Islamic Story With Moral Lesson | Sabak Amoz Kahani for Adults | Sachi Kahaniya | Urdu stories

Sachi kahani 



 میں صرف گیارہ سال کی تھی جب میری ماں کا جنازہ ہوا۔ شام تک ہمارا گھر ویران تھا اور رات کے اندھیرے میں میرے ماموں نے مجھے باہر بلایا۔ ان کے لہجے میں عجیب سا پیار تھا جو پہلے کبھی محسوس نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا، "بیٹی، تمہیں شہر لے چلوں گا، پڑھائی بھی ہوگی اور زندگی بھی سنور جائے گی۔" میں سہمی ہوئی تھی، لیکن ماموں کے ساتھ چل پڑی۔ راستے بھر وہ میرے سر پر ہاتھ پھیرتے رہے اور کہتے رہے کہ مجھے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔


شہر پہنچتے ہی وہ مجھے ایک پرانی عمارت کے اندر لے گئے۔ وہاں ایک عورت بیٹھی تھی، بڑی قیمتی ساڑھی پہنے، مگر آنکھوں میں سفاکی کی جھلک تھی۔ اس نے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا، جیسے میں کوئی انسان نہیں بلکہ ایک چیز ہوں۔ میں نے ماموں کا ہاتھ پکڑا، مگر وہ میرا ہاتھ جھٹک کر الگ ہو گئے۔ "یہ لے جا، اس کا خیال رکھنا، بہت کم عمر ہے، زیادہ دام ملیں گے۔" یہ سن کر میری زمین کھسک گئی۔

پہلی رات ہی ایک بوڑھا آدمی میرے کمرے میں آیا۔ وہ مجھے دیکھ کر بولا، "نہیں، یہ تو ابھی کلی ہے، اسے ضائع کیوں کریں؟" پھر وہ باہر گیا اور تھوڑی دیر بعد واپس آیا۔ "چل میرے ساتھ، میں تجھے اپنی بیٹی بنا کر رکھوں گا۔" میرے قدم جم گئے۔ دل چاہا بھاگ جاؤں، لیکن دروازہ باہر سے بند تھا۔ خوف کے مارے میں اس کے ساتھ چلی گئی۔

وہ مجھے ایک بڑی حویلی لے گیا، جس کے اندر چمکتے فانوس، اونچی دیواریں اور قالین فرش پر بچھا ہوا تھا۔ گیٹ پر پہرہ تھا، لیکن میرے دل میں ڈر بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ شخص ایک بڑے کمرے کے دروازے کے سامنے رک کر بولا، "سائیں! آپ کے لیے سب سے کم عمر اور خوبصورت کلی لے آیا ہوں۔" پھر مجھے دھکا دیا اور کمرے میں دھکیل دیا۔

سامنے جو شخص بیٹھا تھا، اسے دیکھ کر میری سانس رک گئی۔ وہ کوئی اجنبی نہیں، بلکہ… ابو جیسے لگتے تھے۔ مگر ابو تو کئی ماہ پہلے… میں گھبرا کر پیچھے ہٹی، لیکن کمرہ بند تھا۔ میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا، کانوں میں صرف خون کی آواز سنائی دے رہی تھی۔

وہ شخص کرسی سے اٹھا، میری طرف بڑھا اور مسکرایا۔ "بیٹی، ڈر کیوں رہی ہو؟" اس لمحے میں پتھر کی ہو گئی۔ ذہن میں ہزاروں سوال دوڑنے لگے۔ اگر یہ میرے ابو ہیں تو جنازہ کس کا ہوا؟ اور اگر نہیں تو پھر یہ شخص مجھ سے بیٹی کہہ کر کیا چاہتا ہے؟

دروازہ کھلا تو وہی عورت اندر آئی جس نے مجھے یہاں لایا تھا۔ اس نے سرد لہجے میں کہا، "یہ اب تمہاری قسمت ہے، باہر نکلو اور تیار ہو جاؤ۔" میں نے زور سے کہا، "نہیں! میں نہیں جاؤں گی!" مگر میری آواز دیواروں میں دب کر رہ گئی۔ عورت نے مجھے تھپڑ مارا اور گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئی۔

وہ مجھے ایک اور کمرے میں لے گئی جہاں ایک اور بوڑھا موجود تھا، جسے میں نے پہلی بار دیکھا۔ اس نے مسکرا کر کہا، "ارے واہ، یہ تو بالکل نایاب ہے!" وہ مجھے بازو سے پکڑ کر دیکھنے لگا جیسے کسی چیز کا معائنہ۔ میں بری طرح رونے لگی۔

وہ مجھے باہر لے گیا اور بولا، "یہ جگہ تیرے لیے نہیں، چل میرے ساتھ۔" میری چیخیں بلند ہوئیں، لیکن کسی نے نہیں سنی۔ گاڑی میں بیٹھاتے ہوئے وہ کہنے لگا، "جہاں لے جا رہا ہوں، وہاں جنت ہے، تیرا نصیب بدل جائے گا۔" مگر مجھے تو اپنا نصیب سیاہ لگ رہا تھا، ایک ایسا دھبہ جو کبھی مٹ نہ سکتا۔

