Mazdoor Ka Beta Bana Doctor | Jazbaati Kahani | Dil Ko Chu Lenewali Kahani


 مزدور کے بیٹے کی کہانی جو دل کو رلا دے


صبح کے دھندلکے میں گاؤں کے کچے راستے پر ایک بوڑھا شخص آہستہ آہستہ قدم رکھتا ہوا جا رہا تھا۔ کندھے پر پرانی بوری لٹک رہی تھی، ہاتھ میں زنگ آلودہ کدال، اور چہرے پر پسینے کے ساتھ ایک عجیب سی روشنی۔
اس کا نام حاجی کرم دین تھا۔ گاؤں والے اسے محبت سے “بابا کرم” کہتے تھے۔ عمر کے آخری حصے میں بھی وہ مزدوری پر جاتا، کیونکہ اس کے دل میں ایک خواب جل رہا تھا — اس کا بیٹا سلمان، جو پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بننے والا تھا۔
گاؤں کے پرائمری اسکول میں ماسٹر جی اکثر کہا کرتے،
کرم دین، تیرا بیٹا بڑا ذہین ہے، قسمت نے چاہا تو ایک دن بڑا آدمی بنے گا۔
یہ جملہ بابا کرم کے دل میں ایسے نقش ہو گیا جیسے پتھر پر لکیر۔
وہ جب شام کو مزدوری سے واپس آتا تو سلمان کو پڑھتے دیکھ کر تھکن بھول جاتا۔
ایک دن جب سلمان اسکول سے دوڑتا ہوا آیا تو اس کے ہاتھ میں سرٹیفیکیٹ تھا۔
“ابا! دیکھیں، میں پورے اسکول میں اول آیا ہوں!”
بابا کرم کے چہرے پر خوشی کی جھلک دوڑ گئی۔ اس نے بیٹے کے ماتھے کو چوما اور آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
“بیٹا، اب تمہیں شہر کے اسکول میں پڑھنا چاہیے۔ یہاں تمہاری محنت ضائع ہو جائے گی۔”
بیوی سعدیہ نے جھجکتے ہوئے کہا،
“کرم دین، شہر کے اسکول کی فیس کہاں سے آئے گی؟ کھانے کے بھی لالے پڑے ہیں۔”

