💔 Ek Larki Ki Sachai | Emotional Kahani Urdu
سچائی نے حویلی کے در و دیوار ہلا دیے
حویلی کے بڑے دروازے کے باہر دھوپ کی شدت کم ہو رہی تھی۔ شام کا وقت تھا، پرندے اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹ رہے تھے۔ مزدور دن بھر کی مشقت کے بعد ایک ایک کر کے اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔ ایسے میں مصطفی تھکا ہارا ہاتھوں میں چھالے اور کپڑوں پر مٹی لیے ہوئے بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھوں میں عجب سی خاموشی تھی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ عام سا مزدور دراصل کون ہے۔
مصطفی کا اصل تعارف بہت کم لوگوں کو معلوم تھا۔ وہ اس حویلی کے مالک نواب شفیق الدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ مگر حالات کچھ ایسے بنے کہ چودہ سال پہلے وہ اس حویلی سے دور پردیس بھیج دیا گیا۔ پردیس میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب وہ واپس آیا تو اس نے فیصلہ کیا کہ وہ سیدھے طور پر حویلی کا وارث بن کر نہیں آئے گا بلکہ بھیس بدل کر اپنے دشمنوں کو پہچانے گا۔ اس نے ڈرائیور کا روپ اختیار کیا اور خاموشی سے سب کو دیکھنے لگا۔
اسی دوران حویلی کے ایک ملازم کی بیٹی گل بانو روز کبھی پانی، کبھی کھانا لانے آتی۔ وہ معصوم دل کی لڑکی تھی۔ غربت کے باوجود اس کے اندر عجب سی روشنی تھی۔ آج بھی وہ چپکے سے مصطفی کے قریب آئی اور مٹھی میں دبے چند سکے اس کے سامنے بڑھا دیے۔
“یہ سوروپے رکھ لو… اس کا کچھ کھا لینا۔ حویلی کے لوگ بڑے ظالم ہیں، تمہیں کھانا نہیں دیں گے۔”
مصطفی اس کے معصوم چہرے کو دیکھتا رہ گیا۔ اس نے زندگی میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کو دیکھا تھا مگر کسی کی آنکھوں میں اتنی سچائی اور اتنی نرمی نہیں دیکھی تھی۔ وہ لمحہ بھر کے لیے بھول گیا کہ وہ دراصل اس حویلی کا بڑا وارث ہے۔
“یہ تم کیوں دے رہی ہو؟ یہ تمہارے اپنے ہیں، اپنے باپ کے خون پسینے کی کمائی کے ہیں۔” مصطفی نے دھیرے سے کہا۔
گل بانو نے مسکراتے ہوئے جواب دیا:
“بھائی نے کہا تھا کہ اچھے لوگوں پر خرچ کرو تو وہ صدقہ بن جاتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم تم کون ہو، پر تمہارے چہرے پر تھکن ہے، بھوک ہے۔ یہ لے لو۔ میں واپس نہیں مانگوں گی۔”
مصطفی کے دل میں ایک عجیب سی لہر اٹھی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے حویلی کی شان و شوکت گھوم گئی، بڑے بڑے برتنوں میں کھانا ضائع ہوتا تھا، اور ادھر یہ لڑکی اپنے چھوٹے سے دل میں کتنی بڑی سخاوت لیے کھڑی تھی۔
وہ کچھ لمحے خاموش رہا، پھر دھیرے سے بولا:
“تمہیں ڈر نہیں لگتا؟ اگر حویلی کے لوگوں کو پتا چل گیا کہ تم نے ایک اجنبی کو پیسے دیے ہیں تو وہ تمہیں سزا دیں گے۔”
