Dadi Ki Jhonpri Se Reshma Aur Asad Ka Safar | Full Urdu Story | Moral Story | Hindi story


 رمشا اور ڈاکٹر کی لو سٹوری 

دادی کی بات تو ٹھیک تھی۔ وہ جس جھونپڑی میں رہتی تھی، وہیں اس کا تنہا گزارہ تھا۔ دادی کا نہ کوئی آگے تھا نہ پیچھے۔ تھوڑی سی زمین تھی جس پر محنت کر کے زندگی چل رہی تھی۔

ایک دن گاؤں کی ایک لڑکی پر حرام کاری کا الزام لگ گیا۔ گھر والوں نے غصے میں آ کر اُسے گھر سے نکال دیا۔ اُس لڑکی کا نام ریشمہ تھا۔ ریشمہ بھٹکتی ہوئی، خوف اور دکھ سے کانپتی دادی کے پاس پہنچی۔ اُس نے پناہ مانگی۔ دادی کے دل میں رحم آگیا۔ اس نے اپنی غربت کا حال بھی بتایا اور ریشمہ کو کہا:

"بیٹی! یہ جھونپڑی تنگ ضرور ہے، مگر دروازہ کھلا ہے۔ رہنا چاہو تو یہاں ٹھہر جاؤ۔"

ریشمہ نے بھی آنسوؤں میں ڈوبی اپنی دکھ بھری کہانی سنائی۔ وہ جوان تھی، حسین تھی، مگر قسمت نے اُسے بے سہارا کر دیا تھا۔

کچھ سال یوں ہی گزر گئے۔ دادی صبح سویرے اپنی زمین پر کام کرنے جاتی اور ریشمہ کو جھونپڑی میں چھوڑ جاتی۔ مگر ایک دن جب دادی شام کو کھیت سے لوٹ رہی تھی، اُس نے دیکھا کہ جھونپڑی کے آس پاس گاؤں کے کچھ بگڑے ہوئے لڑکے چکر کاٹ رہے ہیں۔ دادی نے ہوشیاری اور سخت لہجے سے انہیں بھگا دیا، مگر دل میں ایک خوف بیٹھ گیا:

"اگر کسی نے اس لڑکی کی عزت پر ہاتھ ڈال دیا، تو اللہ کو کیا جواب دوں گی؟"

اس دن کے بعد دادی نے فیصلہ کر لیا کہ وہ ریشمہ کو اکیلا نہیں چھوڑے گی۔ جب بھی کھیت میں کام کرنے جاتی، اُسے ساتھ لے جاتی۔

کھیتوں کے بیچ ایک پگڈنڈی تھی جو سیدھی شہر کی طرف جاتی تھی۔ اُسی راستے سے ہر صبح ایک نوجوان کالج پڑھنے کے لیے گزرتا۔ ایک دن جب ریشمہ دادی کے ساتھ کھیتوں میں بیج بونے میں مصروف تھی، اُس نوجوان کی نظر ریشمہ پر جا ٹھہری۔ اُس کا نام اسد تھا۔ وہ ریشمہ کو دیکھتے ہی دل ہار بیٹھا۔ ایک لمحے کو اُسے لگا جیسے پوری دنیا تھم گئی ہو، سورج بھی جیسے ٹھہر سا گیا ہو، اور ہوا بھی رک گئی ہو۔

د نے پہلی ہی نظر میں محسوس کیا کہ اس لڑکی میں کچھ الگ بات ہے۔ وہ محض حسین نہیں تھی بلکہ اس کی آنکھوں میں چھپا ہوا درد ایسا تھا جو دل کو چھو جاتا ہے۔ اس نے کئی دن تک خود کو سمجھایا کہ یہ محض ایک اتفاق ہے، مگر ہر صبح جب وہ اسی پگڈنڈی سے گزرتا تو نظر نہ چاہتے ہوئے بھی ریشمہ کو تلاش کرتی۔

ریشمہ کو شروع میں اسد کا دھیان محسوس نہ ہوا۔ وہ بس دادی کے ساتھ کھیتوں میں محنت کرتی، اپنے ماضی کے دکھ کو چھپانے کی کوشش کرتی۔ مگر دادی کی نظر تیز تھی۔ ایک دن جب اسد گزرا اور چند لمحوں کو ٹہر کر ریشمہ کو دیکھنے لگا تو دادی نے سب کچھ بھانپ لیا۔

دادی کے دل میں ایک انجانا سا خوف جاگا:

"یہ لڑکی پہلے ہی حالات کی ماری ہوئی ہے۔ اگر پھر کوئی نیا طوفان آ گیا تو اس کا کیا ہوگا؟"

اسی شام دادی نے ریشمہ کو پیار سے بٹھا کر کہا:

"بیٹی، زندگی کا راستہ سیدھا رکھنا۔ لوگ بہت باتیں کرتے ہیں۔ یہ دنیا کسی کی نیت نہیں دیکھتی، صرف الزام لگاتی ہے۔"

