Anam Ki Bewafai Ka Dardnaak Anjam | Emhotional Urdu Moral Story
”انم کی بے وفائی کا دردناک انجام – سبق آموز حقیقت”
سیالکوٹ کے مضافات میں ایک قدیم سا محلہ تھا جہاں پرانے مکانوں کی دیواریں آج بھی وقت کی کہانیاں سناتی تھیں۔ انہی دیواروں کے بیچ ایک بڑا سا گھر تھا — ملک فہد کا۔
فہد بظاہر سخت مزاج، خاموش اور خوددار انسان تھا، مگر اس کی آنکھوں میں ایک ایسا درد چھپا تھا جو کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا۔ اس کی دولت، شان و شوکت، اور عزت سب کے سامنے تھی مگر اندر سے وہ تنہا تھا۔
فہد کی شادی کو چار سال ہو چکے تھے، مگر وہ رشتہ صرف نام کا رہ گیا تھا۔
اس کی بیوی انعم ایک پڑھی لکھی، خوبصورت مگر خوددار عورت تھی۔
شادی کے پہلے چند مہینے تو سب کچھ اچھا رہا، مگر وقت کے ساتھ دونوں کے بیچ فاصلے بڑھنے لگے۔
فہد اپنی دنیا میں مگن رہنے لگا، اور انعم نے بھی اپنے اندر ایک دیوار کھڑی کر لی۔
بات چیت کم، اور خاموشی زیادہ ہو گئی تھی۔
ایک شام فہد دفتر سے تھکا ہارا لوٹا۔
گھر میں خاموشی تھی — بس کچن سے ہلکی سی آواز آ رہی تھی۔
انعم چپ چاپ کھانا گرم کر رہی تھی، جیسے کوئی فرض ادا کر رہی ہو۔
فہد نے میز پر بیٹھتے ہوئے آہستہ سے کہا:
“انعم، بات کرنی تھی تم سے…”
انعم نے نظر اٹھائے بغیر کہا: “ضروری ہے؟”
فہد کے دل میں کچھ ٹوٹ سا گیا۔
وہ جانتا تھا، وہ عورت جو کبھی اس کے انتظار میں گھنٹوں کھڑی رہتی تھی، اب اسے دیکھنا بھی نہیں چاہتی۔
رات کے کھانے کے بعد دونوں خاموش بیٹھے تھے۔
دیوار پر لگی گھڑی کی ٹک ٹک ان کے بیچ کی خاموشی کو اور گہرا کر رہی تھی۔
فہد نے آہستہ سے کہا،
“انعم، کبھی سوچا ہے ہم کہاں آ گئے ہیں؟ ہم ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہیں مگر اجنبیوں کی طرح…”
انعم نے آنکھوں میں آنسو لیے کہا،
“میں نے تو کبھی تمہیں بدلا نہیں، تم خود بدل گئے ہو فہد۔”
“نہیں انعم، میں بدلا نہیں، حالات بدل گئے ہیں…”
یہ کہتے ہوئے فہد نے نظریں جھکا لیں۔
اسی رات فہد چھت پر آیا۔
ہلکی ہوا چل رہی تھی، مگر اس کے دل میں طوفان تھا۔
اچانک اسے پیچھے سے کسی کے قدموں کی آواز سنائی دی۔
وہ پلٹا — سامنے انعم تھی، آنکھوں میں نمی، چہرے پر اداسی۔
“فہد…” اس نے آہستہ سے کہا، “اگر تم چاہو تو ہم دوبارہ وہی ہو سکتے ہیں نا؟”
فہد کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی، مگر دل میں ایک عجیب سا خوف بھی تھا —
کیا وقت کے بچھائے ہوئے فاصلے اتنی آسانی سے مٹ سکتے ہیں؟
انعم کے دل میں کئی دنوں سے ایک طوفان چل رہا تھا۔
وہ اب اس رشتے سے نکلنا چاہتی تھی۔
فہد کے ساتھ رہنا اسے بوجھ لگنے لگا تھا۔
دل میں کسی اور کی طرف جھکاؤ بھی پیدا ہو چکا تھا، مگر وہ کھلے عام یہ بات نہیں کہہ سکتی تھی۔
سوچتی رہی… آخرکار ایک دن اس نے ایک خطرناک کھیل کھیلنے کا فیصلہ کر لیا۔
گھر میں ایک جوان لڑکی کام کرتی تھی — صفیہ۔
سادہ، غریب اور سیدھی۔
انعم نے اسی پر جال پھینکنے کا منصوبہ بنایا۔
سوچ لیا کہ اگر میں فہد پر الزام لگا دوں کہ وہ صفیہ پر بری نظر رکھتا ہے یا اس کے ساتھ کچھ غلط ہے،
