Islamabad Hospital Ki Safai Wali Aurat Ki Kahani | Emotional & Moral Story | Urdu story
اسلام آباد اسپتال کی صفائی والی عورت کی دل کو چھو لینے والی سچی کہانی
میرا نام عائشہ ہے اور میں اسلام آباد کے معروف پرائیویٹ ہسپتال، نورالعین اسپتال میں صفائی کا کام کرتی ہوں۔ صبح کے پانچ بجے سے شام کے سات بجے تک میرا دن محنت اور بچوں کی دیکھ بھال میں گزرتا ہے۔ میری زندگی کی سب سے بڑی ذمہ داری میرے دو معصوم بچے ہیں، علی اور زینب، جن کی دیکھ بھال اور تعلیم میری سب سے پہلی ترجیح ہے۔
ہم ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے ہیں، جہاں فرش پر پرانی چادر، ٹوٹی ہوئی کرسی اور کچھ کپڑوں کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں۔ غربت نے ہمیں کبھی سہارا نہیں دیا، لیکن بچوں کی ہنسی اور ان کی بھوک مٹانے کی خواہش مجھے ہر صبح اٹھنے پر مجبور کرتی ہے۔ علی چھوٹا سا بچہ ہے، مگر پڑھائی میں بہت ذہین، زینب ابھی نو سال کی ہے، مگر وہ اپنے کپڑوں اور کھانے کے لیے کبھی شکایت نہیں کرتی۔ میں ہر روز ان کے لیے دو وقت کی روٹی اور کچھ چھوٹے خواب پورے کرنے کی کوشش کرتی ہوں، چاہے اپنے لیے کچھ نہ بچا ہو۔
میرے شوہر، کام کاج میں زیادہ مدد نہیں کرتے، ان کی کمائی محدود ہے اور اکثر وہ بچوں کے سامنے اپنی مایوسی چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن میں نے کبھی اپنے بچوں کی مسکراہٹ کے بغیر خود کو مکمل محسوس نہیں کیا۔ صبح بچوں کو اسکول بھیجنے کے بعد میں ہسپتال پہنچتی ہوں، یونیفارم پہنتی ہوں اور اپنا کام شروع کرتی ہوں۔ میرا کام صرف فرش جھاڑنا یا بیڈ صاف کرنا نہیں بلکہ لیبر روم کے تمام سامان اور جراثیم کش ادویات کی ذمہ داری بھی میری ہوتی ہے۔
لیکن یہ کام محض محنت نہیں، بلکہ ایک چھوٹا سا راز بھی چھپا ہوا ہے۔ میں نے کچھ عرصے سے محسوس کیا تھا کہ ہسپتال کے لیبر روم میں کچھ ایسا ہو رہا ہے جو سب کی نظر سے اوجھل تھا۔ بچے سوتے ہیں تو میں اپنے دل کی دھڑکن سن سکتی ہوں، ان کی ہنسی اور رونا میرے کانوں میں گونجتا ہے، اور اسی دوران میرا دماغ نئے راز کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ کچھ ایسا، جو شاید صرف میں ہی جان سکتی ہوں۔
ہر روز میں نوزائیدہ بچوں کے رونے کی آواز سنتی ہوں، اور اکثر سوچتی ہوں کہ ان کی یہ زندگی کتنی پیچیدہ ہے۔ والدین خوشی مناتے ہیں، لیکن میں جانتی ہوں کہ کچھ خاندان اپنی خوشی کے عوض کئی چھوٹے راز چھپاتے ہیں۔ میری آنکھوں کے سامنے ہر روز یہ راز آتا ہے، اور میں چھوٹے چھوٹے بچے، ان کی معصومیت اور والدین کی الجھن کو دیکھ کر سوچتی ہوں کہ زندگی کتنی نازک اور پر اسرار ہے۔
یہ ہسپتال میرے لیے محض کام کی جگہ نہیں، بلکہ ایک ایسی دنیا ہے جہاں ہر دن کچھ نیا سکھاتا ہے۔ بچوں کی دیکھ بھال اور گھر کی غربت کے درمیان یہ چھوٹے راز میری زندگی کا حصہ بن گئے ہیں، اور میں ہر دن انہی رازوں کے درمیان خود کو مضبوط بنانے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ یہ راز کسی دن میرا اور بچوں کا مقدر بدل سکتے ہیں، لیکن ابھی وقت ہے کہ میں اپنے فرائض انجام دوں اور بچوں کی خوشیوں کے لیے محنت جاری رکھوں۔
