“Ak Raat Ka Faisla — Bewafaai, Talaq Aur Halala Ki Sachi Kahani | Emotional Moral Story”


 شوہر نے میرا حلالہ بوڑھے سے کیوں کروایا؟

میرا نام ہنا ہے اور میری زندگی کی کہانی اتنی کڑی اتنی کڑوی اور اتنی دکھ بھری ہے کہ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ شاید یہ سب مجھ پر نہیں بلکہ کسی اور پر گزرا ہو لیکن جب میں خود کو آئینے میں دیکھتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ میری اپنی زندگی کا وہ باب ہے جو چاہ کر بھی کبھی مٹ نہیں سکتا میں نے حارث نامی لڑکے سے شادی کی تھی وہ میرا بہت دیوانہ تھا اس کا پیار میرے لیے سب کچھ تھا مگر میرے گھر والے اس سے راضی نہیں تھے میری ماں نے روتے ہوئے کہا تھا کہ بیٹی اگر آج اس کے ساتھ کوئی جھگڑا ہوا تو یاد رکھنا ہم تمہارا ساتھ نہیں دیں گے لیکن اس وقت میرے دل میں صرف حارث تھا اور میں نے اس کے ساتھ جانے کا فیصلہ کر لیا تھا میری ماں دروازے کے پیچھے کھڑی تھی اس کی آنکھوں میں آنسو تھے مگر وہ چاہ کر بھی مجھے روک نہ سکی اور میں نے بھی دل ہی دل میں سوچ لیا تھا کہ اب جو ہوگا وہ حارث کے ساتھ ہی ہوگا

شادی کے بعد کچھ دن تو سب ٹھیک رہا لیکن جب میں پہلی بار اس کے گھر گئی تو اس کے گھر والوں کو میں بالکل پسند نہ آئی تھی وہ مجھ سے بات کرتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہتے کہ یہ لڑکی تمہیں قابو کر لے گی اور حارث صرف مسکرا کر بات ٹال دیتا تھا وہ کہتا تھا کہ مجھے تم سے محبت ہے باقی سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن وقت گزرتا گیا اور حارث کے اندر کا غصہ بڑھتا ہی گیا وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھڑک اٹھتا کبھی کھانا نمکین ہو جائے تو کہتا تمہیں کچھ نہیں آتا کبھی کپڑا دیر سے دھل جائے تو کہتا سمجھ نہیں آتا کیا میں نوکر ہوں یا شوہر اس کی سخت طبیعت کے باوجود وہ اگلے ہی لمحے میرے پاس بیٹھ کر کہتا کہ میں غصے والا ضرور ہوں مگر تمہارے بغیر رہ نہیں سکتا اور میں ہر بار پگھل جاتی تھی میں سوچتی تھی کہ چلو محبت میں کبھی کبھی غصہ بھی ہو جاتا ہے مگر حقیقت یہ تھی کہ وہ غصہ روز بڑھ رہا تھا

ایک دن بات اتنی بڑھ گئی کہ اس نے غصے میں آ کر مجھے طلاق دے دی میں سکتے میں کھڑی رہ گئی میری سانس اٹک گئی میرا جسم کانپ گیا جیسے کسی نے میرے اندر کی روح کھینچ لی ہو حارث کو بھی فوراً پچھتاوا ہو گیا تھا وہ میرے قدموں میں بیٹھ کر رونے لگا کہ میں نے غصے میں کر دیا مجھے معاف کر دو میں تمہیں چھوڑ نہیں سکتا میں ٹوٹ گئی تھی میں نے کہا اگر سچے ہو تو میرے ساتھ کھڑے رہو اور وہ فوراً محلے کے مولوی کے پاس لے گیا لیکن مولوی نے صاف کہا کہ دوبارہ ساتھ رہنے سے پہلے حلالہ ضروری ہے اور وہ بھی کسی بڑے عمر کے مرد سے کروایا جائے گا تاکہ لوگ بات نہ کریں

تب مجھے پتا چلا کہ وہ شخص جس کا انتخاب ہوا ہے اس کی عمر پچھتر سال ہے اس کا نام فضل دین تھا وہ لنگڑا کر چلتا تھا ہاتھ کانپتے تھے اور داڑھی سفید تھی میں نے سن کر اپنے اوپر سے زمین کھسکتی محسوس کی میں نے حارث کی طرف دیکھا میں نے کہا میں کبھی راضی نہیں مجھے کبھی کسی بوڑھے کے ساتھ نہیں رہنا وہ چیخ کر بولا کہ یہ سب رسم ہے ورنہ ہم ہمیشہ جدا ہو جائیں گے اور اس ایک جملے نے میری زندگی کا بدترین دروازہ کھول دیا

