Urdu Kahani | Emotional Girl Story | Sacchi Mohabbat Ki Kahani | Moral Kahani
محبت، قربانی اور جذبات کی کہانی"
میرا نام سدرہ ہے۔ میں ایک چھوٹے سے قصبے نور آباد میں رہتی ہوں۔ میرا خاندان کبھی خوشحال تھا، لیکن وقت کی مار نے ہمیں ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ اب بس میں اور میرے بوڑھے والد ایک پرانے کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔
میں دن کو محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھی۔ یہی میری اور ابا کی زندگی کا سہارا تھا۔ میرے دو بھائی، اسفر اور کامران، شادی کے بعد اپنی بیویوں کے ساتھ شہر کے پوش علاقے میں جا بسے تھے۔ وہاں کی رنگینیوں اور سہولتوں میں وہ اتنے کھو گئے کہ انہیں یہ تک خبر نہ رہی کہ ابا بڑھاپے میں کتنا کمزور ہو گئے ہیں اور میں کس طرح دن رات محنت کر کے زندگی گزار رہی ہوں۔
ابا کے دل کے مرض کی وجہ سے مجھے ہمیشہ خوف رہتا تھا کہ کہیں وہ اچانک گر نہ جائیں۔ لیکن اصل کڑا امتحان تب آیا جب ایک رات اچانک میری ماں کو شدید دل کا دورہ پڑا۔ میں چیخ چیخ کر بھائیوں کو فون کرتی رہی مگر کسی نے کال ریسیو نہ کی۔ محلے کی عورتوں نے مل کر ماں کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر وہ لمحہ آ ہی گیا جب میری ماں ہمیشہ کے لیے ہمیں چھوڑ گئی۔
میرے والد کے آنسو تھمتے نہ تھے۔ وہ بار بار اپنے کپکپاتے ہاتھوں سے ماں کا چہرہ سہلاتے اور کہتے:
"یہ تو میرے جینے کا سہارا تھی… اب میں کس کے ساتھ باتیں کروں گا؟"
میری آنکھوں کے سامنے سب دھندلا گیا تھا۔ میں بس ماں کے قدموں کے پاس بیٹھی رہ گئی۔
کچھ گھنٹے بعد آخر کار دونوں بھائی اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ آئے۔ لیکن ان کے لہجوں میں دکھ یا صدمے کے بجائے سختی تھی۔ انہوں نے سب کے سامنے کہا:
"ہمیں یہ بتاؤ کہ ماں کے کفن دفن اور سوئم کا خرچ کون دے گا؟"
ابا نے لرزتے ہوئے کہا:
"بیٹا، ابھی ماں کا جنازہ بھی نہیں اٹھا، صبر کرو…"
مگر اسفر نے غصے سے کہا:
"ہم نے پہلے ہی کافی خرچے کیے ہیں، اب ہمارا بوجھ نہ ڈالو۔ ہمیں ہمارا حصہ دے دو، پھر ہم دیکھ لیں گے۔"
میرے دل پر ہتھوڑے چلنے لگے۔ ابھی ماں کی میت گھر میں موجود تھی، ابھی محلے کی عورتیں قرآن پڑھ رہی تھیں، اور میرے اپنے سگے بھائی وراثت کا مطالبہ کر رہے تھے۔
ابا کی کمر مزید جھک گئی۔ وہ زمین کی طرف دیکھنے لگے اور آہستہ آواز میں بولے:
"تمہیں کیا ہوا ہے؟ یہ وقت ہے حصے بانٹنے کا؟"
لیکن دونوں بھائی بضد تھے۔ محلے کے لوگ بھی حیران رہ گئے کہ کوئی اپنی ماں کے جنازے پر بھی پیسوں کی بات کرتا ہے۔
میں ماں کے کفن کو دیکھتی اور روتی رہی۔ دل کہہ رہا تھا کہ یہ صرف ہمارے گھر کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا المیہ ہے، جہاں دولت کے لیے رشتے بھی بیچ دیے جاتے ہیں۔
ابا نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور مجھ سے کہا:
"سدرہ، لگتا ہے اب یہ گھر تیرے اور میرے ہی بس کا سہارا ہے۔ باقی سب اپنے مطلب کے غلام ہو گئے ہیں۔"
شہر کے ایک کونے میں واقع چھوٹے سے کرایہ کے مکان میں سدرہ اور اس کے والد حامد صاحب کٹھن دن گزارنے لگے۔ ماں کی جدائی کا غم ابھی تازہ ہی تھا اور اوپر سے بھائیوں کی خود غرضی نے باپ بیٹی کے دل چیر دیے تھے۔
ماں کے انتقال کو تین دن گزر چکے تھے۔ گھر میں سکوت اور خاموشی کی فضا تھی۔ سدرہ راتوں کو جاگتی اور سوچتی رہتی کہ آخر انسان اتنا سنگ دل کیسے ہو جاتا ہے کہ اپنی ماں کے کفن دفن پر بھی پیسوں کا تقاضہ کرے؟
اسی دوران محلے کی پرانی خالہ نصرت آ گئیں۔ وہ سدرہ کی ماں کی قریبی سہیلی تھیں۔ انہوں نے سدرہ کو گلے لگایا اور کہا:
"بیٹی! صبر کرو۔ تمہاری ماں ایک نیک عورت تھیں، اللہ ان کو جنت نصیب کرے گا۔ لیکن تمہیں اور اپنے ابا کو ہمت سے کھڑا ہونا ہوگا۔ دنیا کسی کے لیے نہیں رکتی۔"
سدرہ نے روتے ہوئے کہا:
"خالہ جی! ہمیں ماں کی جدائی تو برداشت ہے مگر بھائیوں کا رویہ دل کاٹ دیتا ہے۔ انہوں نے تو ابا کے سامنے ہاتھ پھیلا دیے تھے جیسے ہم کوئی دشمن ہوں۔"
خالہ نصرت نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا:
"بیٹی، یہ دنیا کا دستور ہے۔ اکثر اپنوں سے زیادہ پرائے لوگ ساتھ دیتے ہیں۔ تم ہمت نہ ہارنا۔ اللہ تمہارے صبر کا صلہ دے گا۔"
یہ الفاظ سدرہ کے لیے امید کا سہارا بن گئے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ مزید کمزور نہیں پڑے گی۔ وہ پہلے ہی محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھی، اب اس نے وقت بڑھا دیا تاکہ زیادہ پیسے کما سکے اور اپنے ابا کا سہارا بن سکے۔
چند دن بعد محلے کے ایک اسکول کی استانی نے سدرہ کو کہا:
"بیٹی، تم چاہو تو شام کو ہمارے اسکول میں بچوں کو پڑھا سکتی ہو۔ زیادہ تنخواہ تو نہیں، لیکن سہولت ہو جائے گی۔"
یہ سن کر سدرہ کے چہرے پر پہلی بار مسکراہٹ آئی۔ اس نے فوراً ہامی بھر لی۔
لیکن دل کے کسی کونے میں وہ جانتی تھی کہ بھائیوں کی بے رخی ایک دن ابا کو توڑ کر رکھ دے گی۔ وہ اکثر ابا کے جھکے ہوئے کندھوں کو دیکھتی اور دل ہی دل میں رب سے دعا کرتی:
"یا اللہ! مجھے اتنی ہمت دے کہ میں اپنے ابا کا سہارا بن سکوں۔"
ایک دن وہ بازار میں تھی کہ اچانک بڑے بھائی فیاض سامنے آ گئے۔ ان کے ساتھ ان کی بیوی بھی تھیں۔ سدرہ نے سلام کیا مگر جواب میں صرف ٹھنڈی نظریں ملیں۔ فیاض نے اپنی بیوی سے کہا:
"چلو یہاں سے، دیر ہو رہی ہے۔"
یہ الفاظ سدرہ کے دل میں تیر کی طرح چبھ گئے۔ مگر اس نے اپنے آنسو ضبط کیے اور چپ چاپ گھر واپس آ گئی۔
گھر پہنچ کر اس نے ابا کے سامنے عزم سے کہا:
"ابا! آپ فکر نہ کریں۔ میں سب کچھ سنبھال لوں گی۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔"
زندگی کے دن آہستہ آہستہ گزرتے جا رہے تھے۔ سدرہ کے دن محنت سے بھرے ہوتے اور راتیں تھکن سے بھری ہوئی، مگر اس کی آنکھوں میں ہمیشہ ایک نئی روشنی رہتی۔ وہ اپنے باپ کے ساتھ ہنستے ہوئے وقت گزارتی، چاہے کتنا ہی تھک کیوں نہ جاتی۔
