Main Yeh Shadi Nahi Manta - Sad Love Story

 

میں نہیں مانتا اس شادی کو نا اس

 بچے کو کس کا گناہ میرے سر پر 

تھوپ رہی ہو تم بے حیال لڑکی کی

۔ سالار نے سب کے سامنے شرجینہ

 کے کردار پر کیچڑا چھال دیا تھا۔

 سالار اس کی پھپھو کا بیٹا تھا، 

سات سال کی طویل محبت کے بعد

 اس نے شرجینہ کو چوری چھپے

 نکاح پر راضی کیا تھا کیونکہ لمبا 

عرصہ سے دو خاندانوں کے بیچ 

دشمنی چل رہی تھی۔ شرجینہ کو

 اس کی پھپھونے بے دردی سے 

گھسیٹ کر گیٹ سے باہر پھینکا 

تھا۔ وہ اپنا چہرہ چھپا کر وہاں سے

 بھاگی، جیسے ہی بھائی تھی 

سامنے سے آتی گاڑی کی زور دار 

ٹکر سے اڑ کر وہ دور جا گری تھی

۔ تبھی گاڑی سے اتر کر وہ شخص

 تیزی سے اس کی طرف بھاگا تھا۔

سالار حیدر، ولد حیدر اعوان، آپ کا

 نکاح مناہل احمد ولد احمد سے با

 عوض دس لاکھ حق مہر طے پایا۔

 کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟ مولوی

 صاحب نے نکاح کے کلمات ادا کرتے 

ہوئے سالار سے پوچھا۔ رک جاؤ سالار

 حیدر! شرجینہ حال کے پیچ و تاب

 میں کھڑی ہو کر چلائی۔ حال میں

 موجود سب لوگوں کی نظریں اس

 کی طرف ہو گئیں۔ پرچارک جاو 

سالار سیدر مربیہ خان سے دن 

سرور چلائی۔ حال میں موجود سب

 کی نظریں شرجینہ پر تھیں جو

 ٹوٹی بکھری سی لگ رہی تھی۔

 فاریہ بیگم زیر لب بولتیں ہوئیں،

 اس کی طرف بڑھیں اور دبی دبی

 آواز میں چلائیں، "کیا تماشہ لگا رہی

 ہو شرجینہ؟" فاریہ بیگم مہمانوں کا 

خیال کرتے ہوئے بولیں۔ "تماشا میں

 نہیں کر رہی، تماشہ تو آپ کے بیٹے

 نے بنادیا ہے۔" شرجینہ بھرائی ہوئی

 آنکھوں کے ساتھ سٹیج سے اترتے

 ہوئے سالار کو دیکھتے ہوئے بولی، 

"کیا کہہ رہی ہو؟ جاؤ یہاں سے، فل

 حال۔" فاریہ بیگم نے اس کا بازو 

پکڑ کر پیچھے دھکیلا۔ "ایسے کیسے

 چلی جاؤں؟ سالار حیدر تم میری

 جگہ کسی اور کو کیسے دے سکتے

 تھے؟" یہ کیا کہہ رہی ہے سالار؟

 فاریہ بیگم نے سالار کو پیچھے

 کھڑے دیکھ کر پوچھا۔ "مام یہ 

جھوٹ بول رہی ہے؟" سالار نے 

سنبھل کر جواب دیا۔ "نہیں، میں 

جھوٹ نہیں بول رہی۔" شرجینہ

 نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے جواب

 دیا۔ "تم اب حد سے بڑھ رہی ہو،

 لڑکی نکلو یہاں سے۔ حیدر صاحب

 ہے اسے باہر کا راستہ دکھاؤ۔ایسے

 کیسے چلی جاؤں پھپھو؟ میں سچ 

کہہ رہی ہوں، میں نے اور سالار نے 

شادی کی ہے۔

باہر روڈ پر آتے ہوئے اسے لگا کہ

 سب اس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔

 وہ اپنا چہرہ چھپا کر وہاں سے 

بھاگی۔ سامنے سے آتی گاڑی اس

 کے ساتھ ٹکر ہوگئی۔ کار والے

 شخص نے بروقت بریک لگائی 

اور اسے بچا لیا ورنہ بڑا ایکسیڈنٹ 

ہو جاتا۔ تبھی گاڑی سے اتر کر وہ

 شخص تیزی سے اس کی طرف

 بھاگا۔ "آپ کو چوٹ تو نہیں لگی

؟" اس شخص نے آگے بڑھ کر 

شرجینہ کو نیچے سے اٹھاتے ہوئے

 سوال کیا۔ "چیز بھی اکیلا چھوڑ

 دو۔" شرجینہ سے بس اتنا ہی کہا۔

 "میں آپ کو اکیلا نہیں چھوڑوں

 گا۔ آپ کو آپ کے گھر چھوڑ کر 

آؤں گا۔ جانے پھر راستے میں کسی

 سے ٹکرا جائیں تو.. شامیر مضبوط

 لہجے میں بولا، "نہیں، میرا کوئی

 گھر نہیں۔ میرے ماں باپ نے نکال 

دیا مجھے گھر سے، اور جس کی

 وجہ سے نکالا، اس نے بھری محفل

 میں مجھ پر کیچڑا چھال دیا۔" 