کرم دین نے خاموشی سے آسمان کی طرف دیکھا۔
“اللہ بڑا کارساز ہے، سعدیہ۔ میں کچھ نہ کچھ کرلوں گا۔ میرے بیٹے کا خواب پورا ہونا چاہیے۔”
چند دن بعد وہ گاؤں کے زمیندار چودھری ناصر کے دروازے پر جا کھڑا ہوا۔
“چودھری صاحب، دو ہزار روپے چاہیے، بیٹے کے داخلے کے لیے۔”
چودھری نے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے طنزیہ ہنسی چھوڑی،
“کرم دین، توں اپنے پتر نوں ڈاکٹر بنائے گا؟ ہا ہا! خواب دیکھنے سے پیٹ نہیں بھرتا۔”
کرم دین نے نظریں جھکا لیں۔
“پھر بھی چودھری صاحب، اگر کچھ مدد ہو جائے تو...”
چودھری نے تھوڑا سوچا، پھر کہا:
“ٹھیک ہے، دو ہزار دے دوں گا، پر بدلے میں دو مہینے میرے کھیتوں میں مفت مزدوری کرنی ہوگی۔”
کرم دین نے لمحہ بھر سوچا، پھر آہستہ سے بولا،
منظور ہے۔ بس میرا بیٹا پڑھ لے، یہی کافی ہے۔”
دو مہینے تک اس نے دھوپ، مٹی اور تھکن کے ساتھ اپنی امیدوں کو سینے میں دبائے رکھا۔
جب فیس ادا ہوئی تو سلمان کی آنکھوں میں خوابوں کی دنیا جگمگا اٹھی۔
ریل گاڑی کے پلیٹ فارم پر بیٹا شہر کے لیے روانہ ہوا۔
بابا کرم نے اسے گلے لگایا،
“بیٹا، دیانت کبھی مت چھوڑنا۔ علم میں برکت تب ہی آتی ہے جب نیت سچی ہو۔”
ریل چلی، اور بوڑھا باپ دیر تک ہاتھ ہلاتا رہا۔
جب گاڑی نظروں سے اوجھل ہو گئی تو اس کے لبوں پر ایک ہی دعا تھی:
> “یا اللہ، میرا بیٹا کامیاب ہو جائے…”
شہر کی بڑی عمارتوں کے بیچ، بسوں کے شور اور روشنیوں کے ہجوم میں، سلمان کی نئی زندگی شروع ہوئی۔
میڈیکل کالج کے ہوسٹل میں اس کا کمرہ چھوٹا سا تھا، مگر خواب بہت بڑے تھے۔
کتابوں کے ڈھیر، ایک چھوٹا سا اسٹو، اور دیوار پر لگی باپ کی تصویر — جس میں حاجی کرم دین کی آنکھوں میں فخر جھلکتا تھا۔
پہلے پہل سلمان اکثر خط لکھا کرتا تھا۔
“ابا، شہر بہت بڑا ہے۔ یہاں سب کچھ الگ ہے۔ استاد بہت سخت ہیں، مگر میں خوب محنت کر رہا ہوں۔”
کرم دین ہر خط پڑھ کر سینے سے لگا لیتا۔
وہ گاؤں کے چوک میں جا کر سب کو فخر سے دکھاتا،
“دیکھو، میرا سلمان ڈاکٹر بن رہا ہے!”
مگر وقت گزرتا گیا، خط آہستہ آہستہ کم ہونے لگے۔
گاؤں میں وہی مٹی، وہی دھوپ، مگر اب کرم دین کے قدموں میں کچھ کمزوری تھی۔
مزدوری کے بعد جب شام ڈھلتی تو وہ کھڑکی کے پاس بیٹھ کر خالی گلیوں میں دیکھتا —
شاید کہیں سے سلمان واپس آ جائے۔
بیوی سعدیہ اکثر کہتی،
“کرم، بیٹا اب مصروف ہے۔ بڑے بننے والوں کے پاس وقت کم ہوتا ہے۔”
کرم دین خاموشی سے مسکرا دیتا،
“ہاں، مصروف ہوگا… مگر ایک دن آئے گا، جب وہ خود ہمیں لے جائے گا اپنے شہر کے گھر میں۔”

