Mere Jism Par Dhabbe – Emotional Moral Story | Urdu Sachi Kahani
میں تنہا، بے بس، اور ٹوٹی ہوئی سڑک پر کھڑی تھی
میرا نام حریم قادری ہے۔ میں ایک عام گھریلو عورت تھی، جس کی زندگی کسی خوبصورت خواب کی طرح گزر رہی تھی۔ میرا شوہر نعمان مجھ پر جان چھڑکتا تھا، میری ایک مسکراہٹ پر وہ خود پر قابو نہ رکھ پاتا۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن یہی شخص مجھے یوں دھتکار دے گا جیسے میں کوئی گناہ گار عورت ہوں۔
ایک صبح میں نے محسوس کیا کہ میرے ہاتھوں، گردن اور کمر پر عجیب سے بدنما نیلگوں دھبے اُبھر آئے ہیں۔ جیسے کوئی بیماری آہستہ آہستہ میرے جسم پر پھیل رہی ہو۔ میں پریشان ضرور تھی مگر دل میں امید تھی کہ شاید کوئی دوائی کا ری ایکشن ہو۔
شام کو نعمان گھر آیا تو اس کی پہلی نظر میرے ہاتھ پر پڑے دھبوں پر گئی۔ اس نے چونک کر پوچھا:
"حریم! یہ کیا ہے؟ کس چیز کے نشان ہیں؟"
میں نے ڈرتے ہوئے کہا،
"شاید دوا کا ری ایکشن ہے… کل ڈاکٹر کے پاس چلیں گے۔"
لیکن نعمان کے چہرے پر خوف اور نفرت ایک ساتھ پھیل گئی۔ وہ کچھ بولے بغیر کمرے سے باہر چلا گیا۔
اگلے ہی لمحے دروازہ زور سے کھلا اور اندر میری ساس شمیم بیگم داخل ہوئیں۔ وہ آج وہ والی نرم ساس نہیں تھیں جو مجھے بیٹی کہہ کر گلے لگاتی تھیں۔ ان کے ہاتھ میں نوٹوں کی گڈی تھی، جسے انہوں نے میرے چہرے پر پھینکتے ہوئے کہا:
"یہ لو تمہارا حق مہر! شام کو میرا بیٹا آئے گا تو تمہیں طلاق دے گا۔ ہمیں بیماریوں والی عورت نہیں چاہیے۔ کہیں اسے بھی نہ لگ جائے!"
میں لرز گئی۔
"امی! یہ کیا کہہ رہی ہیں؟ ڈاکٹر نے کچھ نہیں کہا، صرف ٹیسٹ باقی ہیں—"
وہ چیخ کر بولیں:
"خاموش! مجھے پتہ ہے تمہیں کون سی بیماری ہے… ایڈز! ہم کوئی پاگل ہیں جو تمہاری باتوں میں آ جائیں؟ سامان باندھو اور یہاں سے نکل جاؤ!"
میری سانس رک گئی۔ میری ٹانگیں کانپنے لگیں۔ میں روتے ہوئے بولی:
"اللہ کے لیے، مجھ پر الزام نہ لگائیں۔ میں پاک دامن ہوں—"
مگر شمیم بیگم جا چکی تھیں۔
رات کو نعمان آئے۔ میں بھاگتے ہوئے ان کے پاس گئی،
"نعمان! پلیز میری بات سن—"
مگر وہ دھاڑے:
"پورے ہوش و حواس میں کہتا ہوں… طلاق، طلاق، طلاق۔
تم جیسی عورت میرے گھر کی عزت نہیں رہ سکتی!"
میرا وجود جیسے پتھر کا بن گیا۔ میں نے کانپتی آواز میں کہا:
"نعمان! ڈاکٹر نے کہا ہے یہ صرف دوا کا ری ایکشن ہے… آپ مجھ پر یہ الزام کیسے لگا سکتے ہیں؟"
نعمان نے میرا سوٹ کیس اٹھایا، کپڑے ٹھونسے اور کہا:
"نکل جاؤ میرے گھر سے! میں شادی کر چکا ہوں… میری نئی بیوی اس گھر میں آ چکی ہے۔ تمہاری کوئی جگہ نہیں!"