کچھ دیر بعد گاڑی ایک جھٹکے سے رکی۔ سامنے ایک شاندار کوٹھی کھڑی تھی۔ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ مجھے اندر لے گیا۔ اندر داخل ہوتے ہی میں نے محسوس کیا کہ یہ جگہ بھی قیدخانے سے کم نہیں۔ اونچی دیواریں، لمبے دروازے اور ہر طرف اجنبی چہرے۔


کوٹھی کے اندر داخل ہوتے ہی مجھے لگا کہ یہ جگہ بھیانک جیل جیسی ہے۔ ہر کمرے کے دروازے بند، ہر طرف اجنبی چہرے، اور آنکھوں میں خوف اور نفرت کی جھلک۔ میں لرز رہی تھی، دل دھڑک رہا تھا، لیکن باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔

وہ شخص مجھے ایک بڑے کمرے تک لے گیا، جس کا دروازہ شیشے کا تھا۔ اس نے کسی کو پکارا، "صاحب! دیکھیے کیا تحفہ لایا ہوں!" اس لفظ نے میرے جسم میں سنسنی پیدا کر دی۔ چند لمحے بعد اندر سے کوئی نہ آیا، پھر اس نے مجھے زور سے اندر دھکیل دیا۔ سامنے صوفے پر بیٹھے شخص کو دیکھ کر میری چیخ نکل گئی۔

میں نے دل میں سوچا، "یہ ممکن نہیں، یہ کیسے ہو سکتا؟" مگر حقیقت سب کے سامنے تھی۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کیں، امید کی ایک کرن کے لیے کہ شاید یہ سب خواب ہو۔ مگر جب آنکھیں کھولیں، تو سب حقیقت تھی۔

رات کے وقت، جب سب سو گئے، مجھے کسی نے چپکے سے میرے کمرے میں بلایا۔ ایک نرم لیکن سرد آواز نے کہا، "ڈرو مت، اگر میں تمہارا ساتھ دوں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔" میں نے آہستہ سے سر اٹھایا، تو ایک چھوٹا لڑکا کھڑا تھا، شاید اسی کو یہاں رکھنے کے لیے لایا گیا تھا۔ وہ مجھ سے بولا، "ہم سب یہاں سے بچ سکتے ہیں، بس حوصلہ رکھو۔" اس کی باتوں نے میری تھوڑی دیر کے لیے ہمت دی، لیکن دل کی دھڑکن اب بھی خوف سے تھمتی نہیں تھی۔

میں نے سوچا کہ اگر میں چپ چاپ یہاں بیٹھ گئی، تو میری زندگی اور بھی تاریک ہو جائے گی۔ اگلے دن، میں نے اپنے ماموں اور اس عورت کے چھوٹے کاموں کو غور سے دیکھنا شروع کیا۔ مجھے سمجھ آیا کہ کس طرح وہ لوگ چھوٹے نشانات سے اپنی چھپی ہوئی حقیقت ظاہر کرتے ہیں۔ میں نے دل میں ٹھان لیا کہ ایک دن یہاں سے نکل کر انصاف کروں گی۔

کچھ دن بعد، میں نے پہلی بار باہر کی ہوا محسوس کی۔ ایک آدمی مجھے کھیتوں کے پاس لے گیا، وہاں سبزہ، کھلی ہوا، اور دور تک کھلے آسمان نے دل کو تھوڑی راحت دی۔ وہ کہنے لگا، "بیٹی، یہ زندگی ہے، اسے سمجھو اور دل کی طاقت بڑھاؤ۔" میں نے اس کی باتوں کو دل میں بٹھایا، لیکن خوف ابھی بھی اندر موجود تھا۔

ایک دن، جب مجھے بتایا گیا کہ یہاں کچھ نئی لڑکیاں لائی جا رہی ہیں، میں نے سوچا کہ یہ موقع ہے، میں کچھ کر سکتی ہوں۔ میں نے اپنی چھپی ہوئی ہمت کو جمع کیا اور پلان بنایا کہ کس طرح ان لڑکیوں کو کمزور نہ ہونے دوں اور انہیں ہمت دوں کہ وہ بھی اپنی زندگی کے حق کے لیے لڑیں۔

رات کو، جب سب سو گئے، میں نے چھپ کر ایک لڑکی کے کمرے میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ وہ چیخ رہی تھی، خوف سے لرز رہی تھی۔ میں نے اسے آہستہ سے پکڑا اور کہا، "ڈرو مت، میں تمہارے ساتھ ہوں۔ ہم سب مل کر یہاں سے نکلیں گے۔" اس کی آنکھوں میں پہلے خوف تھا، پھر امید کی جھلک۔

