Cousin Marriage Story | Sachi Kahani | Urdu Kahaniyan
"محبت اور رشتے کا سب سے بڑا امتحان"
شاہ حویلی اس رات چراغاں سے جگمگا رہی تھی۔ ہر طرف روشنی تھی، گانے بج رہے تھے، لوگ خوشی میں ہنس رہے تھے۔ آج آغا جان کی پوتی وانیہ کی شادی تھی۔ حویلی کے ہر کونے میں رونق بکھری ہوئی تھی، مگر دلہن کے کمرے میں بیٹھی وانیہ کے دل میں عجیب سا اضطراب تھا۔
وہ آئینے میں خود کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی:
"کیا یہ میرا فیصلہ تھا؟ کیا واقعی یہ میرا نصیب ہے؟"
کچھ ہی دیر بعد مولوی صاحب کو نکاح کے کلمات پڑھنے کے لیے بلایا گیا۔ سب لوگ پرجوش تھے کہ حویلی میں خوشی کا ایک نیا باب شروع ہو رہا ہے۔ لیکن عین وقت پر، اچانک ایک خبر بم کی طرح پھٹی۔ نکاح کے لیے آنے والا دولہا، دراصل پہلے ہی شادی شدہ تھا، بلکہ اس کے دو بچے بھی تھے!
وانیہ پر یہ خبر قیامت بن کر گری۔ اس کا دل جیسے رک گیا۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ لوگوں میں سرگوشیاں ہونے لگیں۔ "یہ کیا ہوگیا؟"، "کیا خاندان نے چھان بین نہیں کی تھی؟" ہر طرف سوال اٹھنے لگے۔
وانیہ نے لرزتی آواز میں اپنے باپ کی طرف دیکھا، مگر وہ نظریں چرا گئے۔ بھائی خاموش تھے، اور دادا جان یعنی آغا جان کی آنکھوں میں آگ تھی۔ پورے مجمعے میں ایک ہنگامہ سا مچ گیا تھا۔
اسی وقت آغا جان کی گرجتی ہوئی آواز ابھری:
"سب لوگ اپنی اپنی جگہ بیٹھ جائیں، نکاح رکے گا نہیں!"
وانیہ کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ وہ چیخنا چاہتی تھی، رو دینا چاہتی تھی، مگر آواز گلے میں اٹک گئی۔ اس کے آنسو ضبط کی دیوار توڑنے لگے تھے۔
آغا جان نے اپنا عصا زمین پر مارا اور بولا:
"زین شاہ کو بلاؤ!"
مجمع میں سرگوشیاں بڑھ گئیں۔ سب کی نظریں اس طرف اٹھ گئیں جہاں ایک نوجوان دبے قدموں بڑھ رہا تھا۔ وہ تھا زین شاہ۔
وانیہ کا دل جیسے سینے سے باہر آ گیا۔ "نہیں، یہ نہیں ہوسکتا! زین ابھی چھوٹا ہے، ابھی زندگی کے آغاز پر ہے، یہ ظلم ہے!" وہ دل ہی دل میں لرزتے ہوئے سوچ رہی تھی۔
زین نے آگے بڑھ کر آغا جان کے سامنے سر جھکایا۔ اس کی آنکھوں میں ہچکچاہٹ تو تھی، لیکن دادا کے حکم کے آگے خاموشی کے سوا کچھ نہ تھا۔
وانیہ کے آنسو اس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔ اس نے دل میں کہا:
"میری زندگی تو پہلے ہی تباہ ہوگئی ہے، مگر زین کی زندگی کو میں اس اندھیرے میں نہیں دھکیلنے دوں گی!"
