Yateem Ladki Ki Kahani

<a href="https://www.umairkahaniblog.uk/2025/08/nek-amal-aur-yateem-ki-kahani.html" target="_blank">Click here to read the full story</a>
 بے سہارا یتیم بچی 

محلے کی ایک عورت نے ناجائز بچہ پیدا کیا تو وہ میرے دروازے پر رکھ دیا میں نے بچے کو گھر لے لیا، میرے شوہر، عالم دین علی، نے بچے کو ہاتھ نہ لگایا اور کہا اسے واپس کرو میں نے انکار کیا تو انہوں نے بچے کو چھت سے گرا دیا مگر بچہ بچ گیا، اس کے بعد ہمارے نصیب بدلنے لگے ہمارا گھر کرائے کا تھا، ایک انجان آدمی نے ہمیں نیا گھر تحفے میں دے دیا میں نے اس گھر میں بچے کو نہلانا شروع کیا تو جسم پر کچھ لکھا ہوا تھا، میں نے غور سے پڑھا تو دل کو جھٹکا لگا کیونکہ اللہ کی رحمت اور امتحان ایک ساتھ محسوس ہو رہے تھے

صبح کی آنکھ ایک عجیب شور سے کھلی سردی ایسی تھی کہ لحاف چھوڑنے کا دل نہ چاہتا مگر دروازے کے باہر بڑھتی ہوئی آوازوں نے مجھے مجبور کر دیا شال اوڑھی اور دروازہ کھولا تو سامنے ایک ہجوم کھڑا تھا، سب کی نظریں نیچے کسی چیز پر جمی ہوئی تھیں میں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو ایک چھوٹی بچی، سرخ کپڑے میں لپٹی، فرش پر پڑی اور رورہی تھی ایک عورت بولی، "پتا نہیں کس کا گناہ ہے، رات کے اندھیرے میں یہاں چھوڑ گئی" دوسرے نے کہا، "عاشق معشوقی میں منہ کالا کر کے ناجائز اولاد کو مسجد کے امام کے گھر کے دروازے پر پھینک دیا ہے" کسی نے کہا، "اسے کچرے میں پھینک دینا چاہئے، اس گندگی کو پالتے رہے تو اور بچے آئیں گے" میں نے جھک کر بچی کو گود میں اٹھا لیا، بہت کمزور اور لرزتی ہوئی تھی میں نے سب کو واپس جانے کو کہا اور دروازہ بند کر کے اندر آگئی

میرا شوہر، عالم دین علی، اس وقت لاہور میں کسی کام سے گیا ہوا تھا میں نے سوچا جب وہ آئیں گے تو بات کروں گی مگر دل کے کسی کونے میں جانتی تھی وہ کبھی اس بچی کو قبول نہیں کریں گے میری شادی کو پندرہ سال ہو چکے تھے، مرے نصیب میں اولاد نہیں تھی، ہر علاج آزمایا ہر دعا مانگی مگر مایوسی کے علاوہ کچھ نہ ملا، اس بچی کو دیکھ کر میرے اندر ایک عجیب محبت جاگی ایسے لگا جیسے برسوں سے خالی آنگن میں خوشبو اتر آئی ہو اگلے تین دن میں نے اس بچی کی پرورش ایسے کی جیسے وہ میری اپنی اولاد ہو

چوتھے دن عالم دین علی لاہور سے واپس آئے جیسے ہی گھر میں قدم رکھا اور بچی کو دیکھا، ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا، انہوں نے اونچی آواز میں کہا، "یہ کون ہے؟" میں نے نرمی سے کہا، "صبح دروازے پر ملی تھی، بہت بیمار تھی، مجھے لگا اللہ کی طرف سے آزمائش ہے" وہ غصے سے بولے، "تمہیں کیا حق ہے، بندے ہیں اس طرح کیسے کہہ سکتے ہیں" عالم دین علی نے نظریں پھیر لیں اور بولے، "یہ بچی یہاں ایک دن بھی نہیں رکے گی" میں چپ ہو گئی

رات دیر تک میں بچی کو سینے سے لگائے سوچتی رہی، دل نے گواہی دی کہ میں نے جو کیا وہ صحیح تھا اگلے دن عالم دین علی سختی سے بولے کہ اسے کسی یتیم خانے چھوڑ آؤ، مگر میں نے صاف انکار کر دیا، میں نے کہا، "یہ اب میری ذمہ داری ہے، اللہ نے دیا ہے، اللہ ہی رکھے گا" وہ ناراض ہو گئے، کئی دن تک مجھ سے بات نہ کی مگر میں نے بچی کو چھوڑا نہیں اس کا نام "آئیشہ" رکھا اور اس کے لیے دعائیں کرتی رہی

