نے ناگواری سے

 دیکھا۔ "آٹا ختم ہو گیا ہے، آج

 دکان دار نے ادھار دینے سے انکار

 کر دیا۔زاہد نے کوئی جواب نہ 

دیا۔ صرف روٹی کھا کر پانی

 پیا اور لیٹ گیا۔رات کو جب سب

 سو گئے، رابیعہ کی آنکھیں نیند

 سے دور تھیں۔ ماہم کے سینے

 کی گھڑگھڑاہٹ سن کر دل دہلتا

 تھا۔ اس نے بار بار سوچا، کسی

 سے مانگ لوں، لیکن پھر خودداری

 آڑے آتی۔صبح سویرے دروازے 

پر دستک ہوئی۔ پڑوسن زینب کھڑی

 تھی۔"رابیعہ، میری نند کے ہاں صفائی

 کا کام ہے۔ صرف دو دن کے لیے،

 تین سو روپے روز کے۔ تو چلی جا

 سکتی ہے کیا؟"


رابیعہ نے ہچکچاتے ہوئے ماہم کی 

طرف دیکھا، پھر ہاں کر دی۔ دل 

کٹ رہا تھا کہ بیٹی بیمار ہے، مگر 

گھر میں دانے دانے کو ترس گئے ہیں۔

زینب کے ساتھ جاتے وقت اُس نے 

ماہم کو زاہد کے سپرد کیا۔ وہ شاید 

نیند میں تھا یا جاگ رہا تھا، پر بولا

 کچھ نہیں۔زینب کی نند کا گھر پکا 

تھا، صاف تھا، خوشبو سے بھرا ہوا۔ 

رابیعہ نے آدھے دن میں کمر توڑ کام 

کیا۔ جب ہاتھ مزدوری کے تین سو

 روپے تھمائے گئے، تو اُس کی آنکھوں

 میں آنسو آ گئے۔ واپسی پر جب گھر

 پہنچی، تو ماہم کا بخار بڑھ چکا 

تھا۔ زاہد غصے سے چیخ رہا تھا۔

"یہ بچی سارا دن روئی ہے! میں 

کام پر گیا ہوتا تو بہتر تھا!رابیعہ

 نے کچھ نہ کہا۔ دوا کی پرچی 

ہاتھ میں تھی، لیکن پیسہ صرف

 ایک دن کا تھا۔ دوا آدھی آئے گی

، دودھ لینا ممکن نہیں

زاہد نے پیسے گنے اور سگریٹ 

خریدنے باہر نکل گیا۔وہ لمحہ

 رابیعہ کو ہمیشہ یاد رہے گا۔ کہ

 اُس کی بیٹی بخار میں تپ رہی

 تھی، اور اس کا باپ سگریٹ 

کے لیے پیسے لے گیا۔ ماہم کی

 حالت اب بگڑنے لگی تھی۔

 سانسیں تیز ہو گئیں، جسم

 کانپنے لگا۔ رابیعہ نے اُسے گود

 میں لیا، دروازہ کھولا، اور

 بھاگتی ہوئی قریبی کلینک کی

 طرف دوڑی۔

کلینک پر لمبی لائن تھی۔ ڈاکٹر نے باہر سے دیکھا، "پیسہ ہے؟"

"تھوڑا ہے، دوا پوری نہیں آ پائے گی…" رابیعہ کی آواز لرز رہی تھی۔

ڈاکٹر نے سرد لہجے میں کہا، "تو انتظار کرو۔ جن کے پاس مکمل فیس ہے، پہلے وہی آئیں گے۔"

رابیعہ کی گود میں ماہم کراہ رہی تھی۔ اُس نے خاموشی سے بنچ پر بیٹھ کر انتظار کیا، اور دعائیں مانگتی رہی۔ کچھ دیر بعد، کسی عورت نے اُس کے ہاتھ پر پچاس روپے رکھ دیے۔

"یہ دوا کے لیے لے لو۔ مجھے اللہ نے دیا ہے، تمہیں دے رہی ہوں۔"

رابیعہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

جب دوا ملی، اور ماہم کو پلائی گئی، تو اُس کی آنکھوں میں تھوڑی سی روشنی واپس آ گئی۔

رات کو رابیعہ نے بیٹی کو سینے سے لگایا۔ دل میں کچھ ٹوٹا بھی تھا، اور کچھ جڑا بھی۔

یہی تو زندگی ہے… کبھی روٹھتی، کبھی جوڑتی… اور ایک ماں ہمیشہ سب سہتی ہے، خاموشی سے۔

ہوا بہت نرم اور ٹھنڈی تھی لیکن اس میں وہ خاموشی تھی جو طوفان سے پہلے ہوتی ہے وہ اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑا تھا نیچے گلی بالکل سنسان تھی لائٹ کی زرد روشنی اینٹوں کی دیوار پر ایک چھوٹے سے دائرے کی طرح پڑ رہی تھی وہ کچھ دیر یونہی کھڑا رہا پھر ایک لمبی سانس لے کر پلٹا اور بیڈ پر بیٹھ گیا اس کی آنکھوں میں نیند بالکل نہیں تھی جیسے کوئی ان دیکھی بے چینی اسے جگائے بیٹھی ہو اس نے فون اٹھایا لیکن اسکرین خالی تھی کوئی پیغام نہیں کوئی کال نہیں شاید اس کو کسی کی کال کا انتظار تھا لیکن وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ کس کی پھر اس نے فون بند کیا اور تکیے پر سر رکھ دیا مگر آنکھیں بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں وہ خاموشی سے چھت کو دیکھتا رہا جیسے وہ اس سے کچھ کہنا چاہتا ہو یا اس کی کوئی بات سننا چاہتی ہو باہر دور کہیں کتا بھونکا اور پھر مکمل خاموشی چھا گئی وہ اٹھا پانی پیا اور دوبارہ بیڈ پر آ کر بیٹھ گیا کمرے میں روشنی مدھم تھی جیسے روشنی بھی تھک گئی ہو اور اب آرام چاہتی ہو

وقت سست روی سے گزرتا رہا اور اچانک اس کے ذہن میں وہ منظر لوٹ آیا جب وہ پہلی بار ملی تھی ایک عجیب سا دن تھا نہ بارش تھی نہ دھوپ تھی نہ ہی کوئی خاص لمحہ لیکن اس کی آنکھوں کی چمک نے سب کچھ خاص بنا دیا تھا وہ ایک لائبریری میں ملی تھی کتاب ہاتھ میں تھی لیکن نظریں اس پر نہیں اس کے چہرے پر تھیں وہ مسکرائی تھی بس ایک لمحے کے لیے لیکن وہ لمحہ اس کی یادوں میں ہمیشہ کے لیے رک گیا تھا وہ تب سے آج تک بہت کچھ بھول چکا تھا لیکن وہ مسکراہٹ نہیں اس کا انداز نہیں وہ لمحہ نہیں پھر جانے کیسے وہ رستے جدا ہو گئے باتیں کم ہوتی گئیں اور خاموشیاں بڑھتی گئیں

آج بھی اسے وہ خاموشی یاد تھی جو آخری ملاقات کے وقت اس کے اور اس کے بیچ تھی جیسے دونوں کچھ کہنا چاہتے ہوں مگر الفاظ راستہ بھول گئے ہوں اس نے آج تک اس کی آنکھوں میں وہ سوال دیکھا تھا جو کبھی زبان پر نہیں آیا اور وہ خود بھی شاید اتنا بہادر نہیں تھا کہ ان سوالات کا سامنا کرتا یا خود کچھ کہہ پاتا اس کا دل چاہا وہ پھر سے وقت کو پیچھے لے جائے اس لمحے تک جب وہ پہلی بار ملی تھی لیکن وقت پتھروں کی طرح سخت ہوتا ہے اور احساسات ریت کی طرح نرم وہی ہوا اس کے ساتھ بھی وہ لمحے ہاتھوں سے پھسلتے گئے اور اس کی مٹھی خالی رہ گئی

