Beta ki ghalti aur Maa ki duaon ka asar – Ek Jazbati Kahani | Urdu stories
ماں کو گھر سے نکالا
احمد ایک نوجوان لڑکا تھا جس کا بچپن لاہور کے ایک عام محلے میں گزرا۔ وہ ایک درمیانے درجے کے گھرانے کا بیٹا تھا، جس کے والدین ہمیشہ اس کی تربیت اور تعلیم پر توجہ دیتے تھے۔ احمد کے اندر خود اعتمادی کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹا سا غرور بھی تھا۔ وہ ہمیشہ سمجھتا کہ دنیا میں سب کچھ محنت اور اپنی عقل سے ممکن ہے، اور والدین کی نصیحتیں اس کے لیے صرف رکاوٹ ہیں۔
اس کی ماں، زینت بی بی، ایک نیک دل، صابر اور محبت بھری خاتون تھیں۔ وہ ہمیشہ احمد کے لیے دعا کرتی، اس کے ہر خواب کو حقیقت بنانے کی کوشش کرتی، اور چاہتی تھی کہ احمد کامیاب اور خوش رہے۔ لیکن احمد ماں کی محبت کو سمجھنے کی حد تک حساس نہیں تھا۔ وہ اکثر ماں کی نصیحتوں کو جھٹلا دیتا اور ان پر کان نہیں دھرتا۔
ایک دن احمد کے دل میں ایک عجیب خیال آیا۔ اس نے سوچا کہ اگر ماں اس کی زندگی میں نہ ہو تو وہ زیادہ آزاد ہو کر اپنی زندگی کے فیصلے کر سکتا ہے۔ اس نے زینت بی بی سے کہا:
"ماں، تم بس میری زندگی میں بوجھ ہو۔ تم جاؤ، میں خود سب کچھ سنبھال لوں گا۔"
زینت بی بی کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ وہ دروازے پر کھڑی ہو کر روئیں اور بولیں:
"بیٹا، اللہ سب دیکھ رہا ہے۔ وہ کبھی کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتا۔"
احمد نے ان کی باتوں کو نظر انداز کیا اور کان بند کر لیے۔ وہ ماں کو گھر سے نکال بیٹھا۔ اس کے دل میں ایک عارضی سکون تھا، لیکن اندر ہی اندر ایک خالی پن بھی تھا، جو اسے مسلسل یاد دلاتا کہ محبت کی کمی کتنی تلخ ہوتی ہے۔
چند دن بعد احمد کی محنت رنگ لانے لگی۔ اچانک اسے شہر کی سب سے بڑی کمپنی میں نوکری مل گئی۔ لوگ احمد کی کامیابی کی تعریف کرنے لگے، اور شہر میں اس کا چرچا ہونے لگا۔ احمد ہر دن خود کو اپنی کامیابی پر فخر محسوس کرتا۔ وہ سوچتا:
"دیکھو، ماں کو نکالنے کے بعد بھی میری قسمت بدل گئی۔"
احمد کی زندگی میں تبدیلی آئی۔ وہ مہنگی گاڑی میں سفر کرنے لگا، شہر کے بہترین محلے میں رہنے لگا، اور دوستوں کے ساتھ بہترین ریسٹورنٹس میں وقت گزارتا۔ لیکن احمد کے دل کے اندر کہیں نہ کہیں خالی پن تھا، جو ماں کی محبت کی کمی کا احساس دلاتا رہتا۔
یہ کامیابی اسے وقتی خوشی دیتی، مگر دل کی وہ خالی جگہ، ماں کے بغیر زندگی کی حقیقت، اسے ہر رات بے چینی میں لے جاتی۔ احمد کو احساس ہوا کہ وہ چاہے کتنی بھی کامیاب ہو جائے، والدین کی محبت کے بغیر سکون حاصل نہیں ہوتا۔
