Usne Mohabbat Se Zyada Izzat Di | Jazbaati Aur Romantik Urdu Kahani
"اُس نے محبت نہیں، عزت دی – ایک دل کو چھو لینے والی رومانوی کہانی"
کراچی کی گرم دوپہر میں حویلی کے صحن میں بےچینی پھیلی ہوئی تھی۔ ہر طرف شادیاں، کپڑے، زیورات اور مہمانوں کی چہل پہل تھی — مگر اس ہنگامے کے بیچ ایک دل رو رہا تھا۔
"ماہین... تمہاری بہن کہاں ہے؟"
زرینہ بیگم کی لرزتی آواز میں خوف چھپا تھا۔
"امی... وہ تو صبح سے کمرے میں تھی..." ماہین کے ہونٹ کپکپا گئے۔
پھر کسی نے بھاگتے ہوئے بتایا،
"بیگم صاحبہ! زویا باجی گھر سے چلی گئی ہیں!"
پورے گھر میں سناٹا چھا گیا۔
زرینہ بیگم کے ہاتھوں سے تسبیح گر گئی، اور ان کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔
ماہین کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔
جس بہن کی مہندی آج رات لگنی تھی، وہ اپنی مرضی کے شخص کے ساتھ بھاگ چکی تھی۔
خاندان کی عزت داؤ پر لگ چکی تھی۔
اور تب زرینہ بیگم نے وہ فیصلہ لیا، جس نے ماہین کی زندگی کا رخ بدل دیا۔
"ماہین، تمہیں آج زویا کی جگہ نکاح کرنا ہوگا۔"
ماہین کا دل بند سا ہو گیا۔
"امی... یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟ میں... میں کیسے؟"
زرینہ بیگم نے لرزتے لہجے میں کہا،
"عزت بچانے کا یہی ایک راستہ ہے۔ ورنہ لوگ... لوگ ہمارا مذاق بنادیں گے۔"
ماہین کے چہرے سے رنگ اڑ گیا۔
وہ میڈیکل کالج کی طالبہ تھی، خواب اس کے بڑے تھے، مگر آج سب ٹوٹ کر بکھرنے والے تھے۔
شام تک حویلی کے دروازے پر نکاح خواں آ چکا تھا۔
اور لڑکے کے خاندان کو کچھ پتا نہ تھا کہ بدل گئی ہے دلہن۔
دوسری طرف، دلہا احمد فہد — ایک سنجیدہ، کم گو، مگر کامیاب یونیورسٹی لیکچرر — خاموش بیٹھا تھا۔
نکاح کے بعد جب اس نے چہرہ اٹھایا، تو سامنے ماہین تھی، زویا نہیں۔
چند لمحوں کے لیے وہ پتھر بن گیا۔
"یہ کیا مذاق ہے؟" اس کی آنکھوں میں آگ بھڑک اٹھی۔
زرینہ بیگم نے آنسوؤں میں ڈوبی آواز میں کہا،
"بیٹا... مجبوری تھی، زویا..."