رات کے دو بج رہے تھے اور کمرے میں ایک سانس کی آواز تھی باقی سب خاموش تھا وہ اٹھا اور کھڑکی کھولی باہر آسمان پر بادل چھا چکے تھے جیسے کوئی راز چھپانے آیا ہو ہوا تھوڑی تیز ہو چکی تھی اور گلی میں ایک پتا بھی ہلنے کی آواز دے رہا تھا اس نے ایک بار پھر فون دیکھا پھر بند کر دیا اور لمبی سانس لی دل چاہا چیخے روئے کچھ تو کرے لیکن وہ بس چپ رہا جیسے کسی نے اس کی آواز چھین لی ہو

پھر اچانک فون بجا وہ چونک گیا اسکرین پر اس کا نام تھا دل ایک دم سے دھڑکا اس نے کال ریسیو کی دوسری طرف سے بس خاموشی تھی پھر ایک نرم آواز آئی کیا تم جاگ رہے ہو اس نے کہا ہاں تم کیسی ہو وہ بولی پتہ نہیں شاید تمہاری یاد آئی ہے اس نے آنکھیں بند کر لیں اور بولا مجھے بھی تمہاری یاد آئی ہے وہ بولی باہر بارش ہونے والی ہے مجھے تمہارے ساتھ وہ پہلی بارش یاد آ رہی ہے جب ہم بھیگتے ہوئے دیر تک چلتے رہے تھے اور کسی کو پرواہ نہیں تھی وہ بولا ہاں وہ دن یاد ہے وہ لمحہ یاد ہے جب تم نے کہا تھا کہ کچھ لمحے ہمیشہ کے لیے ہوتے ہیں اور وہ لمحہ واقعی ہمیشہ کے لیے ہو گیا

فون پر خاموشی چھا گئی جیسے دونوں الفاظ کے بغیر سب کچھ کہہ رہے ہوں وہ بولی تم سو نہیں رہے اس نے کہا نیند نہیں آ رہی وہ بولی کچھ بات کریں اس نے کہا کرو وہ بولی تم نے آج رات کھانا کھایا اس نے ہنس کر کہا بس چائے پی ہے تم نے وہ بولی میرے لیے بھی چائے رکھو اس نے کہا رکھ لی پھر اس نے آنکھیں بند کر لیں اور دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ کچھ خاموشیاں کبھی کبھی بول اٹھتی ہیں

کال بہت دیر تک چلتی رہی پھر اچانک وہ بولی میں کچھ کہنا چاہتی ہوں اس نے کہا بولو وہ بولی اگر ہم پھر سے ایک نیا آغاز کریں تو کیسا ہو وہ چونکا لیکن خاموش رہا وہ بولی اگر سب کچھ پیچھے چھوڑ کر صرف آج سے جینا شروع کریں تم اور میں صرف ہم دونوں تو کیا ممکن ہے اس نے کہا ہاں ممکن ہے اگر تم دل سے چاہو تو وہ بولی دل تو آج بھی وہیں ہے جہاں چھوڑا تھا تم نے اس نے کہا تو پھر آ جاؤ وہ بولی آ رہی ہوں

اور پھر واقعی وہ اگلے دن ملنے آئی بارش ہو رہی تھی اور اس کے ہاتھ میں چائے کا کپ تھا اور ایک پرانی کتاب وہ بالکل ویسی ہی تھی جیسی پہلی بار ملی تھی نہ وقت نے اسے بدلا نہ فاصلے نے کمزور کیا وہ پہلے سے زیادہ مضبوط لگ رہی تھی لیکن آنکھوں میں وہی چمک تھی وہی سوال وہی امید اور جب وہ آ کر خاموشی سے سامنے بیٹھی تو لگا جیسے وقت رک گیا ہو جیسے بارش صرف ان کے لیے ہو رہی ہو جیسے دنیا ایک لمحے کے لیے ان دونوں کی کہانی سننے رک گئی ہو اس نے کہا کافی وقت ہو گیا وہ بولی ہاں لیکن شاید یہ ہی وقت ہمیں دوبارہ جوڑنے کے لیے ضروری تھا اس نے کہا اب خاموش نہیں رہوں گا وہ بولی اور میں اب کبھی دور نہیں جاؤں گی