گل بانو ہنس پڑی۔
“ڈر تو ہر وقت لگتا ہے، لیکن جو صحیح لگے وہ کرنا چاہیے۔ اور ویسے بھی، اللہ سب دیکھ رہا ہے۔”
مصطفی کے دل پر جیسے ایک چوٹ لگی ہو۔ اس نے وہ سکے ہاتھ میں لیے، مگر دل میں فیصلہ کیا کہ یہ رقم وہ کبھی استعمال نہیں کرے گا۔ یہ اس لڑکی کی نیکی کی نشانی ہے، اور وہ اس امانت کو اپنی زندگی بھر کی طاقت بنا کر رکھے گا۔
اسی لمحے حویلی کے اندر سے شور اٹھا۔ کوئی نوکر بھاگتا ہوا آیا اور بولا:
“ڈرائیور! نواب صاحب نے کہا ہے گاڑی تیار رکھنا۔ آج بڑے مہمان آ رہے ہیں۔”
مصطفی نے ایک لمحے کو گل بانو کی طرف دیکھا، پھر سکے جیب میں ڈالے اور سر جھکائے حویلی کی طرف بڑھ گیا۔ گل بانو اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی، اور اس کے دل میں ایک عجیب سا سکون تھا، جیسے اس نے کوئی بڑی نیکی کر لی ہو۔
مصطفی کے دل میں طوفان برپا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ آج کے مہمان ہی دراصل وہ لوگ ہیں جو اس کے باپ کی موت کے بعد حویلی پر قبضہ جمانے کی سازش کر رہے ہیں۔ اور اب وقت قریب آ رہا تھا کہ وہ سب کے اصل چہرے پہچان سکے۔
حویلی کے صحن میں قدم رکھتے ہی مصطفی کے قدم بھاری ہوگئے۔ سامنے نوکر ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے، مہمانوں کے استقبال کی تیاری زور و شور سے جاری تھی۔ دیواروں پر لٹکتے فانوس روشن کیے جا رہے تھے، بڑے بڑے قالین بچھائے جا رہے تھے۔ وہ سب منظر دیکھ کر مصطفی کے دل میں عجیب سا کرب پیدا ہوا۔
یہ سب دولت، یہ سب شان و شوکت… اس کے والد کی محنت اور عزت کی نشانی تھی۔ لیکن اب یہ حویلی ان کے دشمنوں کے قبضے میں تھی۔
مصطفی نے خاموشی سے گاڑی نکالی اور دروازے کے قریب لے آیا۔ کچھ ہی دیر بعد تین بڑی گاڑیاں حویلی میں داخل ہوئیں۔ ان میں سے اترنے والوں میں چہرے وہی تھے جنہیں مصطفی برسوں پہلے بچپن میں دیکھ چکا تھا۔ یہ وہی رشتہ دار تھے جنہوں نے سازشیں کر کے نواب شفیق الدین کے انتقال کے بعد اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔
آگے بڑھ کر ایک آدمی اونچی آواز میں بولا:
“ڈرائیور! گاڑیاں برابر کھڑی کر۔ ہم اندر جا رہے ہیں، کسی کو دیر نہ ہو۔”
مصطفی نے سر جھکا کر حکم مانا، مگر اس کے دل میں طوفان تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہی لوگ اس کی والدہ کو رُلا رُلا کر دن گزارنے پر مجبور کرتے رہے، یہی لوگ گل بانو کے والد جیسے وفادار نوکروں کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کرتے رہے۔
جب سب مہمان اندر گئے تو مصطفی گاڑی کے پاس کھڑا سوچوں میں ڈوبا رہا۔ اچانک ایک آواز نے اسے چونکا دیا۔
“ڈرائیور بھائی! یہ لو پانی پی لو۔”