"بس!" احمد نے سخت لہجے میں کہا۔
"آپ لوگوں نے مجھے دھوکہ دیا۔ لیکن اب جو ہو گیا، وہ واپس نہیں ہو سکتا۔"
ماہین نے کانپتے ہاتھوں سے دوپٹہ سنبھالا،
اسے یوں لگا جیسے وہ کسی خواب سے جاگی ہو —
ایک ایسا خواب جس میں نہ روشنی تھی، نہ آس۔
اس رات جب وہ کمرے میں داخل ہوئی تو احمد نے دروازے کی طرف رخ کیے بغیر کہا:
"مجھ سے کسی قسم کی کوئی امید مت رکھنا۔
میں تمہیں کبھی اپنی بیوی کا درجہ نہیں دے سکتا۔"
یہ الفاظ، جیسے کسی نے اس کے سینے میں تیر گھونپ دیا ہو۔
وہ آنسو ضبط نہ کر سکی —
اور چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
صبح کا سورج آسمان پر چمک رہا تھا مگر ماہین کے دل میں اندھیرا ہی اندھیرا تھا نکاح کے تین دن بعد وہ پہلی بار یونیورسٹی آئی تھی دل کے اندر عجیب سی گھبراہٹ تھی وہ جانتی تھی کہ اب ہر چہرہ اسے دیکھ کر کچھ نہ کچھ ضرور پوچھے گا وہ کلاس روم کی طرف جا رہی تھی جب پیچھے سے کسی نے اسے پکارا ماہین آج بہت دن بعد آئی ہو خیرت تو ہے وہ اس کی دوست نائلہ تھی جسے کچھ پتا نہیں تھا کہ ماہین کی زندگی میں تین دن میں قیامت گزر چکی ہے ماہین نے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ہاں بس گھر میں کچھ کام تھے نائلہ نے اس کے چہرے پر چھائی اداسی دیکھ کر کچھ کہنا چاہا مگر اسی وقت کلاس کا دروازہ کھلا اور وہ شخص اندر داخل ہوا جسے دیکھ کر ماہین کے قدم زمین میں دھنس گئے سامنے احمد فہد کھڑا تھا ہاتھ میں فائل تھی چہرہ ہمیشہ کی طرح سنجیدہ مگر آنکھوں میں وہی سردی تھی جس نے تین راتوں سے ماہین کو رونے نہیں دیا تھا اس نے نظریں جھکا لیں احمد نے کلاس کی طرف دیکھا پھر رکتے ہوئے کہا میں آپ کا نیا پروفیسر ہوں اور آج سے آپ کا میڈیکل سائنس کا پہلا لیکچر میرے ذمے ہے پورے کلاس روم میں سرگوشیاں گونج گئیں نائلہ نے ہولے سے کہا واہ نیا پروفیسر بڑا ہینڈسم ہے اور لگتا ہے بہت سخت بھی ہے ماہین کے لبوں پر بس خاموشی تھی احمد نے لیکچر شروع کیا مگر کئی بار نظریں خود بخود اس پر جا ٹکیں جیسے وہ چاہ کر بھی اسے نظرانداز نہیں کر پا رہا ہو وہ پہلی قطار میں بیٹھی تھی مگر اس کے دل کی دھڑکن جیسے کانوں میں گونجنے لگی تھی ہر لفظ کے ساتھ وہ لمحہ یاد آ رہا تھا جب احمد نے اسے کہا تھا کہ وہ اسے بیوی نہیں مانتا وہ خود سے پوچھ رہی تھی کیا قسمت اتنی ظالم بھی ہو سکتی ہے کلاس ختم ہوئی تو سب لڑکیاں احمد کے گرد جمع ہو گئیں سوال کرنے کے بہانے بات کرنے کے لیے احمد نے سب کے جواب دیے مگر جب اس کی نظر ماہین پر پڑی تو لمحے بھر کو خاموش ہو گیا پھر کہا مس ماہین آپ ٹھیک ہیں کچھ دن غیر حاضر رہیں کیا بات تھی ماہین نے بمشکل کہا جی میں ٹھیک ہوں سر گھر میں تھوڑی طبیعت خراب تھی احمد نے ہلکی سی گردن ہلائی اور فائل بند کر دی اچھا خیال رکھیے گا اگلے ہفتے ٹیسٹ ہے وہ مڑ کر جانے لگا مگر قدم جیسے رک گئے ایک لمحے کو اس نے ہلکا سا رخ موڑا اور بہت آہستہ بولا اپنی زندگی میں غیر ضروری بوجھ مت اٹھائیں پڑھائی پر دھیان دیں وہ چلتا گیا مگر اس کے الفاظ ماہین کے دل میں چبھ گئے جیسے وہ کہہ رہا ہو میں وہ بوجھ ہوں جسے بھول جاؤ ماہین کی آنکھوں کے کنارے بھیگ گئے باہر نکل کر وہ بینچ پر جا بیٹھی ہوا چل رہی تھی مگر دل پر جیسے سناٹا تھا نائلہ پاس آ کر بولی تم پریشان لگ رہی ہو کوئی مسئلہ ہے ماہین نے آنکھیں صاف کی اور ہولے سے کہا کچھ بھی نہیں بس تھوڑی تھکن ہے مگر وہ جانتی تھی اس کی زندگی اب ایک طوفان میں بدلنے والی ہے کیونکہ وہ شخص جس نے اس کے خواب توڑے تھے اب روز اس کی آنکھوں کے سامنے تھا روز ایک زخم تازہ ہونے والا تھا
