duniya-ke-sach-aur-mohabbat-emotional-2
Drad SE Bhar pur Urdu story
میری عمر صرف بائیس سال تھی، لیکن ایسا لگتا تھا جیسے کئی صدیوں کا دکھ اور تجربہ میرے جسم میں سمو دیا گیا ہو۔ میں نے آنکھ کھولی تو گھر میں محبت کے بجائے سرد مہری اور نفرت کا بسیرا تھا۔ دادی کی خواہش تھی کہ گھر میں بیٹا پیدا ہو، لیکن قسمت نے بیٹیوں کی صورت میں ہمارے آنگن کو بھر دیا۔ میں تیسری بیٹی تھی، اور میری پیدائش پر ماں کی آنکھوں میں خوشی کے بجائے خوف تھا۔ چھوٹی سی عمر میں ہی سمجھ گئی تھی کہ اس دنیا میں بیٹی ہونا جرم سمجھا جاتا ہے۔
بارہ برس کی تھی جب ایک رشتہ دار نے مذاق مذاق میں کہا، "لگتا ہے تم اپنی ماں کی سگی اولاد نہیں ہو، وہ تمہیں اکثر ڈانٹتی رہتی ہیں۔" میرے آنسو قابو سے باہر ہو گئے۔ میں نے دل ہی دل میں کہا کہ جب اپنوں کے منہ پھر جائیں تو غیروں سے کیا شکوہ؟ اس وقت ہی میرے اندر برداشت کا زہر اتر گیا تھا۔
شادی کا دن آیا تو سب نے کہا قسمت بدل جائے گی، لیکن میری زندگی مزید اندھیروں میں ڈوب گئی۔ شوہر سخت مزاج، بدلحاظ اور تشدد کے عادی تھے۔ گھر آتے ہی ہر دن قیامت بن جاتا۔ اگر کھانے میں نمک کم ہو جائے تو سالن کی پلیٹ میرے چہرے پر دے مارتے۔ میری ساس دروازے پر کھڑی ہو کر قہقہے لگاتیں اور میرے جلتے چہرے کو دیکھ کر خوش ہوتیں۔
ایک دن شوہر نے غصے میں کہا:
"تیری سزا طلاق ہے، لیکن اس سے پہلے وہ کروں گا جو آج تک کسی شوہر نے اپنی بیوی کے ساتھ نہیں کیا!"
یہ سن کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ میں سجدے میں گر گئی اور رو رو کر اللہ سے دعا مانگتی رہی کہ مجھے اس ظلم سے نجات ملے۔
گھر کا حال بھی عجیب تھا۔ دن بھر کام کرتے کرتے میری کمر ٹوٹ جاتی۔ بچے چھوٹے تھے، شوہر کا رویہ درندوں جیسا، اور ساس ہر وقت طعنے دیتی۔ ایک دن بچے کی دوا لینے کلینک گئی، واپس آئی تو دیکھا گھر بکھرا ہوا ہے۔ صرف ایک گھنٹہ تھا جس میں مجھے گھر سنوارنا تھا، کھانا پکانا تھا، اور بچے کو سنبھالنا تھا۔ اسی جلد بازی میں سالن میں نمک کم ڈال دیا۔ وہ لمحہ میری زندگی بدل دینے والا تھا۔
جب شوہر واپس آئے تو میں نے فوراً ان کے ہاتھ سے بیگ لیا، پانی دیا، پسینہ صاف کیا، اور انہیں عزت سے بٹھا کر کھانا پیش کیا۔ دل میں سکون تھا کہ شاید آج کوئی جھگڑا نہ ہو۔ لیکن جیسے ہی انہوں نے پہلا نوالہ منہ میں ڈالا، ان کی آنکھوں میں غصے کی آگ بھڑک اٹھی۔ انہوں نے میز پر ہاتھ مارا اور چیخے:
"یہ کھانا ہے؟ میری حرام کی کمائی ہے جو ضائع کر رہی ہو؟"
پھر اچانک میرے بالوں سے پکڑ کر زمین پر دھکا دیا اور کہا:
"آج تو میں تجھے طلاق دے کر چھوڑوں گا، لیکن پہلے ایسا سبق دوں گا کہ یاد رکھے گی!"
یہ سن کر میرا دل کانپ اٹھا۔ وہ رات میری زندگی کا بدترین موڑ ثاب
ت ہونے والی تھی۔
میری سانسیں تیز ہو گئیں۔ شوہر کا چہرہ غصے سے سرخ تھا، اور ان کی آنکھوں میں ایسی وحشت تھی کہ لگتا تھا ابھی مجھے مار ہی ڈالیں گے۔ ساس کمرے کے دروازے پر کھڑی تماشہ دیکھ رہی تھیں۔ ان کے ہونٹوں پر ایک عجیب مسکراہٹ تھی، جیسے وہ اسی لمحے کی منتظر تھیں۔
انہوں نے مجھے بالوں سے پکڑ کر کھینچا اور اندھیرے صحن میں لے گئے۔ میں چلانے لگی:
"خدا کے واسطے مجھے چھوڑ دو، بچوں پر رحم کرو!"