یہ پہلا لمحہ تھا جب میں نے محسوس کیا کہ میں صرف بچی نہیں رہی، بلکہ اب ایک لڑکی ہوں جو اندھیروں کے خلاف کھڑی ہو سکتی ہے۔ اس رات کی ہمت نے میرے دل میں نیا جوش پیدا کیا۔ میں نے دل میں فیصلہ کیا کہ کسی بھی قیمت پر، کسی بھی خطرے میں، میں نہ صرف اپنے لیے بلکہ سب کے لیے لڑوں گی۔

وقت گزرتا گیا اور میں نے چھپ چھپ کر لڑکیوں کی مدد کرنا شروع کی۔ ہر دن، ہر لمحہ میں کچھ نہ کچھ سیکھتی اور اپنی ہمت بڑھاتی۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ خوف ہمیں غلام بناتا ہے، لیکن ہمت ہمیں آزاد کرتی ہے۔ سب سے بڑی چیز یہ تھی کہ ہم نے ایک دوسرے پر بھروسہ کیا اور چھوٹے چھوٹے اشاروں سے ایک منصوبہ بنایا۔

ایک دن، ہمیں موقع ملا کہ ماموں اور اس عورت کی توجہ کسی اور طرف تھی۔ میں نے لڑکیوں کو جمع کیا اور کہا، "اب یا کبھی نہیں۔ ہم سب باہر نکلیں گے اور اپنی زندگی کا حق لیں گے۔" سب نے میرا ہاتھ پکڑا اور آنکھوں میں خوف کے ساتھ ساتھ امید بھی جھلک رہی تھی۔

ہم نے ایک چھوٹے دروازے سے باہر نکلنے کی کوشش کی جو اکثر بند رہتا تھا۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، ہر قدم پر خطرہ محسوس ہو رہا تھا، لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری۔ جیسے ہی ہم باہر پہنچے، رات کا اندھیرا اور خاموشی ہماری سب سے بڑی دوست بنی۔ ہم نے اپنی رہائش کی طرف دوڑ لگائی، اور راستے میں کسی نے آواز نہ دی۔

پولیس کو وقت پر اطلاع دینے کا بندوبست پہلے ہی ہو چکا تھا۔ ہم نے ایک چھپے ہوئے فون سے مدد طلب کی، اور کچھ ہی لمحوں میں پولیس آ گئی۔ ماموں اور اس عورت کو پکڑ لیا گیا، اور وہ سب لوگ جو ہمارے خلاف تھے، ان کا دھندہ ختم کر دیا گیا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہم کامیاب ہوئے، لیکن حقیقت یہی تھی۔

اس واقعے کے بعد، میں نے اپنی زندگی بدلنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے پڑھائی میں توجہ دینا شروع کی اور ڈاکٹر بننے کے لیے محنت کی۔ میں چاہتی تھی کہ میری محنت اور علم، میرے جیسے بچوں کو اندھیروں سے نکالنے میں مدد کرے۔ میرے والد نے ہمیشہ میرا حوصلہ بڑھایا، اور مجھے بتایا کہ زندگی میں سب سے بڑی طاقت ایمان اور ہمت ہے۔

میری زندگی کا سب سے بڑا سبق یہ تھا کہ اندھیروں میں بھی روشنی کی کرن ہوتی ہے، بس ہمیں اسے دیکھنے اور پکڑنے کی ہمت ہونی چاہیے۔ میں نے اپنی ہمت سے نہ صرف اپنی بلکہ دیگر لڑکیوں کی زندگی بھی بچائی۔ یہ سبق آج بھی میرے دل میں زندہ ہے کہ برائی ہمیشہ چھپی نہیں رہ سکتی، اور اچھائی کی روشنی کبھی مدھم نہیں ہوتی۔

اب میں ایک کامیاب ڈاکٹر ہوں۔ میں ان بچوں اور لڑکیوں کی مدد کرتی ہوں جو ظلم، خوف اور اندھیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ میں انہیں سکھاتی ہوں کہ امید کبھی نہ چھوڑیں، اور کسی بھی مشکل کے وقت ہمت کے ساتھ لڑیں۔ میرے والد ہر روز اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہماری محنت رنگ لائی اور ہماری زندگی کا سب سے بھیانک دن ایک سبق بن گیا۔

یہ کہانی صرف میری نہیں، بلکہ ہر اس لڑکی کی ہے جو خوفزدہ، تنہا اور مظلوم ہے۔ یہ کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہمت، ایمان، اور سچائی کے ساتھ ہم کسی بھی ظلم کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ برائی کے مقابلے میں اچھائی ہمیشہ بڑی ہوتی ہے۔


تبصرے

New Urdu Stories

ماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانیماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

فاطمہ اور عمران کی موٹر وے پر آخری ملاقات — ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

امتحان کی گزرگاہ: ایک مخلص انسان کی کہانی"