"AJ Meri Shadi Thi | Bhabi Ki Sazish Ne Dulhan Ki Zindagi Tabah Kar Di – Asal Kahani Jo Sab Chhupa Rahe Hain"
آج میری شادی تھی
آج میری شادی تھی۔ صبح سے پورا گھر رونق سے بھرپور تھا، مگر دل میں ایک عجیب سی گھبراہٹ بھی تھی۔ امّی کے ہاتھوں کی مہندی ابھی بھی خوشبو دے رہی تھی اور کزنز ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ میں سوچ رہی تھی کہ آج کے بعد سب کچھ بدل جائے گا۔ لیکن یہ دن یوں بدل جائے گا، یہ کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔
بارات آئی ہی تھی کہ بھابھی نے ایک ایسا الزام لگا دیا جس سے میرا وجود لرز گیا۔ "یہ لڑکی بد کردار ہے، اس کا کسی سے تعلق ہے!" — یہ الفاظ ابھی کانوں میں گونج ہی رہے تھے کہ لڑکے والے حیرانی اور غصے میں فوراً واپس پلٹ گئے۔ بھائی نے مجھے دیکھنے تک کی زحمت نہیں کی۔ بس سب کے سامنے دھاڑ کر کہا، "نکل جا میرے گھر سے، آج کے بعد تیرا اس گھر سے کوئی رشتہ نہیں!"
میں رو رہی تھی، ہاتھ جوڑ رہی تھی، لیکن کسی نے میری ایک نہ سنی۔ نہ بھائی نے، نہ بھابھی نے۔ گھر کے دروازے میرے منہ پر بند ہو گئے۔ سارا جہیز، ساری تیاریاں، سب وہیں رہ گئیں۔
میں روتی بلکتی گلیوں میں چلتی رہی، نہ کوئی سمت تھی نہ سہارا۔ مسجد کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ اذان کی آواز آ رہی تھی، لیکن دل اتنا ٹوٹ چکا تھا کہ دعا کے الفاظ بھی زبان پر نہیں آ رہے تھے۔ بس آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
اتنے میں مسجد کے مولوی صاحب آئے۔ انہوں نے مجھے دیکھا، روکا، اور نرمی سے پوچھا:
"بیٹی، تم یہاں اس وقت کیوں بیٹھی ہو؟"
میری ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ بس اتنا کہہ پائی: "سب نے نکال دیا ہے... کہاں جاؤں؟"
مولوی صاحب نے مجھے بیٹی کہہ کر اپنے گھر لے جانے کی پیشکش کی۔ اس وقت اور کوئی سہارا نہ تھا، اس لیے میں ان کے ساتھ چلی گئی۔
لیکن جیسے ہی اندر قدم رکھا، میرا دل کانپ گیا۔ گھر کے دروازے کے اندر ہی کوئی ایسی بات سن لی جس نے میرا خون جما دیا۔
کچھ دن پہلے کا واقعہ یاد آ گیا —
بھابھی بار بار مجھے ایک رشتے سے انکار کرنے کا کہہ رہی تھیں۔ میں حیران تھی۔ کہاں تو وہ ہمیشہ چاہتی تھیں کہ میرا رشتہ جلدی طے ہو جائے اور کہاں آج وہ خود روک رہی تھیں۔
"یہ رشتہ تمہیں پسند نہیں، بس کہہ دینا!" بھابھی نے سخت لہجے میں کہا۔
میں نے صاف انکار کر دیا، "نہیں بھابھی، میں ایسا جھوٹ نہیں بول سکتی۔ بھائی کی پسند ہے، تو پھر وہی بہتر ہے۔"
بھابھی نے اچانک میرا راز چھیڑ دیا، "کیا تمہیں مومن پسند نہیں؟"
یہ سنتے ہی میرا چہرہ سرخ ہو گیا۔ ہاں، مجھے واقعی مومن پسند تھا — وہ لڑکی عنایہ کا بھائی، جس نے ایک بار میلاد میں اتنی خوبصورت دعا پڑھی تھی کہ میں اس کی آواز کے سحر میں کھو گئی تھی۔ نہ میں نے اسے کبھی دیکھا تھا نہ بات کی تھی، بس اس کی آواز دل میں اتر گئی تھی۔