یہ سن کر میرا دل چیر گیا۔
میں نے آخری بار اسے روکنے کی کوشش کی مگر اس نے مجھے دھکے سے دروازے کے باہر کر دیا۔
رات کا پہر، ٹھنڈی ہوا، خالی سڑک، اور میں…
بس میں۔
ایک عورت، جسے اس کے اپنے ہی چھوڑ گئے تھے۔
میں نے کانپتے ہاتھوں سے رکشہ روکا اور اپنی ماں کے گھر کا پتہ بتایا۔ مگر وہاں بھی…
میری بھابھی نے دروازے پر آکر کہا:
"یہ گھر تمہارا نہیں رہا۔ ہمیں اپنے بچوں کی فکر ہے۔ اپنی بیماری لے کر کہیں اور جاؤ!"
دروازہ میرے منہ پر بند ہو گیا۔
میں سڑک پر بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی۔
سڑک پر بیٹھے روتے ہوئے مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کہاں جاؤں، کس کے پاس پناہ مانگوں۔ میں ایک عورت تھی، اور عورت کا دکھ سب سے سنگین ہوتا ہے، کیونکہ اس کے پاس کہیں جانے کی جگہ نہیں ہوتی۔ میرے جسم پر بنے دھبے جیسے میری پوری زندگی پر کالے سائے بن گئے تھے۔ بھوک، خوف اور بے بسی نے مجھے گھیر لیا۔ میں نے اپنے آنسو پونچھے اور خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ میں مرنے والوں میں سے نہیں تھی۔
اگلی صبح میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے کوئی نہ کوئی کام ضرور ڈھونڈنا ہوگا ورنہ میں بھوکی مر جاؤں گی۔ میں شہر کے بڑے علاقے نورانی اسکوائر پہنچی جہاں بڑی بڑی عمارتیں اور فائیو اسٹار ہوٹل تھے۔ میں نے دوپٹہ پورے جسم پر اس طرح لپیٹا کہ دھبے کسی کو نظر نہ آئیں۔ کئی جگہ کام مانگا مگر سب نے صاف انکار کر دیا۔ آخرکار میں ایک عالیشان ہوٹل قصرِ ریاض کے سامنے کھڑی تھی۔ میں نے ہمت کر کے اندر قدم رکھا اور مینیجر سے درخواست کی کہ کوئی بھی چھوٹا موٹا کام دے دیں۔ میری آنکھوں میں آنسو اور آواز میں لرزاہٹ تھی۔ وہ کچھ دیر مجھے دیکھتا رہا اور پھر بولا، "اگر چاہیں تو آپ کچن میں برتن دھو سکتی ہیں۔" میرے لیے یہی غنیمت تھا۔
میں نے فوراً ہاں کر دی۔ اگلے چند دنوں تک میں خاموشی سے اپنا کام کرتی رہی، کسی سے بات نہیں کرتی، بس اپنا چہرہ اور دھبے چھپائے رکھتی۔ لیکن میری محنت، میرا ڈر اور میرا دکھ کسی کی نظر سے اوجھل نہیں رہ سکتا تھا۔
ایک دن ہوٹل کا مالک حماد شاہ کچن کا اچانک وزٹ کرنے آیا۔ وہ اپنی سخت مزاجی کی وجہ سے پورے اسٹاف میں معروف تھا، لیکن اس دن اس کا چہرہ عجیب سنجیدگی لیے تھا۔ وہ ایک ایک ورکر کو دیکھتا آگے بڑھ رہا تھا جب اس کی نظر مجھ پر پڑی۔ میں نے فوراً نظریں جھکا لیں، مگر اسی لمحے میرے ہاتھ سے پلیٹ پھسل کر گر گئی۔ میں گھبرا کر نیچے جھکی پلیٹ اٹھانے لگی تو میری آستین تھوڑی اوپر اٹھ گئی اور دھبے نظر آگئے۔