جس دن مجھے فضل دین کے گھر بھیجا گیا وہ دن میری زندگی کا سب سے بھاری اور سب سے اندھیرا دن تھا میرا جسم کانپ رہا تھا اور میرا دل اس طرح دھڑک رہا تھا جیسے ابھی سینہ پھاڑ کر باہر آ جائے گا میں وہ دروازہ پکڑ کر کھڑی تھی اور سوچ رہی تھی کہ آخر میں نے ایسا کون سا گناہ کیا تھا کہ مجھ پر یہ امتحان اتار دیا گیا میں نے آخری بار پیچھے دیکھا شاید حارث میری حالت دیکھ کر کچھ کہہ دے شاید روک لے مگر وہ وہاں نہیں تھا وہ دور کھڑا تھا سر جھکائے جیسے خود اپنے کیے سے بچ رہا ہو مجھے لگا جیسے میں اکیلی ہوں جیسے میں دنیا میں کسی کی نہیں رہی میں نے خود کو سنبھالا اور ہلتے قدموں سے اندر چلی گئی

فضل دین ایک ٹوٹے ہوئے بستر پر بیٹھا ہوا تھا اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے رنگ پیلا پڑ چکا تھا اور سانسیں بھاری تھیں میں نے اسے دیکھا تو میرے اندر کی ساری ہمت جیسے ختم ہو گئی وہ بولنے کی بھی کوشش کر رہا تھا مگر اس کی آواز ختم ہوتی ہوئی لگ رہی تھی اس نے کہا بیٹی بیٹھ جاؤ میں نے نظریں نیچی کر لیں میرا سر گھوم رہا تھا اور دل میں صرف ایک ہی خیال تھا کہ اللہ مجھے اس رات سے گزار دے بس میں زندہ رہ جاؤں میرے قدم بادلوں میں پھنسے تھے لیکن تقدیر کی چٹانوں نے مجھے وہیں بٹھا دیا تھا

وہ رات جب اتری تو میرے وجود پر زخموں کی بارش لے کر آئی تھی کمرہ اندھیرا تھا صرف ایک بلب جل رہا تھا جس کی روشنی بھی کسی مردہ چراغ کی طرح ٹمٹما رہی تھی میں نے اپنے اندر کا خوف نگلنے کی کوشش کی مگر میرا جسم کانپتا رہا اور میری آنکھوں کے اندر طوفان امڈتے رہے فضل دین نے آگے بڑھ کر کہا کہ بیٹی میں مجبور ہوں مجھے بھی یہ بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے میں نے پہلی بار اس رات کسی کے لفظوں میں اپنے جیسا درد سنا مگر اس کے باوجود جو ہونا تھا اس نے میرے تن من کو چیر کر رکھ دیا تھا میں خاموش رہی میں مر گئی مگر بولی نہیں میں ٹوٹ گئی مگر چیخی نہیں میں زندہ رہی مگر جی نہ سکی

وہ رات گزر تو گئی مگر اس کے نشان میرے اندر کسی جلتے داغ کی طرح ہمیشہ کے لیے نقش ہو گئے صبح جب ہوئی تو میرے ہاتھ کانپ رہے تھے میری سانس بھاری تھی میں چل بھی نہیں پا رہی تھی جیسے میرے اندر کی ہڈیوں تک سے طاقت کھینچ لی گئی ہو مولوی کے بندے آئے مجھے واپس لے جانے کے لیے فضل دین کے دروازے سے باہر قدم رکھتے ہوئے مجھے لگا کہ میں زندہ نہیں بلکہ ایک خالی کھوکھلی دیوار ہوں جس میں کوئی آواز کوئی جان کوئی احساس باقی نہیں رہا

جب میں گھر پہنچی تو حارث دروازے پر کھڑا تھا اس کی آنکھوں میں ندامت تھی جیسے اسے احساس ہو کہ میں کس آگ سے گزر کر آئی ہوں وہ مجھے دیکھتے ہی رونے لگا وہ میرے ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا ہنا میں نے تمہیں مار دیا ہے میں نے تمہیں توڑ دیا ہے میں معافی کے قابل بھی نہیں ہوں میں صرف خاموش کھڑی رہی کیونکہ میری آواز جیسے مجھ سے چھن چکی تھی میں نے اسے دیکھا بھی نہیں میری آنکھوں میں صرف وہ رات جل رہی تھی