بھابھی اس راز سے واقف ہوئیں تو بار بار مجھے ورغلانے لگیں، "یہ رشتہ چھوڑ دو ورنہ مسئلہ ہو گا۔"
میں نے ان کی بات کو مذاق سمجھ کر ٹال دیا۔ لیکن یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ میری زندگی ہی اجیرن کر دیں گی۔
رات کو جب سب سو جاتے، میں اکثر چھت پر جا کر ستاروں سے باتیں کرتی۔ سوچتی، "کاش میرا بھائی مجھ پر بھروسہ کرے، کاش بھابھی مجھے سمجھیں۔" مگر قسمت نے شاید کچھ اور لکھا تھا۔
شادی والے دن جب بھابھی نے سب کے سامنے کہا کہ "یہ لڑکی شریف نہیں"، تو وہ راز بھی کھل گیا جو میں نے دل میں چھپایا تھا۔ بھائی نے ایک پل کو بھی نہیں سوچا کہ میں جھوٹ بول سکتی ہوں۔
گھر سے نکالے جانے کے بعد جب میں مولوی صاحب کے گھر پہنچی تو اندر سے کسی کی آواز آ رہی تھی:
"ہاں، کام ہو گیا۔ آج کے بعد یہ لڑکی کبھی خوش نہیں رہ سکے گی۔"
میرا دل دھک سے رہ گیا۔ یہ بھابھی کی آواز تھی۔ لیکن وہ یہاں کیسے؟ اور کس سے بات کر رہی تھیں؟
میری سانس رک گئی۔ بھابھی کی آواز پہچاننا مشکل نہ تھا۔ وہ فون پر کسی سے بات کر رہی تھیں، اور الفاظ نے میرے قدموں تلے سے زمین کھینچ لی:
"ہاں، کام ہو گیا۔ آج کے بعد یہ لڑکی کبھی خوش نہیں رہ سکے گی۔"
میں دروازے کے پیچھے دبکی کھڑی تھی۔ دل دھڑک رہا تھا، جیسے ابھی پھٹ جائے گا۔ یہ سب کیا تھا؟ بھابھی یہاں کیا کر رہی تھیں؟ اور وہ کس سے مل کر سازش کر رہی تھیں؟
مولوی صاحب کی بیوی نے مجھے اندر بلایا اور کھانا دینے لگی، لیکن میرا دل تو جیسے کانپ رہا تھا۔ ایک پل کے لیے میں سوچ بھی نہیں پائی کہ کیا کہوں، کیا پوچھوں۔
اگلی صبح مولوی صاحب نے بڑے نرمی سے کہا:
"بیٹی، فکر نہ کرو۔ اللہ سب بہتر کرے گا۔ کچھ دن ہمارے پاس رہ لو۔ پھر کوئی رشتہ ڈھونڈیں گے تمہارے لیے۔"
میں بس اثبات میں سر ہلا رہی تھی، مگر اندر سے ایک ہی سوال مجھے کھائے جا رہا تھا:
کیا میری اپنی بھابھی نے میرے خلاف سازش کی ہے؟ کیوں؟
چند دن گزرے۔ بھائی کی کوئی خبر نہیں آئی۔ نہ کسی نے میرا حال پوچھا۔
میں مسجد کے قریب لڑکیوں کو قرآن پڑھانے لگی تاکہ مولوی صاحب پر بوجھ نہ بنوں۔ لوگ عزت دیتے تھے، مگر اندر کا زخم دن بدن گہرا ہوتا جا رہا تھا۔
ایک دن اچانک مسجد میں مومن آ گیا۔ وہی، جس کی آواز نے کبھی میرے دل کو چھوا تھا۔ میں نظریں جھکا کر قرآن سکھا رہی تھی، مگر محسوس ہو رہا تھا کہ وہ مجھے غور سے دیکھ رہا ہے۔
نماز کے بعد مولوی صاحب نے مجھ سے کہا:
"بیٹی، یہ مومن بڑا شریف لڑکا ہے۔ اپنی بہن کو لینے آیا تھا۔ تمہارے بارے میں پوچھ رہا تھا۔"
میں نے دل سنبھالتے ہوئے صرف اتنا کہا:
"مولوی صاحب، آپ کچھ نہ کہیں۔ میری بدنامی ہو چکی ہے۔ کوئی شریف لڑکا مجھ سے شادی نہیں کرے گا۔"