شرجینہ پھٹ پڑی تھی۔ وہ مزید 

اگر سارے اخبار اپنے منہ بناتے ہوئے

 اپنا ہاتھ سر پر پھیر رہی تھی۔ 

دو انجان ایک دوسرے کے ساتھ 

چل رہے تھے۔ شامیر شرجینہ کی 

ڈھال بن گیا تھا۔ شرجینہ اس کی

 زندگی میں آنے والی پہلی لڑکی

 تھی جس سے اسے محبت کب 

ہوئی، اسے بھی پتا نہیں چلا تھا۔ 

شامیر اسے گھر لے آیا تھا۔ گھر آتے 

ہی اس نے اپنی پھپھو آسیہ بیگم 

کو سب کچھ بتا دیا تھا۔

لیکن سرمد صاحب اپنی اولاد کا

 حق نہیں مارنا چاہتے تھے اس

 لیے انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ اسی

 وجہ سے سرمد صاحب اور حیدر 

صاحب میں فاریہ بیگم کی شادی 

کے ایک ماہ بعد اچھی خاصی

 دشمنی چل پڑی تھی۔ فاریہ بیگم 

سے بات کرنے کے بعد سرمد صاحب

 وہاں سے چلے گئے۔

شرجینہ چاہتی تھی نہ ہی خود

 سے دور بھیجنا چاہتی تھی۔ اس 

کے اور منابل کے نکاح والے، اس 

کو لگ رہا تھا کہ شرجینہ صرف

 اس کا نکاح رکوانے کے لیے جھوٹ

 بول رہی ہے۔ وہ پریگننٹ نہیں 

ہے۔ لیکن ایک دن سرمد صاحب

 اس کے آفس آئے تھے۔ انہوں نے 

کہا تھا کہ ان کی بیٹی اس کے 

بچے کی ماں بننے والی ہے۔ وہ

 ڈھونڈھ لائے اس وقت اس کا 

دل بے حد ٹوٹا تھا۔ شرجینہ نے 

سامنے پڑا گلاس اٹھاتے ہوئے

 دیوار میں دے مارا۔ "میں جانتی

 ہوں کہ میں نے جو کیا، وہ معافی

 کے لائق نہیں ہے، لیکن پھر بھی

 میں تم سے معافی مانگ رہی ہوں

۔ تم میرے ساتھ گھر چلو، میں 

سب کے بھی تم سے معافی مانگ

 لوں گی۔ تمہارا جو مقام ہے وہ

 دلواؤں گی میں شامیر دوبارہ آیا

۔ "بابا جان!" شاہ زیب چیختا ہوا 

اور وازے کی طرف بڑھا تھا

۔ شرجینہ جو ناشتے کی پلیٹ 

لے کر کچن سے نکل رہی تھی، 

دروازے کی طرف دیکھنے لگی 

اور اسے سامنے شامیر کے ساتھ

 کھڑے پایا تو مسکرا دی۔ سالار 

نے اس کا مسکرانا غور سے دیکھا 

تھا۔ وہ مٹھییں بھینچ کر رہ گیا۔

 اس کا بیٹا اسے انکل کہتا تھا 

اور وہ اسے بھی قبول کر رہا تھا۔

 شرجینہ نے اس کی طرف تڑپ

 کر دیکھا تھا۔ اس کی آنکھوں

 سے چھلکتی محبت شرجینہ کو

 آنکھیں جھکانے پر مجبور کر چکی

 تھی۔ "جنی، آپ نے سوچا بھی

 ہے شاہ زیب کا کیا ہوگا؟" شامیر

 نے اس کے سامنے ایک اور مدعا

 رکھا۔ "شاہ زیب میرا بیٹا ہے۔ 

شامیر اور وہ ہمیشہ میرا بیٹا 

ہی رہیں گے۔ وہ جس کے ساتھ

 رہنا چاہے گا، رہے گا۔ میں اسے 

فورس نہیں کروں گی۔" شرجینہ

 نے پھولوں سے کھیلتے ہوئے کہا

۔ "میں جانتی ہوں تم بھی معاف 

کر چکی ہو، پر تمہارا دل ابھی

 تک صاف نہیں ہوا۔ میں یہ بھی 

جانتی ہوں سالار قدم قدم چلتا

 اس کے قریب آتے ہوئے بولا،

 "میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے

۔ سالار حیدر اور دل پر میرا 

اختیار نہیں ہے۔ تمہاری طرف

 سے یہ آہستہ آہستہ ہی صاف

 ہوگا۔ بس تب تک کوشش کرنا، 

مجھ سے تمہارا صلح مانگنا ہوگا،

 پھر شاید واقعی میرا دل تمہارے

 لیے صاف ہو جائے۔" شرجینہ نے

 سالار کی آنکھوں میں آنکھیں

 ڈال کر اعتماد سے کہا، "شامیر

 تم سے بہت محبت کرتا ہے۔ وہ 

تمہیں خوش بھی رکھے گا اور

 تمہاری قدر بھی کرے گا۔"