ریشمہ نے حیرت سے پوچھا:

"دادی، آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں؟"

دادی نے نظریں جھکا لیں:

"بس یوں سمجھو کہ میں نے کچھ دیکھ لیا ہے۔ کوئی ہے جو تمہیں دیکھتا ہے۔ اور بیٹی، جب لڑکیاں یوں اجنبی نظروں کا مرکز بنتی ہیں تو زمانہ انہیں جینے نہیں دیتا۔"

ریشمہ خاموش ہو گئی۔ وہ جانتی تھی کہ دادی ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ لیکن نہ وہ محبت چاہتی تھی، نہ کوئی رشتہ۔ اُس نے خود سے عہد کر لیا تھا کہ اب صرف جینا ہے، باقی سب خواب چھوڑ دینے ہیں۔

مگر محبت کہاں کسی کے اختیار میں رہتی ہے؟ اسد ہر گزرتے دن کے ساتھ اور بے قرار ہونے لگا۔ اس نے ریشمہ سے بات کرنے کا بہانہ ڈھونڈ لیا۔ ایک دن جب دادی دور کھیت میں بیل چلانے گئی ہوئی تھیں، اسد آہستگی سے قریب آیا اور سلام کیا۔ ریشمہ چونک گئی اور فوراً پیچھے ہٹی۔

"ڈرو نہیں،" اسد نے دھیمی آواز میں کہا۔ "میں کوئی برا انسان نہیں ہوں۔ بس… آپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔"

ریشمہ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ کچھ کہہ نہ سکی۔

اسد نے کہنا شروع کیا:

"مجھے نہیں معلوم آپ کون ہیں، کہاں سے آئی ہیں… مگر جو دکھ آپ کی آنکھوں میں ہے، وہ میں روز دیکھتا ہوں۔ اگر کبھی دل چاہے تو اپنا درد بانٹ لینا۔ شاید کچھ کم ہو جائے۔"

ریشمہ نے نظریں جھکا لیں۔ اس کے ہونٹ کپکپائے مگر کوئی لفظ نہ نکل سکا۔ اسد خاموشی سے واپس لوٹ گیا۔

کچھ دن گزرے۔ ریشمہ نے اس واقعے کو بھلانے کی کوشش کی، مگر ہر بار جب اسد کی نظر ملتی تو دل دھڑکنے لگتا۔ دادی نے بھی نوٹ کیا کہ اب ریشمہ اکثر کھوئی کھوئی رہتی ہے۔

ایک دن دادی نے سختی سے کہا:

"بیٹی! مجھے وعدہ دو کہ تم کوئی غلط فیصلہ نہیں کرو گی۔ یہ زمانہ معاف نہیں کرتا۔"

ریشمہ نے آہستہ سے جواب دیا:

"دادی، میں آپ کی عزت کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ کچھ غلط نہیں ہوگا۔"

لیکن محبت کے بیج خاموشی سے دل میں جڑ پکڑ چکے تھے۔ اسد نے ایک دن ہمت کر کے صاف الفاظ میں کہہ دیا:

"ریشمہ، میں تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔"

ریشمہ کے قدموں تلے زمین نکل گئی۔ ایک طرف دادی کا اعتبار، دوسری طرف اپنا ماضی، اور تیسری طرف ایک نئی امید جو دل میں جاگ اٹھی تھی۔

"یہ ممکن نہیں،" ریشمہ نے لرزتی آواز میں کہا۔ "میرا کوئی گھر نہیں، کوئی خاندان نہیں۔ لوگ کیا کہیں گے؟"

اسد نے سنجیدگی سے کہا:

"لوگ جو چاہیں کہیں۔ مجھے صرف تمہارا جواب چاہیے۔"

اسی لمحے دادی کھیت سے واپس آ گئیں اور دونوں کو ایک ساتھ دیکھ لیا۔ دادی کی آنکھوں میں غصہ بھی تھا اور خوف بھی۔

"ریشمہ!" دادی کی گرجدار آواز نکلی۔ "یہ کیا ہو رہا ہے؟"

ریشمہ کے آنسو نکل آئے۔ اس نے سب سچ سچ بتا دیا۔ دادی نے اسد کی طرف دیکھا:

"بیٹے، تمہیں شاید علم نہیں کہ یہ لڑکی کتنے طوفان سہہ کر آئی ہے۔ اگر تم صرف کھیل رہے ہو تو قسم کھا کر کہتی ہوں، تمہارا انجام برا ہوگا۔"

اسد نے دادی کے قدموں کو چھو کر کہا:

"اماں جی، میں کھیلنے نہیں آیا۔ میں عزت کے ساتھ اس لڑکی کو اپنے گھر لے جانا چاہتا ہوں۔"

دادی کی آنکھوں سے بھی آنسو نکل آئے۔ وہ جانتی تھیں کہ لڑکا سچا ہے، مگر زمانہ اتنا ظالم ہے کہ کسی کی سچائی بھی شک کی نظر سے دیکھی جاتی ہے۔