تو فہد کی عزت کو دھچکا لگے گا، غصے میں وہ خود مجھے طلاق دے دے گا۔
اگلے دن انعم نے صفیہ کو بلایا،
نرمی سے بات کی،
“صفیہ، تمہیں کل سے کمرے کی صفائی خود کرنی ہے، میرا شوہر اکثر اوپر آتا ہے نا، دھیان سے رہنا…”
صفیہ سمجھی کچھ نہیں مگر سر ہلا دیا۔
اسی دن انعم نے ایک جھوٹا تماشا رچایا۔
فہد گھر آیا تو انعم نے روتے ہوئے شور مچا دیا:
“تمہاری نیت خراب ہے! تم نے صفیہ کو اکیلا کیوں بلایا اپنے کمرے میں؟”
فہد سکتے میں آ گیا، “کیا کہہ رہی ہو انعم؟ تمہیں ہوش ہے؟”
مگر انعم کا ڈراما اب پورے گھر میں گونج چکا تھا۔
نوکر، پڑوسی، سب حیران۔
صفیہ رو رہی تھی،
“بی بی جی، میں نے کچھ نہیں کیا، خدا کی قسم…”
مگر انعم نے چیخ کر کہا،
“چپ رہ! سب کچھ پتہ ہے مجھے، تمہیں آج ہی نکال دوں گی!”
فہد کے دل پر چوٹ لگی،
اس نے انعم سے کہا:
“انعم، تم جانتی ہو تم کیا الزام لگا رہی ہو؟ یہ صرف میری نہیں، تمہاری بھی عزت کا سوال ہے۔”
مگر انعم اپنی ضد میں اندھی ہو چکی تھی۔
اسے بس ایک بات چاہیے تھی — طلاق۔
اسی رات فہد نے خاموشی سے صفیہ کو اپنے والدین کے گھر پہنچا دیا تاکہ بدنامی نہ ہو۔
مگر جب وہ لوٹا تو گھر سنسان تھا۔
انعم بیٹھک میں اکیلی بیٹھی تھی،
ہاتھ میں قرآن تھا —
مگر چہرے پر ندامت نہیں، ایک سکون سا تھا۔
اس نے کہا:
“اب تو تمہیں مجھ سے نفرت ہو گئی ہوگی نا؟ اب طلاق دے دو فہد، سب ختم کر دو…”
فہد کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
“انعم، تم نے اپنی عزت کے لیے جھوٹ بولا، اپنے شوہر پر الزام لگایا،
ایک معصوم لڑکی کی زندگی برباد کی — اور یہ سب صرف اس لیے کہ تمہیں آزادی چاہیے تھی؟”
اس کی آواز میں وہ ٹوٹا ہوا لہجہ تھا جو صرف دل کے بکھرنے پر نکلتا ہے۔
انعم کے چہرے پر رنگ اڑ گئے۔
اس نے آہستہ سے کہا:
“ہاں، میں نے یہ سب کیا — کیونکہ میں اس گھر میں اب سانس نہیں لے سکتی تھی…”
فہد نے قرآن کی طرف دیکھا،
“پھر اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں، میں تمہیں آزاد کرتا ہوں — لیکن یاد رکھنا،
آزادی ہمیشہ سکون نہیں دیتی۔”
طلاق کے بعد انعم نے خود کو آزاد محسوس کیا۔
دل جیسے قید سے نکل آیا ہو۔
اس نے اپنے عاشق ریحان سے رابطہ کیا — وہی ریحان جس کے لیے اس نے اپنی پوری دنیا برباد کر دی تھی۔
ریحان کے لہجے میں نرمی، باتوں میں پیار، وعدوں میں چمک تھی۔
وہ کہتا، “انعم، تم اب میری ہو، میں تمہیں وہ زندگی دوں گا جس کا تم نے خواب دیکھا ہے۔”
اور انعم اندھی طرح اس پر یقین کر بیٹھی۔
چند ہفتوں میں نکاح ہو گیا۔
ریحان نے انعم کو شہر کے ایک اچھے فلیٹ میں رکھا۔
پہلے دنوں میں ہر لمحہ کسی خواب جیسا لگا —
نئے کپڑے، قیمتی تحفے، ہوٹلوں میں کھانے، تصویریں، ہنسی، خوشبو، سب کچھ نیا اور دلکش۔
انعم اکثر آئینے کے سامنے خود سے کہتی،
“میں نے صحیح فیصلہ کیا… میں نے اپنی زندگی جیت لی۔”
مگر وقت کب ایک جیسا رہتا ہے؟
چند مہینے گزرے،
ریحان کے لہجے میں وہ محبت باقی نہ رہی۔
اب وہ بات بات پر غصہ کرنے لگا،
“انعم، تم ہمیشہ باتیں کیوں کرتی رہتی ہو؟ تھوڑا سکون دیا کرو۔”