وہ پلٹا تو سامنے پھر گل بانو کھڑی تھی۔ اس کے ہاتھ میں مٹی کے گھڑے کا ایک کٹورا تھا۔ پسینے میں بھیگی ہوئی مگر مسکراتی ہوئی۔
مصطفی نے کٹورا پکڑا اور دھیرے سے کہا:
“تم کیوں بار بار میرے پاس آ جاتی ہو؟ اگر کسی نے دیکھ لیا تو مشکل ہو جائے گی۔”
گل بانو نے دھیرے سے سر جھکایا:
“مشکلیں تو ہم جیسے غریبوں کا زیور ہیں۔ پر میں دیکھ رہی ہوں، تم سب سے الگ ہو۔ تمہاری آنکھوں میں کچھ اور ہے۔ جیسے تم کوئی راز چھپا رہے ہو۔”
مصطفی کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ اس نے نظر جھکالی اور پانی پینے لگا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ لڑکی بے حد معصوم ہے لیکن اس کی آنکھیں سب کچھ بھانپ لیتی ہیں۔
اسی لمحے اندر سے قہقہوں اور آوازوں کا شور بلند ہوا۔ دشمن رشتہ دار خوشیاں مناتے بیٹھے تھے۔ مصطفی کو حکم دیا گیا کہ وہ بڑے دربار ہال کے باہر کھڑا رہے۔
وہ دور سے ان سب کو دیکھ رہا تھا۔ ایک شخص اونچی آواز میں کہہ رہا تھا:
“اب تو حویلی مکمل ہمارے قبضے میں ہے۔ وہ لڑکا جسے وارث کہا جاتا تھا، پتہ نہیں کہاں بھٹک رہا ہے۔ اگر وہ واپس آ بھی گیا تو ہمیں کون پہچان پائے گا؟ ہم نے تو سب انتظام کر رکھا ہے۔”
مصطفی کی مٹھی بند ہوگئی۔ دل چاہا ابھی سب کے سامنے اپنا اصل چہرہ دکھا دے، مگر نہیں۔ ابھی وقت نہیں آیا تھا۔
اچانک اس کی نظر گل بانو پر پڑی جو دور سے برتن اٹھا کر ہال کی طرف جا رہی تھی۔ ایک لمحے کے لیے ان کی نظریں ملیں۔ گل بانو نے اپنی نگاہوں سے جیسے کہنا چاہا ہو کہ صبر کرو، اللہ انصاف ضرور کرتا ہے۔
اس لمحے مصطفی نے اپنے دل میں فیصلہ کیا۔ وہ اس حویلی کی سچائی سامنے لائے گا، دشمنوں کے چہرے بے نقاب کرے گا۔ لیکن اس جدوجہد میں شاید اسے اپنی پہچان سب سے چھپانی پڑے گی، حتیٰ کہ گل بانو سے بھی۔
رات گہری ہونے لگی۔ مہمان محفل میں مگن تھے اور مصطفی گاڑی کے قریب بیٹھا ہوا اپنے اگلے قدم کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ لیکن اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اندھیروں میں کوئی اور بھی اس پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
اندھیروں میں کسی کی نظریں واقعی مصطفی پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ حویلی کا پرانا منیجر "کاشف" تھا، جسے نئے وارثوں نے اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ وہ ہمیشہ شک بھری نظر سے ہر نوکر کو دیکھتا، مگر آج اس کی توجہ خاص طور پر اس نئے ڈرائیور پر تھی۔
کاشف نے دور سے مصطفی کو گھورتے ہوئے کہا:
"یہ نیا ڈرائیور کچھ زیادہ ہی خاموش ہے۔ نہ ہنستا ہے، نہ دوسروں کی طرح چاپلوسی کرتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی روشنی ہے… جیسے سب کچھ جانتا ہو۔"
