Ek Shohar Jo Namard Tha | Magar Mohabbat Ne Use Mukammal Mard Bana Diya | Moral Stories
ایک شوہر جو نامرد تھا، مگر محبت نے اسے مکمل مرد بنا دیاعلی کی زندگی بظاہر کامیاب تھی — ایک کامیاب بزنس مین، خوبصورت گھر، اور عزت دار خاندان۔ مگر اس کے اندر ایک ایسا راز دفن تھا جو اس کے وجود کو کھا رہا تھا۔ وہ مرد ہوتے ہوئے بھی مرد نہیں تھا۔
یہ وہ حقیقت تھی جو اس نے برسوں سے سب سے چھپائی ہوئی تھی، حتیٰ کہ اپنے والدین سے بھی۔ مگر جب عمر گزرتی گئی، تو خاندان پر دباؤ بڑھتا گیا — “اب شادی کر لو علی، ورنہ لوگ باتیں بنانے لگیں گے۔”
آخرکار علی نے ہار مان لی۔ اس نے سوچا، “اگر شادی سے لوگوں کی زبان بند ہو جائے، تو ٹھیک ہے۔”
لیکن وہ جانتا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو وہ خوشی کبھی نہیں دے پائے گا جو ایک عورت کا حق ہے۔
زویا اس کے نکاح میں آئی — نازک، حسین، اور خوابوں سے بھری ہوئی۔ مگر علی نے نکاح کی رات ہی اسے سچ بتا دیا۔
“زویا، میں تم سے ایک بات چھپانا نہیں چاہتا… یہ شادی صرف ایک معاہدہ ہے۔ میں تمہیں وہ رشتہ نہیں دے سکتا جو ایک شوہر اپنی بیوی کو دیتا ہے۔”
زویا کا رنگ زرد پڑ گیا، اس کی آنکھوں میں حیرت اور دکھ کے سایے ابھر آئے۔
“آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟”
علی نے نظریں جھکا لیں، “میں بیمار ہوں… میرا جسم میرا ساتھ نہیں دیتا۔ میں چاہوں بھی تو تمہیں اپنا نہیں بنا سکتا۔”
کمرے میں سناٹا چھا گیا۔ زویا کے ہاتھ کانپنے لگے۔ وہ بستر کے کنارے بیٹھ گئی، جیسے زمین اس کے نیچے سے نکل گئی ہو۔
چند لمحوں بعد اس نے ہلکی آواز میں کہا،
“تو پھر یہ شادی کیوں؟”
علی نے ٹھنڈی سانس بھری، “کیونکہ میں لوگوں کے سوالوں سے تھک گیا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ دنیا سمجھے کہ میں عام مردوں کی طرح ہوں… اور تمہیں بھی عزت کے ساتھ ایک نام مل جائے۔”
زویا نے خاموشی سے سر جھکا لیا۔
اس رات وہ دونوں ایک ہی بستر پر تھے، مگر ایک دوسرے سے میلوں دور۔
وقت گزرتا گیا۔
دن میں زویا مسکراتی، گھر سنبھالتی، مگر راتیں اس کے لیے عذاب بن گئیں۔
وہ جوان تھی، جذباتی تھی، اور اندر سے ٹوٹ رہی تھی۔
کبھی کبھی وہ آئینے کے سامنے کھڑی خود سے پوچھتی، “کیا میں غلط ہوں اگر میں چاہتی ہوں کہ میرا شوہر مجھے اپنی بانہوں میں لے؟”
مگر ہر بار اس کے لبوں پر خاموشی چھا جاتی۔
علی اپنی حد میں رہنے والا آدمی تھا۔ وہ زویا کی آنکھوں میں وہ تڑپ دیکھتا، مگر کچھ کر نہیں سکتا تھا۔
ایک رات وہ زویا کے قریب گیا، اور کہا،
“مجھے تمہارا دکھ سمجھ آتا ہے… مگر میں مجبور ہوں۔ بس مجھے معاف کر دینا۔”
زویا نے ہلکی مسکراہٹ دی، “میں آپ سے نفرت نہیں کرتی علی… بس خود سے لڑتے لڑتے تھک گئی ہوں۔”
یہ وہ لمحہ تھا جب علی نے پہلی بار زویا کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔
اس نے دل میں عہد کیا کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنا علاج کروائے گا، تاکہ زویا کو وہ خوشی دے سکے جس کی وہ مستحق ہے۔
مہینے گزر گئے۔
زویا کی زندگی بظاہر ٹھیک تھی، مگر اندر سے وہ تیزی سے خالی ہو رہی تھی۔
علی کے ساتھ اس کا رشتہ صرف لفظوں تک محدود تھا، لمس اور احساس سے خالی۔