اس رات فضل دین نے مجھ سے صرف اتنا کہا تھا کہ بیٹی تم فکر نہ کرو میں صرف نکاح کی رسم پوری کروں گا اور صبح ہوتے ہی تمہیں طلاق دے دوں گا تاکہ تم دوبارہ اپنے شوہر کے نکاح میں جا سکو میرا دل کانپ رہا تھا مگر میں مجبور تھی تقدیر نے مجھے ایک ایسی رات میں دھکیل دیا تھا جس کا سوچ کر ہی روح لرز اٹھتی ہے


رات بھر میرا جسم کپکپاتا رہا میں نے اللہ سے یہی مانگا کہ یہ آزمائش جلد ختم ہو جائے اور جب صبح فجر کی اذان ہوئی تو فضل دین نے مجھے بلایا اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اس کی آواز بھاری تھی اس نے کہا کہ میں نے نکاح کی شرط پوری کر دی ہے اور میں ابھی اسی وقت تمہیں طلاق دیتا ہوں تاکہ تم اپنے گھر واپس جا سکو


طلاق کے الفاظ سن کر جیسے میرے دل پر رکھا ہوا پہاڑ ہلکا ہوا مگر اندر کے زخم اب بھی تازہ تھے میں خاموش ہو کر دروازے سے باہر نکلی اور چند گھنٹوں بعد ہارث میرے سامنے کھڑا تھا اس کی آنکھوں میں ندامت تھی اس کے لفظ ٹوٹ رہے تھے وہ کہہ رہا تھا ہنا مجھے معاف کر دو میں نے آج جانا ہے کہ تمہارے بغیر میرا وجود ادھورا ہے


کچھ دنوں بعد میرا اور ہارث کا دوبارہ نکاح ہوا نکاح کے الفاظ میرے کانوں میں گونجے تو مجھے لگا کہ شاید میری ٹوٹی ہوئی روح کو پھر سے سہارا مل گیا ہے میں جانتی تھی کہ زخم ابھی باقی ہیں مگر اس نکاح نے مجھے ایک نئی سانس دی ایک نیا آغ

از دیا


اس رات کے بعد میری زندگی کسی بھاری دھند میں ڈوب گئی تھی میں چلتی تھی مگر میرے قدم زمین پر نہیں پڑتے تھے جیسے میں خلا میں لٹکی ہوئی تھی میری آنکھوں میں نمی رہتی تھی مگر میں روتی نہیں تھی کیونکہ میرے آنسو بھی شاید اس صدمے سے ڈر گئے تھے اکثر راتوں میں میں جاگتی رہتی اور چھت کو گھورتی رہتی مجھے لگتا تھا کہ چھت بھی مجھ سے سوال کر رہی ہے کہ تو آخر کیوں خاموش ہے کیوں کچھ نہیں کہتی کیوں اپنے دل کی چیخوں کو اندر دفن کر کے بیٹھی ہے مگر میں جواب نہیں دے پاتی تھی کیونکہ میرا دل خود جواب بن جانے کی ہمت کھو چکا تھا


حارث میری ہر بات ماننے لگا تھا وہ مجھے ہنسوانے کی کوشش کرتا میری پسند کا کھانا بناتا میرے پاس بیٹھتا مگر میں اس کے ہاتھ چھونے سے بھی ڈر جاتی تھی جیسے میرے اندر ایک زخمی روح چھپی ہو جو ہر لمس سے کانپ جاتی ہو وہ کئی بار رات کے اندھیرے میں میرے پاس بیٹھ کر کہتا کہ مجھے پتا ہے میں نے تمہیں نارک میں دھکیل دیا ہے مجھے پتا ہے کہ میری غلطی نے تم سے سب کچھ چھین لیا ہے مگر میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ مجھے معاف کر دو مگر میری زبان بند تھی میرے دل پر تالے لگ گئے تھے میں نے اسے کبھی برا نہیں کہا مگر کبھی معاف بھی نہ کر پائی