اسی دوران اسکول میں ایک نیا پروگرام شروع ہوا، جس میں محلے کے غریب بچوں کی مدد کے لیے چندہ اکٹھا کیا جا رہا تھا۔ اس پروگرام میں ایک بڑے بزنس مین کا بیٹا بھی شامل ہوا — حسان۔ وہ شہر کے پوش علاقے سے تھا، تعلیم یافتہ اور نرم دل رکھنے والا۔ جب پہلی بار اس نے سدرہ کو بچوں کو پڑھاتے ہوئے دیکھا، تو وہ حیران رہ گیا۔ ایک عام سی لڑکی، جس کے کپڑے سادہ اور چہرہ تھکن سے بھرا ہوا تھا، لیکن بچوں سے بات کرتے وقت اس کی مسکراہٹ سب کو جادوئی لگتی تھی۔
حسان نے استانی سے سدرہ کے بارے میں پوچھا، تو سب نے اس کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ “یہ لڑکی نہ صرف خود محنت کرتی ہے بلکہ بچوں کو بھی محبت سے پڑھاتی ہے۔ اس کی قربانی اور صبر ہی اس کا سب سے بڑا زیور ہے۔” یہ سن کر حسان کے دل میں ایک نیا جذبہ جاگ گیا۔
کچھ دنوں بعد اسکول کی لائبریری میں دونوں کی ملاقات ہوئی۔ سدرہ کتابیں سمیٹ رہی تھی کہ اچانک حسان نے آ کر کہا:
“آپ کی محنت دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ ہر کوئی اتنے مشکل حالات میں بھی اتنا مضبوط نہیں رہ سکتا۔”
سدرہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا، پھر نرمی سے کہا:
“یہ تو زندگی ہے۔ انسان کو جتنا دیا جائے، اس پر شکر ادا کرنا چاہیے۔ اور جو کمی ہے، اسے محنت سے پورا کرنا چاہیے۔”
یہ الفاظ سیدھے حسان کے دل پر لگے۔ وہ سوچنے لگا کہ دولت مند گھر میں پلنے کے باوجود اس نے کبھی ایسی باتیں دل سے نہیں سنیں۔
آہستہ آہستہ ان کی ملاقاتیں بڑھنے لگیں۔ کبھی اسکول کے کام کے بہانے، کبھی بچوں کے ساتھ پروگرام میں، حسان سدرہ کے قریب ہوتا گیا۔ وہ دیکھتا تھا کہ سدرہ کے چہرے پر کمال کی سنجیدگی اور وقار ہے۔ اس نے دل ہی دل میں سوچ لیا تھا کہ یہ لڑکی عام نہیں، یہ وہ روشنی ہے جس کی تلاش شاید اسے برسوں سے تھی۔
سدرہ کو بھی محسوس ہونے لگا کہ حسان باقی لڑکوں سے مختلف ہے۔ اس کی باتوں میں غرور نہیں تھا بلکہ ایک عزت تھی، ایک احترام تھا۔ پہلی بار اسے لگا کہ شاید قسمت اس پر بھی مہربان ہونے لگی ہے۔ مگر پھر دل کے کسی کونے سے آواز آئی: “میں ایک عام لڑکی ہوں، غریب گھر کی بیٹی۔ وہ ایک امیر زاد ہے۔ یہ خواب میرے لیے کیسے سچ ہو سکتا ہے؟”
لیکن قسمت کے کھیل نرالے ہوتے ہیں۔ ایک دن اسکول میں چندہ تقسیم کرنے کے دوران، حسان نے سب کے سامنے سدرہ کی محنت کو سراہا اور کہا:
“ہماری اصل ہیرو سدرہ ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو ہم ان بچوں کے لیے کچھ بھی نہ کر پاتے۔”
یہ جملے سن کر سدرہ کے باپ حامد کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔ وہ جان گئے کہ شاید بیٹی کی زندگی میں ایک نیا موڑ آنے والا ہے۔
