Malik Aur Nokar Ki Kahani 🏠💔 | Urdu Emotional Story Aur Life Lesson


 میرا نام احمد ہے اور میں ایک بڑے بزنس مین کامران صاحب کے ہاں ڈرائیور کی ملازمت کرتا تھا۔ میری زندگی کافی معمولی اور پرسکون تھی، لیکن میں ہمیشہ اپنے کام میں پوری ایمانداری اور وفاداری سے لگا رہتا تھا۔ ایک دن، مجھے گاؤں جانے کی اجازت لینے کا موقع ملا کیونکہ میری بیوی عائشہ کی ڈلیوری اسی ہفتے متوقع تھی۔ میں کامران صاحب کے سامنے کھڑا ہو کر بولا:

“صاحب جی، بس ایک ہفتے کی چھٹی ہے۔ براہ کرم مجھے اجازت دے دیں، میری بیوی کی ڈلیوری قریب ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اس مشکل وقت میں اس کے ساتھ رہوں۔”

کامران صاحب کی آنکھوں میں ایک لمحے کے لیے سوچ کی گہرائی تھی۔ وہ ارد گرد نظریں دوڑاتے ہوئے بولے:

“احمد، تمہارے جانے سے میرے لیے بہت نقصان ہو سکتا ہے… مجھے بتاؤ، تمہیں کیسے جانے دوں؟”

میں چونک گیا، “صاحب، نقصان؟ میں تو صرف ایک عام ڈرائیور ہوں، کوئی اہم شخصیت نہیں۔”

کامران صاحب نے مسکرا کر کہا:

“احمد، میرے پاس ایک بہت بڑا راز ہے… اگر وہ راز تمہیں معلوم ہو جائے تو تمہیں یقین آ جائے گا کہ تم کتنے خاص ہو۔”

میں تجسس اور حیرت کے ملے جلے احساس کے ساتھ بولا:

“صاحب، براہ کرم مجھے بتائیں، یہ راز کیا ہے؟ میں بھی جاننا چاہتا ہوں۔”

انہوں نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا:

“ابھی نہیں احمد، بس اپنے بچے کی پیدائش کے بعد واپس آؤ، تب میں تمہیں سب کچھ بتاؤں گا۔ اس وقت مجھے بھی کچھ باتوں کی تصدیق کرنی ہے۔ تم وعدہ کرو کہ جلد واپس آؤ گے۔”

میں نے وعدہ کر لیا، اور وہ وقت میری زندگی کا سب سے بے چین لمحہ تھا۔ میرے دل میں تجسس بڑھ رہا تھا کہ آخر یہ راز کیا ہے۔ انہوں نے جاتے وقت میرے ہاتھ پر تنخواہ بھی رکھ دی، اور میری آنکھوں میں اعتماد کا احساس پیدا کیا۔

میں گاؤں روانہ ہوا، الٹرا ساؤنڈ سے پہلے ہی معلوم ہو گیا تھا کہ بیٹی پیدا ہوگی۔ میں نے مارکیٹ سے گلابی رنگ کی ننھی ننھی فراکیں خریدیں تاکہ بیٹی کی آمد خوشیوں سے بھری ہو۔ شام کی بس میں بیٹھ کر میں گاؤں کے لیے روانہ ہوا۔ رات بھر میرا دل بے چین رہا، خواب میں کامران صاحب کی باتیں بار بار آ رہی تھیں، اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ راز کیا ہو سکتا ہے۔

صبح گاؤں پہنچا تو بیوی عائشہ مجھے دیکھ کر خوشی سے آنسو بہانے لگی۔

“احمد، یہ دن میرے لیے بہت مشکل تھا! میں نے بڑی بے صبری سے تمہیں انتظار کیا۔”

میں نے مسکرا کر کہا، “اب میں یہاں ہوں، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔”

میری والدین بھی خوش تھے، بیٹی کی آمد کی خوشی میں پورا گھر جشن میں تبدیل ہو گیا۔ جب میں نے عائشہ کو بچی کے کپڑے دکھائے تو اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔

“احمد، ہماری بیٹی خوش نصیب ہوگی، جسے آپ جیسا باپ ملا ہے۔”

