"Bevi Ki Maut Ke Baad Betiyan Bahan Ke Hawale… Jab Wapas Aya To Rooh Kaamp Gayi


بیوی فوت ہوگئے  دو بیٹیاں بہن کے حوالے میں پردیس چلا گیا
 میرا نام نعمان ہے۔ آج جب میں اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا ہوں تو دل کی دھڑکنیں تیز ہیں۔ اندر سے برتنوں کے ٹوٹنے کی آوازیں آرہی ہیں، جیسے کوئی خوفناک طوفان اٹھا ہو۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ یہ وہی گھر ہے جہاں کبھی سکون بستا تھا۔

دو سال پہلے کی بات ہے۔ میری بیوی عالیہ ایک حادثے میں دنیا چھوڑ گئی۔ دو چھوٹی بیٹیاں میری گود میں رہ گئیں۔ ماں کے بغیر ان معصوم کلیوں کا خیال کیسے رکھوں؟ یہ سوال مجھے دن رات ستاتا۔ میں نے دوسری شادی کا سوچا بھی، مگر بیٹیوں کے چہروں نے دل موم کر دیا۔

میری بڑی بہن صفیہ نے کہا، "نعمان بھائی! پریشان مت ہو، یہ دونوں بچیاں میری بھی ہیں۔ جیسے ماں پالتی ہے ویسے ہی میں پالوں گی۔ تم پردیس جا کر کما لو، میں سب سنبھال لوں گی۔"

میں نے سوچا بہن ہی تو ہے، خون کا رشتہ ہے، کیسے دھوکہ دے گی؟ میں ہر ماہ ایک لاکھ روپے بھیجتا رہا، مطمئن رہا کہ بیٹیاں محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔

مگر عجیب بات تھی — جب بھی بیٹیوں سے فون پر بات کرنے کی ضد کرتا، صفیہ بہانے بنا دیتی۔ "وہ سو رہی ہیں"، "کھیلنے باہر گئی ہیں"، "کل بات کروا دوں گی۔" میں شک نہیں کرتا تھا کیونکہ دل چاہتا تھا کہ بہن پر اندھا اعتماد رکھوں۔

دو سال ایسے ہی گزر گئے۔ ایک دن میرا دل بے چین ہوا۔ نوکری سے چھٹی لی اور اچانک پاکستان آ گیا۔ گھر پہنچا تو دروازے پر دستک دی۔ اندر سے کوئی جواب نہ آیا۔ پھر ایک اور بار زور سے دستک دی — اچانک میری بڑی بیٹی حبا ننگے پاؤں اور پھٹے کپڑوں میں دروازے کے پاس نظر آئی۔ میرا کلیجہ منہ کو آگیا۔

"بابا!" وہ مجھ سے لپٹ گئی، کانپ رہی تھی۔ آنکھوں میں خوف اور چہرے پر گرد و غبار۔ میں نے اسے گود میں اٹھایا اور دروازہ کھٹکھٹایا۔

دروازہ صفیہ نے کھولا۔ مجھے دیکھ کر چند لمحے کے لیے ساکت رہ گئی، پھر مصنوعی مسکراہٹ سے بولی:

"ارے! بھائی آپ؟ اچانک؟"

میں نے اندر قدم رکھا تو برتن میرے پاؤں کے پاس آ کر گرے۔ اندر باورچی خانے سے میری بہن اور اس کی بڑی بیٹی رمشہ چیخ رہی تھیں۔ میں نے حیرت سے کہا:

"یہ سب کیا ہو رہا ہے؟"

صفیہ نے جلدی سے کہا:

"کچھ نہیں بھائی، ذرا معمولی بحث تھی۔"

مگر یہ معمولی نہیں لگ رہا تھا۔ کمرے میں بیٹیوں کا حال دیکھ کر میرا دل دہل گیا۔ حبا اور چھوٹی زنیرہ کے کپڑے میلے کچیلے تھے، چہروں پر اداسی تھی۔ جیسے یہ بچیاں کسی کی لاڈلی نہیں بلکہ گھر کی نوکرانیاں ہوں۔

میں نے صفیہ کی آنکھوں میں دیکھا:

"یہ کس حال میں ہیں میری بیٹیاں؟ میں ہر ماہ پیسے بھیجتا تھا، کہاں گئے وہ پیسے؟"

صفیہ نظریں چرا گئی۔

"بھائی، زمانہ مہنگا ہے... خرچے بہت تھے۔ تمہیں کیا پتا، دو بچوں کو پالنا کتنا مشکل ہے..."

میں نے سخت لہجے میں کہا:

"مشکل؟ یا تم نے میرے خون پسینے کی کمائی اپنی عیاشیوں پر لٹا دی؟"

اتنے میں رمشہ نے تلخی سے کہا:

"ان بچیوں نے ہمارے گھر کا سکون چھین لیا ہے! نہ یہ ہوتیں نہ ہمیں یہ ذلت سہنی پڑتی!"