ایک دن احمد ہال میں آرام کر رہا تھا کہ اچانک دروازہ کھلا۔ احمد کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ دروازے پر ایک سایہ کھڑا تھا، زینت بی بی، اس کی ماں۔ احمد کے قدم جم گئے۔ ماں نے آہستہ سے احمد کی طرف دیکھا اور کہا:
"بیٹا، میں واپس آ گئی ہوں۔ اللہ نے میرے صبر کا صلہ دیا اور تمہیں بھی سبق سکھایا۔"
احمد کی زبان اٹک گئی۔ اسے احساس ہوا کہ اس کی کامیابی صرف اس کی محنت کی نہیں تھی، بلکہ ماں کی دعا اور قربانی بھی اس کے ساتھ تھی۔ احمد کے دل میں پچھتاوا اور شرمندگی کے احساس نے جنم لیا۔
اس دن احمد نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا سبق سیکھا: والدین کی محبت اور دعائیں انسان کی تقدیر بدل دیتی ہیں۔ وہ ماں کے قدموں میں جھکا اور آنکھیں نم کر کے کہنے لگا:
"ماں، مجھے معاف کر دو۔ میں نے تمہاری قدر نہیں کی۔"
زینت بی بی نے اسے گلے سے لگا لیا اور دعا کی:
"بیٹا، اللہ تمہیں ہر مشکل سے بچائے اور تمہیں کامیابی دے۔
چند سال بعد احمد کی زندگی میں ایک نیا رنگ آیا۔ شہر کی ایک تقریب میں احمد کی ملاقات سارہ سے ہوئی، جو ایک امیر اور پڑھے لکھے خاندان کی لڑکی تھی۔ سارہ کی شخصیت میں وقار اور محبت دونوں شامل تھے، اور اس کی آنکھوں میں ایک الگ چمک تھی جو احمد کو پہلی نظر میں ہی کھینچ گئی۔
احمد کے دل میں سارہ کے لیے جذبات جنم لینے لگے۔ ہر ملاقات میں وہ اسے دیکھ کر دل کی دھڑکن محسوس کرتا۔ لیکن سارہ ایک امیر خاندان کی لڑکی تھی، اور اس کے والدین ہمیشہ اپنی بیٹی کی شادی میں محتاط رہتے تھے۔ احمد کی سوچ یہ تھی کہ کیا وہ کبھی سارہ کے والدین کو راضی کر پائے گا؟
احمد نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی محبت کو ثابت کرے گا۔ اس نے اپنی ایمانداری، محنت اور نیک نیتی دکھاتے ہوئے سارہ کے دل میں اپنی جگہ بنائی۔ سارہ بھی احمد کی سادگی اور دل سے کی جانے والی محنت سے متاثر ہوئی۔ دونوں کے درمیان محبت کی ایک خوبصورت داستان جنم لینے لگی۔
لیکن محبت کا سفر آسان نہیں تھا۔ سارہ کے والدین احمد کے متوسط خاندان اور عام زندگی کو دیکھ کر اس شادی کے لیے راضی نہیں تھے۔ انہوں نے احمد کو کئی بار سمجھایا:
"بیٹا، تم اچھی زندگی چاہتے ہو تو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو۔ سارہ کا مستقبل اہم ہے۔"
احمد نے صبر سے جواب دیا:
"میں اپنی محبت اور محنت سے ثابت کر دوں گا کہ میں سارہ کے لیے بہترین ہوں۔"
اس دوران احمد نے نہ صرف اپنی کاروباری اور پیشہ وارانہ زندگی میں کامیابی حاصل کی بلکہ سماجی خدمات، نیک اعمال اور دوسروں کی مدد کے ذریعے اپنی شخصیت کو مضبوط کیا۔ وہ سارہ کے والدین کے سامنے اپنی نیک نیتی، ایمانداری اور محبت کے ذریعے ان کا اعتماد جیتنے لگا۔