میں نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ بیٹی کا نام منہال رکھوں گا۔ یہ نام میرے دل کو بہت پسند تھا اور میری امیدوں کا عکس تھا۔ تین دن بعد بیوی کی حالت اچانک خراب ہو گئی، اور ہم اسپتال کی طرف بھاگے۔ اللہ کا کرم ہوا اور ہماری بیٹی صحت مند پیدا ہوئی۔ یہ دن میری زندگی کا سب سے خوشگوار لمحہ تھا۔

میں دو دن تک بیٹی میں ایسا کھویا رہا کہ مجھے آس پاس کا کچھ بھی ہوش نہ رہا۔ مگر پھر کامران صاحب کی باتیں یاد آئیں۔ میں نے سوچا کہ وعدہ پورا کرنا ضروری ہے۔ بیوی اور والدین نے کہا کہ ابھی کچھ دن اور رہ جاؤ، مگر میں نے فیصلہ کر لیا کہ کامران صاحب کی بیوی سارہ بیگم کی مدد کرنا میری ذمہ داری ہے۔

جب میں شہر واپس آیا تو مجھے افسوسناک خبر ملی — کامران صاحب کا انتقال ہو گیا تھا۔ یہ سن کر میرا دل بیٹھ گیا۔ وہ ایک نہایت نیک اور خوش اخلاق انسان تھے، جنہوں نے زندگی میں سب کے ساتھ شفقت اور انصاف سے پیش آیا۔

بیگم صاحبہ نے میرا دل پگھلا دیا۔ وہ بولیں:

“احمد، میں اکیلی کیسے رہوں گی؟ گھر کے سارے کام، خریداری، اور حفاظت میں تمہارا ساتھ چاہیے۔”

ان کے لہجے میں اتنی بے بسی تھی کہ میں نے کہا:

“ٹھیک ہے بیگم صاحبہ، جب تک آپ کو میری ضرورت ہے، میں یہاں رہوں گا اور آپ کا سہارا بنوں گا۔”

یوں میں نے دوبارہ اپنی ملازمت شروع کر دی، مگر اب عجیب بات یہ ہوئی کہ روز رات کامران صاحب خواب میں آتے اور کہتے:

“احمد… میرے کمرے میں آؤ…”

میں پریشان ہو جاتا، سوچتا کہ بھلا میں ان کے کمرے میں کیسے جا سکتا ہوں؟ یہ سب کچھ میرے لیے ایک پہیلی بن گیا۔

ایک رات، خواب اتنا واضح اور ڈراؤنا تھا کہ میں نے ہمت کر کے سوچا — “چلو دیکھ ہی لیتا ہوں…”

احمد اب مکمل طور پر بیگم صاحبہ سارہ بیگم کی دیکھ بھال اور گھر کے کاموں میں مصروف ہو گیا تھا۔ پورے گھر میں اس کی موجودگی ایک امن اور سکون کا احساس پیدا کر رہی تھی۔ وہ نہ صرف گھر کے امور سنبھالتا بلکہ بیگم صاحبہ کے جذباتی صدمے میں بھی ان کا سہارا بن رہا تھا۔

سارہ بیگم کی زندگی میں احمد کی آمد ایک نعمت سے کم نہیں تھی۔ وہ اکثر احمد سے باتیں کرتی اور اپنے دکھ اور غم کو کم کرنے کی کوشش کرتی۔ احمد کی وفاداری اور ایمانداری نے ان کے دل کو سکون دیا، اور وہ دن بہ دن احمد پر زیادہ انحصار کرنے لگی۔ احمد بھی اپنے فرائض کو نبھاتے ہوئے، اپنی بیوی عائشہ اور بیٹی منہال کے بارے میں ہر لمحہ سوچتا رہتا۔

ہر صبح احمد بیگم صاحبہ کے لیے ناشتے کی تیاری کرتا، گھر کے کاموں کی نگرانی کرتا، اور ملازمین کی ذمہ داریاں طے کرتا۔ ملازمین بھی احمد کی ایمانداری اور مہارت کو دیکھ کر اس کے احترام کرنے لگے تھے۔ احمد کے لیے یہ نیا ماحول پہلے تھوڑا عجیب تھا، لیکن اس نے جلد ہی خود کو اس ماحول میں ڈھال لیا۔