لیکن میری آواز سننے والا کوئی نہ تھا۔ صحن میں لالٹین کی مدھم روشنی تھی، اور میری نظریں بار بار بچوں کے کمرے کی طرف جا رہی تھیں کہ کہیں وہ جاگ نہ جائیں۔
شوہر نے دھاڑتے ہوئے کہا:
"آج تجھے مزہ چکھاؤں گا! جسے عزت کی قدر نہیں، اسے یوں ہی رُلایا جاتا ہے!"
انہوں نے میرے کان پر زور سے طمانچہ مارا، کانوں میں سیٹیوں کی آواز گونجنے لگی۔ پھر لات مار کر مجھے زمین پر گرا دیا۔ میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا:
"میں نے کیا قصور کیا ہے؟ صرف نمک ہی تو کم تھا..."
لیکن ان کے دل پر کوئی اثر نہ ہوا۔
ساس نے بھی آگ بھڑکانے کے لیے کہا:
"ہاں بیٹے! ایسی عورتوں کو سیدھا کرنے کا یہی طریقہ ہے۔"
میرے دل میں ایک سرد لہر دوڑ گئی۔ یہ ماں ہیں یا ظالم کا ساتھ دینے والی ساتھی؟
گھنٹوں وہ مجھے کوستے رہے، دھکے دیتے رہے۔ میری کلائیاں چھل گئی تھیں، چہرہ سوج گیا تھا۔ آخرکار وہ تھک کر اندر چلے گئے اور دروازہ زور سے بند کر دیا۔ میں وہیں صحن کے ایک کونے میں گری رہی۔ آسمان کی طرف دیکھا تو لگا جیسے ستارے بھی میرے زخموں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
رات کے سناٹے میں دل سے ایک ہی صدا نکل رہی تھی:
"یا اللہ! یا رحمٰن! یا رحیم! اس جہنم سے نجات دے دے..."
اسی لمحے دروازے پر زور سے دستک ہوئی۔ میرا دل کانپ اٹھا۔ اتنی رات گئے کون آ سکتا تھا؟ شوہر اٹھے اور غصے میں بڑبڑاتے ہوئے دروازہ کھولا۔ سامنے ان کے ماموں کھڑے تھے، جو گاؤں کے معزز آدمی سمجھے جاتے تھے۔
ماموں نے میرا حال دیکھا تو پریشان ہو گئے۔ انہوں نے کہا:
"بیٹا، عورت کو یوں رسوا نہیں کرتے۔ یہ تمہاری عزت ہے، اس پر ہاتھ نہیں اٹھاتے۔"
لیکن شوہر نے بے شرمی سے کہا:
"ماموں، آپ میرے گھر کے معاملے میں مت پڑیں۔ یہ عورت سدھرنے والی نہیں!"
ماموں نے سخت لہجے میں کہا:
"کل گاؤں کے بزرگوں کے سامنے بات ہو گی۔ اگر اس نے واقعی کوئی بڑی غلطی کی ہے تو فیصلہ ہم کریں گے۔ لیکن تم یوں جانوروں جیسا سلوک نہیں کر سکتے۔"
یہ سن کر شوہر خاموش ہو گئے لیکن ان کی آنکھوں میں غصے کی چنگاریاں ابھی بھی جل رہی تھیں۔ ماموں نے جاتے جاتے مجھے تسلی دی:
"بیٹی، ہمت رکھو۔ صبح تک سب ٹھیک ہو جائے گا۔"
ماموں کے جانے کے بعد شوہر نے مجھے کمرے میں گھسیٹا اور کہا:
"کل بزرگ آئیں یا نہ آئیں، آج کی رات تجھے کبھی نہیں بھولے گی!