ہسپتال کی صبح ہمیشہ عجیب سی ہوتی ہے۔ نوزائیدہ بچوں کے رونے کی آواز، والدین کی فکر مندی اور ڈاکٹروں کی جلدی، سب کچھ ایک ساتھ گونجتا ہے۔ میں عائشہ، یونیفارم میں تیار، اپنے معمول کے مطابق لیبر روم میں داخل ہوتی ہوں۔ ہر روز مجھے کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے جو سب کی نظر سے اوجھل ہے، اور آج وہ احساس پہلے سے زیادہ شدید تھا۔
میرے ہاتھوں میں جھاڑو اور جراثیم کش اسپرے ہیں، مگر دماغ ایک اور چیز میں مشغول ہے۔ کچھ دن پہلے، میں نے محسوس کیا تھا کہ ہسپتال میں کچھ چھپا ہوا ہے، ایک راز جو نرسوں اور ڈاکٹروں کی گفتگو میں کبھی کھلتا نہیں۔ وہ بیگ جسے میں اکثر دیکھتی تھی، جس میں لیبر روم کے بعد سب کچھ رکھا جاتا تھا، اس میں اکثر ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو عام لوگوں کی سمجھ سے بالاتر تھیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، مگر کبھی کسی نے میری طرف شک کی نظر نہیں ڈالی۔
اسی دوران، میرے بچوں کی یادیں میرے دل کو بھاگنے نہیں دیتیں۔ علی نے گزشتہ روز پوچھا تھا: "امی، آج میں اسکول میں اپنی ہوم ورک دکھاؤں گا، آپ دیکھیں گی؟" اور زینب نے اپنی چھوٹی چھوٹی باتوں سے میرا دل گرم کر دیا: "امی، آج میں نے جوس نہیں گرا، میں نے خود پیا!" یہ چھوٹے لمحے میری زندگی کا سب سے قیمتی حصہ ہیں، اور میں ہر دن انہیں خوش دیکھنے کے لیے اپنی تھکن بھول جاتی ہوں۔
ہسپتال کا راز اور بچوں کی معصومیت، یہ دو مختلف دنیا ہیں جو میرے دل میں ایک عجیب کشمکش پیدا کرتی ہیں۔ میں نے نوٹ کیا کہ لیبر روم میں کچھ نرسیں عجیب سی حرکات کرتی ہیں، کبھی وہ چھوٹے بچوں کے والدین کی نظر سے اوجھل چیزیں بیگ میں ڈال دیتی ہیں، کبھی کچھ رقم یا چھوٹے تحائف۔ مجھے شک ہوا کہ یہ سب کچھ محض اتفاق نہیں، بلکہ ایک منظم طریقہ ہے جسے میں سمجھنا چاہتی ہوں، مگر ڈر بھی لگتا ہے۔
ہر دن، میں بچوں کے چہروں کو ذہن میں رکھتے ہوئے، اپنے اندر ایک حوصلہ پیدا کرتی ہوں کہ شاید ایک دن میں اس راز کو سمجھ پاؤں۔ لیکن اس راز کی گہرائی اتنی ہے کہ کبھی کبھی میرے دل کی دھڑکن رکسی سی جاتی ہے۔ لیبر روم کی وہ خاموش فضاء، خون، دوائیوں اور جراثیم کش ادویات کی بو، سب کچھ میرے جذبات کو مزید بڑھا دیتی ہے۔
میں جانتی ہوں کہ زندگی کی یہ جدوجہد صرف میری نہیں، بلکہ بچوں کے مستقبل کی بھی جنگ ہے۔ غربت، ہسپتال کے راز، اور شوہر کی عدم مدد، یہ سب کچھ میرے جذبات کو ایک طرف سے کمزور اور دوسری طرف سے مضبوط بناتا ہے۔ ہر دن میں یہ سوچتی ہوں کہ شاید آج وہ دن ہو جب حقیقت سامنے آئے، اور شاید بچوں کے لیے میں وہ سب کچھ کر سکوں جو میں چاہتی ہوں۔