ایک دن، احمد نے محسوس کیا کہ بیگم صاحبہ کچھ اداس ہیں۔ اس نے آہستہ سے پوچھا:

“بیگم صاحبہ، آپ کیوں اداس ہیں؟ کیا میں کچھ کر سکتا ہوں؟”

سارہ بیگم نے آہستہ آہستہ کہا:

“احمد، تم نے بہت کچھ سنبھال لیا ہے، مگر میرے دل میں ایک خلا ہے۔ کامران صاحب کی کمی ہر لمحہ محسوس ہوتی ہے۔”

احمد نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا:

“بیگم صاحبہ، میں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہوں۔ اللہ تعالی ہمیں صبر اور سکون دے گا۔ آپ تنہا نہیں ہیں، میں ہوں نا۔”

بیگم صاحبہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اور احمد نے انہیں سہارا دیا۔ یہ لمحہ احمد کے لیے بھی جذباتی تھا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ کامران صاحب کی محبت اور رہنمائی اب صرف یادوں میں باقی ہے۔

احمد نے فیصلہ کیا کہ وہ بیگم صاحبہ کے ساتھ صرف گھر کی دیکھ بھال ہی نہیں کرے گا، بلکہ کامران صاحب کی تمام کاروباری ذمہ داریوں میں بھی ان کا ہاتھ بٹائے گا۔ احمد نے بیگم صاحبہ سے کہا:

“بیگم صاحبہ، میں چاہتا ہوں کہ کامران صاحب کے کاروبار میں بھی آپ کو سکون ملے۔ میں ہر قدم پر آپ کے ساتھ ہوں گا۔”

سارہ بیگم نے مسکرا کر کہا:

“احمد، تم نے میرے لیے جو ذمہ داری قبول کی ہے، میں اس کی قدر کرتی ہوں۔ تم واقعی ایک خاص انسان ہو۔”

احمد کی زندگی میں ایک نیا رخ آیا۔ وہ صرف ڈرائیور نہیں رہا، بلکہ بیگم صاحبہ کے گھر اور کاروبار کا اعتماد اور سہارا بن گیا۔ اس نے اپنی زندگی کے ہر لمحے کو ان کے لیے وقف کر دیا۔

اسی دوران، احمد کی بیوی عائشہ بھی اپنے نئے کردار سے واقف تھی اور اس کا حوصلہ بڑھا رہی تھی۔ وہ اکثر احمد کو فون کرتی، بیٹی منہال کے بارے میں باتیں کرتی، اور احمد کو یاد دلاتی کہ وہ گھر اور بیگم صاحبہ کے کام میں متوازن رہے۔ احمد نے اپنی ذاتی زندگی اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے درمیان توازن قائم رکھا۔

ایک دن احمد نے محسوس کیا کہ ملازمین کے درمیان کچھ اختلافات پیدا ہو رہے ہیں۔ اس نے فوراً ان سے بات کی اور کہا:

“ہم سب کامران صاحب کے اصولوں کے مطابق کام کریں۔ ہر ایک کو احترام اور انصاف ملنا چاہیے۔”

ملازمین احمد کی باتوں سے متفق ہوئے اور کام کے دوران مزید تعاون شروع کر دیا۔ احمد کی موجودگی نے پورے گھر اور کاروبار میں نظم و ضبط قائم کر دیا۔

بیگم صاحبہ احمد کی وفاداری اور محنت دیکھ کر خوش ہوئی اور اس نے فیصلہ کیا کہ احمد کی قدر کی جائے۔ وہ اکثر احمد سے کہتی:

“احمد، تم نے میری زندگی بدل دی ہے۔ تمہاری وفاداری اور محنت نے مجھے سکون دیا ہے۔”

احمد کے دل میں ایک عجیب احساس تھا۔ وہ جانتا تھا کہ بیگم صاحبہ کی عزت اور اعتماد اس کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ وہ اپنے فرائض میں اتنا مشغول ہوا کہ ہر دن ایک نئے تجربے اور نئے چیلنج کے ساتھ گزرتا۔