حماد چند لمحے مجھے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے آگے بڑھ کر میرا ہاتھ تھام لیا۔ میں نے جھٹکے سے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا، دل زور سے دھڑکنے لگا۔
حماد نے نرم لیکن حیران آواز میں پوچھا، "یہ نشان کب سے ہیں؟"
میں نے گھبراہٹ سے کپڑے ٹھیک کرتے ہوئے کہا، "کچھ نہیں… بس ویسے ہی…"
وہ ایک قدم اور قریب آتے ہوئے بولا، "جھوٹ مت بولو۔ تمہاری آنکھیں سچ بول رہی ہیں۔ کیا تم بیمار ہو؟ کسی نے ستایا ہے؟"
میری پلکوں پر آنسو تیرنے لگے لیکن میں پھر بھی خاموش رہی۔
حماد نے اپنی نظریں جھکا کر آہستہ سے کہا، "تم فکر نہ کرو، میں کسی کو نہیں بتاؤں گا۔ لیکن تم مجھے سچ بتاؤ گی تو شاید میں تمہاری مدد کر سکوں۔"
میں مزید برداشت نہ کر سکی۔ زندگی میں پہلی بار کسی نے میرے لہجے کی تھکن سنی، میرے چہرے کے پیچھے چھپے دکھ کو محسوس کیا۔ میں ٹوٹ کر بولی، "میں بیمار نہیں ہوں… بس زندگی نے مجھے بیمار سمجھ کر پھینک دیا ہے…"
حماد نے چونک کر میرا چہرہ دیکھا، "اس کا مطلب؟"
میں نے سب کچھ بتا دیا—
شوہر کی بے وفائی، طلاق، ساس کا ظلم، بھابھی کا دروازہ بند کرنا، لوگوں کی نفرت، اور دھبوں کی وجہ سے ملازمت نہ ملنا۔ میں بولتی گئی اور حماد خاموشی سے سنتا گیا۔
میں نے کہا، "مجھے ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ یہ دوائی کا ری ایکشن ہے، مگر کسی نے یقین نہیں کیا۔"
حماد کی آنکھوں میں غصہ اور درد ایک ساتھ ابھر آیا۔
وہ بولا، "تم فکر نہ کرو… میں تمہیں سچ میں بیمار ہونے نہیں دوں گا۔ کل صبح تم میرے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلو گی۔ میں چاہتا ہوں تم ٹھیک ہو جاؤ۔ تم نے بہت کچھ سہہ لیا۔ اب اور نہیں۔"
میں حیرت سے اسے دیکھتی رہ گئی۔ ایک اجنبی شخص، جس کا مجھ سے کوئی رشتہ نہیں، وہ میرے زخموں پر مرہم رکھنے کی بات کر رہا تھا۔
میں نے آہستہ سے پوچھا، "کیوں…؟ آپ میرا خیال کیوں رکھ رہے ہیں؟"
حماد چند لمحے خاموش رہا، پھر بولا،
"کیونکہ کچھ لوگ زخموں کے پیچھے چھپی خوبصورتی دیکھ لیتے ہیں… اور مجھے لگتا ہے تم نے اس دنیا کی بے رحمی سے زیادہ برداشت کر لیا ہے۔"
اس کے یہ الفاظ سن کر میرا دل پہلی بار ہلکا ہوا۔
اگلی صبح میں کچن میں اپنا کام کر رہی تھی مگر دل بے چینی سے دھڑک رہا تھا۔ میں سوچ رہی تھی کہ شاید حماد نے وہ باتیں صرف مجھے دلاسہ دینے کے لیے کہی تھیں، شاید وہ بھول چکا ہوگا، لیکن کچھ ہی دیر بعد مینیجر نے آ کر کہا کہ مالک نے مجھے بلایا ہے۔ میرا دل کانپنے لگا۔ میں آہستہ آہستہ چلتی اس کے کیبن تک پہنچی۔ دروازہ کھولا تو وہ پہلے سے بیٹھا میرا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے مسکرا کر کہا، “چلو، ڈاکٹر کے پاس جانا ہے۔”
