Bola Aur Maham ki Story| Emotional Moral Story in Urdu Hindi | Best Islamic Kahani


 ایک دل کو چھو لینے والی سچی کہانی جو آنکھوں کو نم کر دے


“میں اس آوارہ لڑکی کو کبھی اپنی بہو نہیں بناؤں گی!”
  1. یہ وہ الفاظ تھے جو میرے کانوں میں گونجتے ہوئے میری روح تک کو ہلا گئے۔
ممانی کے چہرے پر نفرت صاف نظر آرہی تھی، اور اگلے ہی لمحے ایک زور دار تھپڑ میرے گال پر پڑا۔
میرے قدم جیسے زمین میں دھنس گئے۔
میں نے نظریں اٹھا کر اپنے شوہر کی طرف دیکھا — وہ شخص جس سے صرف ایک ماہ پہلے میرا نکاح ہوا تھا۔
لیکن وہ… خاموش کھڑا تھا۔
نہ کوئی احتجاج، نہ کوئی دفاع، بس ایک سرد خاموشی۔
پھر وہ بولا —
"میں بھی ایسی جاہل لڑکی کو بیوی نہیں مانتا۔
امریکہ جانے سے پہلے میں اسے طلاق دے دوں گا۔"
میرے اندر کچھ ٹوٹ گیا۔
میں نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی، مگر الفاظ جیسے میرے سینے میں کسی خنجر کی طرح اتر گئے۔
سب کی نظریں مجھ پر تھیں، مگر کوئی بھی میرے آنسو نہیں دیکھ سکا۔
میں تو صرف ایک گاؤں کی لڑکی تھی…
لیکن کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ مجھے امریکہ کی ایک بڑی یونیورسٹی میں اسکالرشپ ملی تھی۔
اُس رات میں نے فیصلہ کر لیا —
میں رونا بند کر دوں گی۔
میں کسی کو اپنے کمزور ہونے کا موقع نہیں دوں گی۔
ماں کا زیور بیچا، اور خاموشی سے اپنا ٹکٹ خریدا۔
اماں کو یہی بتایا کہ میں شہر کے ہاسٹل میں پڑھنے جا رہی ہوں۔
انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کی بیٹی اب ایک نئے جہان میں قدم رکھنے والی ہے۔
جب ہوائی جہاز کے پہیے زمین سے اوپر اٹھے، تو میری آنکھوں سے ایک آنسو بہہ نکلا —
نہ جانے درد کا تھا یا عزم کا۔
میری زندگی کا سب سے بڑا سفر شروع ہو چکا تھا۔
امریکہ کی زمین پر قدم رکھتے ہی مجھے لگا جیسے میں خواب میں ہوں۔
وہاں کے لوگ، عمارتیں، روشنیاں… سب کچھ نیا اور اجنبی۔
لیکن میرے دل کے اندر اب بھی وہ تھپڑ گونج رہا تھا —
وہی تھپڑ جس نے مجھے رلایا بھی… اور بنا بھی دیا۔
پہلا سال میرے لیے بہت سخت تھا۔
اکیلے کمرے میں، انجان زبان، اجنبی چہرے، اور اماں کی یاد۔
میں راتوں کو اکثر چپکے سے روتی۔
لیکن ہر بار دل کہتا —
“رونا چھوڑ دو، تمہیں ابھی بہت آگے جانا ہے۔”
میں نے پڑھائی میں خود کو جھونک دیا۔
دن رات محنت کی، اور آہستہ آہستہ ہر خوف ختم ہونے لگا۔
میں نے خود سے وعدہ کیا —
اب میری پہچان کسی رشتے سے نہیں ہوگی، میری پہچان میری کامیابی ہوگی۔
میں نے اس لمحے خود سے وعدہ کیا تھا کہ میں اب پیچھے مڑ کر کبھی نہیں دیکھوں گی میں نے بلال کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں دیکھا بس ایک خالی نظر تھی جیسے کسی نے اس سے زندگی چھین لی ہو وہ میرے سامنے بیٹھا تھا مگر اس کی آنکھوں میں ندامت اور حیرت کا سمندر تھا اس نے جیسے ہی مجھے پہچانا اس کے ہونٹ کانپنے لگے وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر الفاظ جیسے اس کے گلے میں پھنس گئے میں نے خود کو مضبوط کیا اور مسکرا کر کہا مسٹر بلال آپ کا ریزیومے impressive ہے مگر یہاں قابلیت سے زیادہ کردار دیکھا جاتا ہے وہ میرے الفاظ سن کر نیچے دیکھنے لگا میں نے دل ہی دل میں رب کا شکر ادا کیا کہ اس نے میری عزت کو بلال کے غرور کے نیچے دفن نہیں ہونے دیا بلکہ مجھے اس کے اوپر کھڑا کر دیا جب انٹرویو ختم ہوا تو وہ دھیرے سے بولا ماہم میں جانتا ہوں تم مجھ سے نفرت کرتی ہو مگر میں اپنی ماں کے کہنے پر اندھا بن گیا تھا میری ماں یعنی چچی کو تمہارا غصہ آج بھی ہے مگر میں روز اپنے آپ کو کوستا ہوں کہ کاش میں تمہارے ساتھ انصاف کرتا میں نے خاموشی سے کہا بلال اب کچھ کہنا بےکار ہے وقت گزر چکا ہے میں نے جو کھویا وہ میری قسمت میں تھا اور جو پایا وہ میری محنت کا نتیجہ ہے تم اپنی راہ لو اور مجھے میری راہ پر رہنے دو میں نے دل میں کوئی بدلہ نہیں رکھا بس وہ سکون رکھا ہے جو رب دیتا ہے جب انسان صبر کرتا ہے وہ نظریں جھکا کر باہر چلا گیا مگر جاتے ہوئے میرے قدموں کے پاس ایک آنسو گرا جس نے مجھے ماضی میں واپس کھینچ لیا بچپن سے لے کر کالج تک کے وہ لمحے جب میں خوابوں میں گم ایک عام سی لڑکی تھی جب اماں کی محبت میری دنیا تھی اور ابا کی دعائیں میرا سرمایہ وہ لمحے یاد آ گئے جب میں پہلی بار بلال کے لیے دل میں نرمی محسوس کی تھی وہ مجھے بچپن سے تحفظ دیتا آیا تھا مگر وقت نے جیسے ہمیں اجنبی بنا دیا تھا میں نے خود کو سمجھایا کہ زندگی ہمیشہ ہمارے مطابق نہیں چلتی مگر ہمیں اس کے ساتھ چلنا سیکھنا پڑتا ہے میں نے اگلے دن کمپنی کے میٹنگ روم میں بیٹھ کر ایک نئے پروجیکٹ پر سائن کیا اور دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ اب میں اپنے ملک واپس جا کر اپنی کامیابی کو دوسروں کے لیے روشنی بناؤں گی میں چاہتی تھی کہ میرے جیسے غریب گھروں کی لڑکیاں بھی خواب دیکھ سکیں پڑھ سکیں اور اپنی پہچان بنا سکیں کیونکہ جو دکھ میں نے جھیلے تھے وہ کسی بیٹی کو نہ جھیلنے پڑیں اسی لمحے میرے فون پر اماں کی آواز گونجی بیٹی اب کب آ رہی ہو ابا روز پوچھتے ہیں میری آنکھوں میں آنسو آ گئے میں نے جواب دیا اماں اب کی بار میں ہاتھ خالی نہیں آ رہی دل بھرا ہوا لے کر آ رہی ہوں اپنی کامیابی کے ساتھ اپنی محنت کے ساتھ اور اپنی دعاؤں کے ساتھ کیونکہ بیٹی جب لوٹتی ہے تو صرف خود نہیں آتی وہ اپنے خواب بھی ساتھ لے کر آتی ہے
رات کا وقت تھا۔ پورے گھر میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ بلال چھت پر بیٹھا آسمان کو دیکھ رہا تھا۔ چاند کی روشنی اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی، مگر آنکھوں کے اندر اندھیرا سا پھیلا ہوا تھا۔ دل جیسے کسی انجانے درد سے بھرا ہوا تھا۔ چچی کا چہرہ بار بار ذہن میں آ رہا تھا۔ ان کی باتیں، ان کی نرمی، ان کا خیال رکھنا... سب کچھ ایک انجانی قربت میں بدل گیا تھا۔
بلال نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ کسی کے لیے اس طرح سے محسوس کرے گا۔ مگر چچی کی خاموش مسکراہٹ میں کچھ ایسا تھا جو دل کے اندر کہیں جا کر چبھ گیا۔ وہ اپنے احساسات سے لڑ رہا تھا، مگر دل ماننے کو تیار نہ تھا۔
اچانک نیچے سے برتن گرنے کی آواز آئی۔ بلال چونک کر نیچے بھاگا۔ چچی کچن میں کھڑی تھیں، ہاتھ سے برتن گرا تھا، انگلی کٹ گئی تھی، خون بہہ رہا تھا۔ بلال نے جھٹ سے ان کا ہاتھ پکڑا، ان کی آنکھوں میں خوف اور نرمی کا امتزاج تھا۔
بلال کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ اس نے چچی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا، کپڑا باندھا، مگر نظر ان کے چہرے سے ہٹ نہ سکی۔ وہ لمحہ جیسے وقت کو روک گیا تھا۔ دونوں خاموش، مگر دل بول رہے تھے۔