وقت گزرتا گیا، اور حسان کا سدرہ کے ساتھ تعلق مزید گہرا ہوتا گیا۔ وہ اکثر اسکول آتا، بچوں کو کہانیاں سناتا، اور ہر بار سدرہ کی محنت اور سچائی سے مزید متاثر ہوتا۔ لیکن اب بات صرف تعریف تک محدود نہیں رہی تھی۔ دلوں میں ایک نیا رشتہ جنم لے رہا تھا۔
ایک دن حسان نے ہمت کر کے سدرہ کے باپ حامد صاحب سے ملاقات کی۔ شام کا وقت تھا، حامد صحن میں چارپائی پر بیٹھے دعا مانگ رہے تھے۔ حسان نے ادب سے سلام کیا اور کہا:
“چاچا جی، میں سیدھی بات کہوں گا۔ مجھے سدرہ پسند ہے، اور میں اس کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔”
حامد کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ وہ چند لمحے خاموش رہے، پھر بولے:
“بیٹا! تو امیر خاندان کا چشم و چراغ ہے، اور ہم جیسے لوگ غریب ہیں۔ یہ فرق تمہارے خاندان والے کیسے مانیں گے؟”
حسان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا:
“چاچا جی! اگر انسانیت اور محبت میں فرق نہیں، تو پھر امیری اور غریبی میں کیا فرق ہے؟ میں اپنے والدین کو راضی کروں گا، ان شاءاللہ۔”
اگلے ہی دن حسان نے اپنے گھر جا کر والدین کو سب کچھ بتایا۔ شروع میں ان کے لیے یہ ایک بڑا صدمہ تھا۔ انہوں نے کہا:
“بیٹا! اتنی دولت، اتنی عزت ہونے کے باوجود تم ایک غریب گھر کی لڑکی کو اپنا شریکِ حیات بنانا چاہتے ہو؟”
حسان نے پورے یقین کے ساتھ کہا:
“جی ہاں! کیونکہ میں نے اس لڑکی میں وہ سچائی دیکھی ہے جو دولت سے نہیں خریدی جا سکتی۔ اس کی دعا اور اس کی قربانی مجھے اس دنیا کا سب سے امیر آدمی بنا دے گی۔”
ماں باپ خاموش ہو گئے۔ آخرکار جب انہوں نے سدرہ اور اس کے باپ کو قریب سے دیکھا، تو ان کے دل بھی نرم ہو گئے۔ سدرہ کی معصومیت اور حامد کی شرافت نے سب کو متاثر کر لیا۔
چند ہفتوں بعد، پورے محلے میں خوشیوں کی لہر دوڑ گئی۔ سدرہ کی شادی کا اعلان ہو چکا تھا۔ چھوٹی سی بستی میں چراغاں تھا، بچے خوشی سے ناچ رہے تھے، عورتیں دعائیں دے رہی تھیں، اور حامد کی جھکی ہوئی کمر آج فخر سے سیدھی ہو گئی تھی۔
شادی کے دن سدرہ دلہن کے روپ میں بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، لیکن یہ آنسو غم کے نہیں بلکہ شکر کے تھے۔ حسان نے جب نکاح کے وقت “قبول ہے” کہا، تو ایسا لگا جیسے برسوں کی محنت اور صبر رنگ لے آیا ہو۔
نکاح کے بعد حسان نے سدرہ کا ہاتھ تھاما اور آہستہ سے کہا:
“اب یہ ہاتھ کبھی تنہا نہیں ہوگا۔”
سدرہ کی آنکھوں سے خوشی کے موتی بہہ نکلے۔ باپ نے بیٹی کو دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا، اور پورا محلہ اس لمحے کا گواہ بن گیا۔
یہ شادی صرف دو دلوں کا ملاپ نہیں تھی، بلکہ دو خاندانوں کے بیچ محبت اور عزت کا رشتہ تھی۔ سدرہ اور حسان کی محبت کی کہانی اس بستی کے لیے ایک مثال بن گئی۔
یوں صبر، قربانی اور سچائی نے ایک ایسی محبت کو جنم دیا جس کی انتہا شادی پر نہیں ہوئی بلکہ ایک نئی زندگی کے آغاز پر ہوئی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
"Shukriya! Apka comment hamaray liye qeemati hai."