رات کا وقت تھا ہاسٹل کے باہر ہلکی بارش ہو رہی تھی اور آسمان پر بجلی چمکنے کے ساتھ ہوا میں عجیب سا سناٹا تھا ماہین کتابیں کھولے بیٹھی تھی مگر لفظ دھندلا رہے تھے ذہن بار بار احمد کی آنکھوں میں الجھ جاتا تھا وہ چاہتی تھی بھول جائے مگر دل جیسے ماننے سے انکاری تھا بارش کی بوندیں کھڑکی کے شیشے پر گر رہی تھیں اور اس کے دل میں اداسی کی دھند بڑھتی جا رہی تھی اس نے دل بہلانے کے لیے چھت پر جانے کا فیصلہ کیا سیڑھیاں چڑھ کر جب وہ اوپر پہنچی تو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے اس کے بال بکھرا دیے وہ چھت کے کنارے جا کھڑی ہوئی اور آسمان کو دیکھنے لگی اس کے لبوں سے آہستہ سا نکلا یا اللہ دل کو سکون دے اتنے میں کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی وہ چونکی اور پلٹ کر دیکھا تو احمد کھڑا تھا ہاتھ میں چھتری تھی اور چہرے پر وہی گمبھیر خاموشی تھی وہ چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر بولا تم اکیلی یہاں کیا کر رہی ہو بارش تیز ہو رہی ہے نیچے چلو ماہین نے نظریں جھکائیں اور آہستہ کہا بارش پسند ہے مجھے احمد کے لبوں پر ہلکی سی سانس نکلی وہ آگے بڑھا اور چھتری اس کے اوپر کر دی تمہیں سردی لگ جائے گی وہ بولا اور پہلی بار اس کے لہجے میں نرمی تھی ماہین نے چونک کر اسے دیکھا اور ایک لمحے کے لیے وقت جیسے ٹھہر گیا وہ بولی آپ کو بارش اچھی نہیں لگتی احمد نے آسمان کی طرف دیکھا اور آہستہ کہا لگتی تھی کبھی جب دل خوش ہوتا تھا اب دل بوجھل ہے تو بارش بھی بوجھ لگتی ہے ماہین نے اس کے چہرے پر چھپی تھکن دیکھی تو دل بھر آیا وہ بولی کبھی کبھی بارش دل کے اندر کا زہر دھو دیتی ہے احمد نے پلکیں جھپکیں اور پہلی بار اس کے لبوں پر ایک مدھم سی مسکراہٹ ابھری وہ بولا شاید تمہارے لیے ایسا ہو میرے لیے نہیں دونوں خاموش کھڑے تھے مگر ان کے بیچ جو دیوار تھی وہ ہلکی ہلکی گرنے لگی تھی بارش تھم گئی تھی مگر فضا میں نمی تھی احمد نے کہا تمہارے ہاتھ ٹھنڈے ہیں چلو اندر چلتے ہیں اس نے اپنا رومال اس کے ہاتھوں پر رکھا ماہین کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی تھی وہ خاموشی سے نیچے آئی کمرے میں پہنچ کر اس نے اس کے لیے چائے بنائی احمد نے چائے لی اور آہستہ کہا تم اتنی خاموش کیوں ہو شادی کے بعد کچھ نہیں بولیں ماہین نے دھیرے سے کہا آپ نے موقع ہی کب دیا بات کا احمد نے چند لمحے اسے دیکھا پھر نظریں جھکا لیں اور بولا شاید میں نے جلد بازی میں تم پر فیصلہ دے دیا تمہیں وقت دینا چاہیے تھا وہ خاموش ہوا پھر آہستہ سے بولا اگر تم چاہو تو ہم نئے سرے سے ایک دوسرے کو جاننے کی کوشش کر سکتے ہیں ماہین کے دل میں جیسے کسی نے چراغ جلا دیا اس نے حیران نظروں سے احمد کو دیکھا اس کے لب کپکپائے مگر آواز نہ نکلی وہ بس اتنا بولی کیا آپ دل سے یہ بات کہہ رہے ہیں احمد نے ہلکا سا سر ہلایا اور بولا ہاں دل سے مگر دل اب بھی ڈرا ہوا ہے ماہین نے دھیرے سے کہا دل ڈر بھی جائے تو محبت راستہ بنا لیتی ہے