چچی نے نظریں جھکا لیں، مگر ایک آنسو ان کی پلکوں سے نیچے لڑھک گیا۔ بلال نے دیکھا تو دل اندر سے لرز گیا۔
"آپ کیوں روتی ہیں؟" اس نے آہستہ سے پوچھا۔
چچی نے ہلکی سی مسکراہٹ دی، "کبھی کبھی دل کے اندر کچھ ٹوٹ جاتا ہے، بلال… جو آواز نہیں کرتا، مگر سنا سب کچھ جا سکتا ہے۔"
یہ جملہ بلال کے دل پر چاقو کی طرح لگا۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا، مگر زبان بند ہو گئی۔ وہ بس اتنا کہہ پایا،
"کاش آپ جانتیں کہ میرا دل بھی آج کچھ ایسا ہی ٹوٹا ہے۔"
فضا میں خاموشی پھیل گئی۔ بارش ہونے لگی۔ بلال کی آنکھوں میں وہی نمی تھی جو چچی کی آنکھوں میں تھی۔
یہ وہ لمحہ تھا جب دونوں کے دلوں کے اندر ایک ہی درد، ایک ہی احساس، اور ایک ہی خوف تھا…
محبت کا خوف، جدائی کا خوف، اور زمانے کے طعنوں کا خوف۔
رات کی بارش رک چکی تھی، مگر بلال کے دل کی بارش ابھی جاری تھی۔
کمرے کے کونے میں بیٹھا وہ مسلسل چچی کے کہے ہوئے جملے دہرا رہا تھا —
“دل کے اندر کچھ ٹوٹ جاتا ہے…”
ہر لفظ جیسے اس کے اندر کسی دیوار سے ٹکرا کر گونج رہا تھا۔
چچی صحن میں بیٹھی تھیں۔ آسمان صاف تھا، مگر ان کی آنکھوں کے اندر طوفان اٹھ رہے تھے۔ وہ جانتی تھیں کہ بلال کے دل میں کچھ ہے، مگر وہ احساس ایک ایسی لکیر کے پار تھا جسے عبور کرنا گناہ لگتا تھا۔
بلال آہستہ سے ان کے قریب آیا،
"چچی… اگر کوئی بات دل میں ہو اور زبان پر نہ آ سکے تو کیا وہ گناہ ہوتی ہے؟"
چچی نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ ان کی سانس اٹک گئی۔
"کبھی کبھی خاموشی سب سے بڑا اعتراف ہوتی ہے، بلال۔"
یہ جملہ سن کر بلال کی آنکھوں میں نمی آگئی۔
وہ اپنے جذبات کو ضبط نہ کر سکا۔
"اگر میں کہوں کہ میں آپ کی مسکراہٹ میں جینا چاہتا ہوں،
آپ کے سکون میں اپنی نیند ڈھونڈتا ہوں،
تو کیا یہ بھی غلط ہوگا؟"
چچی کی پلکیں لرز گئیں۔ وہ نظریں جھکا گئیں۔
"بلال، جو رشتے مقدس ہوتے ہیں، ان میں جذبہ نہیں امتحان رکھا جاتا ہے۔
ہم جو محسوس کرتے ہیں، وہ کبھی ہمارا نہیں ہو سکتا۔"
یہ الفاظ بلال کے سینے میں خنجر بن کے اترے۔
اس نے دھیرے سے کہا،
"پھر کیوں اللہ نے دل دیا، اگر احساسات گناہ ہیں؟"
چچی کی آنکھوں سے دو آنسو گرے۔
"محبت گناہ نہیں بلال، مگر وقت، رشتہ، اور تقدیر… یہ سب محبت کو عبادت بننے نہیں دیتے۔"
بلال خاموش ہو گیا۔
فضا میں صرف دلوں کی دھڑکنیں تھیں۔
ایک لمحے کے لیے چچی نے اس کا چہرہ دیکھا، اور وہ نظر جیسے صدیوں کا فاصلہ طے کر گئی۔
محبت کہنے کی نہیں تھی، مگر دونوں کے دل کہہ چکے تھے۔
چچی نے آہستہ سے کہا،
"اب تمہیں جانا ہوگا، بلال۔
یہ گھر، یہ دیواریں، سب گواہ ہیں۔ اگر تم یہاں رہے تو میرا ضمیر مر جائے گا۔"
بلال اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کی آنکھوں میں صرف درد تھا۔
باہر بارش پھر شروع ہو چکی تھی،
اور شاید آسمان بھی جانتا تھا کہ دو دل الگ ہو رہے ہیں،
جن کے درمیان صرف محبت نہیں… قربانی بھی تھی۔
بلال دروازے کے قریب پہنچا، مڑ کر آخری بار دیکھا۔
چچی نے چہرہ پھیر لیا، مگر ان کی آنکھوں سے بہتے آنسو سب کچھ کہہ گئے۔


---


تبصرے

New Urdu Stories

ماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانیماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

فاطمہ اور عمران کی موٹر وے پر آخری ملاقات — ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

امتحان کی گزرگاہ: ایک مخلص انسان کی کہانی"