وہ یہ الفاظ بڑبڑاتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ مصطفی نے چونک کر سر اٹھایا لیکن پھر خود کو قابو میں کرلیا۔ وہ جانتا تھا کہ اب اسے ہر قدم سوچ سمجھ کر رکھنا ہوگا۔
اسی دوران گل بانو اپنی ماں کے ساتھ صحن میں آ نکلی۔ ماں نے اسے جھڑک کر کہا:
"بیٹی! تم بار بار اس نئے ڈرائیور کے قریب کیوں جاتی ہو؟ یہ لوگ اونچے لوگ ہیں، ہم غریبوں کے مقدر میں بس خدمت لکھی ہے۔"
گل بانو نے آہستہ آواز میں کہا:
"ماں، اس کی آنکھوں میں مجھے سچائی نظر آتی ہے۔ جیسے یہ بھیڑوں کی کھال میں چھپا کوئی شیر ہو۔"
ماں نے ڈانٹ کر کہا:
"ایسی باتیں دل سے نکال دے۔ یہاں دشمنوں کا ڈیرہ ہے، کوئی سچ بولنے والا زندہ نہیں بچتا۔"
رات کے آخری پہر جب سب مہمان اپنے کمروں میں جاچکے تھے، مصطفی نے چپکے سے حویلی کے پرانے حصے کا رخ کیا۔ یہ وہ حصہ تھا جہاں برسوں پہلے اس کے بچپن کی یادیں بسی ہوئی تھیں۔ دیواروں پر لٹکتے چراغوں کی جگہ اب اندھیرا اور بوسیدہ اینٹیں رہ گئی تھیں۔
اس نے آہستہ سے ایک دروازہ کھولا۔ کمرے میں گرد سے بھری کتابیں اور پرانے کاغذ بکھرے ہوئے تھے۔ یہ اس کے والد نواب شفیق الدین کا ذاتی کمرہ تھا۔ دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔
مصطفی نے ایک دراز کھولی تو اندر ایک پرانا صندوق رکھا تھا۔ اس میں دستاویزات اور کچھ تصویریں تھیں۔ ایک تصویر پر ہاتھ پڑا تو آنکھیں نم ہوگئیں۔ اس میں وہ اپنی ماں کے ساتھ بچپن میں کھڑا تھا۔ پیچھے وہی دشمن رشتہ دار کھڑے تھے جو آج حویلی کے مالک بنے بیٹھے تھے۔
اچانک کمرے کے دروازے پر آہٹ ہوئی۔ مصطفی نے جلدی سے سب کچھ چھپا دیا۔ دروازہ کھلا تو گل بانو اندر آئی۔
"آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟" اس نے دھیمی آواز میں پوچھا۔
مصطفی نے چونک کر اسے دیکھا، پھر سنبھل کر بولا:
"میں بس… پرانے سامان کو دیکھ رہا تھا۔"
گل بانو نے قریب آ کر کہا:
"یہ کمرہ برسوں سے بند ہے، یہاں صرف خاص لوگ ہی آ سکتے ہیں۔ آپ ڈرائیور ہیں، پھر یہاں کیسے؟"
مصطفی نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ وہ معصوم نگاہیں جیسے اس کے دل کا بھید پڑھنا چاہتی تھیں۔ ایک لمحے کو دل چاہا سب سچ کہہ دے، مگر اس نے لب کاٹ کر خاموشی اختیار کی۔
گل بانو نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا:
"جو بھی آپ ہیں، مجھے یقین ہے کہ آپ کا مقصد برا نہیں۔ پر محتاط رہیے گا، یہاں ہر کونے میں کان اور آنکھیں لگی ہیں۔"
مصطفی کے دل کو جیسے سکون ملا۔ وہ پہلی بار محسوس کر رہا تھا کہ اس کے راز کا بوجھ اکیلا نہیں رہا۔
اسی لمحے باہر شور اٹھا۔ کاشف کی آواز گونجی:
"کسی نے پرانے کمرے کا دروازہ کھولا ہے! سب کو تلاش کرو!"
گل بانو گھبرا گئی:
"اب کیا کریں؟ اگر وہ آپ کو یہاں دیکھ لیں تو شک ہوجائے گا۔"
مصطفی نے گہرا سانس لیا اور بولا:
"فکر نہ کرو، وقت آنے پر سب کچھ بدل جائے گا۔"
دروازے پر قدموں کی چاپ قریب آ رہی تھی۔ مصطفی نے کمرے کی لالٹین بجھا دی اور اندھیرے میں چھپ گیا۔ کھیل اب خطرناک ہونے والا تھا۔
دروازے پر قدموں کی چاپ قریب آتی جا رہی تھی۔ گل بانو کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اس نے گھبرا کر مصطفی کی طرف دیکھا۔ کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، صرف باہر سے آتی مدھم روشنی زمین پر لکیریں بنا رہی تھی۔
کاشف اور اس کے دو ساتھی کمرے میں گھس آئے۔ کاشف نے غصے سے چاروں طرف دیکھا اور کہا:
"یہ دروازہ تو بند تھا، پھر کس نے کھولا؟"
ساتھیوں میں سے ایک نے کہا:
"شاید ہوا سے کھل گیا ہو…"
کاشف نے تیز آواز میں جھڑکا:
"یہ پرانا دروازہ ہے، خود سے نہیں کھلتا۔ یہاں کوئی نہ کوئی آیا ہے، تلاش کرو!"
گل بانو نے لمحہ ضائع کیے بغیر اپنی دوپٹہ زمین پر پھینکا اور جھک کر کہنے لگی:
"بابا جی! میں ہی آئی تھی… پرانی کتابیں دیکھنے۔ معاف کر دیجئے گا۔"
کاشف نے اسے گھورا:
"تم؟ اس کمرے میں؟ کس کی اجازت سے؟"
گل بانو نے جھوٹی سچائی کے ساتھ کہا:
"بس تجسس تھا۔ بچپن سے سنتی آئی ہوں کہ یہ کمرہ کبھی نواب صاحب کا تھا۔ آج ہمت کر کے دیکھنے چلی آئی۔"
کاشف نے شک بھری نگاہ ڈالی مگر پھر طنزیہ ہنسی ہنسا:
"جاؤ… لیکن دوبارہ یہاں آنے کی کوشش مت کرنا۔ یہ کمرہ عام نوکروں کے لیے نہیں۔"
وہ پلٹ کر چلا گیا۔ جیسے ہی قدموں کی چاپ دور ہوئی، مصطفی اندھیرے کے ایک کونے سے باہر آیا۔ اس نے گل بانو کو خاموشی سے دیکھا۔
"تم نے اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ کیوں؟" مصطفی نے دھیمے لہجے میں کہا۔
گل بانو کی آنکھوں میں عزم جھلک رہا تھا:
"کیونکہ میں نے آپ کی آنکھوں میں دیکھا ہے کہ آپ کوئی عام ڈرائیور نہیں۔ مجھے نہیں پتا آپ کون ہیں، مگر یہ ضرور جانتی ہوں کہ آپ کی کہانی ان سب سے الگ ہے۔"
مصطفی کے دل کو جیسے ایک سہارا ملا۔ برسوں بعد کسی نے اس کے وجود کو پہچاننے کی کوشش کی تھی۔
رات ڈھل گئی۔ حویلی میں سب سو گئے مگر مصطفی کی آنکھوں میں نیند نہ آئی۔ وہ صحن میں بیٹھا پرانے کاغذات اور اپنے والد کی تصویر کو یاد کرتا رہا۔ دل میں عہد کیا کہ وہ اپنے خاندان کا حق واپس لے کر رہے گا، چاہے اس کے لیے جان ہی کیوں نہ دینی پڑے۔
اگلی صبح حویلی میں ہلچل مچ گئی۔ باہر بڑے مہمانوں کے آنے کی خبر تھی۔ وہی رشتہ دار جنہوں نے چالاکی سے مصطفی کے والد کی جائیداد ہڑپ لی تھی، اب یہاں جمع ہونے والے تھے۔