احمد سے باعوض دس لاکھ حق

 مہر طے پایا کیا آپ کو یہ نکاح

 قبول ہے مولوی صاحب نے نکاح

 کے کلمات ادا کرتے ہوئے سالار 

سے پوچھا رک جاؤ سالار حیدر

 شرجینہ حال کے بیچ کھڑی ہو

 کر چلائی حال میں موجود سب 

کی نظریں اس کی طرف چلی

 گئیں شرجینہ ٹوٹی بکھری سی

 لگ رہی تھی فاریہ بیگم زیر

 لب بولیں کیا تماشہ لگا رہی ہو

 شرجینہ فاریہ بیگم مہمانوں کا

 خیال کرتے ہوئے دبی دبی آواز 

میں بولیں تماشا میں نہیں کر رہی

 تماشہ تو آپ کے بیٹے نے بنایا

 ہے شرجینہ بھرائی ہوئی آنکھوں

 کے ساتھ سٹیج سے اترتے ہوئے

 سالار کو دیکھتے ہوئے بولی کیا

 کہہ رہی ہو جاؤ یہاں سے فاریہ 

بیگم نے اس کا بازو پکڑ کر پیچھے

 دھکیلا ایسے کیسے چلی جاؤں

 سالار تم میری جگہ کسی اور 

کو کیسے دے سکتے تھے یہ کیا

 کہہ رہی ہے سالار فاریہ بیگم

 نے سالار کو دیکھ کر پوچھا مام 

یہ جھوٹ بول رہی ہے سالار نے

 جواب دیا نہیں میں جھوٹ نہیں

 بول رہی شرجینہ نے نفی میں سر

 ہلاتے ہوئے کہا تم اب حد سے بڑھ

 رہی ہو لڑکی نکلو یہاں سے حیدر

 صاحب ہے اسے باہر کا راستہ دکھایا

 گیاباہر روڈ پر آتے ہی شرجینہ کو لگا

 سب اس کا مذاق اڑا رہے ہیں وہ اپنا

 چہرہ چھپا کر بھاگی تو سامنے

 سے آتی گاڑی کی اس سے ٹکر 

ہو گئی کار والے نے بروقت بریک

 لگائی ورنہ بہت برا ایکسیڈنٹ 

ہو جاتا گاڑی سے اتر کر وہ شخص 

تیزی سے اس کی طرف بھاگا آپ 

کو چوٹ تو نہیں لگی اس نے شہر 

جمنہ کو اٹھاتے ہوئے پوچھا میں

 آپ کو اکیلا نہیں چھوڑوں گا آپ 

کو گھر چھوڑ کر آؤں گا جانے پھر

 راستے میں کسی سے ٹکرا گئی تو 

شامیر مضبوط لہجے میں بولا

 نہیں ہے میرا کوئی گھر میرے 

ماں باپ نے نکال دیا مجھے گھر

 سے اور جس کی وجہ سے نکالا 

اس نے بھری محفل میں مجھ پر 

کیچڑا چھالا شرجینہ پھٹ پڑی

 تھی وہ مزید اگر سارے اخبار 

اپنے منہ بناتے ہوئے اپنا ہاتھ سر

 پر پھیر رہی تھی دو انجان ایک

 دوسرے کے ساتھ چل رہے تھے 

شامیر شرجینہ کی ڈھال بن گیا

 تھا شرجینہ اس کی زندگی میں

 آنے والی پہلی لڑکی تھی جس

 سے اسے محبت کب ہوئی اسے

 بھی پتہ نہیں چلا شامیر اس 

کو گھر لے آیا تھا گھر آتے ہی 

اس نے اپنی پھپھو آسیہ بیگم 

کو سب کچھ بتا دیا تھا

سرمد صاحب اپنی اولاد کا حق

 نہیں مارنا چاہتے تھے اس لیے