دادی نے اسد کے عزم کو پرکھنے کے لیے چند دن اس سے کوئی بات نہیں کی۔ مگر وہ روزانہ اسی راستے سے گزرتا، نظریں جھکا کر، گویا خاموشی سے یہ یقین دلا رہا تھا کہ اُس کی نیت صاف ہے۔ ریشمہ کا دل ایک انجانے خوف میں گھرا رہتا — کہیں یہ سب خواب نہ ثابت ہو، کہیں گاؤں والے پھر باتیں نہ بنائیں۔

ایک دن دادی نے خود ہی اسد کو بلایا۔

"بیٹے، اگر تم واقعی سنجیدہ ہو تو اپنے گھر والوں سے بات کرو۔"

اسد نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

"اماں جی، میں آج ہی بات کرتا ہوں۔"

گھر پہنچتے ہی اسد نے اپنے والدین کو سب کچھ بتا دیا۔ اس کے والد، حاجی منظور، ایک سخت مزاج آدمی تھے۔ انہوں نے غصے سے کہا:

"کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ ایک اجنبی لڑکی، جس کا نہ کوئی خاندان ہے نہ پتہ… اور تم اُسے گھر کی بہو بنانے چلے ہو؟"

اسد کی ماں نے بھی پریشانی سے کہا:

"بیٹا، ہم لوگ عزت والے ہیں۔ لوگ کیا کہیں گے؟ پہلے اس لڑکی کا ماضی تو پتہ کرو۔"

مگر اسد اپنے فیصلے پر ڈٹا رہا۔

"امی، ابا جی! عزت انسان کے کردار سے ہوتی ہے، خون یا خاندان سے نہیں۔ ریشمہ نیک دل ہے، بس حالات کی ماری ہوئی۔"

گھر میں طوفان برپا ہو گیا۔ والدین نے صاف کہہ دیا کہ اگر اس نے یہ ضد نہ چھوڑی تو اسے گھر سے نکال دیا جائے گا۔

اگلے دن اسد دادی کے پاس آیا، چہرہ بجھا ہوا تھا۔

"اماں جی، میں تیار ہوں ہر قربانی دینے کو… مگر گھر والے مان نہیں رہے۔"

دادی نے گہرا سانس لیا۔

"بیٹے، زندگی ضد سے نہیں چلتی۔ مگر اگر تم دونوں کا پیار سچا ہے، تو اللہ کوئی راستہ ضرور نکالے گا۔"

ریشمہ یہ سب سن کر رو پڑی۔

"دادی، میں نہیں چاہتی کہ اس کی وجہ سے اسد اپنے گھر والوں سے لڑے۔ میں پھر بدنام ہو جاؤں گی۔"

مگر اسد نے ریشمہ کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر کہا:

"میں تمہیں چھوڑ نہیں سکتا۔ اگر گھر والے نہیں مانتے، تو میں اپنا گھر الگ بساؤں گا۔"

دادی خاموش رہیں۔ وہ جانتی تھیں کہ یہ آسان نہیں۔ گاؤں کے لوگ پہلے ہی ریشمہ پر شک بھری نگاہ ڈالتے تھے۔ اگر اس نے اسد سے شادی کر لی تو زبانیں اور بھی لمبی ہو جائیں گی۔

چند دن بعد حاجی منظور خود دادی کے جھونپڑی پر آ پہنچے۔

"اماں جی، یہ کیا ماجرا ہے؟ آپ نے میرے لڑکے کو پٹایا ہے یا یہ لڑکی کوئی جادوگرنی ہے؟"

دادی نے صبر سے جواب دیا:

"حاجی صاحب، میں غریب ضرور ہوں مگر ایمان نہیں بیچا۔ یہ لڑکی بے سہارا ہے، مگر بدکردار نہیں۔"

حاجی منظور نے طنزیہ ہنسی ہنسی:

"چلو مان لیا کہ نیک ہے، مگر خاندان؟ حسب نسب؟ ہمارے گھر کی بہو بنے گی تو لوگ انگلی نہیں اٹھائیں گے؟"

دادی نے دو ٹوک لہجے میں کہا:

"حاجی صاحب، انگلیاں لوگ اُس وقت بھی اٹھاتے ہیں جب دلہن سونے کی ہو۔ یہ سب بہانے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ کو اپنے بیٹے کی خوشی سے زیادہ اپنی جھوٹی شان پیاری ہے۔"

حاجی منظور غصے میں وہاں سے چلے گئے۔ مگر اس جھگڑے کی خبر گاؤں بھر میں پھیل گئی۔ کچھ لوگ دادی کی حمایت کرتے، کچھ ریشمہ کو برا بھلا کہتے، اور کئی لوگ اسد کو دیوانہ قرار دیتے۔