میں حیران رہ گئی۔ اس دنیا میں جہاں میرے اپنے میرے چہرے کے دھبوں سے نفرت کر کے مجھ سے منہ پھیر گئے تھے، وہاں ایک اجنبی شخص میرے دکھ کی پرواہ کر رہا تھا۔ میں خاموشی سے اس کے ساتھ چل پڑی۔ وہ بڑی گاڑی چلا رہا تھا اور میں پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہاتھوں کو دامن میں چھپائے بیٹھی تھی۔ پورے راستے میں کوئی بات نہ ہوئی۔
ڈاکٹر نے تفصیلی چیک اپ کیا، ٹیسٹ کروائے، رپورٹس دیکھیں۔ پھر بڑے سکون سے کہا، “یہ کوئی بیماری نہیں ہے۔ صرف دوائی کا سخت ردِعمل ہے۔ چند مہینوں میں مکمل ٹھیک ہو جائے گا۔” میں نے بے اختیار اپنے چہرے پر ہاتھ رکھا۔ میں رو پڑی۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھا اور سوچا — اگر یہ سب اتنا سادہ تھا تو پھر مجھے طلاق کیوں ملی؟ میرا گھر کیوں ٹوٹا؟ مجھے قصوروار کیوں بنا دیا گیا؟
حماد نے میری طرف دیکھا اور ہلکی آواز میں بولا، “میں نے کہا تھا نہ… تم بیمار نہیں ہو۔ بیمار تو وہ لوگ ہیں جو انسان کی ظاہری حالت دیکھ کر اس کا کردار لکھ دیتے ہیں۔” اس ایک جملے نے میرے اندر ٹوٹے ہوئے حوصلے کو پھر سے جوڑ دیا۔
ڈاکٹر کے کلینک سے نکلتے ہی حماد نے کہا، “تمہیں کچھ دن آرام کی ضرورت ہے۔ ہوٹل کا کام تمہیں مزید کمزور کر دے گا۔ میں تمہارے لیے ایک جگہ کا انتظام کر رہا ہوں، تم وہاں رہ لینا۔”
میں چونک گئی، “میں آپ پر بوجھ نہیں بننا چاہتی۔”
حماد نے سنجیدگی سے جواب دیا، “تم بوجھ نہیں ہو۔ کبھی کبھی اللہ کسی کے ذریعے کسی کی مدد لکھ دیتا ہے۔ شاید تمہارے لیے وہ دروازہ میں ہوں۔”
میں خاموش ہو گئی۔ اس کے لہجے میں کوئی فریب نہیں تھا، کوئی لالچ نہیں تھا۔ بس ایک سچائی تھی، ایک ہمدردی تھی جس کی مجھے برسوں سے ضرورت تھی۔ وہ مجھے شہر کے خاموش علاقے گلریز اپارٹمنٹس لے گیا۔ چھوٹا مگر صاف ستھرا فلیٹ تھا۔ اس نے چابی میرے ہاتھ میں رکھی اور کہا، “یہاں رہو، علاج کراؤ۔ میں خرچے کا انتظام کر دوں گا۔ بدلے میں مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ صرف یہ کہ تم ہمت نہ ہارنا۔”
میں حیران تھی۔ کیا دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں؟ جو بغیر فائدے کے، بنا کسی خواہش کے، صرف کسی کے درد کو بانٹنے کے لیے کھڑے ہو جائیں؟
اگلے چھ ماہ میری زندگی کے سب سے مشکل مگر سب سے بدل دینے والے مہینے تھے۔ حماد مجھے بہترین اسپیشلسٹ کے پاس لے جاتا، دوائیاں دلاتا، بار بار کہتا، “گھبرانا نہیں، یہ وقت بھی گزر جائے گا۔” میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کوئی مرد اپنا قیمتی وقت، اپنا پیسہ، اپنی محنت کسی اجنبی عورت پر لگا سکتا ہے۔