لیکن قسمت کے فیصلے کچھ اور ہی لکھ چکے تھے…
وانیہ کے دل کی دھڑکن جیسے قابو سے باہر تھی۔ اس نے اپنے چہرے پر آنسو صاف کرتے ہوئے ہمت جمع کی اور دھیرے سے بولی:
"دادا جان! یہ ظلم ہے… زین ابھی بچہ ہے، اس کی زندگی برباد نہ کریں۔"
مجمع پر ایک لمحے کے لیے خاموشی چھا گئی۔ سب کی نظریں آغا جان پر جم گئیں۔ مگر آغا جان کے چہرے پر سختی کی وہی لکیریں تھیں، جو برسوں سے خاندان کی تقدیر بدلتی آئی تھیں۔
"وانیہ! ہماری عزت سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ شادی آج ہوگی اور تمہیں زین شاہ کے ساتھ قبول کرنی ہوگی۔"
وانیہ کے دل میں چیخ اٹھی، مگر زبان ساتھ نہ دے سکی۔ وہ اپنی ماں کی طرف دیکھنے لگی۔ ماں نے روتی آنکھوں سے بس سر جھکا دیا۔ باپ کی خاموشی نے اس کے حوصلے توڑ دیے۔ اور یوں لگنے لگا جیسے پوری حویلی اس کے خلاف کھڑی ہو۔
زین شاہ خود بھی کانپ رہا تھا۔ وہ ابھی تک سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اچانک اس پر یہ بوجھ کیوں ڈال دیا گیا ہے۔ اس کے دل میں ہمدردی تھی، خوف تھا، اور ایک عجیب سا خالی پن۔ وہ وانیہ کی طرف دیکھتا تو اس کی آنکھوں میں بے بسی کا طوفان دیکھ کر دل کٹ سا جاتا۔
مولوی صاحب نے دوبارہ نکاح کے کلمات دہرانے شروع کیے۔ وانیہ کے لب کانپنے لگے۔ "کیا میں یہ کہہ دوں کہ ہاں؟ کیا واقعی میری تقدیر اتنی بے رحم ہے؟" اس نے خود کو سوالوں میں گھرا ہوا پایا۔
زین نے آہستہ آواز میں کہا:
"وانیہ، اگر تم چاہو تو میں انکار کر سکتا ہوں… مگر دادا جان کے سامنے کھڑا ہونا آسان نہیں ہے۔"
وانیہ نے بے بسی سے اس کی طرف دیکھا۔ اس لمحے اس کے دل نے فیصلہ کیا۔
"میری زندگی تو پہلے ہی ختم ہو چکی ہے… لیکن زین کی عزت، اس کے خاندان کی عزت، یہ سب مجھ سے جڑے ہیں۔ اگر میں نے انکار کیا تو یہ لڑکا ہمیشہ کے لیے شرمندہ ہو جائے گا۔"
وانیہ نے گہرا سانس لیا اور دل پر پتھر رکھ کر "قبول ہے" کہہ دیا۔
نکاح کے کلمات ختم ہوتے ہی حویلی کے صحن میں شور اٹھا۔ لوگ تالیاں بجانے لگے، مبارکباد دینے لگے، لیکن وانیہ کو لگ رہا تھا جیسے وہ قید میں دھکیل دی گئی ہو۔ زین کے دل میں بھی عجیب سا درد تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ شادی محبت سے زیادہ مجبوری تھی۔
رات کے اندھیرے میں جب سب لوگ خوشی منا رہے تھے، وانیہ اپنے کمرے میں بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔ زین دروازے پر آیا، بہت دیر تک خاموش کھڑا رہا، پھر آہستہ سے بولا:
"میں وعدہ کرتا ہوں، چاہے حالات جیسے بھی ہوں، میں تمہیں رونے نہیں دوں گا۔ یہ میرا فیصلہ نہیں تھا، مگر اب تم میری ذمہ داری ہو۔"
وانیہ نے آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ اس کے دل میں ایک لمحے کو سکون سا اترا۔ شاید قسمت نے جو کھیل کھیلا تھا، اس میں رو
شنی کی ایک کرن باقی تھی۔
