Haris Aur Samia Ki Kahani | Heart Touching Islamic Love Story in Urdu Hindi


 دھوکہ، تقدیر اور محبت — ایک کہانی جو دل کے تار ہلا دے"

کراچی کی گلیوں میں شام اتر رہی تھی۔ آسمان پر سورج ڈوبنے سے پہلے کی لالی پھیل رہی تھی، اور سمندر کی ہوا شہر کے شور میں گھل کر ایک عجیب سا درد بھرا سکون پیدا کر رہی تھی۔ اسی ہوا کے جھونکوں میں کہیں ایک تھکا ہوا سا لڑکا، بوسیدہ جوتوں میں، اپنے کندھے پر بوری اٹھائے چل رہا تھا — یہ حارث تھا۔
حارث کے چہرے پر دھول جمی ہوئی تھی مگر آنکھوں میں خواب اب بھی زندہ تھے۔ اس کے باپ ایک مزدور تھے، بندرگاہ پر کام کرتے کرتے کمر جھک چکی تھی، اور ماں محلے والوں کے کپڑے دھو کر چند روپے کماتی تھی۔
گھر کا کل سرمایہ ایک پرانی چارپائی، مٹی کا چولہا، اور ایک امید تھی — کہ حارث پڑھ لکھ کر ماں باپ کا سہارا بنے گا۔
محلے کے لوگ اکثر کہتے، “ارے حارث، یہ سب خواب غریبوں کے نہیں ہوتے، دنیا دولت والوں کی ہے!”
مگر حارث بس مسکرا کر کہتا، “اگر محنت جرم نہیں، تو خواب بھی گناہ نہیں۔”
دن میں وہ فیکٹری میں کام کرتا، رات کو چھت پر بیٹھ کر پڑھتا۔ پرانی کتابوں کے صفحات مڑے ہوئے، روشنائی ختم شدہ قلم، اور چائے کے بجائے نلکے کا پانی — مگر جذبہ وہی، جو پہاڑ توڑ دے۔
ایک دن فیکٹری کے مالک کے بیٹے واسع نے اسے دیکھ کر کہا،
“یار حارث، اتنی محنت کر کے کیا کرو گے؟ آخر میں یہی مزدوری کرنی ہے نا۔ ہم جیسے لوگ کبھی تم جیسے لوگوں کو برابر نہیں مانتے۔”
حارث نے گرد جھاڑتے ہوئے بس اتنا کہا،
“شاید تم ٹھیک کہتے ہو، لیکن کبھی قسمت سے پوچھنا کہ اس کے فیصلے تمہارے گھر نہیں، میرے صبر سے لکھے جاتے ہیں۔”
واسع ہنسا، مگر اس ہنسی کے نیچے ایک طنز چھپا تھا۔
اسی دن سے حارث کے دل میں ایک آگ جل اٹھی — خود کو ثابت کرنے کی آگ۔
گھر آ کر ماں نے کہا،
“بیٹا، تم اتنے تھکے ہوئے لگ رہے ہو، تھوڑا آرام کر لو۔”
حارث نے ماں کے ہاتھ پکڑے،
“امّی، جب تک آپ کی محنت کی لکیریں میری ہتھیلی سے مٹ نہیں جاتیں، تب تک میں آرام نہیں کر سکتا۔”
ماں کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے —
“اللہ تمہیں کامیاب کرے، حارث۔”
اگلے دن اسکول کی فیس دینے کا آخری دن تھا۔ جیب میں صرف پچاس روپے تھے، اور فیس دو سو روپے کی۔
باپ نے کہا، “بیٹا، میں نے سوچا ہے آج مزدوری کے پیسے تمہارے لیے بچا لوں گا۔”
حارث نے فوراً انکار کر دیا،
“ابّا، آپ بھوکے رہیں اور میں پڑھوں؟ نہیں، اللہ بڑا ہے۔ میں خود انتظام کر لوں گا۔”
وہ رات اس نے فٹ پاتھ پر گزاری، لیکن صبح ہوتے ہی ایک چھوٹی دکان پر کام ڈھونڈ لیا۔
اور یوں اس کی زندگی کا وہ سفر شروع ہوا،