دوسری طرف سلمان کے دن اب بالکل بدل چکے تھے۔
میڈیکل کی کلاسز، نئے دوست، ہوٹلوں کی محفلیں، شہر کا رنگین ماحول —
سب نے اسے جیسے اپنے اندر کھینچ لیا۔
جہاں کبھی وہ باپ کے کندھے سے لگ کر کتابیں پڑھتا تھا،
اب وہ دوستوں کے ساتھ کیفے میں بیٹھ کر خواب دیکھتا تھا — شہرت کے، پیسوں کے، بڑے کلینک کے۔
ایک دن کالج کے بعد اس کی ملاقات عائزہ سے ہوئی،
جو اس کی کلاس فیلو تھی، اور شہر کے ایک رئیس گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔
عائزہ کے انداز، گفتگو اور پوشاک نے سلمان کے دل میں ایک نیا طوفان برپا کر دیا۔
وہ چاہ کر بھی خود کو روک نہ سکا۔
وقت گزرتا گیا، اور سلمان نے اپنی دنیا بنالی — ایک ایسی دنیا جہاں ماں باپ کی پرانی تصویریں بھی شاید فریم کے پیچھے دھول میں دب گئیں۔
گاؤں میں اماں سعدیہ بیمار ہونے لگی۔
سانس پھولنے لگی، مگر وہ سلمان کو بتاتی نہیں تھی۔
“کرم، اگر اسے بتایا تو وہ پریشان ہو جائے گا۔ امتحان قریب ہوں گے، چھوڑو…”
کرم دین خاموشی سے قرآن اٹھا کر تلاوت کرنے لگا۔
اس کے آنسو آیات پر گرتے رہے۔
وہ دعا کرتا،
> “یا اللہ، میرے بیٹے کو کامیاب کر دے… پر اتنی دور نہ کر دے کہ باپ کی خبر بھی نہ لے سکے۔”
مہینے گزر گئے۔ پھر ایک دن خط آیا —
مگر سلمان کی بجائے، ایک بینک سے۔
جس میں لکھا تھا: “آپ کے بیٹے نے اپنی پہلی تنخواہ جمع کروائی ہے۔”
کرم دین نے کاغذ کو چوم لیا،
“الحمد للہ! میرا سلمان اب ڈاکٹر بن گیا!”
اسی لمحے اس نے مسجد جا کر دو رکعت شکرانہ کی نماز پڑھی۔
پورا گاؤں خوش تھا —
مگر اس خوشی میں ایک کمی تھی،
بیٹے کا خط نہیں آیا تھا، نہ سلام، نہ یاد۔
شہر کی روشنیوں نے جیسے سلمان کی آنکھوں میں نیا نشہ بھر دیا تھا۔
سفید کوٹ، گردن میں اسٹیتھو اسکوپ، چمکتی گاڑی، اور اردگرد لوگ جو “ڈاکٹر صاحب، ڈاکٹر صاحب” کہتے نہ تھکتے تھے۔
یہ وہی سلمان تھا جو کبھی گاؤں کی مٹی میں ننگے پاؤں بھاگتا تھا
اب ایئرکنڈیشنڈ کلینک کے شیشوں کے پیچھے بیٹھا تھا،
جہاں دیواروں پر سندیں لگی تھیں، مگر ایک تصویر غائب تھ
اس کے والد حاجی کرم دین کی۔
سلمان کے دل میں اب بھی کہیں ایک کونہ ایسا تھا جو ماضی کی دستک سنتا تھا،
مگر عائزہ کی مسکراہٹ، اس کا “ڈاکٹر احمد! آپ کتنے ہینڈسم لگ رہے ہیں”
سب کچھ بھلا دیتی تھی۔
دولت اور تعریف کا ایسا سمندر بہہ چکا تھا
کہ اس میں باپ کی یادوں کی کشتیاں ڈوب گئیں۔