اسی دوران ایک دن ریشمہ کھیت میں اکیلی تھی۔ کچھ اوباش لڑکے آ گئے اور چھیڑنے لگے۔ ریشمہ ڈر کے مارے چیخ اٹھی۔ خوش قسمتی سے دادی قریب ہی تھیں، وہ بھاگتی ہوئی آئیں اور لاٹھی سے لڑکوں کو بھگا دیا۔ مگر یہ واقعہ آگ کی طرح پھیل گیا۔ گاؤں والے کہنے لگے:

"دیکھا؟ یہ لڑکی مصیبت ہے۔ آج لڑکے آئے ہیں، کل کوئی بڑا فساد ہو جائے گا۔"

یہ سن کر اسد کا خون کھول اٹھا۔ وہ سیدھا پنچایت پہنچ گیا اور سب کے سامنے اعلان کر دیا:

"میں اس لڑکی سے نکاح کروں گا، چاہے کوئی مانے یا نہ مانے!"

پورا گاؤں ہکا بکا رہ گیا۔ حاجی منظور کے چہرے پر شرمندگی اور غصہ دونوں عیاں تھے۔ انہوں نے بیٹے کو دھمکی دی:

"اگر یہ نکاح ہوا تو میرا تم سے ہر رشتہ ختم!"

دادی اب ہر وقت ریشما کو اپنے ساتھ کھیتوں پر لے جانے لگی تھیں۔

اسی دوران اسد نام کا ایک نوجوان روزانہ اسی راستے سے کالج جاتا تھا، اور پہلی نظر میں ہی ریشما کو دیکھ کر دل ہار بیٹھا۔

اب ذرا جذبات اور مکالمے شامل کرکے کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں:

اُس دن شام کا سورج کھیتوں کے پیچھے ڈوب رہا تھا۔ دادی اور ریشما پگڈنڈی سے واپس جھونپڑی کی طرف آ رہی تھیں کہ پیچھے سے کسی نے سلام کیا۔

"السلام علیکم دادی جان!"

دادی نے مڑ کر دیکھا۔ ایک دبلا پتلا، خوش لباس نوجوان سائیکل پکڑے کھڑا تھا۔

"وعلیکم السلام بیٹا، خیر ہے؟" دادی نے پوچھا۔

اسد نے نظریں جھکا لیں، لیکن دل کی دھڑکن تیز تھی۔ "جی... بس آپ کو روز یہاں دیکھتا ہوں تو سلام کرنے کا دل کیا۔"

ریشما خاموش کھڑی تھی، نظریں نیچی کیے۔ دادی نے مسکرا کر کہا، "سلام کا جواب دینا بھی ثواب ہے بیٹا۔ لیکن دیر ہو رہی ہے، گھر پہنچنا ہے۔"

اسد نے ہمت جٹا کر کہا، "اگر برا نہ مانیں تو... کیا میں کبھی آپ کے کھیتوں میں کام میں ہاتھ بٹا سکتا ہوں؟"

دادی نے ذرا غور سے دیکھا، پھر نرمی سے بولیں، "کام کا ہاتھ بٹانا اچھی بات ہے، لیکن پہلے اپنے والدین سے اجازت لے کر آنا۔"

اسد نے اثبات میں سر ہلا دیا، لیکن دل میں کچھ اور ہی چل رہا تھا — اُس کی نظریں بار بار ریشما پر جا ٹھہرتیں، جو بات کیے بغیر چپ چاپ آگے بڑھ گئی۔

اگلے ہی دن اسد پھر اسی راستے سے گزرا۔ اس بار اُس نے سائیکل روک کر کچھ فاصلے سے کھڑے ہو کر دیکھا۔ ریشما کھیت میں گھاس کاٹ رہی تھی، دھوپ کی ہلکی کرنیں اُس کے چہرے کو سنہری بنا رہی تھیں۔ اسد کے دل میں انجانی سی کشش جاگ اُٹھی۔

گاؤں میں باتیں بھی ہونے لگیں — "یہ نوجوان بار بار ادھر کیوں آتا ہے؟" — دادی فکر مند ہو گئیں۔ ایک رات وہ ریشما سے بولیں،

"بیٹی، زمانہ بُرا ہے۔ لوگوں کی نظریں جلدی بدل جاتی ہیں۔ اسد شریف لڑکا لگتا ہے، لیکن میں چاہتی ہوں تم ہوشیار رہو۔"

ریشما نے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا، "دادی، آپ کی بات سر آنکھوں پر... لیکن دل کا کیا کریں جو کسی کی آواز سنتے ہی دھڑکنے لگتا ہے؟"

دادی خاموش ہو گئیں۔ اُنہیں اپنی جوانی یاد آگئی جب محبت کے نام پر صرف وعدے ہوتے تھے، لیکن زمانہ بدل گیا تھا۔