مصطفی نے ڈرائیور کا حلیہ اوڑھے سب کو گاڑیوں سے اتارتے دیکھا۔ ان میں ایک چہرہ ایسا بھی تھا جسے دیکھ کر اس کی رگوں میں خون کھول اٹھا۔ وہ "نواب جمیل" تھا — وہی شخص جس نے جھوٹے کاغذات بنا کر مصطفی کے والد کو بدنام کیا تھا اور حویلی پر قبضہ کیا تھا۔
نواب جمیل نے رعب دار لہجے میں کہا:
"کاشف! سب انتظام مکمل ہو؟ آج ہمیں بڑے فیصلے کرنے ہیں۔"
کاشف نے جھک کر کہا:
"جی نواب صاحب! سب تیار ہے۔"
مصطفی نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور نظریں جھکا کر کھڑا ہوگیا تاکہ کوئی اسے پہچان نہ سکے۔ لیکن اندر سے اس کا دل طوفان کی طرح شور کر رہا تھا۔
اسی دوران گل بانو نے چھپ کر مصطفی کو اشارہ دیا۔ وہ جلدی سے باورچی خانے کے قریب گئی اور اسے اکیلے میں بلا لیا۔
"مصطفی صاحب… یا جو بھی آپ ہیں… مجھے لگتا ہے آپ کے لیے وقت کم ہے۔ یہ سب لوگ کسی بڑے فیصلے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اگر آپ نے اپنی حقیقت نہ چھپائی تو آپ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔"
مصطفی نے گہری سانس لی اور پہلی بار آہستہ آواز میں کہا:
"گل بانو… میرا نام مصطفی نہیں… میں نواب شفیق الدین کا بیٹا ہوں۔"
گل بانو کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ اس کے ہونٹوں سے بمشکل الفاظ نکلے:
"آپ… وارث ہیں؟"
مصطفی نے اثبات میں سر ہلایا:
"ہاں، اور میں یہاں اپنے باپ کا حق لینے آیا ہوں۔ لیکن اس جنگ میں تمہاری دوستی اور ہمت میرے لیے سب سے بڑا سہارا ہے۔"
گل بانو کے چہرے پر خوف اور عزم دونوں کے سائے تھے۔ اس نے لرزتی آواز میں کہا:
"تو پھر میں آپ کے ساتھ ہوں۔"
اسی لمحے باہر نواب جمیل کی آواز گونجی:
"سب لوگ مجلس میں جمع ہو جائیں! فیصلہ وقت آ گیا ہے!"
حویلی کے بڑے ہال میں سب رشتہ دار جمع تھے۔ اونچی چھتوں پر لٹکے فانوس کی روشنی پورے کمرے میں پھیل رہی تھی۔ نواب جمیل اپنی کرسی پر براجمان تھا اور سب پر رعب ڈالتے ہوئے بولا:
"آج ہم یہ طے کریں گے کہ اس حویلی اور جائیداد کا اگلا وارث کون ہوگا۔ چونکہ مصطفی (نواب شفیق کا بیٹا) برسوں پہلے ملک چھوڑ کر بھاگ گیا تھا اور واپس نہیں آیا، اس لیے اب یہ حق ہمارا ہے۔"
یہ الفاظ مصطفی کے دل کو چیر گئے، مگر وہ خاموشی سے ایک کونے میں کھڑا رہا۔
اتنے میں گل بانو آہستہ سے ہال میں داخل ہوئی۔ سب نے چونک کر اسے دیکھا۔ نواب جمیل نے بھنویں چڑھا کر کہا:
"یہ نوکرانی یہاں کیا کر رہی ہے؟"
گل بانو نے مضبوط لہجے میں کہا:
"میں یہاں کسی کی گواہی دینے آئی ہوں۔"
نواب جمیل نے قہقہہ لگایا:
"نوکرانی کی گواہی کا کیا اعتبار؟"
اسی لمحے مصطفی آگے بڑھا۔ اس نے ڈرائیور کی ٹوپی اتاری، چہرے پر سے نقاب ہٹایا اور بلند آواز میں کہا:
"اعتبار چاہیے تو میرا چہرہ دیکھ لو… میں ہوں مصطفی، نواب شفیق الدین کا بیٹا!"