وہ راتوں کو دیر تک باہر رہنے لگا،
فون پر کسی سے ہنستا، چھپ چھپ کر مسیجز کرتا۔
انعم نے ایک دن پوچھ ہی لیا،
“ریحان، تم بدل گئے ہو؟ پہلے جیسے کیوں نہیں رہے؟”
ریحان نے ہنستے ہوئے کہا،
“انعم، تمہیں سمجھنا چاہیے… ہر رشتہ ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔”
انعم کا دل دہل گیا۔
وہ بولی، “میں نے تمہارے لیے سب کچھ چھوڑ دیا، اپنا گھر، شوہر، عزت،
اور تم کہہ رہے ہو رشتے بدل جاتے ہیں؟”
ریحان نے سگریٹ کا دھواں اڑاتے ہوئے کہا،
“ہاں انعم، میں نے تمہیں چاہا تھا، لیکن اب میرا دل نہیں رہا۔
بس، تم میرے لیے ایک باب تھی جو اب بند ہو چکا ہے۔”
انعم کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
“ریحان! میں نے تم پر یقین کیا… میں نے سب کچھ قربان کیا…”
مگر ریحان نے دروازہ بند کر دیا۔
اگلے دن وہ فلیٹ چھوڑ کر چلا گیا۔
انعم اکیلی رہ گئی۔
کمرہ خاموش تھا، اور دل میں چیخیں۔
آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا —
وہ عورت جو کبھی غرور میں تھی، آج شکستہ اور خالی تھی۔
اب نہ کوئی ریحان تھا، نہ فہد۔
صرف پچھتاوا،
صرف ندامت۔
اس نے قرآن اٹھایا، وہی جو کبھی شوہر کے سامنے رکھی تھی،
اور آہستہ سے کہا:
“یا اللہ، میں نے خود اپنی تباہی لکھی،
میں نے جھوٹ سے رشتہ توڑا، اور جھوٹ کے پیچھے بھاگی۔
اب مجھے معاف کر دے…”
آنسو اس کے چہرے پر بہہ رہے تھے۔
جو عورت کبھی فخر سے جیتی تھی،
اب گناہوں کے بوجھ تلے ٹوٹ چکی تھی۔
اس کا عشق ختم ہو گیا تھا —
مگر اس کی سزا ابھی شروع ہوئی تھی۔
انعم اب ایک اجڑے ہوئے فلیٹ میں رہتی تھی۔
وہ جس گھر کو “آزادی” سمجھتی تھی،
اب وہی گھر قید بن چکا تھا۔
ریحان گئے مہینے چھوڑ گیا تھا،
اور ساتھ ہی انعم سے اس کی مسکراہٹ بھی چلی گئی تھی۔
دن گزرتے گئے —
کبھی روٹی کے لیے پیسے نہ ہوتے، کبھی دوا کے لیے۔
پڑوس کی عورتیں دروازہ بند کر لیتیں،
کسی کو اس “بدنام” عورت کے پاس آنا پسند نہ تھا۔
انعم آئینے میں خود کو دیکھتی تو سوچتی،
“کیا یہی میں تھی؟ وہی انعم جس کے پاس سب کچھ تھا؟”
ایک دن اسے خبر ملی —
صفیہ، وہی نکرانی جس پر اس نے الزام لگایا تھا،
اب ایک مدرسے میں بچوں کو قرآن پڑھاتی ہے۔
انعم کے دل پر جیسے کسی نے ہاتھ رکھا ہو۔
اس کی آنکھوں کے آگے وہ منظر گھوم گیا،
جب اس نے صفیہ پر چیخ کر الزام لگایا تھا۔
اگلی صبح وہ ننگے پاؤں، بغیر کسی جھجک کے،
اسی مدرسے کے دروازے پر جا پہنچی۔
چہرے پر شرمندگی، جسم پر کمزور سا دوپٹہ۔
دروازہ کھلا تو صفیہ سامنے تھی —
پہچانتے ہی چہرے کا رنگ بدل گیا۔
انعم رونے لگی،
“صفیہ… میں گناہگار ہوں، میں نے تم پر جھوٹ بولا،
میں نے تمہاری عزت لوٹی، تمہارا دل توڑا…
میری سزا تم دیکھ رہی ہو، میرا سب کچھ چلا گیا۔”
صفیہ نے ایک لمحہ انعم کو دیکھا —
پھر آہستہ سے بولی،
“اللہ بڑا غفور ہے انعم باجی،
اگر وہ مجھے معاف کر سکتا ہے،
تو تمہیں بھی معاف کر دے گا۔”
انعم زمین پر بیٹھ گئی،
آنسوؤں سے اس کی چادر بھیگ گئی۔
مدرسے کی فضا میں قرآن کی تلاوت گونج رہی تھی —
“إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا...”