دن بھر وہ ہنستی، کام کرتی، مگر رات کو جب تنہائی چھا جاتی، تو دل کی چیخیں دیواروں سے ٹکرا کر واپس آتیں۔
کبھی کبھی وہ خاموشی سے بالکونی میں بیٹھ جاتی — چاندنی رات میں وہ خود سے پوچھتی،
“کیا میری قسمت میں بس تنہائی ہی لکھی تھی؟ کیا محبت صرف کتابوں میں ہوتی ہے؟”
اسی دوران ایک دن وہ اپنے گھر کے قریب واقع جھیل پر گئی۔
وہاں اکثر لوگ سیر کے لیے آتے تھے۔
اسی جھیل کے کنارے اس کی ملاقات عاصم سے ہوئی —
ایک نرم لہجے والا، سلجھا ہوا، مگر اداس آنکھوں والا شخص۔
پہلے دن بس ایک سلام ہوا،
دوسرے دن موسم پر بات ہوئی،
اور تیسرے دن، زویا کو احساس ہوا کہ وہ برسوں بعد پہلی بار کھل کر مسکرائی ہے۔
عاصم اس سے کبھی حد سے آگے نہیں بڑھا۔
وہ اس کی باتیں سنتا، اس کی آنکھوں میں دکھ پہچانتا،
اور بس یہی نرمی زویا کے اندر چھپی پیاس کو جگانے لگی۔
ایک دن جب جھیل کے کنارے ہوا تھوڑی تیز چلی تو زویا کے دوپٹے کا کونہ عاصم کے چہرے سے لگا۔
وہ لمحہ چند سیکنڈ کا تھا، مگر زویا کا دل جیسے کانپ گیا۔
اس نے فوراً دوپٹہ سنبھالا، مگر اس کے ہاتھ لرز رہے تھے۔
عاصم نے کچھ نہیں کہا، صرف مسکرا کر بولا:
“آپ بہت اچھی لگتی ہیں… مگر آپ کی آنکھوں میں بہت اداسی ہے۔”
یہ سن کر زویا کے ہونٹوں پر ایک ٹوٹی ہوئی ہنسی آ گئی۔
“اداسی کبھی کبھی انسان کا دوسرا نام بن جاتی ہے، عاصم۔”
وہ دن کے چند لمحے، زویا کے لیے راتوں کی تنہائی کا سہارا بننے لگے۔
وہ جانتی تھی کہ یہ دوستی ہے، محبت نہیں…
لیکن وہ اتنا ضرور جان گئی تھی کہ وہ اب صرف خاموش رہ کر نہیں جی سکتی۔
ادھر علی —
لاہور کے ایک مشہور کلینک میں اپنا علاج شروع کر چکا تھا۔
ڈاکٹر نے اسے امید دی تھی کہ اگر وہ ہمت نہ ہارے تو سب ٹھیک ہو سکتا ہے۔
علی ہر روز دوائیں لیتا، ٹریٹمنٹ کرواتا، مگر دل میں ایک خوف چھپا تھا —
“کہیں دیر نہ ہو جائے…”
ایک رات جب وہ علاج کے بعد واپس آیا تو زویا بالکونی میں بیٹھی تھی۔
چاندنی اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی، مگر آنکھوں میں کچھ نیا چمک رہا تھا —
ایک زندہ ہونے کا احساس، جو علی نے کبھی پہلے نہیں دیکھا تھا۔
“زویا… آج تم خوش لگ رہی ہو؟”
علی نے نرم لہجے میں پوچھا۔
زویا چونکی، جیسے کوئی راز پکڑ لیا گیا ہو۔
“ہاں… بس، موسم اچھا لگ رہا ہے۔”
علی نے مسکرا کر سر ہلایا، مگر دل کے اندر ایک انجانی چبھن محسوس کی۔
اس نے زویا کو دیکھا — وہ بدل رہی تھی۔
شاید اسے زندگی میں وہ رنگ مل گیا تھا جو علی نہ دے سکا۔
وقت گزرنے کے ساتھ علی کے علاج کے اثرات آہستہ آہستہ ظاہر ہونے لگے تھے۔
ڈاکٹر نے کہا تھا کہ جسم کے ساتھ دل کی مضبوطی بھی ضروری ہے۔
علی اب نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ ذہنی طور پر بھی خود کو سنبھالنے لگا تھا۔
اس کے اندر امید کی ایک روشنی جاگ چکی تھی —
ایک خواہش کہ وہ زویا کو وہ خوشی دے جو برسوں سے اس کی آنکھوں میں قید تھی۔
ایک شام، زویا نماز پڑھ کر بالکونی میں بیٹھی تھی۔
سورج غروب ہو رہا تھا، آسمان پر سرخ روشنی پھیل رہی تھی۔
علی آہستہ سے آیا، اور اس کے قریب بیٹھ گیا۔
کچھ لمحے وہ دونوں خاموش رہے۔
ہوا ہلکی چل رہی تھی، مگر دلوں کے اندر ایک نرمی اترنے لگی تھی۔
علی نے زویا کا ہاتھ تھاما —