بارش گرتی رہی لیکن اب وہ تنہا نہیں تھے خاموشی ان کے بیچ نہیں ان کے گرد تھی جو ان کے سکون کا پہرہ دے رہی تھی وہ دونوں وہیں بیٹھے رہے پرانی باتیں کرتے رہے پرانے زخم دکھاتے رہے اور ان پر مرہم رکھتے رہے وقت گزرتا گیا اور دلوں میں جو خلا تھا وہ دھیرے دھیرے بھرنے لگا وہ ایک بار پھر جینے لگے ایک بار پھر ہنسنے لگے ایک بار پھر بارش کو محسوس کرنے لگے جیسے سب کچھ نیا ہو جیسے سب کچھ مکمل ہو

صبح کے وقت ندا کی آنکھ کھلی تو اُس کا دل عجیب سی بے چینی سے بھرا ہوا تھا۔ رات جو کچھ ہوا تھا، وہ خواب تھا یا حقیقت، وہ خود بھی ٹھیک سے سمجھ نہیں پائی تھی۔ سلیم کا رویہ، اُس کی باتیں، اور ندا کے دل میں اُٹھتی ہلچل – یہ سب اُسے چین لینے نہیں دے رہے تھے۔ اُس نے بستر سے اُٹھتے ہی کھڑکی سے باہر جھانکا، آسمان پر ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے اور ہوا میں نمی سی تھی، جیسے بارش ہونے والی ہو۔ لیکن اُس کا دل پہلے ہی بھیگ چکا تھا۔

ندا نے آئینے میں خود کو دیکھا۔ اُس کی آنکھوں کے نیچے ہلکی سوجن تھی۔ اُس نے خود سے پوچھا، ’’میں اتنی کمزور کیوں ہو گئی ہوں؟ میں تو کبھی ایسے نہ تھی۔‘‘

لیکن پھر اُسے یاد آیا کہ کمزوری صرف جسم کی نہیں ہوتی، دل اور جذبات بھی کمزور ہو جاتے ہیں جب بار بار توڑے جائیں۔ وہ اپنے دل کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی، لیکن سلیم کی باتوں نے سب کچھ اُلجھا کر رکھ دیا تھا۔

ناشتہ کرنے کے بعد ندا نے اپنی والدہ کے ساتھ بیٹھ کر تھوڑا سا وقت گزارا، مگر اُس کا دل کہیں اور تھا۔ اُسے بار بار کل کی رات کا لمحہ یاد آ رہا تھا جب سلیم نے کہا تھا، ’’ندا، میں تمہیں بھول نہیں پایا۔‘‘

یہ ایک سادہ سی بات تھی، مگر اُس کے اثرات بہت گہرے تھے۔

شام کے وقت اُس نے اپنی سہیلی فرح کو کال کی، ’’مجھے تم سے ملنا ہے۔‘‘

فرح ندا کی پرانی دوست تھی، جو ہمیشہ اُس کا ساتھ دیتی تھی۔ دونوں ایک کیفے میں ملیں۔

ندا نے ساری بات کھول کر بیان کی، سلیم کا اچانک سامنے آنا، اُس کی باتیں، اور ندا کا بکھرا ہوا دل۔

فرح نے سنجیدگی سے کہا، ’’ندا، اگر تم واقعی اُس سے محبت کرتی ہو، تو تمہیں خود سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ تمہیں کیا چاہیے۔ تمہارا دل کیا کہتا ہے؟‘‘

ندا خاموش رہی۔ اُسے خود بھی نہیں معلوم تھا کہ اُسے کیا چاہیے۔ شاید وہ سلیم کو معاف کرنا چاہتی تھی، شاید وہ اُسے پھر سے قریب لانا چاہتی تھی، لیکن اُس کے دل کا ایک کونا اب بھی زخمی تھا۔

اُدھر دوسری طرف:

سلیم اپنے کمرے میں تنہا بیٹھا ہوا تھا۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے ندا کا چہرہ بار بار آ رہا تھا۔ اُس نے ہاتھ میں پکڑی سگریٹ کو بجھا دیا اور کھڑکی کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔

’’میں نے اُس کے ساتھ زیادتی کی،‘‘ وہ خود سے کہہ رہا تھا، ’’لیکن میں اُسے کھونا نہیں چاہتا۔‘‘

سلیم کو اب احساس ہونے لگا تھا کہ جو وقت وہ ندا سے دُور رہا، وہ اُس کی زندگی کا سب سے خالی اور بے معنی وقت تھا۔ اب وہ ہر لمحہ اُسی کی طرف پلٹنا چاہتا تھا۔

اگلے دن سلیم ندا کے گھر کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا۔ اُس نے صرف ایک جھلک دیکھنے کے لیے گھنٹوں انتظار کیا۔ جب ندا گھر سے نکلی تو اُس کی نظر سلیم پر پڑی، مگر اُس نے نظریں چُرا لیں۔

سلیم نے بس اتنا کہا، ’’ندا، میں اب وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔‘‘

ندا رُکی، اُس نے سلیم کی طرف دیکھا، اُس کی آنکھوں میں خلوص تھا، ندامت تھی، اور ایک ایسی تڑپ تھی جو جھوٹی نہیں ہو سکتی تھی۔

ندا نے آہستگی سے کہا، ’’پھر بھی، وقت سب کچھ نہیں بھلا دیتا سلیم۔‘‘

اور وہ چلی گئی۔

چند دن گزر گئے۔

ندا کے دل میں طوفان اُٹھتے رہے۔ اُس نے سلیم کی باتیں سن کر سب کچھ بھلا دینے کی کوشش کی، لیکن دل نے بار بار اُسے واپس اُسی مقام پر لا کھڑا کیا جہاں وہ ٹوٹ چکی تھی۔

ایک دن سلیم نے اُسے خط لکھا۔

> ندا،

میں ہر لفظ تمہارے نام لکھ رہا ہوں، اس اُمید پر کہ شاید تم پڑھو، شاید تم میرے دل کی گہرائی کو سمجھو۔

میں نے تمہیں کھو کر جانا کہ تم کیا تھیں۔ تم صرف ایک لڑکی نہیں تھیں، تم میری روح کا سکون تھیں، میرا قرار تھیں۔ تمہارا مسکرانا، تمہاری ناراضگی، تمہاری خاموشی، سب کچھ میرے وجود کا حصہ تھا۔ اور جب یہ سب مجھ سے چھن گیا، تب میں جینا بھول گیا۔

میں نے بہت کچھ کھویا، لیکن سب سے قیمتی چیز تم تھیں۔

اگر ایک موقع ہو، صرف ایک لمحہ ہو، تو میں اپنے آپ کو تمہارے سامنے لا کر رکھ دوں گا، تمہارے قدموں میں۔ نہ کوئی غرور، نہ کوئی ضد، نہ کوئی بہانہ۔ صرف سچ، صرف میں، اور صرف تم۔

تمہارا سلیم

ندا نے خط بار بار پڑھا۔ آنکھوں سے بہتے آنسوؤں نے کاغذ کو بھگو دیا۔ اور دل کی دیواروں میں ایک نرم سی جگہ اُبھر آئی۔

کیا ندا اُسے معاف کر دے گی؟

یہ فیصلہ ابھی باقی تھا، لیکن ایک بات طے تھی — محبت آسان نہیں ہوتی، لیکن سچی ہو تو وہ دل کو موم کر ہی دیتی ہے۔

اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، یہ بات آج مجھے جیتے جی سمجھ آئی۔ میرے سات ماہ کے حمل کا خون بے دردی سے ضائع کیا گیا، کیونکہ وہ بیٹی تھی۔ میرے گھر والوں نے میرے اندر کی جان کو کبھی پیارا نہ سمجھا، بلکہ جیسے وہ زہر بھری ہوئی تھی، ویسے ہی مجھے محسوس کیا۔ میں نے ہسپتال سے بھاگ کر ایک جھگی میں پناہ لی، جہاں میرے آنسوؤں میں چھپی کہانی نے نئی زندگی پائی۔ میرے لیے تو بس یہ بیٹی ہی زندگی کی آخری امید تھی، جسے میں نے اپنی محبت سے سینچا، اپنے درد کو چھپایا اور اپنی طاقت بنائی۔