کبھی کبھی مجھے لگتا تھا کہ میں اس رات میں کہیں دفن رہ گئی ہوں اور آج جو چل رہی ہوں وہ ایک خالی جسم ہے جس کا دل کہیں پیچھے ماضی کی راکھ میں گم ہو گیا ہے میں بالکونی میں جا کر بیٹھتی اور آسمان کو دیکھتی وہی آسمان جو ہر رات میرے دکھ کی گواہی دیتا تھا میں چپ چاپ سوچتی کہ دنیا کی ہر عورت کو یہ حق ہونا چاہیے کہ اس کے بدن پر اس کی مرضی چلے اس کے احساسات اس کی اجازت کے بغیر کوئی نہ روند سکے مگر میری زندگی ایک ایسے موڑ سے گزر چکی تھی جہاں میری مرضی میرا حق میرا وجود سب کچھ چھین لیا گیا تھا


ایک روز میں نے حارث کو دیکھا وہ خاموش بیٹھا ہوا تھا اس کی آنکھیں سرخ تھیں اس نے مجھے دیکھ کر کہا کہ اگر چاہو تو میں ہمیشہ کے لیے تم سے دور ہو جاؤں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں تمہاری آنکھوں میں اپنا چہرہ دیکھنے کے قابل نہیں رہا میں نے اسے دیکھا تو دل میں عجیب سی ٹھنڈک اتر گئی تھی میں نے سوچا تھا کہ شاید میں اسے نفرت سے دیکھوں گی مگر ایسا نہیں ہوا مجھے اس کی ٹوٹی ہوئی حالت دیکھ کر لگا کہ شاید درد صرف میرے نہیں اس کے اندر بھی جل رہا ہے اس نے بھی خود کو سزا دی ہے اس نے بھی پچھتاوے کے اندھیرے میں کئی راتیں جاگی ہیں


لیکن پھر بھی میرے دل کے اندر وہ رات کسی خنجر کی طرح اٹکی ہوئی تھی میں نے چاہ کر بھی اسے بھلانا چاہا مگر وہ یاد جیسے میری رگوں میں گردش کرتی تھی جب میں سو جاتی تو وہ رات خواب بن کر میرے سامنے آ جاتی میں چیخ کر اٹھ جاتی مگر آواز باہر نہ نکلتی میرے اندر کی چیخیں میرے ہی اندر دم توڑ دیتی تھیں


میں نے سوچا شاید میں کبھی ٹھیک نہ ہو پاؤں لیکن پھر مجھے لگا کہ اگر میں خود کو نہیں سنبھالوں گی تو میں ہمیشہ اسی اندھیرے میں ڈوبی رہوں گی میں نے کئی دن بعد پہلی بار خود کو شیشے میں غور سے دیکھا اور مجھے لگا کہ جو عورت سامنے کھڑی ہے وہ مر کر بھی جی رہی ہے وہ ٹوٹی بھی ہے اور کھڑی بھی ہے وہ کمزور بھی ہے اور مضبوط بھی ہے میں نے خود سے کہا ہنا تم نے جینا ہے تم نے خود کو واپس لانا ہے چاہے قدم کانپتے رہیں مگر چلنا تم

ہیں خود ہے

وقت کے ساتھ ساتھ میں نے خود کو دوبارہ جوڑنے کی کوشش جاری رکھی مگر اندر ایسی سنسان گہری دراڑیں تھیں جن میں صدیوں کا اندھیرا جمع تھا میں اکثر رات میں خاموشی سے جاگتی رہتی اور اپنے دل سے پوچھتی کہ کیا میں کبھی وہی پرانی ہنا بن پاؤں گی جو ہنستی تھی بولتی تھی خواب دیکھتی تھی مگر جواب ہمیشہ ایک ہی آتا تھا کہ میں بدل گئی ہوں میں وہ نہیں رہی اور شاید اب کبھی نہ بن سکوں لیکن میں نے خود کو ٹوٹ کر ختم نہیں ہونے دیا میں نے اپنے اندر کسی چھپے ہوئے نور کو جگانا شروع کر دیا کیونکہ اگر میں خود کو نہ سنبھالتی تو میری روح ہمیشہ اسی رات میں قید رہتی