 انہوں نے انکار کر دیا تھا اسی 

وجہ سے سرمد صاحب اور حیدر 

صاحب میں فاریہ بیگم کی شادی 

کے ایک ماہ بعد سے اچھی خاصی

 دشمنی چل پڑی تھی فاریہ بیگم

 سے بات کرنے کے بعد سرمد

 صاحب وہاں سے چلے گئے

چاہتا تھا نہ خود سے دور بھیجنا

 چاہتا تھا اس کے اور منابل کے 

نکاح والے اس کو لگا شرجینہ 

صرف نکاح رکوانے کے لیے جھوٹ

 بول رہی ہے وہ پریگننٹ نہیں ہے 

لیکن ایک دن سرمد صاحب اس

 کے آفس آئے انہوں نے کہا ان کی

 بیٹی اس کے بچے کی ماں بننے والی

 ہے وہ ڈھونڈھ لائے اس تب اس 

کا دل ہزار بار مر گیا میں اپنے ہی

 شوہر کے منہ سے وہ الفاظ سن

 کر شرجینہ نے سامنے پڑا گلاس

 اٹھا کر دیوار میں دے مارا میں 

جانتا ہوں میں نے جو کیا وہ معافی

 کے لائق نہیں ہے لیکن پھر بھی میں

 تم سے معافی مانگ رہا ہوں تم 

میرے ساتھ گھر چلو میں سب کے

 بھی تم سے معافی مانگ لوں گا تمہارا

 جو مقام ہے وہ دلواؤں گا

میں شامیر دوبارہ آیا بابا جان 

شاہ زیب چیختا ہوا اور وازے کی

 طرف بڑھا شرجینہ جو ناشتے کی

 پلیٹ لے کر کیچن سے نکل رہی تھی

 دروازے کی طرف دیکھنے لگی اسے

 سامنے شامیر کے ساتھ کھڑا پایا

 تو مسکرا دی سالار نے اس کا مسکرانا 

غور سے دیکھا وہ مٹھی بھینچ کر

 رہ گیا اس کا بیٹا اسے انکل کہتا 

تھا اور وہ اسے مان رہا تھا میرے

 تڑپ کر اس کی طرف دیکھا اس

 کی آنکھوں سے چھلکتی محبت

 شرجینہ کو آنکھیں جھکانے پر

 مجبور کر چکی تھی شامیر نے اس

 کے سامنے ایک اور مدعا رکھا شاہ 

زیب میرا بیٹا ہے شامیر اور وہ 

ہمیشہ میرا بیٹا ہی رہے گا وہ جس 

کے ساتھ رہنا چاہے گا رہے گا میں

 اسے فورس نہیں کروں گی شرجینہ

 نے پھولوں سے کھیلتے ہوئے کہا 

سربین میں جانتا ہوں تم بھی معاف

 کر چکے ہو پر تمہارا دل ابھی تک

 صاف نہیں ہوا میں یہ بھی جانتا 

ہوں سالار قدم قدم چلتے ہوئے اس

 کے قریب آتے ہوئے بولا میں نے 

تمہیں معاف کر دیا ہے سالار حیدر 

اور دل پر میرا اختیار نہیں ہے تمہاری

 طرف سے یہ آہستہ آہستہ ہی صاف

 ہو گا بس تب تک کوشش کرنا مجھ

 سے تمہارے لیے منانا ہو پھر شاید

 واقعی میرا دل تمہارے لیے صاف 

ہو جائے شرجینہ نے سالار کی آنکھوں

 میں آنکھیں ڈال کر اعتماد سے کہا 

شامیر تم سے بہت محبت کرتا ہے

 وہ تمہیں خوش بھی رکھے گا اور

 تمہاری قدر بھی کرے گا سالار نے 