مولوی صاحب نے پہلی بار عجیب لہجے میں کہا:
"کون کہتا ہے بدنامی ہوئی ہے؟ لوگ جو مرضی کہیں، اگر میں چاہوں تو کل ہی تمہارا نکاح پڑھا سکتا ہوں۔"
میرا دل جیسے ڈوب گیا۔ یہ الفاظ مجھے عجیب لگے۔ ان کے لہجے میں وہ شفقت نہیں تھی جو پہلے تھی۔
اگلی رات میں نے دیکھا کہ مولوی صاحب کے کمرے میں کوئی چھپا ہوا مہمان ہے۔ ہلکی روشنی میں چہرہ صاف نظر نہیں آ رہا تھا، لیکن آواز… ہاں، وہ بھابھی ہی تھیں۔
"سب پلان کے مطابق ہو گیا۔"
"اب کوئی ہمیں پہچان بھی نہیں سکتا۔"
یہ سنتے ہی میرے جسم میں کپکپی دوڑ گئی۔ اب سب کچھ صاف تھا: بھابھی نے مجھے گھر سے نکلوانے کے لیے یہ جھوٹا الزام لگایا، اور مولوی صاحب… وہ بھی اس کھیل کا حصہ تھے!
اگلے دن میں نے چپکے سے محلے کی ایک بااعتماد آنٹی کو سب کچھ بتایا۔ انہوں نے فوراً مشورہ دیا:
"بیٹی، اگر تمہیں انصاف چاہیے تو ڈرو نہیں۔ حق کے لیے آواز اٹھاؤ۔"
ہم نے محلے کے لوگوں کو بلایا، اور مولوی صاحب کے گھر میں سب کو جمع کر کے سچ سامنے لانے کی تیاری کی۔
جب سب لوگ آئے تو میں نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا:
"میری بھابھی نے میری شادی رکوانے کے لیے جھوٹا الزام لگایا، اور یہ سب مولوی صاحب کی مدد سے کیا۔"
پہلے تو سب حیران رہ گئے۔ لیکن پھر وہ شخص سامنے آ گیا جس نے بھابھی کو مولوی صاحب کے گھر آتے جاتے دیکھا تھا۔ اس نے سب کے سامنے گواہی دی۔
مولوی صاحب بوکھلا گئے۔ بھابھی کا چہرہ سیاہ پڑ گیا۔ بھائی نے ایک لفظ نہ کہا، بس سب کے سامنے سر جھکا دیا۔
اسی دوران مومن بھی آگے بڑھا۔
اس نے سب کے سامنے کہا:
"میں نے ہمیشہ سچائی دیکھی ہے۔ اگر یہ لڑکی پاک ہے تو میں اس سے شادی کرنے کو تیار ہوں۔"
میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اتنی ذلت، اتنی تکلیف کے بعد… کوئی تھا جو مجھ پر یقین کرنے کو تیار تھا۔
بھائی نے آنکھوں میں پچھتاوے کے آنسو لیے کہا:
"بہن، مجھے معاف کر دو۔ میں نے بھابھی کی باتوں میں آ کر تجھ پر یقین نہیں کیا۔"
میں نے بھائی کو دیکھا اور دل میں کہا،
"کچھ زخم معافی سے بھر جاتے ہیں… لیکن کچھ زخم ہمیشہ رہ جاتے ہیں۔"
چند دن بعد میرا نکاح مومن سے ہو گیا۔ وہ نکاح نہ صرف میرے لیے ایک نئی زندگی کا آغاز تھا بلکہ اس نے یہ بھی ثابت کیا کہ سچائی چاہے کتنی بھی دبائی جائے، ایک دن ضرور سامنے آتی ہے۔
بھابھی کو گھر سے نکال دیا گیا۔ مولوی صاحب کو محلے والوں نے مسجد سے ہٹا دیا۔ اور بھائی… بھائی آج بھی جب ملتے ہیں تو نظریں جھکا لیتے ہیں۔
لیکن میں نے دل صاف رکھا۔ کیونکہ نفرت کا بوجھ لے کر جینا ممکن نہیں۔
رات کے سناٹے میں جب میں اپنے کمرے میں اکیلی بیٹھی تھی، دل میں ایک عجیب سا خوف اور تجسس تھا۔ ہر لمحہ لگتا جیسے بھابھی کہیں چھپ کر مجھے دیکھ رہی ہیں، یا کسی کی نظریں میرے پیچھے ہیں۔ میں نے کمرے کی کھڑکی کھولی، باہر کی ٹھنڈی ہوا نے چہرے کو چھو کر ایک لمحے کے لیے سکون دیا، لیکن دل کی بےچینی کم نہیں ہوئی۔