سورج کی مدھم ہوتی کرنیں کھیتوں کی مٹی پر نرم سنہرا کپڑا بچھا رہی تھیں۔ دادی اور رِشمہ بیج سمیٹ رہی تھیں کہ سامنے والی پگڈنڈی پر وہی نوجوان سائیکل تھامے آہستہ آہستہ گزرا۔ سلام کیا، نظریں جھکائیں اور گزر گیا۔ دادی نے یک نگاہ دیکھا اور چپ رہ گئیں۔ دل میں ایک ہلکی سی آہٹ تھی—جیسے وقت کسی نئے موڑ پر قدم رکھنے کو ہو۔

اگلے دن، پھر وہی منظر۔ اس بار نوجوان نے نام بھی بتا دیا: “میرا نام اسد ہے۔” رِشمہ نے سر جھکا کر مختصر جواب دیا، “میں رِشمہ ہوں۔” بس اتنا کہہ کر وہ کام میں لگ گئی۔ دادی خاموشی سے سب دیکھتی رہیں۔ شام کو جب وہ جھونپڑی لوٹیں تو دادی نے دھیرے سے کہا: “بیٹی، نگاہیں اگر سیدھی رہیں تو راستے بھی سیدھے رہتے ہیں۔ دنیا بات بنائے بغیر نہیں رہتی۔” رِشمہ نے بے بس سی مسکراہٹ سے کہا، “جانتی ہوں دادی… میں آپ کی لاج رکھوں گی۔”

دنوں کی مالا میں ہفتے پروتے گئے۔ اسد کی نگاہوں میں وضعداری تھی، لبوں پر حدِ ادب۔ وہ کبھی پانی دے جاتا، کبھی کھیت کے کنارے سے گھاس اٹھا دیتا۔ نہ بے باکی، نہ ہنسی مذاق—جیسے محبت نے پہلی بار کسی شریف دل کے دروازے پر دستک دی ہو۔ دادی نے کئی دن تک اسے پرکھا، پھر ایک صبح پگڈنڈی پر ہی روک کر بولیں: “بیٹا! اگر دِل میں نیت نکاح کی ہے تو سیدھی بات اپنے گھر کہو۔ اگر صرف دل لگی ہے تو یہ راستہ چھوڑ دو۔ اس بچی پر پہلے ہی زمانے نے ظلم کیا ہے۔” اسد نے ہاتھ جوڑ کر کہا: “اماں جی، میرے ارادے پاک ہیں۔ میں کالج ختم کر کے ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کروں گا، پھر اسی دروازے پر رشتہ لے کر آؤں گا۔”

وقت نے پہیہ تیزی سے گھمایا۔ اسد نے پڑھائی ختم کی، ہاؤس جاب شروع کی۔ دادی کے پاس ہر دوسرے تیسرے روز حاضر ہوتا، سر جھکا کر سلام کرتا، جھونپڑی کی ضرورت پوچھتا اور چلا جاتا۔ رِشمہ کی آنکھوں میں سہمی ہوئی سی روشنی تھی—جیسے پچھلی زندگی کے اندھیروں کو یقین ہی نہ آ رہا ہو کہ روشنی سچ میں اتنی قریب آ سکتی ہے۔

پہلا طوفان اُس شام اٹھا جب گاؤں کے دو اوباش لڑکے جھونپڑی کے پاس آ نکلے۔ فقرے کسے، راستہ روکا۔ دادی لاٹھی ٹیکتی ہانپتی دوڑ آئیں، للکار کر بھگا دیا، مگر دل میں ایک چبھن رہ گئی: “یا اللہ! یہ بچی میری امانت ہے۔ اگر اس کی عزت پر آنچ آئی تو میں کیا جواب دوں گی؟” اسی دن کے بعد دادی نے فیصلہ کیا کہ رِشمہ کھیت ہو یا بازار، اکیلی نہیں جائے گی۔

چند ماہ بعد اسد نے گھر میں بات چھیڑی۔ باپ—حاجی منظور—سخت مزاج آدمی، ماں روایتوں کی اسیر۔ دونوں کا ایک ہی سوال: “کس کی بیٹی ہے؟ خاندان؟ حسب نسب؟” اسد نے کہا: “امی، ابا! عزت کردار سے ہے۔ وہ بے قصور ہے، حالات کی ماری ہوئی۔” جواب میں گھر میں طوفان بپا ہو گیا۔ رشتے کی بات پر دروازہ بند، لہجے کٹھور، الفاظ آگ۔ یہاں تک کہا گیا: “اگر وہی ضد ہے تو گھر چھوڑ دو!”

اسد کی آنکھوں میں نمی تیر گئی لیکن قدم نہ لڑکھڑائے۔ اگلی ہی شام دادی کے سامنے بیٹھا تھا۔ “اماں جی! گھر والے نہیں مانے۔ میں ہار نہیں مانوں گا، مگر ایک بات چاہتا ہوں… اگر آپ اجازت دیں، تو میں مولوی صاحب کو بلا کر سادہ نکاح کر لوں۔ میں رِشمہ کو اس زمانے کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتا۔” دادی دیر تک خاموش رہیں، پھر آہستہ سے بولیں: “نکاح عزت دیتا ہے۔ مگر ایک بات: یہ فیصلہ جذبات میں نہیں، اللہ کے نام پر ہونا چاہیے۔” اسد نے سر جھکا دیا، “اللہ کے نام پر، اماں جی!”