ایک شام، احمد بیگم صاحبہ کے ساتھ بیٹھا اور بیٹی منہال کی بات کر رہا تھا۔

“بیگم صاحبہ، منہال بہت خوش مزاج اور معصوم ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ وہ صحت مند ہے۔”

بیگم صاحبہ نے مسکرا کر کہا:

“احمد، تم نے ہمارے گھر میں امید اور سکون کی روشنی پھر سے پیدا کر دی ہے۔ تم واقعی کامران صاحب کے بعد ہماری زندگی کے سب سے قیمتی فرد ہو۔”

احمد کے دل میں خوشی اور فخر کا احساس ہوا، مگر اس کے ذہن میں ہمیشہ کامران صاحب کا راز بھی موجود تھا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر یہ راز کیا ہے، جو کامران صاحب نے اسے جاننے کے لیے مقرر کیا تھا۔

اسی دوران، احمد نے محسوس کیا کہ کچھ دنوں کے بعد وہ راز ظاہر ہو جائے گا۔ اس نے سوچا کہ وہ ہر طرح سے تیار رہے گا اور بیگم صاحبہ کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہ پہنچائے۔ اس نے دل میں ٹھان لیا کہ وہ بیگم صاحبہ کی حفاظت اور کاروبار میں مکمل کردار ادا کرے گا، اور اپنی زندگی کے ہر لمحے کو بہتر بنائے گا۔

احمد کی کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ اس نے اپنے کردار، وفاداری، اور ایمانداری کے ذریعے بیگم صاحبہ اور گھر کے تمام افراد کے دلوں میں اپنی جگہ بنا لی۔ ہر دن، ہر لمحہ، احمد کے لیے ا

یک نئی ذمہ داری اور ایک نئی خوشی لے کر آتا تھا۔

میں آہستہ آہستہ کامران صاحب کے کمرے کی طرف بڑھا۔ رات کا وقت تھا، پورا گھر سنسان۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ جیسے ہی دروازہ کھولا، کمرے میں ایک عجیب خوشبو تھی۔ اندر سب کچھ ویسا ہی تھا جیسے وہ چھوڑ کر گئے تھے۔

کمرے کے ٹیبل پر ایک لفافہ رکھا ہوا تھا جس پر میرا نام لکھا تھا: “احمد کے ل

یے”۔

میرے ہاتھ کانپنے لگے۔ میں نے خط کھولا —

احمد اب مکمل طور پر بیگم صاحبہ کے گھر اور کاروبار کا حصہ بن چکا تھا۔ وہ ہر دن نئی ذمہ داریوں کے ساتھ جیتا، مگر اس کے دل میں ہمیشہ ایک سوال رہتا تھا: کامران صاحب کا راز کیا تھا؟ وہ اس کا جواب جاننے کے لیے بے صبر تھا۔

ایک دن بیگم صاحبہ نے احمد کو بلا کر کہا:

“احمد، آج میں تمہیں کامران صاحب کی وصیت اور راز کے بارے میں بتاؤں گی۔”

احمد کی آنکھیں حیرت اور تجسس سے بھر گئیں۔ وہ فوراً ان کے پاس بیٹھ گیا۔

بیگم صاحبہ نے کہا:

“کامران صاحب نے اپنی ساری جائیداد اور کاروبار تمہارے حوالے کیے ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ تم ان کا اعتماد برقرار رکھو اور سب کچھ ایمانداری سے سنبھالو۔ تمہیں لگتا ہوگا کہ تم ایک عام ڈرائیور ہو، لیکن تمہارے اندر وہ صبر، ایمانداری اور وفاداری تھی جو کسی بڑے آدمی میں بھی شاذ و نادر دیکھنے کو ملتی ہے۔ اسی لیے وہ تمہیں سب کچھ سونپ گئے۔”

احمد کے دل میں خوشی اور شکرگزاری کا سمندر اُمڈ آیا۔ وہ خود کو بے حد خوش نصیب محسوس کرنے لگا۔

“بیگم صاحبہ، میں شکر گزار ہوں کہ کامران صاحب نے مجھ پر اتنا اعتماد کیا۔ میں کبھی بھی ان کا اعتماد نہیں توڑوں گا، اور ہمیشہ ایمانداری سے کام کروں گا۔”