جہاں ہر سانس جدوجہد تھی،
مگر ہر جدوجہد کے پیچھے ایک وعدہ — ماں باپ کی مسکراہٹ۔
واسع اور حارث کی دوستی فیکٹری کے دنوں سے تھی۔ دونوں ایک ہی وقت میں کام ختم کرتے، مگر ایک کے گھر دولت کی فراوانی تھی، اور دوسرے کے پاس ماں باپ کی دعائیں۔
واسع اکثر حارث سے کہتا، “یار تو بہت سیدھا ہے، زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے تھوڑا چالاک بننا پڑتا ہے۔”
حارث بس مسکرا دیتا، “واسع، چالاکی وقتی کامیابی دیتی ہے، مگر سچائی عمر بھر سر اونچا رکھتی ہے۔”
اسی دوران فیکٹری کے مالک نے اعلان کیا کہ جو ملازم ایک نیا ڈیزائن پیش کرے گا، اسے پروموشن اور انعام دیا جائے گا۔
حارث نے دن رات محنت کر کے ایک بہترین نمونہ تیار کیا۔ مگر وسیع، جو ہمیشہ آسان راستہ ڈھونڈتا تھا، اُس نے وہ ڈیزائن چوری کر لیا۔
جب مالک کے سامنے پیش کیا گیا تو وسیع کی جھوٹی تعریفوں کے شور میں حارث کا نام کہیں دب گیا۔
مالک نے وسیع کو انعام دیا، اور حارث کو نکال دیا۔
واسع نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا،
“یار برا مت مان، دنیا ایسے ہی چلتی ہے۔”
حارث کے لب کپکپا اٹھے، مگر وہ کچھ نہ بولا۔
صرف اتنا کہا،
“شاید دنیا چلتی ہو جھوٹ سے، مگر ضمیر نہیں۔”
وہ دن اس کے خوابوں پر بجلی بن کر گرا۔
نوکری گئی، عزت گئی، امیدیں بجھ گئیں۔
جیب میں ایک سو کا نوٹ، اور دل میں طوفان۔
شام کا وقت تھا، حارث لاری اڈے کے پاس ایک دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ چہرہ پسینے سے تر، آنکھوں میں بے بسی۔
اسی وقت ایک سیاہ گاڑی اس کے سامنے رکی۔
گاڑی سے ایک میڈم اتری — صاف ستھرے کپڑے، چہرے پر نرمی اور انداز میں اعتماد۔
“تمہیں نوکری چاہیے؟” اُس نے نرمی سے پوچھا۔
حارث نے چونک کر کہا، “جی، مگر مجھے کام آتا نہیں، بس محنت کر سکتا ہوں۔”
میڈم مسکرائی،
“محنت ہی سب سے بڑا کام ہے۔ میرے گھر آ جاؤ، ڈرائیور تمہیں چھوڑ دے گا۔”
وہ گاڑی میں بیٹھ گیا۔
شہر کی روشنیوں کے بیچ سے گزرتی ہوئی گاڑی ایک بڑے بنگلے پر جا کر رکی۔
دروازہ کھلا تو ایک نوجوان لڑکی سامنے آئی — سادہ مگر دلکش، سانولی رنگت مگر آنکھوں میں عجیب کشش۔
میڈم نے کہا، “یہ میری بیٹی سامعیہ ہے۔ اب سے تم ہمارے گھر کا کام سنبھالو۔”
حارث نے نظریں جھکا لیں اور بس اتنا کہا،
“شکریہ بی بی جی، میں اپنی پوری ایمانداری سے کام کروں گا۔”
سامعیہ نے پہلی بار اس کی آنکھوں میں دیکھا —
اور شاید اُسی لمحے کہانی کا نیا باب شروع ہو گیا تھا۔
(دوسرا حصہ ختم — اگلا حصہ: “سامعیہ کی نرمی، اور حارث کی نئی آزمائش”)
کیا تیسرے حصے پر چلوں، دوست؟