چند ماہ کی محنت، صبر اور دعاؤں کے بعد، سارہ کے والدین احمد کی سچائی اور محبت دیکھ کر راضی ہو گئے۔ آخر کار، احمد اور سارہ کی شادی ہو گئی۔ شادی کا دن ایک خوشیوں بھرا دن تھا، جہاں دونوں خاندانوں نے محبت، خوشی اور دعاؤں کے ساتھ احمد اور سارہ کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا۔
احمد اور سارہ نے ایک دوسرے کے ساتھ محبت، احترام اور صبر کا وعدہ کیا۔ احمد کی ماں، زینت بی بی، اس خوشی میں شامل ہوئی اور اپنی دعاؤں سے احمد اور سارہ کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دیا۔
احمد کی زندگی کا سب سے بڑا سبق یہ تھا کہ انسان اپنی زندگی میں کتنی بھی کامیابی حاصل کرے، والدین کی دعا اور اللہ کی رضا کے بغیر وہ کامیابی مکمل نہیں ہوتی۔ احمد کی زندگی اس بات کا ثبوت تھی کہ صبر، محبت اور دعا کے ذریعے ہی انسان کی تقدیر بدلتی ہے۔
احمد اب ماں کی محبت، اپنی زندگی کی غلطیوں اور سارہ کے ساتھ تعلقات کے سبھی پہلوؤں کو سمجھ چکا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کے ہر لمحے میں شکر، دعا اور محبت کو اہمیت دینا شروع کر دیا۔
شادی کے بعد احمد اور سارہ نے اپنے نئے گھر میں قدم رکھا۔ ہر چیز نئ اور سنوارے ہوئے ماحول میں تھی، مگر زندگی کے نئے سبق بھی ان کے انتظار میں تھے۔ شادی کا آغاز خوشیوں بھرا تھا، لیکن احمد اور سارہ جلدی جان گئے کہ محبت کے باوجود زندگی آسان نہیں ہوتی۔
سارہ کی والدین کی توقعات اور احمد کی ذمہ داریاں ایک ساتھ جوجھ رہی تھیں۔ احمد نے اپنی ماں زینت بی بی کی دعا اور نصیحتیں یاد رکھیں، لیکن اب وہ خود خاندان اور نوکری کے دباؤ میں پھنس گیا۔
ہر صبح احمد صبح جلدی اٹھتا، نماز پڑھتا، اور دعا کرتا کہ اللہ اس کے بچوں اور بیوی کو صحت اور خوشی دے۔ سارہ بھی اپنے گھر کی ذمہ داریوں کے ساتھ بچوں کی دیکھ بھال کرتی، مگر وہ احمد کے ساتھ وقت گزارنے کی کوشش کرتی۔
پہلا بچہ پیدا ہوا، ایک بیٹی، جس کا نام انہوں نے "نور" رکھا۔ نور کی پیدائش نے گھر میں خوشیوں کی لہر دوڑا دی، لیکن احمد پر ذمہ داریوں کا بوجھ بھی بڑھ گیا۔ اب وہ نہ صرف اپنی نوکری اور سارہ کی خوشی کے لیے سوچتا، بلکہ بچوں کے مستقبل کے لیے بھی فکر مند رہتا۔
احمد کی زندگی میں خوشیاں بھی تھیں اور تکلیفیں بھی۔ بعض راتیں وہ دیر تک جاگتا، دفتر کے کام اور گھر کے مسائل کے بارے میں سوچتا۔ اس کی آنکھوں میں تھکن، لیکن دل میں اپنی فیملی کے لیے محبت کی روشنی ہمیشہ برقرار تھی۔
محبت اور مشکلات کا امتزاج
سارہ اور احمد کے درمیان محبت بڑھتی گئی، مگر بعض وقت چھوٹے چھوٹے جھگڑے بھی ہوتے۔ سارہ چاہتی کہ احمد زیادہ وقت گھر پر گزارے، جبکہ احمد کی مصروفیات اسے مجبور کرتی تھیں کہ وہ دیر تک دفتر میں رہے۔