محلے والے اب بھی پیٹھ پیچھے باتیں کرتے مگر میں نے ان کی طرف کان نہ دیا بچی راتوں کو روتی تو عالم دین علی چڑ جاتے کئی بار مجھے ڈانٹا مگر میں صبر سے برداشت کرتی رہی، میں جانتی تھی کہ جس دن یہ بچی میرے دل سے نکل گئی وہ دن میری روح کا زوال ہو گا دو ہفتے گزر گئے بچی اب کچھ بہتر ہو گئی تھی، چہرے پر روشنی آگئی تھی، میری دنیا بدل چکی تھی، ہر چیز جیسے اسی نئی جان کے گرد گھومنے لگی تھی

ایک روز مسجد سے آنے کے بعد عالم دین علی نے کہا، "محلے کے لوگ باتیں بنا رہے ہیں، اب بھی وقت ہے، اسے چھوڑ دو" میں نے جواب دیا، "آپ کو اگر اللہ کی رضا منظور نہیں تو کم از کم میری رضا کا لحاظ کریں" عالم دین علی خاموش ہو گئے اور کچھ نہ کہا میں نے بچی کے لیے چھوٹے چھوٹے کپڑے سلائے جھولا بنایا اور ہر روز اسے قرآن سنایا، وہ جب مجھے دیکھ کر مسکراتی تو ایسا لگتا جیسے ساری دنیا میرے قدموں میں رکھ دی گئی ہو

ایک رات بچی نے زیادہ رونا شروع کر دیا، شاید پیٹ میں درد تھا میں اسے سینے سے لگا کر جھولا جھلانے لگی اسی لمحے عالم دین علی کمرے سے نکلے اور غصے سے بولے، "یہ کیا تماشہ لگا رکھا ہے، تمہیں یہ اندازہ نہیں کہ محلے والے کیا کہہ رہے ہیں، تم ایک گناہ کو پال رہی ہو" میں نے دھیرے سے کہا، "اگر یہ گناہ ہے تو کیا اللہ اس کے لیے ہمیں آزمائش میں نہیں ڈالے گا؟ دین میں تو شفقت کا اجر نہیں بتایا گیا" عالم دین علی چپ رہے مگر ان کے چہرے پر سختی نمایاں تھی

صبح فجر کی اذان کے بعد وہ مسجد چلے گئے اور دو پہر تک واپس نہ آئے میں جانتی تھی وہ کچھ سوچ رہے ہیں، شاید ان کے دل میں کوئی نرم گوشہ بھی جاگ رہا تھا، مگر وہ اسے تسلیم نہیں کرنا چاہتے تھے اسی دوران میری سہیلی نائلہ آئی، وہ جانتی تھی کہ میں کتنے سالوں سے اولاد کے لیے تڑپ رہی تھی، جب میں نے آئیشہ کی بات کی وہ جذباتی ہو گئی اور کہا، "یہ اللہ کا کرم ہے جو تجھے اس بہانے ماں بنا دیا"

اس دن میرے دل کو تسلی ملی، رات کو عالم دین علی واپس آئے، ان کے ہاتھ میں مسجد کی کچھ کتابیں تھیں وہ سیدھے اپنے کمرے میں چلے گئے، میں نے کھانا کھایا مگر وہ نہ نکلے میں جانتی تھی کہ ان کے اندر کچھ ٹوٹ رہا ہے مگر وہ اسے ماننے سے انکاری ہیں اگلے دن انہوں نے کہا کہ آئیشہ کے لیے کوئی اور انتظام کرنا چاہتے ہیں، میں نے ہمت جمع کر کے کہا، "اگر آپ کو میری بات کا یقین نہیں تو اللہ آپ کو وہ نشانیاں دکھا دے گا جو آپ کے دل کو بدل دیں گی"

کچھ دن اسی کشمکش میں گزر گئے، ایک دن میں نے مسجد کے امام قاری صاحب کو گھر بلایا، انہیں ساری صورتحال بتائی، قاری صاحب نے نرمی سے کہا، "یہ بچی اللہ کی طرف سے تمہارے لیے آزمائش بھی ہو سکتی ہے اور انعام بھی، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے، 'یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنے والے کے ہاتھ جنت میں چمکتے ہیں'" عالم دین علی سر جھکائے سنتے رہے مگر کچھ نہ بولے

چند دنوں بعد آئیشہ کو بخار ہو گیا میں اسے لے کر ہسپتال گئی ڈاکٹر نے دوا دی اور کہا جسم کمزور ہے، خیال رکھنا ہوگا، میں دن رات اس کی تیمارداری کرتی رہی، عالم دین علی نے بھی دیکھ کر کچھ نرمی دکھائی، رات کو کھانے پر پہلی بار پوچھا، "کیسی ہے؟" میں نے کہا، "بہتر ہے" مگر ان کی آنکھوں میں ابھی بھی مکمل قبولیت نہیں تھی