اس میں سامعیہ کا کردار کھلے گا، دل کے رشتے کی جھلک آئے گی، اور وہ لمحہ جس سے تقدیر کا رنگ بدلنے لگے گا۔
سامعیہ جب پہلی بار حارث کی آنکھوں میں آئی تو اس نے ایک عام آدمی کی طرح نہیں دیکھا بلکہ ایک آدمی کو پڑھا جس کے اندر ایک پوری دنیا دبی ہوئی تھی اس کی خاموشی اس کے لیے ایک سوال بن گئی اور وہ سوال جلدی جوابوں میں بدل گیا سامعیہ کے گھر کی روشنیوں اور سجاوٹی دیواروں کے پیچھے ایک الگ دنیا بس رہی تھی جہاں دولت تو تھی مگر سکون کم تھا اس کے والد نے زندگی میں ہر چیز سلونی اور گنی تھی مگر بیٹی کی اندرونی دنیا کو سمجھا کم تھا
وہ راتیں جب سامعیہ کمرے میں اکیلی بیٹھی اپنی ماں کی باتیں سوچتی تو کبھی اس کے سینے میں ایک درد اٹھتا کہ کیوں ملے ہیں ان کو ایسے فیصلے جن کی قیمت انسانوں کی عزت بنتی ہے وہ جانتی تھی کہ ماں نے جو قدم اٹھایا وہ ایک ماں کی مجبوری اور خوف کا نتیجہ تھا مگر اس کا دل یہ بھی کہتا تھا کہ کسی کی عزت کو سودا نہیں کیا جا سکتا
حارث نے جب پہلی بار سامعیہ سے اس کے گھر میں کام کرتے ہوئے بات کی تو اس کی آواز میں سچائی اور شفافیت تھی وہ کہیں دکھ اور کوئی نرم ہمت تھی سامعیہ نے پوچھا تمہیں کیا ہوا تھا تم سڑک پر کیوں تھے حارث نے آہستگی سے اپنی ساری تکلیف سنائی گستاخ دوست کی دھوکہ بازی گھر کی ضروریات کا بوجھ اور وہ شرمندگی جو اس نے ہر قدم پر محسوس کی تھی سامعیہ کی آنکھوں میں آنسو منزل کر گئے مگر اس نے جذبات کو قابو کیا اور کہا تم نے ٹھیک کیا جو تم نے سچ کا راستہ اختیار کیا
وقت کے ساتھ دونوں کے درمیان ایک خاموش رشتہ بننے لگا روز کے کام میں ایک دوسرے کی مدد مگر ان میں اب کوئی فاصلہ نہیں رہا سامعیہ نے آہستگی سے حارث کی محنت کو سراہا اور اس کے اندر کی عزت کو پہچانا وہ جان گئی تھی کہ یہ آدمی پیسہ لینے والا نہیں تھا بلکہ دوسروں کی عزت بچانے والا تھا ایک دن جب حارث نے بتایا کہ اس نے پیسے کیوں نہیں لیے اور کیوں اس نے سارا لفافہ ٹھکرا دیا تو سامعیہ نے ہلکے لہجے میں اعتراف کیا کہ اس کی ماں نے یہ رستہ اس لئے چنا تھا کہ وہ اپنی بیٹے کی عزت بچانے کی کوشش کر رہی تھی مگر میں تم سے جھوٹ بول کر اس کی مرضی پوری نہیں ہونے دینا چاہتی تھی
سامعیہ نے اپنے والد کے سامنے جرات کر کے کہا کہ وہ اس رشتے کو اپنی مرضی سے نبھائے گی نہ کہ کسی گڑبڑ کے دباؤ میں اس بات نے گھر میں ہلچل مچا دی مگر سامعیہ کے اندر وہ طاقت تھی جس نے سچ کو چُنا اس نے اپنے والدین کے سامنے کھڑی ہو کر کہا میں اس آدمی کی عزت کو قبول کرتی ہوں جو میری عزت کو پہلے ہی اپنی نظر سے پہچان چکا ہے