صبح کی نرم روشنی پردوں سے چھن کر کمرے میں پھیل رہی تھی ماہین بالکنی میں کھڑی تھی ہوا کے ساتھ اس کے بال ہولے ہولے اڑ رہے تھے دل میں ایک نرمی سی تھی جو پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی احمد کے الفاظ بار بار ذہن میں گونج رہے تھے کہ ہم نئے سرے سے ایک دوسرے کو جاننے کی کوشش کر سکتے ہیں وہ سوچتی تھی شاید قسمت کبھی کبھی انسان کو وہاں لے آتی ہے جہاں سے وہ بھاگنا چاہتا ہے مگر پھر وہی جگہ اس کی پناہ بن جاتی ہے وہ دل ہی دل میں مسکرائی اور چائے کا کپ اٹھایا اتنے میں پیچھے سے احمد کی آواز آئی کتنی بار کہا ہے تم صبح خالی پیٹ چائے مت پیا کرو اس نے پلٹ کر دیکھا احمد دروازے کے قریب کھڑا تھا ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ آنکھوں میں وہ نرمی تھی جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی احمد آگے بڑھا اور اس کے ہاتھ سے کپ لے لیا تمہیں پتا ہے تم بدل گئی ہو ماہین نے حیران ہو کر کہا میں بدل گئی ہوں احمد نے کہا ہاں پہلے تم کیسی ڈری سہمی سی لڑکی تھی اب لگتا ہے جیسے تمہارے اندر کوئی روشنی جاگ اٹھی ہو ماہین کے چہرے پر شرمیلی سی مسکراہٹ آئی وہ بولی اور آپ بھی بدل گئے ہیں پہلے جیسے سخت نہیں رہے احمد نے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور دھیرے سے کہا شاید تم نے بدل دیا مجھے اس لمحے جیسے فضا میں سب کچھ رک گیا دونوں کے درمیان خاموشی تھی مگر اس خاموشی میں ہزاروں باتیں تھیں احمد نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا ماہین میں مانتا ہوں میں نے تمہیں دکھ دیے مگر شاید انہی دکھوں نے مجھے سکھایا کہ محبت کسی کو قید کرنے کا نام نہیں بلکہ کسی کو احساس دینے کا نام ہے تم میری زندگی کا وہ سکون ہو جو مجھے برسوں بعد ملا ہے ماہین کی آنکھوں میں آنسو آ گئے وہ بولی احمد اگر محبت دعا بن جائے تو زندگی جنت بن جاتی ہے احمد نے مسکرا کر اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا اور آہستہ سے کہا اور تم میری وہ دعا ہو جو اب ہمیشہ قبول ہو چکی ہے وہ اس کے قریب آیا اور دونوں کے درمیان برسوں کی سرد دیواریں پگھل گئیں وہ لمحہ جیسے دنیا کے شور سے الگ تھا بارش کی خوشبو کھڑکی سے اندر آ رہی تھی اور دل کے اندر محبت کا موسم اتر چکا تھا احمد نے کہا آج سے نہ کوئی ماضی رہے گا نہ کوئی غلط فہمی بس ہم رہیں گے اور ہمارا یقین ماہین نے اس کے کندھے پر سر رکھا اور بولا وعدہ رہیے گا یہ سکون کبھی نہیں چھینیں گے احمد نے کہا وعدہ اور اگر کبھی زندگی میں اندھیرا چھا بھی گیا تو تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں رہے گا وہ ایک دوسرے کے قریب کھڑے تھے وقت جیسے تھم گیا تھا آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے مگر ان کے دلوں میں روشنی تھی اس روشنی میں ایک نیا آغاز تھا ایک نئی محبت کا آغاز ایک ایسے رشتے کا جو نفرت سے شروع ہوا مگر محبت پر ختم ہوا

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
"Shukriya! Apka comment hamaray liye qeemati hai."