دن گزرتے گئے اور وہ ننھی پری بڑی ہونے لگی۔ میرے دل میں ہر پل خوف تھا کہ کہیں پھر وہی ظلم دوبارہ نہ ہو، لیکن وقت نے ثابت کیا کہ محبت کی طاقت بے مثال ہوتی ہے۔ جب میرے شوہر اور ساس ہمیں ڈھونڈنے آئے، اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے میرے قدموں میں گر کر معافی مانگی، تو میرے دل نے بھی انہیں معاف کر دیا۔ محبت کی وہ رسی جو کبھی ٹوٹنے لگی تھی، اب مضبوط سے مضبوط تر ہو گئی۔ انہوں نے اپنی آنکھوں میں نرمی دکھائی، اور بیٹی کو گود میں لے کر دل سے پیار کیا۔

لیکن زندگی اتنی آسان نہیں تھی۔ گھر لے جاتے ہی شوہر نے تالہ لگا دیا، اور وہی زخم دہرانے لگا جو میری روح کو جلاتا تھا۔ پھر بھی میں نے ہار نہیں مانی۔ میرے دل میں اپنی بیٹی کے لیے ایک نئی امید کی شمع جلائی۔ وہی بیٹی جس نے میرے درد کو سہارا دیا، میرے آنسوؤں کو خوشی میں بدلا۔ ساس کی آنکھوں میں چھپا ہوا زہر اور شوہر کی سختی کے باوجود، میں نے اپنے ایمان کو کبھی متزلزل نہیں ہونے دیا۔

یہ کہانی صرف میرے دکھوں کی نہیں بلکہ ہر اس عورت کی ہے جو اپنے حق کے لیے لڑتی ہے، جو ظلم کے خلاف کھڑی ہوتی ہے، جو محبت کو زندہ رکھتی ہے۔ ہر اس ماں کی ہے جس نے اپنے بچے کے لیے اپنی جان کو قربان کیا، ہر اس بیٹی کی ہے جو اپنے والدین کی محبت کا طلبگار ہے۔

آج میں جانتی ہوں کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے، لیکن وہ ضرور چلتی ہے۔ وہ ظالموں کو سزا دیتی ہے اور مظلوموں کو نصرت دیتی ہے۔ میری کہانی کا اختتام یہ نہیں کہ میں صرف ایک زخمی دل والی عورت ہوں، بلکہ یہ ایک نئی زندگی کی شروعات ہے، ایک نئی امید کی روشنی ہے، جو ہر ظلم کے باوجود جیت کی طرف بڑھتی ہے۔

یہ داستان محبت، قربانی اور صبر کی ہے۔ جہاں سے ہر درد کا علاج نکلتا ہے، جہاں ہر زخم بھر جاتا ہے، اور جہاں محبت اپنی اصل شکل میں زندہ رہتی ہے۔

شجرینہ اور اس کی بیٹی کی یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ ظلم کی گہرائی میں بھی روشنی کی کرن موجود ہوتی ہے۔ ہر ظلم کا انجام ہوتا ہے، ہر زخم کا مرہم ہوتا ہے، اور ہر دکھ کا

 خاتمہ ہوتا ہے۔

آئیے ہم سب مل کر ایسی کہانیاں سنائیں جو دلوں کو چھوئیں، روحوں کو جلا بخشیں اور معاشرے میں محبت، ہمدردی اور انصاف کی فضا قائم کریں۔ کیونکہ محبت ہی وہ طاقت ہے جو دنیا کو بدل سکتی ہے۔



 

تبصرے

New Urdu Stories

ماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانیماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

فاطمہ اور عمران کی موٹر وے پر آخری ملاقات — ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

امتحان کی گزرگاہ: ایک مخلص انسان کی کہانی"