پورے ہال میں سناٹا چھا گیا۔ سب کے چہرے رنگ بدل گئے۔ نواب جمیل کے ہاتھ کانپنے لگے۔
"یہ… یہ جھوٹ ہے!" وہ چیخا۔
مصطفی نے جیب سے وہ اصلی کاغذات نکالے جو برسوں پہلے اس کے والد کے دوست نے سنبھال کر رکھے تھے۔ ان کاغذات پر جائیداد اور حویلی کے اصل وارث کے طور پر مصطفی کا نام درج تھا۔
"یہ ثبوت ہیں، اور ان کے ساتھ میرا خون اور میرا وجود بھی۔ اب تم انکار نہیں کر سکتے، جمیل۔" مصطفی کی آواز بجلی کی گرج کی طرح گونجی۔
مجلس میں بیٹھے دوسرے رشتہ دار سرگوشیاں کرنے لگے۔ کچھ نے کھڑے ہو کر کہا:
"ہاں، یہ حقیقت ہے۔ ہم نے اسے پہچان لیا ہے۔ یہ نواب شفیق الدین کا بیٹا ہی ہے۔"
نواب جمیل کا غرور زمین بوس ہو گیا۔ اس کے منہ سے کوئی لفظ نہ نکلا۔ وہ بے بسی سے اپنے ساتھیوں کو دیکھنے لگا مگر اب کوئی بھی اس کا ساتھ دینے کو تیار نہ تھا۔
مصطفی نے آگے بڑھ کر کہا:
"جمیل! تم نے میرے والد کو بدنام کیا، میری ماں کو رلایا، اور برسوں تک اس حویلی کو اپنے ظلم سے بھر دیا۔ آج وقت آ گیا ہے کہ تم اپنے انجام کو پہنچو۔"
کاشف اور دوسرے ساتھی خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ گئے۔ حویلی کے بزرگوں نے حکم دیا کہ نواب جمیل کو حویلی سے نکال دیا جائے۔
اس لمحے گل بانو نے مصطفی کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں خوشی اور آنسو دونوں تھے۔ وہ جانتی تھی کہ آج سے یہ حویلی دوبارہ اپنے اصل وارث کے پاس آ گئی ہے۔
مصطفی نے نرم لہجے میں کہا:
"گل بانو… اگر تم نہ ہوتیں تو شاید میں یہ سچ کبھی سامنے نہ لا پاتا۔ تم نے نہ صرف میرا راز محفوظ رکھا بلکہ میری ہمت بھی بڑھائی۔ یہ جیت صرف میری نہیں، تمہاری بھی ہے۔"
گل بانو کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ اس نے سر جھکا کر کہا:
"میں نے وہی کیا جو میرا فرض تھا۔"
حویلی کے صحن میں اذان کی آواز گونجی۔ مصطفی نے آسمان کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں دعا کی:
"اے اللہ! تیرا شکر ہے کہ آج حق کو اس کا مقام ملا۔"
نواب جمیل اور اس کے ساتھی ذلت کے ساتھ حویلی سے باہر نکال دیے گئے۔ مصطفی نے تخت پر بیٹھنے کے بجائے اپنی والدہ کی تصویر کے سامنے کھڑے ہو کر کہا:
"اماں… آپ کا بیٹا واپس آ گیا ہے۔ آپ کی قربانی رائیگاں نہیں گئی۔"
گل بانو بھی قریب کھڑی تھی۔ مصطفی نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرا کر کہا:
"اب یہ حویلی ظلم نہیں، انصاف کی پہچان بنے گی۔ اور میں چاہتا ہوں کہ تم ہمیشہ اس سفر میں میرا ساتھ دو۔"
گل بانو کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔ اس نے خاموشی سے سر جھکا کر ہاں کر دی۔
یوں برسوں کے اندھیرے ختم ہوئے۔ حویلی کی دیواروں پر امید کی روشنی اتر آئی۔ اور مصطفی کی کہانی ایک سبق بن گئی کہ سچائی چاہے کتنی ہی دیر سے سامنے آئے، لیکن آتی ضرور ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
"Shukriya! Apka comment hamaray liye qeemati hai."