ان کے لہجے میں ایسی وحشت تھی کہ لگتا تھا وہ کچھ بڑا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں نے خوف سے کانپتے ہاتھوں سے بچوں کو سینے سے لگایا اور اللہ کے حضور سجدے میں گر گئی۔
وہ رات جیسے ختم ہی نہیں ہو رہی تھی۔ ہر لمحہ قیامت لگ رہا تھا۔ میں نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ اگر صبح زندہ رہی تو سب کچھ بزرگوں کو بتاؤں گی۔ لیکن دل کے کسی کونے میں یہ بھی ڈر تھا کہ اگر شوہر نے مجھے طلاق
دے دی تو میں بچوں سمیت کہاں جاؤں گی؟
صبح سورج نکلا تو میرا جسم زخموں سے بھرا ہوا تھا، مگر دل میں ایک عجب سکون تھا۔ میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ اب خاموش نہیں رہوں گی۔ اگر میری عزت جاتی ہے تو جائے، لیکن میں اپنے ساتھ ہونے والا ظلم سب کو بتاؤں گی۔
گاؤں کے بڑے لوگ دوپہر کو ہمارے گھر پہنچے۔ سامنے چارپائیوں پر بزرگ بیٹھے، ساس ایک طرف، شوہر دوسری طرف اور میں پردے کے پیچھے۔ دل دھڑک رہا تھا مگر ہمت بھی تھی۔ ماموں نے بات کا آغاز کیا:
"بیٹا، یہ سب کیا ہے؟ بیوی کو یوں مارنا پیٹنا کس دین میں جائز ہے؟"
شوہر نے سخت لہجے میں کہا:
"یہ عورت بدتمیز ہے، بات نہیں مانتی۔ نمک مرچ کم زیادہ ہو جائے تو کیا عزت رہتی ہے مرد کی؟"
یہ سن کر سب لوگ چونک گئے۔ ایک بزرگ نے غصے سے کہا:
"یہ وجہ ہے مارنے کی؟ اللہ نے عورت کو تمہاری خدمت گزار بنایا ہے، نوکرانی نہیں۔ تم نے اسے زخمی کر دیا، اور وجہ یہ بتا رہے ہو؟"
ساس نے بیٹے کا ساتھ دیتے ہوئے کہا:
"یہ لڑکی زبان دراز ہے، گھر نہیں سنبھالتی۔"
میں نے ہمت کر کے پردے کے پیچھے سے کہا:
"بزرگو! میں نے کبھی شوہر کی نافرمانی نہیں کی، لیکن ہر وقت طعنے، گالیاں، مار پیٹ… کیا یہ انصاف ہے؟
میرے لہجے میں لرزش تھی مگر آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ ساتھ ایک آگ بھی جل رہی تھی۔ بزرگوں نے خاموشی اختیار کی۔ پھر گاؤں کے سب سے معزز بزرگ بولے:
"بیٹا، عورت پر ہاتھ اٹھانا ظلم ہے، اور ظلم کا انجام برا ہوتا ہے۔ اگر آج ہم نے خاموشی اختیار کی تو کل یہ رواج بن جائے گا۔"
ماموں نے میری طرف دیکھ کر کہا:
"بیٹی، تم کیا چاہتی ہو؟ صلح یا علیحدگی؟"
میرا دل دہل گیا۔ طلاق کا خوف بچوں کے مستقبل کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ میں نے لرزتی آواز میں کہا:
"میں صرف عزت چاہتی ہوں، طلاق نہیں۔ لیکن یہ وعدہ چاہیے کہ آئندہ ہاتھ نہیں اٹھائیں گے۔"
شوہر نے ہنکارا بھرا:
"میں کوئی کمزور نہیں جو مجلس میں وعدے کروں، یہ میرا گھر ہے، میں جیسے چاہوں گا رکھوں گا!"
یہ سن کر بزرگوں کا صبر بھی جواب دے گیا۔ انہوں نے سخت لہجے میں کہا:
"اگر تم نے اپنی روش نہ بدلی تو ہم سب تمہارے خلاف کھڑے ہوں گے۔ بیوی تمہاری ملکیت نہیں، تمہاری امانت ہے۔ یاد رکھو، قیامت کے دن عورت کے آنسوؤں کا حساب دینا پڑے گا۔"
یہ الفاظ سن کر شوہر کی آنکھیں جھک گئیں۔ پہلی بار میں نے ان کی آواز میں نرمی دیکھی۔ وہ بڑبڑاتے ہوئے بولے:
"ٹھیک ہے… آئندہ ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا۔"
بزرگوں نے سب کے سامنے ان سے قسم لی اور سخت تنبیہ کی کہ اگر پھر ظلم کیا تو پورا گاؤں اس عورت کا ساتھ دے گا۔
میرا دل ہلکا ہو گیا۔ آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔ میں نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا۔ اس دن کے بعد شوہر کا رویہ واقعی بدل گیا۔ وہ پہلے کی طرح سخت تو رہے مگر مارپیٹ ختم ہو گئی۔