میری سوچوں میں وہ دن بار بار لوٹ کر آ رہا تھا جب بھابھی نے سب کے سامنے جھوٹا الزام لگایا تھا۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا، “کاش کوئی ہوتا جو سچ کو فوراً جان لیتا، اور مجھے اس ذلت سے بچا لیتا۔” لیکن زندگی میں اکثر لوگ خاموش دیکھتے رہ جاتے ہیں، اور انصاف کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
اچانک دروازے پر ہلکی سی آواز سنائی دی۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ شاید بھابھی یا کوئی اور آ گیا۔ لیکن جب میں نے دروازہ کھولا، تو وہ مومن تھا۔ وہ خاموشی سے کھڑا تھا، آنکھوں میں وہی پُر اعتماد نظر، جو پہلی بار مجھے میلاد میں محسوس ہوئی تھی۔
“تم ٹھیک ہو؟” اس نے ہلکی آواز میں پوچھا۔
میں نے سر ہلا کر جواب دیا، “ہاں… بس تھوڑا سا خوفزدہ ہوں۔”
اس نے میرا ہاتھ تھام کر کہا، “ڈرو نہیں۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ جو ہوا، وہ تمہاری غلطی نہیں تھی۔”
میرا دل جیسے ہلکا ہو گیا۔ پہلی بار کسی نے میری بےبسی کو سمجھا اور ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ میں نے اس کے ہاتھ تھام کر کہا، “لیکن سب کے سامنے… سب کچھ ختم ہو چکا۔ لوگ اب بھی باتیں کر رہے ہیں، ہر طرف سرگوشیاں ہیں۔”
مومن نے مسکرا کر کہا، “سرگوشیاں ہمیشہ رہیں گی، لیکن حقیقت کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ اور میں نے حقیقت دیکھی ہے۔”
اگلے دن، مومن نے مجھ سے کہا کہ ہم سب کچھ منصوبہ بندی سے واضح کریں گے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ محلے کی بااعتماد خواتین اور مولوی صاحب کی مدد سے سب کچھ سامنے لائیں گے۔ میری آنکھوں میں امید کی روشنی چمکنے لگی۔
رات کے وقت جب سب لوگ جمع ہوئے، میں نے کانپتی ہوئی آواز میں سب کے سامنے اپنی کہانی بیان کی۔ ہر لفظ کے ساتھ دل دھڑک رہا تھا، مگر میں رکنے نہیں دی۔
“میری بھابھی نے میری شادی روکنے کے لیے جھوٹا الزام لگایا۔ مولوی صاحب نے بھی… ان کی خاموشی میں سازش شامل تھی۔”
پہلے تو سب لوگ حیران رہ گئے۔ لیکن پھر ایک عورت، جو اکثر مولوی صاحب کے گھر آتی جاتی رہتی تھی، آگے بڑھی اور بولی، “میں نے سب کچھ دیکھا ہے۔ یہ لڑکی بےگناہ ہے۔ بھابھی نے منصوبہ بنایا تھا کہ اسے بدنام کیا جائے اور رشتہ ٹال دیا جائے۔”
م
میں نے اس عورت کی طرف دیکھا، دل میں ایک عجیب سکون پیدا ہوا۔ مومن نے میری طرف دیکھ کر مسکرا دیا، جیسے کہہ رہا ہو، “دیکھا، سچ ہمیشہ سامنے آتا ہے۔”
بھابھی کو بھی سب کے سامنے لے جایا گیا۔ وہ شروع میں جھجک رہی تھیں، پھر چیخنے لگیں، “ارسلان! تم نے یہ کیا؟ میں تمہیں چاہتی تھی!”