ہسپتال کی خاموش راہیں، بچوں کی معصوم ہنسی، اور چھپے راز، یہ سب میرے دل کو ایک عجیب الجھن میں مبتلا کرتے ہیں۔ اور میں ہر دن اپنی محنت، اپنی امید، اور بچوں کے لیے محبت کے ساتھ تیار ہوتی ہوں، کیونکہ یہ راز میرے اور بچوں کی تقدیر ب
دل سکتا ہے۔
ہسپتال کے وہ کمرے، جہاں میں ہر روز بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہوں، کبھی کبھی عجیب سی خاموشی میں ڈوب جاتے ہیں۔ ہر آواز، ہر قدم، ہر ہلکی سی سرسراہٹ میرے دل کو دھڑکا دیتی ہے۔ آج بھی ایسا ہی ایک دن تھا، جب میں نے محسوس کیا کہ کچھ معمول سے مختلف ہے۔
جب میں اپنے معمول کے مطابق نوزائیدہ بچوں کے وارڈ میں گئی، تو دیکھا کہ ایک نرس، جو ہمیشہ مسکراتی رہتی تھی، آج کچھ چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کی حرکتوں میں عجیب سی جلدی تھی، اور وہ ایک چھوٹا سا بیگ لے کر لیبر روم کے ایک کونے میں گئی۔ میں نے دھیرے سے اس کی طرف دیکھا، اور وہ بیگ کھلا—اس میں ایسی دوائیں اور چھوٹے پیکٹ تھے جو عام مریضوں کی ضرورت سے کہیں زیادہ قیمتی لگ رہے تھے۔ دل میں عجیب سی لہر دوڑ گئی۔
میں جانتی تھی کہ یہ صرف اتفاق نہیں۔ ہسپتال کے کچھ ڈاکٹر اور نرسیں، جو اپنی پوزیشن پر تھے، اکثر ایسے چھوٹے راز چھپا لیتے تھے۔ کبھی یہ دوائیوں کے چھوٹے پیکٹ، کبھی بچوں کے لیے مخصوص اشیاء۔ میں نے محسوس کیا کہ ہر چیز، ہر حرکت ایک منصوبہ بندی کا حصہ ہے، اور میں اس راز کے قریب آ رہی ہوں۔
اسی دوران، بچوں کے ہنسنے، رونے اور معصوم حرکتوں نے میرے دل کو دوبارہ گرم کر دیا۔ علی نے اپنی چھوٹی سی آواز میں کہا: "امی، آج میں نے ناشتہ خود کھایا!" اور زینب نے چھوٹی چھوٹی باتوں سے دل کو چھو لیا۔ میں نے سوچا، یہ چھوٹے لمحے ہی اصل خزانہ ہیں، اور میں ہر دن اپنی جانفشانی انہی کے لیے کر رہی ہوں۔
تجسس کے ساتھ، میں نے بیگ کے اندر چھپی ہوئی ایک کتاب بھی دیکھی، جس میں ڈاکٹروں اور نرسوں کے کچھ راز لکھے ہوئے تھے—وہ مریضوں کی ادویات، چند مخصوص طریقے اور کچھ ایسے اقدامات جو عام لوگوں کی نظر سے اوجھل تھے۔ دل دھڑکنے لگا، کیونکہ میں جانتی تھی کہ یہ راز اگر باہر آجائے تو ہسپتال کی ساکھ پر بڑا دھچکا لگ سکتا ہے۔
لیکن دل میں ایک عجیب سکون بھی تھا۔ میں جانتی تھی کہ میں صرف بچوں کی حفاظت نہیں کر رہی، بلکہ ان کے مستقبل کے لیے کچھ کر رہی ہوں۔ یہ راز، یہ تجسس، اور یہ جذبات سب میرے دل کو ایک ساتھ جھنجوڑ رہے تھے۔ ہر لمحہ میں سوچ رہی تھی کہ کس طرح میں بچوں اور اپنی محنت کے ساتھ اس راز کو سمجھوں، اور شاید ایک دن اسے صحیح طریقے سے استعمال کروں تاکہ سب کے لیے بہتر راستہ نکلے۔
اس دن، میں نے محسوس کیا کہ ہسپتال کے یہ چھپے راز اور بچوں کی معصومیت میرے دل کے بیچ ایک عجیب سا پل بنا رہے ہیں۔ میں نے فیصلہ کیا کہ ہر دن اپنی محنت اور محبت کے ساتھ ان دونوں دنیاوں—راز اور حقیقت—کو جوڑوں گی، تاکہ نہ صرف میں بلکہ میرے بچے بھی محفوظ ا
ور خوش رہیں۔