وانیہ کو لگتا تھا کہ یہ رشتہ صرف ایک مجبوری ہے، ایک قید ہے جس میں وہ خود کو بے بس پاتی تھی۔ لیکن زین کا رویہ اس کے گمان کے برعکس نکلا۔ وہ سخت اور رعب دار لڑکا نہیں بلکہ نرم دل اور حساس سا نوجوان تھا۔
شروع کے دنوں میں وانیہ کسی سے بات کرنے سے کتراتی رہی۔ کمرے میں خاموش بیٹھی رہتی، بس کتابیں دیکھتی یا کھڑکی سے باہر آسمان کو تکتے تکتے آنسو بہا دیتی۔ مگر زین نے کبھی اسے مجبور نہ کیا۔ وہ ہمیشہ اس کے پاس بیٹھ کر خاموشی سے اس کی کتابیں ترتیب دیتا، یا رات کو چپکے سے ایک گلاس پانی اس کے قریب رکھ دیتا۔
ایک دن وانیہ نے حیرانی سے پوچھا:
"تم مجھ سے کچھ کہتے کیوں نہیں؟"
زین مسکرا کر بولا:
"کیونکہ میں جانتا ہوں، تمہیں وقت چاہیے۔ میں نے یہ شادی اپنی خوشی سے نہیں کی، اور تم نے بھی نہیں۔ لیکن اب جب کہ یہ رشتہ ہے، میں چاہتا ہوں ہم اسے خوبصورت بنا سکیں۔"
وانیہ کا دل نرم پڑنے لگا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ لڑکا جسے وہ بچہ سمجھتی تھی، اتنا سمجھدار نکلے گا۔
کچھ دن بعد زین نے اسے باغ میں چلنے کی دعوت دی۔ سردیوں کی ہلکی دھوپ، درختوں سے گرتے پتے، اور نرم ہوا… وانیہ کے چہرے پر پہلی بار ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔ زین نے یہ لمحہ اپنے دل میں قید کر لیا۔
"یہ مسکراہٹ، یہ میری سب سے بڑی جیت ہے۔" اس نے دل ہی دل میں کہا۔
رات کو جب وانیہ نے قرآن کھولا، زین آہستہ سے پاس آ بیٹھا۔ وہ بولا:
"تم پڑھتی رہو، مجھے تمہاری آواز سن کر سکون ملتا ہے۔"
وانیہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ زین کی آنکھوں میں خلوص تھا، کوئی دکھاوا نہیں۔ اس لمحے اسے احساس ہوا کہ یہ رشتہ شاید بوجھ نہیں بلکہ ایک سہارا بن سکتا ہے۔
ایک اور دن، حویلی میں محفل تھی۔ لوگ ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ وانیہ تھکی تھکی سی کونے میں بیٹھی تھی۔ زین نے سب کے سامنے اس کے لیے کھانے کی پلیٹ سجائی اور نرمی سے کہا:
"تم کھا لو، سارا دن کچھ نہیں کھایا۔"
یہ چھوٹی چھوٹی توجہ، یہ خیال رکھنے کے لمحے، وانیہ کے دل کو چھو رہے تھے۔ اس کے زخم بھرنے لگے تھے۔
اس نے ایک شام ڈرتے ڈرتے کہا:
"زین، میں تمہارا شکریہ ادا نہیں کر سکتی۔ تم نے کبھی مجھے وہ طعنے نہیں دیے جو لوگ اکثر ایسی شادیوں کے بعد دیتے ہیں۔"
زین نے نرمی سے جواب دیا:
"شکریہ مت کہو، بس یہ وعدہ کرو کہ ایک دن تم دل سے مجھے اپنا لو گی۔"
وانیہ کی پلکیں بھیگ گئیں۔ اس کے دل نے پہلی بار سرگوشی کی:
"شاید یہ میرا حقیقی سہارا ہے۔ شاید یہ محبت ہے جس کی
تلاش میں میں برسوں بھٹکتی رہی۔"
وقت گزرتا گیا۔ وانیہ کے دل کے گرد جو دیواریں تھیں، وہ آہستہ آہستہ ٹوٹتی جا رہی تھیں۔ زین کی نرمی، خلوص اور سچائی نے اس کے زخموں پر مرہم رکھا تھا۔ اب وانیہ جب ہنستی تھی تو زین کی آنکھوں میں چمک آ جاتی، جیسے ساری دنیا کی خوشی اسے مل گئی ہو۔