میرا دل دھڑک رہا تھا، لیکن میں نے اندر سے حوصلہ پکڑا اور کہا، “چاہت اور حق میں فرق ہوتا ہے۔ تم نے سچائی چھپائی، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا۔”
مولوی صاحب بھی حیرت میں تھے، اور شاید وہ خود بھی شرمندہ تھے کہ انہوں نے خاموشی اختیار کی۔ بھائی نے آنکھیں جھکا لیں، اور میری طرف دیکھ کر کہا، “میں نے تم پر یقین نہ کیا، مجھے معاف کر دو۔”
میرا دل نرم پڑ گیا۔ میں نے سر ہلا کر کہا، “کچھ زخم معافی سے بھر جاتے ہیں، کچھ زخم ہمیشہ رہ جاتے ہیں۔ لیکن میں نے اپنی زندگی آگے بڑھانی ہے۔”
مومن آگے بڑھ کر میرے ہاتھ تھامنے لگا، “اب ہم سب کچھ دوبارہ شروع کریں گے۔ تم میری زندگی کا حصہ ہو، اور میں تمہاری حفاظت کروں گا۔”
میں نے اس کی طرف دیکھا، اور دل میں ایک سکون پیدا ہوا۔ وہ لمحہ، وہ ہاتھ، وہ وعدہ، سب کچھ اتنا حقیقی لگ رہا تھا کہ میں نے پہلی بار دل سے یقین کیا کہ زندگی پھر سے سنور سکتی ہے۔
اگلے دن، محلے کے لوگ اور کچھ عزیز دوست بھی ہمارے ساتھ ہوئے۔ سب نے یہ عہد کیا کہ سچ کی حمایت کریں گے، اور جھوٹ کے خلاف کھڑے ہوں گے۔ بھابھی کو محلے سے دور کر دیا گیا، اور مولوی صاحب نے اپنی پوزیشن سے استعفی دے دیا تاکہ سب کچھ شفاف رہے۔
اب زندگی کی صبح تھی۔ میں نے سوچا، کتنی عجیب دنیا ہے۔ ایک دن میں اپنے خوابوں کی شادی کے لیے تیار تھی، اور اگلے دن سب کچھ ختم ہو گیا۔ لیکن حقیقت، سچائی اور محبت آخرکار ہمیشہ جیتتی ہے۔
مومن اور میں نے ایک دوسرے کو قریب سے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں وہی احترام اور چاہت تھی جو دل کو چھو گئی۔ میں نے دل میں سوچا، “اب کوئی بھی طوفان، کوئی بھی سازش، ہمیں الگ نہیں کر سکتی۔”
رات کے وقت، جب سب سو گئے، میں چھت پر بیٹھ کر ستاروں کو دیکھ رہی تھی، دل میں مومن کے الفاظ گونج رہے تھے:
“ہمیشہ یاد رکھو، سچ کی طاقت کبھی کم نہیں ہوتی۔ اور میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔”
میں نے آہستہ سے دعا کی، “اللہ، اب مجھے سکون دے۔ مجھے ہمت دے کہ میں ہر مشکل کا سامنا کر سکوں، اور اپنی زندگی کو دوبارہ سنوار سکوں۔”
چند دنوں بعد، ہماری شادی کی تقریب دوبارہ رکھی گئی۔ اس بار، سب کچھ سکون اور خوشی سے ہوا۔ محلے کے لوگ، دوست اور خاندان کے کچھ افراد بھی موجود تھے۔ ہر طرف ہنسی، محبت اور احترام تھا۔ اور سب سے اہم بات یہ تھی کہ میری عزت دوبارہ بحال ہوئی تھی۔
مومن اور میں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں وعدے دیکھے، اور دل میں یہ یقین کر لیا کہ کوئی بھی مشکل، کوئی بھی سازش، ہمارے رشتے کو نہیں توڑ سکتی۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمیشہ ایک دوسرے
کے ساتھ کھڑے رہیں گے، چاہے دنیا کچھ بھی کہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
"Shukriya! Apka comment hamaray liye qeemati hai."