آہستہ آہستہ میرے جسم کے دھبے ختم ہونے لگے۔ میرا چہرہ پھر سے صاف ہونے لگا۔ میری آنکھوں سے وہ تھکن کم ہونے لگی جو مہینوں سے میرے اندر جمی ہوئی تھی۔ جب آئینے میں خود کو دیکھتی تو لگتا جیسے میں دوبارہ وہی پرانی عائشہ بن رہی ہوں جس پر لوگ فخر کرتے تھے۔
ایک شام میں فلیٹ کی کھڑکی کے پاس بیٹھ کر ڈوبتے سورج کو دیکھ رہی تھی کہ دروازہ بجا۔ میں نے کھولا تو حماد سامنے کھڑا تھا۔ اس نے بڑی نرمی سے کہا، “تم ٹھیک ہو گئی ہو۔ اب وقت ہے ایک فیصلہ کرنے کا۔”
میں نے حیران ہو کر پوچھا، “کیسا فیصلہ؟”
اس نے گہری سانس لے کر کہا، “میں چاہتا ہوں… تم میری زندگی میں آؤ۔ میں تمہیں تنہا نہیں چھوڑنا چاہتا۔ میں نے کسی سے سچی محبت نہ کی، لیکن تمہیں دیکھ کر دل میں ایک ایسی نرمی پیدا ہو گئی ہے جو کبھی کسی کے لیے نہ ہوئی۔ میں تمہارا ماضی نہیں پوچھوں گا، تمہارے زخموں کی کہانی نہیں کھولوں گا۔ صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم میری ہونے کے بارے میں سوچو۔”
میں ششدر رہ گئی۔ میرے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو گئی۔
ایک طرف وہ شوہر تھا جس نے میری بیماری کا الزام لگا کر مجھے گھر سے نکالا… دوسری طرف یہ آدمی تھا جو میری بیماری میں میرے ساتھ کھڑا رہا، علاج کروایا، سہارا دیا۔
میں نے نم آنکھوں سے آہستہ سے پوچھا، “آپ ایسا کیوں چاہتے ہیں؟”
حماد نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا،
“کیونکہ تم نے دکھ دیکھ کر بھی انسانیت نہیں بدلی۔ تم پگھل کر بھی پتھر نہیں ہوئیں۔ تم گرتے گرتے بھی ٹوٹیں نہیں۔ اور مجھے ایسی عورت چاہیے… جو زندگی کی سختیوں میں بھی خوبصورتی تلاش کرنا جانتی ہو۔”
اس کے الفاظ سن کر میرا دل جیسے بھر آیا۔
جب اس کے شوہر نے اسے طلاق دے کر دروازے سے باہر پھینکا تھا تو اسے لگا تھا کہ دنیا ختم ہوگئی ہے، راستے بند ہوگئے ہیں، زندگی کی ہر امید مر گئی ہے، مگر اللہ نے اس کے لیے وہ دروازہ کھولا جو انسانوں نے بند کر دیا تھا، Hamad وہ شخص تھا جو اسے گلی میں بے ہوش پڑی ملا تھا، اس نے اسے اپنے گھر نہیں بلکہ اپنے ایمان میں جگہ دی، اس کے علاج پر دن رات خرچ کیا، ڈاکٹروں کے چکر کاٹے، دوائیوں کا انتظام کیا، پھر جب وہ ٹھیک ہونے لگی تو Hamad نے اسے نوکری بھی دی، دفتر تک لے جاتا، واپس چھوڑتا، اسے کبھی احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ تنہا ہے، اس کی عزت کی حفاظت کی، اس کے چہرے پر واپس زندگی اور آنکھوں میں روشنی Hamad نے ہی واپس رکھی تھی، اور ایک دن اس نے نہایت ادب سے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں تمہیں ہمیشہ کے لیے تحفظ دے سکتا ہوں، میں تمہیں اپنی زندگی کا حصہ بنا سکتا ہوں، اور اس دن وہ روتی ہوئی صرف اتنا کہہ سکی کہ جس نے میرا وجود دوبارہ زندہ کیا، اس کے ساتھ زندگی گزارنے میں مجھے کیا تردد ہونا چاہیے، یوں اس کی Hamad سے شادی ہوگئی، ایسی شادی جس میں نہ زبردستی تھی نہ دکھ، صرف سکون، احترام اور محبت تھی۔