کار کی طرف جاتے ہوئے کہا

کبھی کبھی محبت میں گناہ بھی

 چھپ جاتے ہیں دل توڑنا کبھی

 کبھی ضروری ہو جاتا ہے پر دل 

جیتنا اصل کام ہوتا ہے شرجینہ کی

 آنکھوں میں آنسو تھے پر وہ جانتی

 تھی کہ زندگی میں اس کی پہلی

 محبت شامیر ہی ہے جو اس کے دکھ

 سکھ کا ساتھی بنے گا شامیر نے اس

 کے ہاتھ تھامے اور کہا اب تمہارے لیے 

ایک نئی زندگی شروع ہوگی جہاں 

صرف محبت اور اعتماد ہوگا شرجینہ

 نے مسکرا کر کہا ہاں اب میں تیار ہوں

 ایک نئے سفر کے لیے جہاں درد نہیں 

بس سکون ہو سالار اب بھی کہیں نہ

 کہیں دل میں شرمندگی محسوس 

کرتا تھا کہ اس نے جو کیا وہ درست

 نہیں تھا مگر اب اسے بھی سمجھ

 آ گئی تھی کہ شرجینہ اور شامیر 

کے بیچ جو رشتہ ہے وہ سچا ہے اور 

اسے کبھی توڑنا نہیں چاہیے تھا

یوں کہانی کا اختتام ہوا جہاں 

محبت اور معافی نے سب سے بڑی 

طاقت دکھائی شرجینہ اور شامیر 

نے اپنی زندگی کو نئے سرے سے

 جوڑا اور سالار نے بھی اپنی غلطیوں

 کا اعتراف کیا زندگی میں کبھی

 کبھی مشکلات آتی ہیں مگر محبت

 اور سمجھ بوجھ سے ہر مسئلہ

 حل ہو جاتاشرجینہ اور شامیر کے رشتے 

کی یہ کہانی ایک مثال بن گئی

 تھی کہ محبت اور معافی کی

 طاقت کس طرح دلوں کو جوڑ سکتی

 ہے اور زندگی کو سنوار سکتی ہے

۔ دونوں نے اپنی غلطیوں کو سمجھا،

 پرانے زخموں کو مٹا کر ایک نئے

 سفر کا آغاز کیا تھا۔ مگر زندگی کی

 راہوں میں چیلنجز ختم نہیں ہوتے، اور

 ان کے لیے بھی کچھ نئے امتحانات

 منتظر تھے۔ شامیر، جو ہمیشہ

 شرجینہ کا سہارا بنا رہا تھا، اس نے

 اپنی محبت کو ثابت کرنے کے لیے ہر

 ممکن کوشش کی۔ وہ جانتا تھا کہ

 شرجینہ کی زندگی میں جو دکھ اور

 تکلیف آئی ہے، اسے مٹانا آسان نہیں۔

 اس لیے وہ اس کے لیے ہر لمحہ دعا

 گو اور حاضر تھا۔ شرجینہ بھی

 شامیر کی محبت اور حمایت کو 

محسوس کرتے ہوئے ہر روز مضبوط

 ہوتی گئی۔ وہ جان چکی تھی کہ 

شامیر کا ہاتھ ہمیشہ اس کے ساتھ

 ہے، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔

سالار، جس نے پہلے شرجینہ پر ظلم

 و ستم کیا تھا، اب اپنی غلطیوں 

کا اعتراف کر چکا تھا۔ اس کے دل

 میں شرمندگی اور پچھتاوے کے جذبات

 نے جگہ بنا لی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ

 شرجینہ کی زندگی میں اب اس کا کوئی