بیگم صاحبہ نے مسکرا کر کہا:

“احمد، تم نے یہ وعدہ پورا کیا۔ تم نے ہماری زندگی میں سکون اور خوشیاں واپس لائی ہیں۔”

اب احمد کے لیے زندگی کا نیا دور شروع ہوا۔ وہ نہ صرف گھر اور کاروبار میں اہم کردار ادا کر رہا تھا، بلکہ اس کی اپنی بیوی عائشہ اور بیٹی منہال کے ساتھ تعلقات بھی مضبوط ہو گئے تھے۔ احمد کی بیٹی منہال روز بروز مزید معصوم اور خوش مزاج بنتی جا رہی تھی، اور احمد اپنے بچوں کے ساتھ ہر لمحہ گزار کر خوشی محسوس کرتا۔

احمد نے بیگم صاحبہ کے ساتھ بیٹھ کر ملازمین کو سمجھایا:

“ہم سب کامران صاحب کے اصولوں کے مطابق کام کریں گے۔ ایمانداری، احترام اور انصاف ہماری زندگی کا حصہ ہوں گے۔”

ملازمین احمد کی باتوں سے متفق ہوئے، اور ہر کسی نے اپنے کام میں مزید محنت شروع کر دی۔ احمد کی قیادت اور ایمانداری نے پورے دفتر اور گھر میں نظم و ضبط قائم کر دیا۔

ایک دن احمد بیگم صاحبہ کے ساتھ بیٹی منہال کی تصویریں دیکھ رہا تھا۔ منہال کی ہنسی اور مسکراہٹ نے احمد کے دل کو خوشی سے بھر دیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کیسے ایک چھوٹا سا انسان، ایک چھوٹی بیٹی، اس کی زندگی میں اتنی خوشیاں لا سکتی ہے۔

بیگم صاحبہ احمد کی طرف دیکھ کر بولیں:

“احمد، تم نے ہماری زندگی میں روشنی واپس لے آئی ہے۔ تم نہ صرف ایک وفادار ملازم ہو، بلکہ ہمارے خاندان کا حصہ بن گئے ہو۔ تم واقعی کامران صاحب کے بعد سب سے قیمتی فرد ہو۔”

احمد نے دل میں کہا کہ اب وہ ہمیشہ بیگم صاحبہ، عائشہ، اور بیٹی منہال کی حفاظت کرے گا، اور کامران صاحب کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارے گا۔ وہ جانتا تھا کہ کامیابی، محبت اور وفاداری کا اصل مطلب یہی ہے کہ ہر کسی کے دل میں سکون اور اعتماد قائم رہے۔

بیگم صاحبہ نے احمد کو اعتماد دیتے ہوئے کہا:

“احمد، تمہارے بغیر یہ سب ممکن نہیں تھا۔ تم نے ثابت کر دیا کہ وفاداری اور ایمانداری کی قیمت بہت بڑی ہوتی ہے۔ اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے۔”

احمد نے مسکرا کر کہا:

“بیگم صاحبہ، اللہ کا شکر ہے کہ میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کر سکا اور آپ کی زندگی میں سکون لا سکا۔”

یوں احمد کی کہانی ایک خوشگوار اختتام کو پہنچی۔ س نے نہ صرف بیگم صاحبہ کے گھر اور کاروبار کی حفاظت کی، بلکہ اپنی بیوی اور بیٹی کے لیے بھی بہترین زندگی فراہم کی۔ ہر دن، ہر لمحہ، احمد کے لیے ایک نئی خوشی اور نیا سبق لے کر آتا رہا۔

احمد کے لیے یہ سبق بھی بہت قیمتی تھا کہ: ایمانداری، وفاداری اور صبر انسان کی سب سے بڑی طاقت ہیں۔

اور بالآخر، وہ سب خوش اور مطمئن زندگی گزارنے لگے، اور کامران صاحب کا نام اور ا

ن کی تعلیمات ہمیشہ دلوں میں زندہ رہیں۔






---

تبصرے

New Urdu Stories

ماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانیماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

فاطمہ اور عمران کی موٹر وے پر آخری ملاقات — ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

امتحان کی گزرگاہ: ایک مخلص انسان کی کہانی"