ایک دن احمد نے محسوس کیا کہ سارہ اداس ہے۔ اس نے کہا:
"بیوی، تم اداس کیوں ہو؟"
سارہ نے آنکھوں میں آنسو لیے کہا:
"بیٹا، میں تمہارے ساتھ وقت گزارنا چاہتی ہوں، مگر تم ہمیشہ کام میں مصروف رہتے ہو۔"
احمد نے اسے گلے لگایا اور کہا:
"بیوی، میں بھی تمہارے ساتھ وقت گزارنا چاہتا ہوں۔ یہ سب ہماری بہتر زندگی کے لیے ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب خوش رہیں۔"
یہ لمحہ احمد اور سارہ کی محبت کو اور مضبوط کر گیا۔ وہ جان گئے کہ محبت صرف باتوں میں نہیں، بلکہ قربانی، صبر اور سمجھ بوجھ میں بھی ہوتی ہے۔
دکھ اور مشکلات
وقت گزرتا گیا، مگر زندگی میں مشکلات ختم نہیں ہوئیں۔ احمد کے والدین کی عمر بڑھنے لگی، سارہ کی صحت کبھی کبھار کمزور ہو جاتی، اور بچے بھی چھوٹے تھے۔ احمد کو ہر وقت اپنے خاندان کی فکر رہتی۔
ایک دن احمد کی نوکری میں ایک مشکل آئی۔ کمپنی نے اسے مشکل منصوبے پر لگا دیا، اور اس کے کام کے دباؤ نے اسے راتوں کو بے چین کر دیا۔ وہ سارا دن دفتر میں اور شام کو گھر میں بچوں کی دیکھ بھال، سارہ کی مدد، اور گھر کی ذمہ داریوں میں مصروف رہتا۔
احمد کی زندگی میں یہ وقت آزمائش کا تھا۔ وہ اکثر دعا کرتا:
"اللہ! مجھے طاقت دے، میرے گھر والوں کے لیے صحیح فیصلے کرنے کی ہمت دے، اور میری زندگی میں سکون عطا فرما۔"
سارہ بھی ہر وقت احمد کا ساتھ دیتی، اسے تسلی دیتی، اور بچوں کی محبت کے ذریعے احمد کے دل کو سکون پہنچاتی۔
نئی خوشیاں اور امید
کچھ سال بعد، احمد اور سارہ کے دو بچے ہوئے، ایک بیٹا جس کا نام "فہد" رکھا گیا۔ نور اور فہد کی معصومیت اور پیار نے گھر میں روشنی بھر دی۔ احمد نے محسوس کیا کہ یہ سب خوشیاں اللہ کی نعمت اور والدین کی دعاؤں کا نتیجہ ہیں۔
احمد نے اپنے خاندان کے لیے نئے خواب دیکھنے شروع کیے: بچوں کی اچھی تعلیم، بیوی کی خوشی، اور ماں زینت بی بی کی راحت۔ ہر رات وہ اپنے بچوں کو کہانیاں سناتا، سارہ کے ساتھ دعا کرتا اور دل میں شکر ادا کرتا۔
زندگی کے سبق
احمد نے اپنی زندگی کے ہر مرحلے سے سبق سیکھا:
والدین کی محبت اور دعا کے بغیر کامیابی مکمل نہیں ہوتی۔
محبت صرف باتوں یا جذبات میں نہیں، بلکہ قربانی، صبر اور سمجھ بوجھ میں ہوتی ہے۔
زندگی کے دکھ، مشکلات اور آزمائشیں اللہ کی جانب سے سبق دینے کے لیے ہیں۔
احمد نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی کو صرف دولت یا شہرت کے لیے نہیں گزارے گا، بلکہ محبت، اخلاق، اور ایمان کے ساتھ اپنی فیملی اور معاشرے کے لیے زندگی گزارے گا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
"Shukriya! Apka comment hamaray liye qeemati hai."