وقت کی رفتار کے ساتھ ہسپتال کی وہ تمام کہانیاں جو میں نے دیکھی تھیں، میرے دل میں ایک تصویر کی طرح ابھریں۔ ہر نو مولود بچہ، ہر معصوم ہنسی، ہر آنسو، اور ہر راز—سب ایک پیچیدہ تانے بانے میں بندھے ہوئے تھے۔ میں نے سمجھا کہ بچوں کی حفاظت، نرسوں کی محنت اور ڈاکٹروں کے چھپے راز سب ایک توازن کی صورت اختیار کرتے ہیں۔
اس دوران میں نے دیکھا کہ کچھ والدین ایسے بھی تھے جو اپنے بچوں کو اپنانا چاہتے تھے، کچھ لڑکیاں جو بغیر تعلقات کے بچے پیدا کر رہی تھیں، اور کچھ بچے جنہیں یہ دنیا کبھی صحیح معنوں میں نہیں پہچان پائی۔ ان سب کے بیچ میں، میں نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا کہ میں صرف صفائی اور دیکھ بھال نہیں کر رہی، بلکہ ان بچوں کی حفاظت اور مستقبل کی ضمانت بھی اپنے ہاتھ میں لے رہی ہوں۔
لیکن زندگی نے مجھے سخت سبق بھی سکھایا۔ وہ قیمتی سامان اور چھپے راز جو میں نے پہلے دریافت کیے تھے، آخرکار باہر آ گئے۔ سسٹر نسیم اور کچھ دیگر نرسوں کے بھرم کا پردہ فاش ہوا، اور ہسپتال میں ایک اسکینڈل چھا گیا۔ میں نے اپنی محنت کی کمائی، جو بچوں کی دیکھ بھال اور گھر کے لیے استعمال کر رہی تھی، اس کی قیمت بھاری ادا کی۔ میرے خاندان کو دوبارہ غربت کا سامنا کرنا پڑا، اماں بیمار ہو گئیں، اور بچوں کو معاشرتی طعنوں کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے باوجود، میں نے یہ محسوس کیا کہ زندگی کا اصل خزانہ صرف دولت یا راز نہیں، بلکہ وہ لمحے ہیں جو ہم دوسروں کی خدمت اور محبت میں گزارتے ہیں۔ میں نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا، اپنے گناہوں کا بوجھ محسوس کیا، اور یہ سمجھا کہ حرام کی دولت وقتی سہولت تو دے سکتی ہے لیکن سکون، عزت اور امن ہمیشہ چھین لیتی ہے۔
نو مولود بچوں کی معصومیت اور ان کی ہنسی نے میرے دل میں ایک نیا جذبہ جگایا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ چاہے حالات کتنے بھی سخت ہوں، میں اپنے بچوں اور ان معصوم جانوں کے لیے ایمانداری اور محبت کے ساتھ زندگی گزاروں گی۔ یہ راز، یہ تجسس، اور یہ غم سب میری تربیت اور نصیحت کا حصہ بن گئے۔
کہانی کا اصل سبق یہی ہے کہ محنت، ایمانداری اور بچوں کی دیکھ بھال انسان کو سچا سکون دیتی ہے۔ دولت اور لالچ وقتی خوشیاں دے سکتے ہیں، لیکن محبت، قربانی اور اخلاقی اصول ہمیشہ باقی رہتے ہیں۔ میں نے اپنے گناہوں کی سزا بھگتی، لیکن ساتھ ہی یہ بھی سمجھا کہ زندگی کا اصل مقصد دوسروں کے لیے کچھ کرنا اور اپنی عزت کے ساتھ جینا ہے۔
آخر میں، میں چھت پر بیٹھ کر اپنے بچوں کی معصوم آنکھوں میں دیکھتی ہوں، اور دل میں یہ دعا کرتی ہوں کہ وہ ایک بہتر، محفوظ اور خوشحال زندگی گزاریں۔ یہی وہ توازن ہے جو میں نے اپنی محنت اور تجربے سے سیکھا—ہر راز، ہر بچہ، ہر لمحہ زندگی کا حصہ ہے، اور انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان سب کو صحیح معنوں میں سمجھے اور محبت
سے نبھائے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
"Shukriya! Apka comment hamaray liye qeemati hai."