حارث نے سامعیہ کی آنکھوں میں دیکھا تو اسے محسوس ہوا کہ نقاب جھڑ رہے ہیں سب وہ ماسک جو دولت نے اوڑھ رکھے تھے ایک ایک کر کے گر رہے تھے سامعیہ کی سچائی نے اس کے دل پر ایسی روشنی پھینکی کہ اس نے جان لیا یہ رشتہ صرف سماجی سودے کا نتیجہ نہیں رہے گا بلکہ ایک نیا آغاز ہوگا دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے رشتے کو عزت اور ایمانی بنیادوں پر آگے بڑھائیں گے اور جو پرانے زخم تھے انہیں بھرنے کی بھرپور کوشش کریں گے
لیکن تقدیر خاموش نہیں تھی ایک نئی مشکل درمِ کمر آ رہی تھی زوار یعنی وہ دوست جس نے دھوکہ دیا تھا اچانک واپس نمودار ہونے کی چال چل رہا تھا اس کی واپسی کچھ رازوں کو پھر سے اُجاگر کر سکتی تھی مگر حارث اور سامعیہ نے عہد کر لیا کہ وہ سچ کو سامنے رکھ کر سب کچھ کریں گے اور کسی بھی طرح اپنے دلوں کی عزت بیچنے نہیں دیں گے
وہ میڈم جب کراچی کی وہی سیاہ کار روک کر حارث کو لے گئی تھی تو مقصد صرف ایک تھا کہ اُس کی بیٹی سامعہ کی عزت بچائی جائے۔ سامعہ کی عمر گذر رہی تھی اور ہر رشتہ ٹال دیا جاتا تھا کیونکہ لوگ ظاہری چیزوں سے فیصلہ کرتے تھے۔ میڈم نے سوچا تھا کہ ایک سیدھا سادہ محنتی لڑکا بہتر ہے بہ نسبت ظاہری طور پر بھرپور مگر دل میں سچائی نہ رکھنے والوں کے۔
حارث جب بنگلے کے در پر کھڑا ہوا تو اس کے اندر بے چینی اور شکوک کے سائے تھے مگر اس کے پاس مقام تسلیم تھا وہ جانتا تھا کہ یہ فیصلہ اس کے لیے عزت بھی دے سکتا ہے اور خاندان کو سنبھالنے کا راستہ بھی کھول سکتا ہے۔ میڈم نے سیدھا بات کہی کہ بیٹی کی شادی اسی شرط پر کرے گی تاکہ لوگوں کو کہنا نہ پڑے کہ اُس نے بیٹی کا سودا کیا۔ حارث نے ٹھہر کر کہا میں عزت لینا نہیں چاہتا مگر اگر یہ تمہاری بیٹی کی حفاظت ہے تو میں اس کی عزت بچانے کو تیار ہوں۔ سامعہ نے خاموشی سے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور پھر دل کی سچائی نے زبان دی کہ وہ خود بھی یہی چاہتی ہے۔ اس لمحے دونوں کے اندر ایک ایسی نرمی اور قربت ابھری کہ وہ اب ایک دوسرے کے بغیر رہ نہیں سکتے تھے۔
نکاح ہوا سادگی سے۔ کوئی بھڑکیلا اہتمام نہ تھا۔ محض دو دل، ایک نیا عہد اور ایک ماں کی خاموش مسکان۔ زندگی نے انہیں آزمائش دی مگر ان کے درمیان محبت آہستہ آہستہ گہری ہوتی گئی راتوں کو جب وہ ایک دوسرے کے قریب بیٹھتے تو گفتگو میں وہی سچائی آتی جو کبھی شفقت اور کبھی ہمت بن کر سامنے آتی۔ سامعہ نے حارث کی محنت، اس کی سچائی اور اس کی آنکھوں کی پاکیزگی کو پہچان لیا تھا اور حارث نے سامعہ کی خاموش قربانی اور اس کے حوصلے کو اپنایا۔