وہ لمس، جو کبھی ٹھنڈا اور مردہ محسوس ہوتا تھا،
آج گرم، زندہ اور چاہت سے بھرا لگ رہا تھا۔
زویا چونکی، اس نے نظریں اٹھا کر علی کو دیکھا۔
علی کی آنکھوں میں پہلی بار وہ احساس تھا جو شاید وہ برسوں سے دیکھنے کو ترس گئی تھی۔
نرمی، محبت، اور ایک عہد کہ وہ اب اسے اکیلا نہیں چھوڑے گا۔
“زویا…” علی کی آواز بھاری مگر پُر احساس تھی،
“میں جانتا ہوں، میں نے تمہیں بہت انتظار کروایا۔
مگر شاید اب وقت بدلنے والا ہے۔”
یہ کہہ کر اس نے زویا کو آہستہ سے اپنے بازوؤں میں بھر لیا۔
ایک لمبے وقفے کے بعد، زویا نے خود کو محفوظ محسوس کیا۔
اس کی آنکھوں سے چند آنسو بہہ نکلے —
نہ غم کے، نہ خوشی کے، بلکہ سکون کے۔
علی نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا،
“میں اب وہ نہیں رہا، زویا… میں چاہتا ہوں تم پھر سے مسکراؤ،
ویسے ہی جیسے ہم نے خواب دیکھے تھے…”
زویا کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔
اس کے اندر برسوں سے دبی خواہشیں جاگنے لگیں۔
شاید، وہ واقعی بدل رہا تھا۔
شاید، اب زندگی پھر سے رنگوں میں ڈھلنے والی تھی۔
علی نے اسے قریب کھینچا،
اس کی پیشانی پر ہلکا سا بوسہ دیا —
ایک ایسا لمحہ جس میں ساری محرومی، سارا دکھ، سب بہہ گیا۔
زویا نے آنکھیں بند کر لیں۔
اسے لگا جیسے اس کا خالی پن بھرنے لگا ہو۔
مگر دل کے کسی کونے میں ایک انجانا سا خوف ابھی باقی تھا
کیا یہ لمحاتی بدلاؤ ہے،
یا واقعی قسمت ان پر مہربان ہو رہی ہے؟
وقت گزرتا گیا۔ علاج اور محنت کے بعد علی بالکل ٹھیک ہو گیا تھا۔
وہ شخص جو کبھی خود کو ادھورا سمجھتا تھا، اب مکمل تھا
نہ صرف جسم سے بلکہ دل سے بھی۔
اب اس کی آنکھوں میں وہ اعتماد واپس آ گیا تھا جو برسوں پہلے کہیں کھو گیا تھا۔
زویا جب بھی اسے دیکھتی، اس کے دل میں شکر کے جذبات اُبھر آتے۔
علی کی محنت، صبر اور حوصلے نے ان کی زندگی بدل دی تھی۔
وہ اب ہر لمحہ زویا کو خوش دیکھنا چاہتا تھا۔
اس کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر جیسے اسے اپنی زندگی کا مقصد مل جاتا۔
وہ اس کے لیے صبحوں کو روشن اور راتوں کو پُرسکون بنا دیتا۔
آہستہ آہستہ ان کی زندگی میں وہ سکون اترنے لگا
جس کی تلاش میں وہ دونوں برسوں سے بھٹک رہے تھے۔
زویا اب پرسکون تھی، اس کے دل میں محبت کے ساتھ ایک نیا یقین جاگ چکا تھا۔
پھر ایک دن، اللہ نے ان دونوں کی دعاؤں کو قبول کر لیا۔
زویا کی زندگی میں ایک نیا رنگ آ گیا —
ایک ننھا سا وجود، ان کی محبت کا ثبوت۔
علی نے جب پہلی بار اپنے بیٹے کو گود میں لیا،
تو اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ نکلے۔
یہ وہ آنسو تھے جن میں شکر، سکون اور مکمل ہونے کا احساس چھپا تھا۔
زویا نے مسکرا کر کہا:
“دیکھا علی؟ صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے…”
علی نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا ہاتھ تھاما،
“ہاں زویا، اللہ نے ہمیں آزمایا،
مگر آخر میں ہمیں وہ خوشی دے دی جو دنیا کی سب دولت سے بڑھ کر ہے۔”
اس دن کے بعد ان کی زندگی صرف خوشیوں سے بھری رہی۔
محبت، اعتماد اور دعا —
یہی ان کے رشتے کی بنیاد بن گئے۔

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
"Shukriya! Apka comment hamaray liye qeemati hai."