رات بھر دادی نے جائے نماز پر بیٹھ کر استخارہ کیا۔ دل میں سکینت اتر آئی۔ اگلی صبح انہوں نے دو پرانے واقف کار مزدوروں کو گواہ بنا کر بلایا، محلے کی مسجد کے مولوی صاحب کو پیغام دیا۔ جھونپڑی صاف کی گئی، چٹائی بچھائی گئی۔ دادی کے ہاتھ کانپ رہے تھے مگر دل مطمئن تھا۔ رِشمہ نے سفید دوپٹہ اوڑھا، آنکھوں میں ڈھیروں آنسو اور ہونٹوں پر ایک دعا۔ اسد نے سادہ سا کپڑا پہنا، دل میں درود اور کانوں میں اذان کی بازگشت۔

مولوی صاحب نے سنجیدگی سے خطبہ نکاح پڑھا۔ مہر طے ہوا—اسد نے کہا: “جتنا میرے بس میں ہو، اس سے بڑھ کر دوں گا؛ مگر ابھی کے لیے سادگی سے قبول کیجیے۔” دادی نے تسبیح کے دانے مضبوطی سے پکڑ لیے۔ کلمہ، ایجاب و قبول—اور ایک پل میں دو تن ایک جان ہو گئے۔ دادی کی آنکھوں سے آنسو اس طرح بہے جیسے برسوں کے دکھ دھل گئے ہوں۔ جھونپڑی میں فرشِ خاک پر بیٹھے اُس نکاح نے آسمانوں پر بھی چراغاں کر دیا۔

نکاح کے فوراً بعد دادی نے رِشمہ کے سر پر ہاتھ رکھا: “بیٹی! اب تم امانت نہیں، گھر والی ہو۔ اللہ تمہیں دونوں جہان کی خوشی دے۔” اسد نے جھک کر دادی کے پاؤں چھوئے، “اماں جی! یہ جھونپڑی میری ماں کا آنگن ہے۔” رِشمہ نے پہلی بار پورے اعتماد سے اسد کی طرف دیکھا—وہ شرم جس میں خوف بھی تھا، اب اس میں تحفظ شامل ہو گیا تھا۔

دوسرا طوفان جلد ہی گھر کے دروازے پر آن کھڑا ہوا۔ اسد کے گھر والوں نے خبر سنی تو آسمان سر پر اٹھا لیا۔ “ہماری اجازت کے بغیر نکاح؟ ایک جھونپڑی والی؟ ہرگز نہیں!” اسد نے نرم لہجے میں کہا: “اجازت مانگی تھی، انکار ہوا—میں نے حلال راستہ اختیار کیا۔” جواب میں رشتے ناطے توڑ دینے کی دھمکی، میراث کی باتیں، اور سماج کی انگلیاں۔ اسد نے صبر سے سب سنا اور خاموشی سے اسپتال کے قریب ایک چھوٹا سا کمرہ کرائے پر لے لیا۔ دادی نے اپنا بوسیدہ صندوق کھولا، تین جوڑے کپڑے، ایک پرانا لحاف، اور ایک قرآن مجید اٹھایا: “یہ لے جا، بیٹا۔ میرے پاس دینے کو یہی جہیز ہے۔” اسد نے قرآن کو چوم کر آنکھوں سے لگایا: “یہی میری دولت ہے۔”

شادی کے بعد کی زندگی سادہ مگر روشن تھی۔ اسد نائٹ ڈیوٹی سے آتا تو دروازے پر چراغ جلا ملتا۔ رِشمہ نے جھونپڑی میں سیکھی سادگی سے گھر بسایا—مٹی کے چراغ، چائے کی بھاپ، نرم لہجہ، کم میں زیادہ کر دکھانے کی ہنر مندی۔ کبھی کبھی دادی دو دن کے لیے آ جاتیں، آٹا گوندھتیں، سالن پکاتیں، اور جاتے جاتے ایک گرہ میں برکت کی دعا باندھ جاتیں۔

پھر قدرت نے وہ گنجلک گرہ بھی کھول دی جس نے برسوں پہلے رِشمہ کی زندگی الجھا دی تھی۔ محلے والی “آنٹی” کی اپنی بیٹی کے کسی کے ساتھ ناجائز مراسم کی خبر پھیل گئی۔ لڑکی ایک رات گھر سے بھاگ نکلی۔ راز افشا ہوتے ہی اُنہوں نے اپنی بدنامی چھپانے کے لیے کبھی رِشمہ پر جو جھوٹا الزام لگایا تھا، وہ بھی کھل کر سامنے آ گیا۔ بات شہر شہر پہنچی تو “اسلامی نگر” کے چودھری عبد—ریشمہ کے والد—کو بھی پتہ چل گیا کہ بیٹی بے قصور تھی۔ دکھ اور شرمندگی کے مارے وہ بیوی سمیت اسد کے کمرے کے باہر آن کھڑے ہوئے۔ دروازہ کھلا، دادی اندر بیٹھی دھیان میں تھیں۔