میرے جسم میں آگ لگ گئی۔

"چپ رہو!" میں دھاڑا۔

حبا ڈر کے کانپ گئی۔ میں نے بیٹی کو سینے سے لگا کر صفیہ سے کہا:

"یاد ہے تم نے کیا وعدہ کیا تھا؟ ماں بننے کا؟ یہ ماں کا سلوک ہے؟"

صفیہ کچھ بولنے ہی والی تھی کہ محلے کی ایک عورت آگئی۔ اس نے مجھے سارا حال بتایا:

"نعمان بھائی! آپ کی بچیاں اکثر بھوکی رہتی ہیں، دن بھر گھر کے کام کرتی ہیں۔ کوئی ان کی دیکھ بھال نہیں کرتا۔"

میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ دل چاہا زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں۔ یہ کیا ہو گیا تھا؟ جس بہن کو میں نے بیٹیوں کی ماں بنایا، وہی ان کی ظالم بن گئی۔

میں نے وہیں فیصلہ کر لیا:

"اب یہ بچیاں میرے ساتھ رہیں گی۔ کوئی بھی رشتہ خون سے بڑھ کر نہیں اگر اس میں انسانیت نہ ہو۔"

مگر مجھے اندازہ نہ تھا کہ 

یہ فیص

لہ میری زندگی کی سب سے بڑی جنگ کی شروعات تھی

اُس رات میں نے پکا ارادہ کرلیا تھا کہ اب میری بیٹیاں کسی بھی قیمت پر صفیہ کے پاس نہیں رہیں گی۔ جس انسان پر میں نے اندھا بھروسہ کیا، اُس نے ماں بننے کے بجائے ان معصوم کلیوں کے دل توڑ دیے۔

میں نے حبّہ اور زنیرا کو اپنے قریب بٹھایا اور نرمی سے کہا:

“ڈرو نہیں، اب تم دونوں میرے ساتھ رہوگی۔ کوئی تمہیں ڈانٹے گا نہیں، کوئی تمہیں بھوکا نہیں رکھے گا۔”

حبّہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے:

“بابا! ہمیں وہاں سے لے جائیں، ہم ڈرتی ہیں…”

اسی دوران صفیہ نے مجھے منانے کی کوشش کی۔

“بھائی، غصے میں فیصلہ مت کرو۔ میں نے جو بھی کیا، تمہاری ہی بیٹیوں کی بھلائی کے لیے کیا۔ اگر سختی نہ کرتی تو یہ بگڑ جاتیں…”

میں نے بات کاٹ دی:

“یہ سختی نہیں تھی، ظلم تھا صفیہ! تمہیں ماں بننا تھا، مگر تم سوتن بن گئیں۔ تمہیں پیسے کی پیاس نے اندھا کردیا

اگلی صبح میں بیٹیوں کو لے کر اپنے اُس پرانے گھر پہنچا جو دو سال سے بند تھا۔ ہر طرف دھول جمی ہوئی تھی، مگر دل کو اطمینان تھا کہ کم از کم یہ گھر ہمارا اپنا ہے۔ دو دن میں صفائی کرائی، نیا سامان لگوایا اور یوں ایک نئی زندگی کا آغاز ہوگیا۔

مگر صفیہ کب چپ بیٹھنے والی تھی۔ اُس نے پورے خاندان میں میرے خلاف زہر اُگلنا شروع کردیا۔ پھوپھیوں، خالاؤں تک سب کو کہنے لگی:

“نعمان تو ناشکرا نکلا، بہن کا شکریہ بھی ادا نہ کیا۔ میں نے اپنی جان لگا دی اور اس نے بچیوں کو بھی بگاڑ دیا!”

میں خاموش رہا لیکن جب اُس نے میری بیٹیوں کی پرورش پر انگلی اُٹھائی تو مجھے عدالت جانا پڑا۔ میں نے وکیل سے مشورہ کرکے سرپرستی (گارجین شپ) کے لیے کیس دائر کردیا تاکہ آئندہ کوئی ان بچیوں پر حق نہ جتا سکے۔

عدالت کی کارروائی آسان نہ تھی۔ ہر پیشی پر صفیہ اور اُس کا شوہر جھوٹی گواہیاں لاتے۔ وہ کہتے:

“بچیاں تو خوش تھیں، نعمان صرف پیسے بھیجتا تھا، کبھی خبر ہی نہ لیتا تھا…”

میں چپ چاپ بیٹیوں کا ہاتھ پکڑ کر کھڑا رہتا۔ ایک دن جج نے حبّہ سے سوال کیا:

“بیٹا، تم کس کے ساتھ رہنا چاہتی ہو؟”

حبّہ کا معصوم جواب تھا:

“میں بابا کے ساتھ… کیونکہ بابا کبھی نہیں ڈانٹتے، بابا ہمیشہ گلے لگاتے ہیں۔”

عدالت میں موجود سب لوگوں کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ جج نے فوراً فیصلہ سنادیا:

“یہ بچیاں اپنے والد کے ساتھ رہیں گی، کسی اور کو ان پر کوئی حق نہیں۔”

اس فیصلے کے بعد صفیہ ٹوٹ گئی۔ وہ گھر آکر رونے لگی اور مجھ سے معافی مانگنے لگی:

“بھائی، مجھ سے غلطی ہوگئی۔ میں تمہاری بیوی عظمیٰ سے شروع دن سے جلتی تھی۔ اُس کی خوشیوں نے مجھے اندھا کردیا تھا۔ پھر جب تم باہر چلے گئے تو میں نے پیسوں کے لالچ میں سب کچھ بھلا دیا۔”

میں نے کہا:

“صفیہ! بہن ہو کر تم نے میرا ہی نہیں، میری بچیوں کا بھی دل توڑا۔ جو بیٹیوں کو ماں بن کر گلے لگانے کا وعدہ کیا تھا، اُسے قیدخانے میں بدل دیا۔”

صفیہ زمین پر بیٹھ گئی اور روتی رہی۔ میں نے اُسے معاف تو کردیا مگر دل سے رشتہ ٹوٹ چکا تھا۔

اب میری پوری توجہ بیٹیوں پر تھی۔ میں نے بیرون ملک واپس جانے کا ارادہ چھوڑ دیا اور یہیں رہ کر کام کرنے لگا۔ دن رات محنت کی تاکہ بیٹیوں کو کسی چیز کی کمی نہ ہو۔ میں نے خود اُن کی پڑھائی اور تربیت پر نظر رکھنا شروع کی۔

وقت گزرتا گیا، بیٹیاں سنبھلتی گئیں۔ حبّہ اسکول میں نمایاں پوزیشن لانے لگی اور زنیرا ہر محفل کی جان بن گئی۔ اُن کی ہنسی واپس آچکی تھی، جو میرا سب سے بڑا انعام تھی۔

سالوں بعد جب کسی تقریب میں صفیہ سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو وہ کمزور اور نادم دکھائی دی۔ اُس نے آہستہ سے کہا:

“بھائی، اللہ نے مجھے اولاد نہ دی۔ شاید یہ میرے ظلم کی سزا تھی۔”

میں نے بس اتنا کہا:

“صفیہ، اللہ ظالم کو کبھی نہیں بخشتا۔ مگر انسان کو معاف کرنے کا حوصلہ بھی اُسی سے آتا ہے۔ میں نے تمہیں معاف کردیا… لیکن اپنی بیٹیوں کو کبھی تمہارے حوالے نہیں کروں گا۔”

کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی، بلکہ یہ سبق دیتی ہے:

اولاد امانت ہے، بوجھ

 نہیں۔ رشتے نبھانے کے لیے محبت چاہیے، دھوکا نہیں

اگلے دن میں نے حبّہ اور زنیرا کے ساتھ وقت گزارنا شروع کیا۔ ان کی معصوم ہنسی، چھوٹے چھوٹے سوالات، اور ان کی بے باک باتیں میرے دل کو سکون دیتی تھیں۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اب کبھی بھی ان کی پرورش میں کوئی کمی نہیں آنے دوں گا۔ صبح کے وقت میں ان کے لیے ناشتہ تیار کرتا، اسکول کے لیے کپڑے چنتا، اور ہر چھوٹی ضرورت کا خیال رکھتا۔

حبّہ اسکول میں نمایاں کرنے لگی اور زنیرا اپنے دوستانہ رویے سے سب کی توجہ حاصل کرتی۔ میں اکثر ان کے اسکول کے والدین کے اجلاس میں جاتا اور استادوں سے ملاقات کر کے ان کی پڑھائی کے بارے میں جانتا۔ ہر بار جب میں ان کی کامیابیوں کے بارے میں سنتا، تو دل فخر سے بھر جاتا۔

اسی دوران صفیہ نے دوبارہ کوششیں شروع کر دی تھیں۔ وہ ہمیں دیکھ کر بات چیت میں مداخلت کرنے کی کوشش کرتی، مگر میں نے اپنی حدود واضح کر دی تھیں۔ میں نے واضح طور پر کہا:

“بیٹیاں میری ذمہ داری ہیں، اور یہ گھر ہمارا ہے۔ تمہاری باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔”

وقت گزرتا گیا اور ہمارا چھوٹا سا خاندان خوشیوں سے بھر گیا۔ میں نے اپنی بیٹیوں کے لیے چھوٹا سا باغ لگوایا، جہاں وہ کھیل سکیں اور پھولوں کی خوشبو میں خوش رہیں۔ میں نے ان کے ساتھ کہانیاں سنانے کا رواج بنایا، رات کے وقت کہانی سنانے اور خواب سنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ چھوٹے چھوٹے لمحات میرے لیے دنیا کی سب سے بڑی خوشی بن گئے۔

اب میں خود کو مکمل والد محسوس کرنے لگا۔ میری بیٹیاں خوش تھیں، محفوظ تھیں، اور ان کے چہروں پر مسکراہٹیں تھیں۔ میں نے یہ عہد کیا کہ ان کی پرورش میں کبھی کسی بھی قسم کی کمی نہیں آن

ے دوں گا۔۔

۔

تبصرے

New Urdu Stories

ماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانیماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

فاطمہ اور عمران کی موٹر وے پر آخری ملاقات — ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

امتحان کی گزرگاہ: ایک مخلص انسان کی کہانی"