رات جب سب سو گئے، میں نے سجدے میں گر کر دعا کی:
"یا اللہ! میرے بچوں کی خاطر یہ گھر آباد رکھ۔ شوہر کے دل کو بدل دے۔"
کچھ دنوں بعد واقعی ان کے رویے میں نرمی آنے لگی۔ وہ بچوں کے ساتھ وقت گزارنے لگے
، مجھ سے بھی اچھے لہجے میں بات کرنے لگے۔
وقت گزرتا گیا۔ شوہر کے رویے میں آہستہ آہستہ تبدیلی آتی رہی۔ وہ جو پہلے ذرا سی بات پر غصہ کر جاتے تھے، اب خاموش رہنے لگے۔ کبھی کبھار وہ خود ہی بچوں کے ساتھ کھیلنے بیٹھ جاتے اور مجھ سے پوچھتے، "کھانا ٹھیک ہے؟ تھک تو نہیں گئی؟"
یہ سوال سن کر میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ سوچتی، "یہی شخص تو چند مہینے پہلے میری چیخوں سے بھی نہیں پگھلتا تھا۔"
ایک دن شام کو جب سورج ڈھل رہا تھا، میں صحن میں بیٹھی کپڑے سکھا رہی تھی۔ شوہر میرے پاس آ کر بیٹھ گئے۔ کافی دیر خاموش رہے، پھر دھیرے سے بولے:
"میں نے تم پر بہت ظلم کیا۔ کبھی سوچا ہی نہیں کہ تم بھی انسان ہو۔ ہر وقت غصہ ہی میری عادت بن گئی تھی۔"
یہ الفاظ میرے دل کو چھو گئے۔ میں نے چپ چاپ ان کی بات سنی۔ وہ آگے کہنے لگے:
"اس دن جب سب بزرگ آئے تھے، مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ میں غلط تھا۔ یہ صرف میرا گھر نہیں، یہ تمہارا بھی ہے۔ اور یہ بچے… یہ تمہارے پیٹ سے پیدا ہوئے ہیں۔ تم پر ہاتھ اٹھانا دراصل اپنے ہی گھر کو توڑنے کے مترادف تھا۔"
میرے لب کانپ گئے۔ میں نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا:
"میں نے کبھی بددعا نہیں دی، صرف یہ دعا مانگی کہ اللہ آپ کو ہدایت دے۔"
وہ حیران ہوئے، پھر دھیرے سے مسکرا دیے۔
"تم نے دعا دی، اس لیے شاید میرا دل بدلا۔"
کچھ ہفتے بعد گاؤں کی محفل میں شوہر نے سب کے سامنے کھڑے ہو کر کہا:
"میں نے اپنی بیوی پر ظلم کیا۔ آج میں سب کے سامنے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ عورت کو عزت دینا ہی مردانگی ہے، مار پیٹ نہیں۔"
یہ الفاظ سن کر سب نے خوشی سے داد دی۔ میرے لیے یہ لمحہ ناقابلِ یقین تھا۔ وہ شخص جو کبھی اپنے غلطیوں کا اقرار کرنے کو بھی تیار نہیں تھا، آج سب کے سامنے معافی مانگ رہا تھا۔
گھر کا ماحول بدل گیا۔ اب جب بھی میں رات کو سجدے میں سر رکھتی، دل سے شکر ادا کرتی۔ بچے بھی خوش تھے۔ اب وہ شور مچاتے تو میں ڈر کر خاموش کرانے کے بجائے ہنس دیتی کیونکہ جانتی تھی کہ کوئی مارنے والا نہیں۔
ایک دن ماموں آئے اور بولے:
"بیٹی، تم نے صبر کیا، ہمت دکھائی۔ یہی عورت کا اصل زیور ہے۔ مگر یاد رکھنا، صبر کا مطلب ظلم سہنا نہیں بلکہ حق بات کہنا بھی ہے۔"
ان کے الفاظ نے مجھے مزید مضبوط کیا۔ میں نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ اگر کبھی پھر ظلم ہوا تو خاموش نہیں رہوں گی۔ مگر خوش قسمتی سے وہ دن دوبارہ نہیں آیا۔
کچھ عرصے بعد شوہر نے خود قرآن پڑھنا شروع کیا۔ وہ راتوں کو بیٹھ کر مجھ سے سورہ یوسف کی آیات سننے لگے۔ وہ اکثر کہتے، "محبت کا سب سے بڑا سبق قرآن دیتا ہے — کہ جس دل میں اللہ کی یاد آ جائے، وہاں ظلم نہیں رہتا۔"
“عورت پر ہاتھ اٹھانا گناہ ہے۔ صبر اور دعا انسان کا دل بدل سکتی ہے، مگر ظلم کے خلاف آواز اٹھانا بھی ضروری ہے۔ محبت، احترام اور دین کی روشنی سے ہی گھر جنت بنتا ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
"Shukriya! Apka comment hamaray liye qeemati hai."