چودھری عبد نے آنکھیں نم کر کے کہا: “اماں… ہمیں معاف کر دیجئے۔ ہم سے بہت بڑی زیادتی ہو گئی۔” رِشمہ ماں کی بانہوں میں گری تو گھر ہچکیوں اور معافیوں سے گونج اٹھا۔ دادی نے دونوں کو سینے سے لگایا: “اولاد ماں باپ کی امانت ہے، کبھی کبھی آزمائش دیر سے سمجھ آتی ہے۔ شکر ہے سچ سامنے آ گیا۔”

اسی دوپہر اسد کے گھر والے بھی ہسپتال کے کوارٹر میں پہنچ گئے۔ حاجی منظور کی آنکھوں میں انا شکستہ تھی، زبان پر اٹکتے ہوئے لفظ: “بیٹا… ہم غلط تھے۔ تم نے حلال راستہ اختیار کیا۔ ہمیں معاف کر دو۔” اسد نے باپ کے ہاتھ تھام لیے: “ابا جی، بیٹا ناراضی نہیں رکھتا۔ ہمارے گھر میں صرف دعا کی ضرورت ہے۔” اس دن پہلی بار دونوں خاندان ایک دسترخوان پر بیٹھے—چھوٹا سا گھر، مگر دل سمندر کی طرح وسیع۔ دادی نے روٹی توڑتے ہوئے کہا: “دیکھا، سچائی کا بول بالا پھر ہو گیا۔”

مہینے بھر بعد خوشی کی ایک اور خبر آئی—ریشمہ اُمید سے تھی۔ اسد نے اسپتال کی اضافی ڈیوٹیاں لے لیں، اور راتوں کو جاگ کر خوابوں کی درزی کا کام کرنے لگا—بچی کی گڑیا، ننھے کپڑے، نذر و نیاز کی فہرست۔ دادی نے جھونپڑی کے پاس والی کیاری میں نیم اور تلسی کے پودے اور بھی سنوار دیے: “نواسہ آئے گا تو اس کی ہوا بھی خوشبودار ہونی چاہیے۔” وقت آیا تو چاندنی رات تھی؛ آذان کی صدا کے ساتھ ایک ننھا سا بیٹا دنیا میں آیا—آنکھیں بالکل اسد جیسی، ماتھے کی لکیر دادی جیسی۔ اسد نے کان میں آذان دی، نام رکھا “امین”—کہ گھر میں امانت کا حق ادا ہوا تھا۔

امین کے چالیس دن پورے ہوئے تو اسد نے ایک سرپرائز رکھا: “اماں جی، رِشمہ… ہم عمرہ کے لیے مکہ جا رہے ہیں۔” دادی کے ہاتھ سے تسبیح گر گئی۔ آنکھوں میں وہ نمی اُتھری جو برسوں کے سجدوں کی قبولیت کی خبر دیتی ہے۔ پاسپورٹ، ٹکٹ، اصل مشکل تو نیت کی تھی—وہ تو برسوں پہلے ہو چکی تھی۔ جہاز کے کھڑکی کے پار بادلوں کے بیچ سے گزرتی روشنی جیسے دل کے اندر اترتی چلی گئی۔

مکہ مکرمہ میں پہلی نگاہ کعبہ پر پڑی تو رِشمہ سجدے میں گر گئی۔ “یا رب! میں بے قصور تھی، تُو جانتا تھا—اور تُو نے میرا حق لوٹا دیا۔” اسد نے ایوانِ کعبہ کے گرد ہاتھ اٹھائے: “مالک! میرے والدین کی انا کو نرم کر دے، میری بیوی کی عزت ہمیشہ قائم رکھ، اور میرے بیٹے کو صادقوں کا وارث بنا۔” دادی حجرِ اسود کے قریب آ کر اتنی روئیں کہ جیسے جھونپڑی کی ساری پیاس آج بجھ گئی ہو۔ عمرہ کے سعی میں صفا مروہ کے بیچ جب وہ چلیں تو دادی کی کمر میں جوانی کی سی جان آ گئی۔ “بیٹی!” انہوں نے رِشمہ سے کہا، “ہاجرہؑ کی سعی میں ہر عورت کی آبرو کی حفاظت کی دعا پوشیدہ ہے—اللہ نے وہ دعا تیری قسمت میں لکھ دی ہے۔”