 حق نہیں، مگر وہ دل سے دعا کرتا تھا 

کہ وہ خوش رہے اور اپنی زندگی میں

 کامیابی حاصل کرے۔ اس نے فیصلہ

 کیا کہ وہ شرجینہ اور شامیر کی

 خوشیوں میں رکاوٹ نہیں بنے گا اور 

اپنے راستے پر چلتے ہوئے اپنی زندگی 

سنوارے گا۔ وقت گزرتا گیا اور 

شرجینہ اور شامیر نے اپنے رشتے

 کو مضبوطی سے تھاما۔ ان کے 

درمیان محبت کے رنگ اور بھی

 گہرے ہوتے گئے۔ شامیر نے شرجینہ 

کو ایک نیا گھر دیا، جہاں سکون اور 

محبت کی خوشبو بکھری ہوئی تھی

۔ وہاں ہر صبح نئی امیدیں لے کر آتی

 تھی اور ہر شام محبت کی کہانیاں 

سناتی تھی۔ شرجینہ نے اپنی ماضی 

کی تلخ یادوں کو دل سے نکال کر ایک 

نئی زندگی کو گلے لگایا۔ ان دنوں 

شامیر اور شرجینہ کے تعلقات میں

 رومانویت کی چاشنی شامل ہو گئی

 تھی۔ شامیر اکثر شرجینہ کے لیے

 چھوٹے چھوٹے تحائف لایا کرتا

، اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے

 کے لیے۔ وہ دونوں اکثر لمبے لمبے 

سفر پر جاتے، جہاں وہ فطرت کی

 خوبصورتی میں کھو جاتے اور اپنی

 محبت کو الفاظ میں بیان کرتے۔

 ان کی محبت کی کہانی اب نہ صرف 

ان کے خاندان کے لیے بلکہ ان کے

 دوستوں کے لیے بھی ایک مثال بن

 چکی تھی۔ ایک دن شامیر نے

 شرجینہ کو اپنے دل کی بات کہی

۔ وہ اس سے کہنے لگا کہ زندگی

 کی راہوں میں چاہے کتنی بھی

 مشکلات آئیں، وہ ہمیشہ اس کے

 ساتھ رہے گا اور کبھی بھی اس کا 

ساتھ نہیں چھوڑے گا۔ شرجینہ نے 

بھی اپنے دل کی گہرائیوں سے شامیر

 کی محبت کا اعتراف کیا اور کہا کہ 

وہ بھی ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گی

۔ اس دن سے دونوں نے زندگی کے ہر

 لمحے کو ایک دوسرے کے ساتھ جینے 

کا عہد کر لیا۔ شرجینہ اور شامیر 

کی کہانی میں ایک نیا موڑ اس

 وقت آیا جب وہ اپنے پہلے بچے

 کی خوشخبری سنے۔ یہ خوشی 

ان کی زندگی کا سب سے بڑا تحفہ

 تھی۔ بچے کی آمد نے ان کے رشتے

 کو مزید مضبوط کر دیا اور انہوں

 نے ایک ساتھ مل کر بچے کی تربیت

 کا فیصلہ کیا۔ وہ جانتے تھے کہ 

بچوں کی پرورش محبت، سمجھ

 اور قربانی کے بغیر ممکن نہیں۔

 لہٰذا وہ اپنے بچے کے لیے بہترین

 والدین بننے کی کوشش کرتے رہے۔

شامیر اور شرجینہ کی زندگی میں 

محبت اور خوشی کے ساتھ ساتھ 

وہ سمجھ بوجھ بھی شامل تھی