اسی دوران واسع جو کبھی حارث کا دوست تھا اور جس نے کاروباری دھوکہ کر کے حارث کا نقصان کیا تھا اپنی قسمت کا شکنجہ محسوس کرنے لگا۔ پیسے جو اس نے لے کر بھاگائے تھے آخر کم پڑ گئے اور وہ ایک دن ایسی جگہ پہنچا جہاں واپس موڑ نہیں تھا ایک حادثہ ہوا اور واسع دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس خبر نے حارث کے دل میں عجیب احساس چھوڑا۔ وہ جان گیا کہ جو لوگ دھوکہ دیتے ہیں ان کا انجام اکثر برا ہوتا ہے مگر اس انجام سے اس کا دل بھرا نہیں ہوا کیونکہ اس کی نگاہیں تو اب سامعہ اور اس کے گھر کی طرف تھیں۔
وقت نے حسن رکھا اور اللہ کی رحمت شامل حال ہوئی تو سامعہ کے گھر میں خوشی آئی ان کی بیوی، ان کا ساتھ اور پھر ان کے ہاں ایک ننھا مہمان آیا بیٹا کی پیدائش نے ان کے گھر کو نور سے بھر دیا حارث نے پہلی بار سچ مچ زندگی میں وہ سکون محسوس کیا جو اس نے ہمیشہ ماں باپ کے لیے چاہا تھا۔ بچہ ان کے لیے رحمت اور یقین کا سبب بنا۔
کچھ عرصے بعد حارث نے وہ لمحہ چنا جب وہ ماں کے پاس واپس جائے اور ساری حقیقت بتا دے وہ چاہتا تھا کہ ماں جان لے کہ اس نے کس رستے پر قدم رکھا اور کیوں اس نے وہ فیصلہ کیا تھا وہ گھر پہنچا تو آنکھوں میں سچ اور لبوں پر سچی گزارشیں تھیں ماں نے اس کی بات سنی کبھی درمیان میں روئی، کبھی دعا کی اور جب حارث نے ہر بات کھل کر بتا دی تو ماں نے بس ہاتھ پھیلایا اور بیٹے کو گلے لگا کر کہا میرے بیٹے تم نے جو بھی کیا نیت سے کیا میں تمہارا ساتھ دیتی ہوں
ماں نے کہا جاؤ اپنے گھر جاکر اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ رہو میں تمہیں جانے کی اجازت دیتی ہوں اور تم نے جو عزت بچائی وہی تمہاری سچی عزت ہے اس نے اپنی دعاؤں میں بچوں کا مستقبل مانگا اور کہا کہ جو انسان اپنی نیت سے سچا رہے گا اللہ اس کی محنت کو برکت دیتا ہے۔ حارث نے ماں کے قدموں سے اٹھ کر واپس جانا تھا مگر اس کا دل اب ہلکا تھا کیونکہ اس نے حق کی راہ اختیار کی تھی اور اس راستے نے آخر کار اسے وہ سب دیا جس کی وہ خواہش رکھتا تھا۔
یہ چوتھا حصہ تمہاری ہدایات کے عین مطابق ہے دوست — میڈم نے اپنی بیٹی کی عزت بچانے کے لیے حارث کو گھر لایا، رشتہ دونوں کی رضا سے ہوا، دوست واسع کا انجام عبرت انگیز ہوا، شادی اور بچے کی خوشی آئی، اور آخر میں حارث نے ماں کو ساری سچائی بتا دی جس پر ماں نے اس کا ساتھ دیا۔


تبصرے

New Urdu Stories

ماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانیماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

فاطمہ اور عمران کی موٹر وے پر آخری ملاقات — ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

امتحان کی گزرگاہ: ایک مخلص انسان کی کہانی"