شادی کے بعد زندگی بدلی، گھر بدلا، ماحول بدلا، Hamad نے اسے عزت دی، گھر دیا، سہارا دیا، روزگار دیا، اسے ہر جذبے سے بھر دیا جو ایک عورت کو جینے کے لیے چاہیے ہوتا ہے، دونوں ایک ہی دفتر میں کام کرتے، کبھی کبھی بازار شاپنگ کے لیے جاتے، وہ پہلے سے زیادہ باوقار، مضبوط اور خوش تھی، Hamad اس کے لیے ہر دن رحمت ثابت ہوا، اور ایک دن جب وہ دونوں بازار میں شاپنگ کے لیے گئے ہوئے تھے، اچانک اس کا سابق شوہر ان کے سامنے آ گیا، وہ اچانک رک گیا، اس کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں، جیسے اس نے کسی زندہ معجزے کو سامنے دیکھ لیا ہو، وہ دیکھتا ہی رہ گیا، کیونکہ وہ عورت جسے اس نے بدنما دھبوں والی، بے کار، اور بوجھ سمجھ کر گھر سے نکال دیا تھا، آج پہلے سے زیادہ خوبصورت، پر سکون، عزت والی اور خوش تھی، اس کے ہاتھ میں خریداری کے بیگ تھے اور Hamad اس کے ساتھ کھڑا نہایت وقار سے ہنس کر بات کر رہا تھا، جیسے دنیا میں اس سے زیادہ عزیز کوئی نہیں۔
اس کا سابق شوہر آگے بڑھا، کچھ بولنے لگا مگر اس کے لفظ لڑکھڑا رہے تھے، اسے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ یہی وہ عورت ہے جسے اس نے طلاق دے کر ٹھوکر ماری تھی، اب وہ شفاف جلد، پُر اعتماد چہرہ اور روشن آنکھیں لیے Hamad کے ساتھ کھڑی تھی، Hamad نے بھی اسے دیکھا مگر کوئی غرور نہیں دکھایا، بس اتنے سکون سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا کہ جیسے کہہ رہا ہو کہ "یہ اب اکیلی نہیں"، وہ خاموش رہی مگر اس کی خاموشی میں ہزاروں جملے تھے، وہ خاموشی ہی جواب تھی، وہ خاموشی ہی انتقام تھی، وہ خاموشی ہی اس کی جیت تھی، اور وہ شخص جس نے اسے بے عزتی سے نکالا تھا آج خود دھول کی طرح بکھر رہا تھا، اس نے نظریں جھکا لیں اور پیچھے ہٹ گیا، کیونکہ اس کے پاس اب کوئی دلیل، کوئی طاقت، کوئی حق نہیں بچا تھا۔
وہ Hamad کی طرف مڑی، مسکرائی، Hamad نے آہستہ سے کہا، "چلیں؟" اور وہ دونوں آگے بڑھ گئے، ایک نئی زندگی کی طرف، ایک ایسی زندگی جس میں نہ دھبے تھے، نہ طلاق کا داغ، نہ ماضی کا درد—صرف محبت، سکون، عزت اور اللہ کی بہترین تقدیر تھی۔
انجام — عورت ہار گئی تھی جب اس نے غلط شخص سے امید رکھی…
اور جیت گئی جب اللہ نے اس کے لیے بہترین شخص کو چن لیا۔

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
"Shukriya! Apka comment hamaray liye qeemati hai."