 جو ان کی روزمرہ کی زندگی کو 

خوشگوار بناتی تھی۔ وہ ہر مسئلہ

 کو بات چیت کے ذریعے حل کرتے 

اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال

 رکھتے۔ ان کی کہانی یہ سکھاتی ہے

 کہ رشتہ صرف ساتھ رہنے کا نام نہیں

 بلکہ ایک دوسرے کی قدر کرنے، معاف 

کرنے اور سمجھنے کا نام ہے۔

سالار کی زندگی میں بھی مثبت

 تبدیلی آئی۔ اس نے اپنی غلطیوں

 سے سبق سیکھا اور اپنی زندگی کو

 بہتر بنانے کی کوشش کی۔ وہ اب اپنے

 خاندان کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے

 لگا تھا اور اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے

 کے لیے قدم بڑھا رہا تھا۔ سالار نے

 شرجینہ اور شامیر کی خوشیوں

 میں خلل نہیں ڈالنے کا عزم کیا اور

 خود کو ایک بہتر انسان بنانے کی راہ 

پر گامزن ہو گیا۔ کہانی کا یہ خوبصورت

 انجام یہ پیغام دیتا ہے کہ زندگی

 میں چاہے کتنی بھی مشکلات آئیں، 

محبت، معافی اور سمجھ بوجھ سے

 ہر رشتہ مضبوط ہو سکتا ہے۔ شرجینہ

 اور شامیر کی محبت نے دکھوں کو

 مٹایا، سالار نے اپنی غلطیوں کا

 اعتراف کیا اور سب نے ایک نیا 

آغاز کیا۔ یہی زندگی کا اصل سبق ہے۔

اب ان کی زندگی میں سکون اور

 خوشیاں تھیں، اور وہ اپنی محبت

 کے سائے تلے ہر دن کو خوشیوں

 بھرا بناتے رہے۔ اور یوں ان کی کہانی

 محبت، قربانی اور معافی کی ایک

 زندہ مثال بن گئی جسے سن کر 

دلوں کو امید اور روشنی ملی۔

<h3>مزید پڑھیں:</h3>

<ul>

  <li><a href="https://www.umairkahaniblog.uk/2025/09/noshin-ki-kahani-6-saal-baad-allah-ne.html">نوشین کی کہانی – 6 سال بعد اللہ نے</a></li>

  <li><a href="https://www.umairkahaniblog.uk/2025/08/mohabbat-ka-woh-khat-jo-kabhi-post-na.html">محبت کا وہ خط جو کبھی پوسٹ نہ ہوا</a></li>

  <li><a href="https://www.umairkahaniblog.uk/2025/07/mohabbat-mein-dhokay-ki-dardnaak-kahani.html">محبت میں دھوکے کی دردناک کہانی</a></li>

</ul>

تبصرے

New Urdu Stories

ماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانیماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

فاطمہ اور عمران کی موٹر وے پر آخری ملاقات — ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

امتحان کی گزرگاہ: ایک مخلص انسان کی کہانی"