ایک دن شام کے وقت حویلی کی چھت پر بیٹھے دونوں آسمان پر بادلوں کو دیکھ رہے تھے۔ نرم ہوا چل رہی تھی اور فضا میں سکون تھا۔ وانیہ نے ہمت کر کے کہا:
"زین، اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا… اگر یہ نکاح نہ ہوتا، تو کیا تم پھر بھی مجھے چاہتے؟"
زین نے مسکرا کر اس کی آنکھوں میں جھانکا اور کہا:
"محبت تو قسمت سے ملتی ہے، اور تم میری سب سے بڑی قسمت ہو۔ چاہے نکاح پہلے ہوتا یا بعد میں، میں تمہیں ضرور چاہتا۔"
یہ سن کر وانیہ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اس نے پہلی بار زین کے کندھے پر سر رکھا۔ زین کے دل میں جیسے بہار آ گئی۔ وہ لمحہ دونوں کی زندگی کا پہلا مکمل لمحہ تھا جس میں سکون اور محبت اکٹھے تھے۔
کچھ دن بعد خاندان نے دونوں کی باضابطہ رخصتی کا اہتمام کیا۔ حویلی میں روشنیوں کی بہار تھی، ہر کمرہ جگمگا رہا تھا۔ وانیہ دلہن بنی بیٹھی تھی، سرخ جوڑے میں وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔ زین نے جب پہلی بار اسے دیکھ کر مسکراہٹ دی تو وانیہ کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔
رات کو جب دونوں اکیلے ہوئے تو وانیہ کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ زین نے آہستہ سے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا:
"وانیہ، یہ صرف ایک شادی نہیں، یہ ہماری نئی زندگی کی شروعات ہے۔"
وانیہ نے دھڑکتے دل کے ساتھ سر اٹھایا۔
"زین… میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ میرا مقدر یوں بدل جائے گا۔ تم نے مجھے سہارا دیا، عزت دی، اور آج میں دل سے مانتی ہوں کہ میں تمہیں اپنی جان سے زیادہ چاہتی ہوں۔"
زین نے آہستہ سے اس کے آنسو صاف کیے اور بولا:
"اب یہ آنسو صرف خوشی کے ہونے چاہییں۔ وعدہ ہے میں تمہیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔"
اس رات دونوں نے دل سے ایک دوسرے کو اپنا لیا۔ محبت کے رنگ اتنے گہرے تھے کہ لگتا تھا جیسے ان کے درمیان کوئی فاصلہ کبھی تھا ہی نہیں۔
وقت گزرتا گیا۔ وانیہ اب مسکراہٹوں سے گھر کو جگمگانے لگی۔ زین کے ساتھ اس کا رشتہ مضبوط ہوتا گیا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے ہمسفر ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے دوست بھی بن گئے۔
کچھ مہینوں بعد، حویلی میں ایک ننھے مہمان کی آمد نے سب کو خوشی سے بھر دیا۔ زین نے جب بچے کو گود میں لیا تو وانیہ کی طرف دیکھ کر کہا:
"یہ ہماری محبت کی پہچان ہے۔"
وانیہ نے ہنستے ہوئے کہا:
"ہاں زین، یہ وہ محبت ہے جو آزمائشوں س
ے گزری، مگر آخرکار جیت گئی۔"

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
"Shukriya! Apka comment hamaray liye qeemati hai."