(بے شک اللہ سب گناہ معاف کر دیتا ہے۔)
اسی لمحے انعم نے ہاتھ اٹھا دیے۔
“یا اللہ! میں نے تیری نافرمانی کی،
میں نے دنیا کے دھوکے میں آ کر تیرا حکم بھلایا،
میں نے جھوٹ، ظلم، اور فریب سے اپنی راہیں بند کر لیں۔
اب تو ہی میرا سہارا ہے۔”
اس دن کے بعد انعم وہ عورت نہ رہی جو کبھی غرور سے بھری تھی۔
وہ روز مدرسے آتی، قرآن سنتی،
صفیہ کے ساتھ مل کر چھوٹی بچیوں کو سچ، صبر، اور حیا سکھاتی۔
چہرے پر اب سکون تھا —
وہی سکون جو توبہ کے بعد نصیب ہوتا ہے۔
کچھ ماہ بعد لوگ کہتے تھے،
“یہ وہی انعم ہے نا؟”
اور کوئی جواب دیتا،
“ہاں، مگر اب یہ وہ انعم نہیں رہی —
یہ اب اللہ کی بندی بن چکی ہے۔”
وہ دن آیا جب فہد خود مدرسے کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر اب وہ سختی نہیں تھی جو پہلے تھی، مگر آنکھوں میں نرم جذبہ تھا۔ جب انعم نے اسے دیکھا تو سسکیاں چھلک گئیں، مگر وہ زمین پر جھک کر معافی مانگنے کے بجائے دیانتداری سے کھڑی رہی — اس نے اپنا سر اٹھایا اور بولی، "فہد، میں نے بڑا گناہ کیا، میں نے غلط راستہ اپنایا، میں نے جھوٹ بولا۔"
فہد خاموش رہا، پھر اس نے ایک لمبی سانس لی اور کہا، "میں نے تمہیں ہمیشہ چاہا، مگر جھوٹ نے ہمیں ختم کر دیا۔ تم نے زندگی برباد کی، مگر میں نے تمہاری تبدیلی کے بارے میں سنا ہے۔ اگر تم سچے دل سے بدل گئی ہو تو اللہ بڑا بخشنے والا ہے۔"
یہ سن کر انعم کے اندر کا بارِ گناہ منہدم ہوا اور وہ رونے لگی۔ فہد نے آہستہ سے قدم بڑھایا اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر اٹھایا — اس کے دل میں جو سنبھلنے والا درد تھا، وہ اب رحم میں بدل رہا تھا۔
فہد نے انعم کو گھر لے جانے کی پیشکش کی مگر اس کے ساتھ ایک شرط رکھی — دونوں نے دل سے معافی مانگنی ہے، دونوں نے اپنے اندر کی خامیوں کو تسلیم کرنا ہے، اور پھر نیک نیتی سے نئی شروعات کرنی ہے۔ انعم نے آنکھوں میں آنسو لیے سر ہلا دیا۔
نکاح نہایت سادگی سے ہوا، مگر اس سادگی میں اتنی حرارت اور خلوص تھا کہ گھر کے ہر فرد کا دل گرم ہوا۔ فہد نے خصوصی طور پر یہ عہد کیا کہ وہ اب اپنے اندر کی کمزوریوں کو دور کر کے بیوی کا احترام کرے گا اور انعم نے بھی وعدہ کیا کہ وہ مخلص رہے گی۔
کئی ماہ بعد اللہ تعالیٰ نے انعم پر رحم کیا اور وہ حاملہ ہوگئی۔ پورا گھر خوشی سے جھوم اٹھا۔ جب دونوں کے گھر میں پہلے کبھی ایکا پن تھا، اب وہاں بچوں کی ہنسی کی گونج تھی — خدا نے گناہوں کے بعد توبہ کا اجر دیا۔ انعم نے جب بچوں کو جنم دیا تو فہد نے محبت سے ان دونوں کو گود میں اٹھایا۔
زندگی نے انہیں آزمائشوں سے گزارا تھا مگر آخر میں وہ دونوں نے سکون پایا — جو سکون صرف سچی توبہ، معافی اور اللہ کی رحمت سے ملتا ہے۔

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
"Shukriya! Apka comment hamaray liye qeemati hai."