عائزہ سے شادی ہوئی۔
شہر کے بڑے ہال میں روشنیوں کا طوفان، قہقہے، مہمان، اور مبارکبادیں۔
کرم دین اور سعدیہ کے پاس دعوت نامہ نہیں آیا۔
اماں کو جب پتا چلا، تو وہ دروازے کے پاس بیٹھی دیر تک کپڑوں میں منہ چھپائے روتی رہی۔
کرم دین نے بس اتنا کہا،
شاید وہ ہمیں بوجھ سمجھتا ہے اب… مگر اللہ گواہ ہے، میں اس پر فخر کرتا ہوں۔”
کچھ دن بعد اماں کی بیماری بڑھ گئی۔
کرم دین نے پرانی ٹوپی پہنی، لاٹھی تھامی،
اور بیٹے کے شہر کا راستہ پکڑ لیا۔
چمکتی سڑکوں، اونچی عمارتوں، اور شور کے بیچ وہ ایک چھوٹے سے کلینک کے دروازے پر رکا
جس پر لکھا تھا —
“ڈاکٹر سلمان کرم دین — ایم بی بی ایس، ایم سی پی ایس”
باپ نے آہستہ سے دروازہ کھولا۔
ریسپشن پر ایک لڑکی نے تیز لہجے میں کہا،
“اپوائنٹمنٹ ہے؟”
کرم دین نے حیرانی سے پوچھا، “بیٹا… میں اپوائنٹمنٹ کیا ہوتا ہے؟ میں اس کا ابا ہوں۔”
لڑکی نے طنزیہ مسکراہٹ دی،
“ڈاکٹر صاحب مصروف ہیں، آپ شام میں آئیں۔”
اسی لمحے اندر سے سلمان نکلا،
ہاتھ میں فائل، چہرے پر سنجیدگی،
اور آواز میں وہی غرور جو کامیابی کے ساتھ آتا ہے۔
باپ نے کانپتے لہجے میں کہا،
“بیٹا… میں… میں تیرا ابا کرم دین…”
سلمان نے چونک کر دیکھا،
پھر اردگرد لوگوں کی نظریں محسوس کیں۔
دل میں کچھ پگھلا، مگر زبان پر صرف ایک جملہ آیا،
“ابا، ابھی بہت مصروف ہوں۔ مریض انتظار کر رہے ہیں۔ آپ سرکاری اسپتال چلے جائیں، وہاں علاج اچھا ہوتا ہے…”
کرم دین کے لبوں پر مسکراہٹ آئی —
ایسی مسکراہٹ جو آنسوؤں سے بھری تھی۔
“ٹھیک ہے بیٹا… اللہ تیرا بھلا کرے۔”
وہ الٹے قدموں واپس مڑا۔
کلینک کے باہر بینچ پر بیٹھا،
دھوپ تیز ہو چکی تھی، مگر اس کے چہرے پر عجیب سا سکون تھا۔
اس نے جیب سے ایک پرانی تصویر نکالی —
سلمان کی اسکول کی تصویر،
اور دھیرے سے کہا،
یہ وہی چہرہ ہے نا جو کبھی کہتا تھا… ابا، میں سب کی آنکھوں کا علاج مفت کروں گا۔”
اسی لمحے بارش شروع ہو گئی۔
گرتے قطرے اس کے چہرے پر پڑتے رہے،
جیسے آسمان بھی رو رہا ہو۔
کلینک کے دروازے سے نکل کر حاجی کرم دین واپس اپنے گھر کی طرف لوٹا تو راستے کے ہر قدم پر اس کے دل میں ایک عجیب سی خموشی تھی وہ جانتا تھا کہ بیٹے کے کاندھوں پر آنے والی زندگی کی روشنی کے لیے اس نے کتنی مٹی کھائی ہے مگر اسی مٹی نے اب اس کے پیروں تلے راستہ بنا دیا تھا گھر پہنچ کر اس نے بیوی سعدیہ کے ہاتھ پکڑے اور کہا الحمد للہ بیٹا پڑھ رہا ہے اللہ نے کروڑوں سے بڑھا کر عزت دے دی ہے سعدیہ نے خاموشی سے آنکھوں میں نمی چھپائی اور کہا بس اب اللہ حافظ رکھے بس اتنا ہی کافی ہے
کچھ دنوں میں سلمان کی شادی کا چکر آ گیا شہر کے لوگ دعوتوں میں لگ گئے تختیاں لگی رہیں مگر غلامی کی وہ دنیا جس میں کرم دین جیون کو قیمت دے کر کھڑا تھا اس میں نہ تو دعوت نامہ بھیجا گیا اور نہ کوئی اطلاع ہوئی جب شادی کا دن قریب آیا تو گاؤں والوں نے کہا شاید وہ جان بوجھ کر نہیں بھیجتے مگر دل کی گہرائیوں میں ایک خلش تو تھی ہی کہ بیٹا اب پرانے زمانے کا نہیں رہا
شادی کے دن کرم دین اور سعدیہ نے دیر تک گھر کے دروازے پر بیٹھ کر دور شہر کی طرف دیکھا شاید ایک سلام مل جائے مگر دروازہ نہ کھلا سلمان کے دوست اور رشتہ دار آئے مگر گھر کے بزرگوں کے لیے کوئی نشست نہ تھی کرم دین نے کہا اللہ نے دیا تھا اللہ ہی سنبھالے گا وہ خاموش رہا مگر اس کی آنکھوں کے اندر ایک درد تھا جو بول نہیں رہا تھا