واپسی پر کہانی ایک نئے باب میں داخل ہو چکی تھی۔ اسد کے والدین نے دادی کے لیے اپنے گھر کے صحن میں ایک چھوٹا سا کمرہ بنوا دیا—سفید چونے کی دیواریں، کھڑکی پر سبز پردہ، اور اندر تکیے کے پاس ایک تسبیح۔ دادی کبھی جھونپڑی میں دن گزارتیں، کبھی شہر آ کر امین کو گود میں لیے جھولتی رہتیں۔ اسد نے گاؤں کی اوباش لڑکوں والی جھگیوں کے سامنے ڈسپنسری کھول دی—“ہر بیمار کا علاج، ہر عزت کی حفاظت”—یہ تختی دادی نے اپنے ہاتھ سے لکھوائی۔ رِشمہ نے شام کے وقت محلے کی بچیوں کے لیے پڑھنے لکھنے کی چھوٹی سی محفل شروع کر دی۔ وہ انہیں صرف حروف نہیں سکھاتی تھی، خودداری بھی سکھاتی: “سچ بولنا کمزوری نہیں، ہمت ہے۔”

ایک دن دادی نے بوسیدہ صندوق پھر کھولا۔ اندر سے اپنی جوانی کی ایک پرانی چادر نکالی، جس کے گوشے پر ہاتھ کی کڑھائی میں چھوٹے چھوٹے پھول بنے تھے۔ چادر رِشمہ کے سر پر رکھی: “یہ میرے پاس آخری نشانی ہے۔ آج سے یہ تمہاری ہے۔ جب امین کی بسم اللہ ہو تو یہی اوڑھنا۔” رِشمہ نے چادر چوم کر آنکھوں سے لگائی۔ امین نے تالی بجائی اور ہنس دیا—وہ ہنسی جس میں گھر بھر کی رونق چھپی ہوتی ہے۔

شام ڈھلی تو صحن میں سب جمع تھے—اسد کے والدین، چودھری عبد اور اُن کی بیگم، محلے کی دو ایک بزرگ خواتین، اور بیچ میں دادی اپنے مخصوص تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھی تھیں۔ چائے کی خوشبو، تازہ پوریاں، اور امین کی کلکاریاں۔ چودھری عبد نے جھجکتے ہوئے کہا: “اماں… ہم چاہیں تو وہ جھونپڑی اب پکی کر دیں؟” دادی مسکرا دیں: “جھونپڑی پکی دل سے ہوتی ہے، دیواروں سے نہیں۔ ہاں، چھت پر پلاسٹک کی جگہ چادر ڈال دینا، بارش میں ٹپکتی ہے۔” سب ہنس دیے، مگر آنکھوں میں نمی بھی تھی۔

رات کے سناٹے میں جب سب اپنے اپنے کمروں کو چلے گئے تو دادی آہستہ سے اُٹھیں۔ آسمان کی طرف دیکھا۔ “مولا! تُو نے عزت بچا لی۔ یہ بیٹی تیری امانت تھی—تو نے اس کے نام کے ساتھ ‘محفوظ’ لکھ دیا۔ اب جب موت آئے تو اسی سکون کے ساتھ آئے جس سکون میں آج یہ گھر سو رہا ہے۔” دور کہیں فجر کے پہلے پرندے نے صدا دی۔ دادی نے تسبیح کے دانے گنے اور مسکرا دیں۔

کہانی ختم نہیں ہوئی—کہانیوں کی طرح زندگی بھی چلتی رہتی ہے۔ مگر اس صفحے پر جو بات سب سے روشن ہو کر لکھی گئی، وہ یہ تھی کہ جھونپڑی سچی ہو تو محلوں کے دروازے بھی جھک کر سلام کرتے ہیں۔ اسد اور رِشمہ کے نکاح نے صرف دو دل نہیں جوڑے، دو خاندانوں کو جوڑا۔ مکہ کی سعی نے صرف گناہ نہیں دھوئے، برسوں کی تہمت بھی دھو دی۔ اور امین کے پیدا ہونے نے صرف گھر میں ہنسی نہیں بھر دی، دادی کے دل میں بسا ہوا وہ خوف بھی ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا کہ “میں اللہ کو کیا جواب دوں گی؟”—اب جواب یہ تھا: “میں نے امانت لوٹا دی، میرے رب!”

اگلی صبح دادی نے امین کو گود میں لیا، ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا: “بیٹا، جب کبھی زندگی تیرے راستے میں کانٹے رکھے، اس جھونپڑی کو یاد کرنا جہاں عزت نے پناہ لی تھی۔ یہ اِک چھوٹا سا گھر تھا، مگر اسی میں سب کچھ سیکھا گیا: صبر، سچ اور محبت۔” امین نے جیسے سمجھ لیا۔ اُس نے ننھے ہاتھوں سے دادی کی تسبیح تھامی—اور کمرے میں ہلکی سی روشنی اور بھی بڑھ گئی۔


تبصرے

New Urdu Stories

ماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانیماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

فاطمہ اور عمران کی موٹر وے پر آخری ملاقات — ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

امتحان کی گزرگاہ: ایک مخلص انسان کی کہانی"