ایک دن مسجد کی کمیٹی کا اجلاس ہوا، عالم دین علی کے لیے عزت بڑھانے کا فیصلہ ہوا، ساتھ ہی ایک نمازی نے بتایا کہ مسجد والوں نے ایک پلاٹ خریدا ہے جس پر عالم دین علی کے لیے مکان بنایا جائے گا، یہ سن کر انہوں نے سرد لہجے میں کہا، "اللہ کا کرم ہے"

اللہ تعالیٰ نے اس بچی کی رحمت سے، جس نے بچی اٹھائی تھی، اس عورت کو کئی سال بعد بچے سے نوازا، اس کی برکت سے اس کے گھر میں خوشی اور رحمت آئی، آئیشہ دن بہ دن بڑی ہو رہی تھی، اب وہ رینگتی ہوئی میرے پیچھے آتی اور بولتی، "اما"۔

میں جانتی تھی کہ اگر میں اس دن دروازے پر بچی کو دیکھ کر دل موڑ لیتی یا لوگوں کی باتوں میں آ کر کسی ادارے کے حوالے کر دیتی تو شاید آج بھی خالی جھولی لیے رب سے سوال کرتی رہتی، عالم دین علی اب مکمل طور پر آئیشہ کو اپنی بیٹی سمجھتے تھے، وہ اس کے ساتھ بیٹھ کر سبق یاد کرواتے، جب وہ کوئی آیت غلط پڑھتی تو نرمی سے سمجھاتے، اس کا ہاتھ تھام کر مسجد لے جاتے اور نمازیوں کو فخر سے کہتے، "یہ میری بیٹی ہے"۔

آئیشہ ایک دن مجھ سے کہنے لگی، "اما، کیا میں آپ کی اپنی نہیں ہوں؟" میں نے اس کا چہرہ تھام کر کہا، "بیٹی، اگر ماں بننا صرف جنم دینے سے ہوتا تو اللہ ماں کا درجہ اتنا بلند نہ کرتا، میں ن

ے تمہیں اپنے دل سے جنم دیا ہے"

عالم دین صاحب گھر آ کر چپ رہتے مسجد جاتے نماز پڑھاتے مگر آنکھوں میں شرمندگی اور غم کی جھلک نمایاں تھی میں جانتی تھی کہ ان کے دل میں آئیشہ کے لیے نرم گوشہ جاگ رہا ہے مگر وہ اسے ماننے سے انکاری ہیں میں نے دل میں سوچا اگر یہ بچی میرے گھر نہ آتی تو شاید میری زندگی خالی رہتی آئیشہ میرے دل کی روشنی بن گئی تھی اور اللہ کی رحمت سے اس بچی کو پالنے کی برکت سے کئی سالوں بعد مجھے حمل نصیب ہوا میں نے محسوس کیا کہ آئیشہ کی محبت اور دعائیں میرے نصیب میں رحمت لے کر آئی ہیں حمل ٹھہرا اور میں خوشی سے یہ نعمت قبول کرتی رہی آئیشہ کے ساتھ ہر دن میری زندگی میں خوشیوں کا اضافہ ہو رہا تھا آئیشہ میرے ہاتھ سے پڑھتی، کھیلتی اور میری گود میں سوتی، اس کے ننھے ننھے الفاظ میرے دل کو چھو جاتے ہر لمحہ میں اللہ کی شکر گزاری کرتی کہ اس نے مجھے اس معصوم کی پرورش کرنے کا موقع دیا اور اس کی دعاوں سے میری زندگی میں بچوں کی خوشی بھی شامل کی گئی عالم دین صاحب بھی آہستہ آہستہ آئیشہ کو اپنی بیٹی کی طرح قبول کرنے لگے وہ اسے گود میں بٹھاتے، اس کے ساتھ قرآن پڑھتے اور ہر نمازی کو فخر سے کہتے یہ میری بیٹی ہے آئیشہ ایک دن مجھ سے بولی اماں کیا میں آپ کی اپنی نہیں ہوں میں نے اس کا چہرہ تھام کر کہا بیٹی ماں بننا صرف جنم دینے سے ہوتا تو اللہ ماں کا درجہ اتنا بلند نہ کرتا میں نے تمہیں اپنے دل سے جنم دیا آئیشہ میرے دل کی روشنی، نصیب کی رحمت اور آئندہ آنے والے بچوں کے لیے بھی دعا کا سبب بنی اس کی برکت سے میرا گھر بھر گیا خوشیوں، محبت اور ایمان کی روشنی سے میں جانتی تھی کہ اللہ کی رحمت ہر آزمائش میں چھپی ہوتی ہے اور آئیشہ جیسے معصوم بچوں کی محبت سے انسان کے نصیب بدل جاتے ہیں




تبصرے

New Urdu Stories

ماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانیماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

فاطمہ اور عمران کی موٹر وے پر آخری ملاقات — ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

امتحان کی گزرگاہ: ایک مخلص انسان کی کہانی"