حارث میری ہر تکلیف سامنے دیکھتا تھا وہ میرے سامنے کبھی اونچی آواز میں نہیں بولا وہ ہر روز میرے ماتھے کو چھو کر کہتا کہ میں جانتا ہوں تم پر کیا گزری ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میں کبھی بھی وہ نشان مٹا نہیں سکتا مگر میں اتنا ضرور کر سکتا ہوں کہ تمہارے دل کی خالی جگہ کو پیار سے بھرتا رہوں تاکہ تمہاری روح دوبارہ سانس لے سکے میں اس کے یہ لفظ سنتی تھی تو دل کے اندر ہلکا سا احساس جاگتا کہ شاید وقت وہ زخم بھی بھر دے جنہیں کوئی دوا نہیں چھو سکتی


میں نے آہستہ آہستہ اپنی کہانی لکھنی شروع کی میں نے وہ ہر دکھ وہ ہر زخم اور وہ ہر گھٹن لفظوں میں اتار دی جسے میں برسوں اندر چھپائے بیٹھی رہی تھی میرے ہاتھ کانپتے تھے مگر میں لکھتی رہی کیونکہ لفظ ہی وہ راستہ تھے جو میری ٹوٹی ہوئی آواز کو زندہ رکھتے تھے میں نے لکھا کہ عورت کی خاموشی کمزوری نہیں ہوتی بلکہ ایک ایسی چیخ ہوتی ہے جسے دنیا سن نہیں پاتی میں نے لکھا کہ عورت اگر تڑپ کر بھی خاموش ہے تو وہ اندر سے پہاڑوں کی طرح مضبوط ہے میں نے اپنی کہانی کا نام رکھا خاموش عورت کی پکار کیونکہ یہ صرف میرے درد کی کہانی نہیں تھی یہ ہر اس عورت کی آواز تھی جو ظلم برداشت کرتی ہے مگر دل میں زندگی کی شمع بجھنے نہیں دیتی


جب میری کہانی مکمل ہوئی تو میں نے کتاب کا آخری صفحہ بند کیا اور میری آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو میرے ہاتھوں پر گرنے لگے میں نے حارث کو بلایا اس نے کتاب اٹھائی اور پڑھنے لگا اس کے ہاتھ کانپنے لگے اس کے آنسو صفحوں پر ٹپکنے لگے وہ میرے قدموں میں بیٹھ گیا اور بولا ہنا اگر زندگی نے مجھے سو سال بھی دیے تو میں پھر بھی تم سے معافی نہیں مانگ پاؤں گا کیونکہ تم نے جو سہا وہ کسی عورت کے حصے میں نہیں آنا چاہیے تھا میں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور پہلی بار کئی مہینوں بعد میرے دل کے اندر ایک نرمی اترتی محسوس ہوئی میں نے اسے کہا کہ شاید میں کبھی نہیں بھول پاؤں گی مگر میں اب جینا چاہتی ہوں کیونکہ اگر میں اپنے زخموں کو ہی پوجتی رہوں گی تو میں کبھی نئی زندگی کو گلے نہیں لگا سکوں گی


آہستہ آہستہ میرا گھر سکون کا آشیانہ بننے لگا میرے بچے میرے اردگرد ہنستے کھیلتے تھے حارث ہر صبح کام پر جانے سے پہلے میرا ماتھا چومتا تھا اور میں دل میں دعا کرتی تھی کہ اللہ اس گھر سے یہ سکون کبھی نہ چھینے میری کہانی ختم ضرور ہو چکی ہے مگر میری آواز میرے لفظ میری کتاب زندہ ہے اور میں چاہتی ہوں کہ ہر عورت یہ جانے کہ وہ ٹوٹ کر بھی جی سکتی ہے وہ دکھ برداشت کر کے بھی کھڑی ہو سکتی ہے کیونکہ عورت کی اصل طاقت اس کا صبر نہیں بلکہ اس کی دوبارہ اٹھ کر چلنے کی ہمت ہے


یہی میری کہانی کا نچوڑ ہے کہ عورت کی خاموشی اس کی شکست نہیں ہوتی بلکہ اس کا اعلان ہوتا ہے کہ وہ جتنی بھی زخمی ہو جائے پھر بھی اپنی زندگی کو نئے سرے سے جگمگا سکتی ہے کیونکہ وہ روشنی ہے اور روشنی کبھی 

بجھتی نہیں


https://www.blogger.com/u/9/blog/post/edit

/2729899281674296463/8058941165205658240


تبصرے

New Urdu Stories

ماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانیماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

فاطمہ اور عمران کی موٹر وے پر آخری ملاقات — ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

امتحان کی گزرگاہ: ایک مخلص انسان کی کہانی"