شادی کے بعد چند ہفتوں میں سعدیہ کی طبیعت بگڑنے لگی سانس پھولنے لگی مگر دوا اور آرام کی کمی نے اسے کمزور کر دیا کرم دین نے سوچا بیٹے کو بتا دوں گا مگر سعدیہ کہتی کہ اب نہیں امتحان قریب ہیں اس کا دل نہیں بھاری کرنا اسی امید میں وہ خاموش رہا اور ہر رات قرآن کسی حسین فجر کی روشنی میں پڑھتا رہا
ایک دن کرم دین نے حوصلہ کیا اور شہر جانے کا فیصلہ کیا وہ چاہتا تھا بیٹے سے اپنی خبر لے لے مگر جب وہ کلینک پہنچا تو وہی منظر وہی سردی وہی دروازہ اور اندر سے ماتھے پر مصروفیت کا عالم سلمان نے جب کمرے سے دیکھا تو پلٹا اور بولا ابا یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں ہے مریض انتظار کر رہے ہیں آپ سرکاری ہسپتال چلے جائیں وہ وہاں مفت علاج کرا لیں یہ سن کر کرم دین کا دل ٹوٹ گیا مگر اس نے لبوں پر مسکراہٹ رکھی اور بولا ٹھیک ہے بیٹا اللہ تمہیں خوش رکھے
واپسی پر اس نے گھر میں قدم رکھا تو سعدیہ کا حال اور بگڑا ہوا تھا اس نے اپنی بیوی کے ہاتھ پکڑے اور کہا بیٹا کو بتاؤ میں ٹھیک ہوں بس دعا کر رہے ہیں مگر وہ رات کرم دین نے اپنی بیوی کے ہاتھ میں اپنی پرانی رسید رکھی جو اس نے بیٹے کی تعلیم کے لیے بیچی تھی اس کے کانپتے ہاتھوں نے وہ رسیده محبت سے سنبھالی اور کہا کرم تم نے ہمارا سب کچھ دیا تم نے ہمیں عزت دی تم نے ہمیں امید دی
کچھ دن بعد سعدیہ کی طبیعت اچانک خراب ہوئی ڈاکٹروں نے کہا فوری علاج چاہیے مگر دوا اور نفسیاتی سکون دونوں درکار تھے کرم دین پھر شہر روانہ ہوا مگر اس بار واپسی نہ ہوئی وہ بیمار بستر سے اٹھ نہ سکا اور اسے دنیا سے رخصت ہونا پڑا گاؤں میں خبر پھیل گئی کہ باپ چلا گیا ہے لوگ آئے مگر سلمان نہ آیا وہ شہر میں اپنی نئی زندگی میں مصروف تھا
جب سلمان کو پتہ چلا تو اس کا دل جیسے ٹوٹ گیا وہ فوراً گاڑی نکال کر گاؤں پہنچا مگر قبر کھل چکی تھی اور کرم دین کی ٹھنڈی مٹی پر کاشت کرنے والی وہی رسید پڑی تھی جس میں اس نے اپنی محنت کا ثبوت چھپایا ہوا تھا سلمان نے زمین پکڑ لی اور رو پڑا یوں لگا کہ کامیابی کی سب روشنیاں اور سب نعمتیں اجڑ گئیں اس نے پہچانا کہ عزت اور محبت وہ قیمت نہیں جو باپ نے دی وہ صرف ایک دعاؤں کا خزانہ تھی جو اب اس کے ہاتھ سے رہ گئی تھی
سلمان نے قبر کے سامنے بیٹھ کر ہاتھ اٹھائے اور کہا یا اللہ مجھے معاف کر دے مجھے ہدایت دے میں نے اپنی اولاد کی قدر نہیں کی میں نے ماں اور باپ کی محبت کو بھلا دیا آج مجھے احساس ہوا کہ کامیابی کا مطلب صرف مرتبہ نہیں بلکہ والدین کی خدمت ہے اس دن سلمان کے آنکھوں سے جو آنسو نکلے وہ اس کا سچا معلوم تھا مگر کیشے کا پچھتاوا شاید زندگی بھر کا ساتھی بن گیا



تبصرے

New Urdu Stories

ماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانیماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

فاطمہ اور عمران کی موٹر وے پر آخری ملاقات — ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

امتحان کی گزرگاہ: ایک مخلص انسان کی کہانی"