Jootay Polish Karne Wali Bachchi Ki Kismat Ne Palat Kha Li | Emotional & Moral Story | Urdu Kahani


 جوتے پالش کرنے والی بچی کی قسمت نے پلٹ کھایا – ایک دل چھو لینے والی کہانی

نورپور کے ریلوے اسٹیشن پر صبح کی ہوا میں دھول کے ذرے اڑ رہے تھے اسٹیشن کے ایک کونے میں ایک چھوٹی سی بچی زمین پر بیٹھی تھی اس کے ہاتھ میں جوتا پالش کرنے کا برش اور ایک پرانا سا ڈبہ تھا اس کی عمر بمشکل آٹھ یا نو سال ہوگی مگر اس کے چہرے پر وقت سے پہلے کی سنجیدگی اور خاموشی لکھی ہوئی تھی اس کا نام انوشہ تھا اس کے چہرے پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی لیکن آنکھوں میں ایک عجیب سی روشنی تھی جیسے اندھیرے میں بھی امید باقی ہو اس کے کپڑے پرانے اور میلے تھے پاؤں میں پھٹی ہوئی چپلیں تھیں جن کے تسمے کئی بار دھاگے سے جوڑے گئے تھے مگر اس کے لہجے میں وہ معصومیت تھی جو دل کو چھو جائے وہ ہر آتے جاتے مسافر سے نرمی سے کہتی صاحب جوتے پالش کروا لیں صرف تیس روپے لگیں گے مگر اکثر لوگ اس کی آواز سنتے ہی نظر ہٹا لیتے کچھ جھڑک دیتے کچھ بنا دیکھے گزر جاتے کچھ کے چہرے پر ترس کی جھلک آتی مگر وہ بھی آگے بڑھ جاتے جیسے انوشہ کا وجود ان کے لیے بے معنی ہو وہ ہر بار تھوڑا سا رکتی دل تھوڑا سا ٹوٹتا مگر پھر وہ اپنے برش کو دیکھ کر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ دوبارہ کہتی صاحب جوتے پالش کروا لیں شاید یہ مسکراہٹ ہی اس کا سب سے بڑا ہتھیار تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اگر چہرے پر امید باقی رہی تو زندگی کبھی مکمل طور پر ہار نہیں مانے گی وہ صبح سویرے پلیٹ فارم پر آتی اور رات تک وہیں رہتی کبھی کبھی اسے ایک دو مسافر مل جاتے جو اس سے جوتے پالش کروا لیتے تو وہ شام کو کسی چھوٹے سے ہوٹل سے چائے کا کپ اور آدھا سموسہ خرید لیتی اور وہی اس کا کھانا ہوتا اس کے بعد وہ پلیٹ فارم کی سیڑھیوں کے نیچے ایک پرانے کپڑے پر بیٹھ جاتی جیب میں سے چند سکے نکال کر گنتی جنہیں وہ اپنی چھوٹی سی مٹھی میں بند کر لیتی جیسے کوئی خزانہ ہو پھر آسمان کی طرف دیکھتی اور آہستہ سے کہتی اللہ میاں کل بھی روزی دینا اس کے دل میں کہیں ایک دھندلی سی یاد باقی تھی اسے بس اتنا یاد تھا کہ وہ کبھی کسی ماں کے پاس ہنستی کھیلتی تھی مگر ایک دن بھیڑ میں بچھڑ گئی اور تب سے اسٹیشن ہی اس کا گھر بن گیا لوگ آتے جاتے ہیں ٹرینیں چلتی رہتی ہیں مگر انوشہ کی زندگی وہیں رکی ہوئی تھی جہاں سے شروع ہوئی تھی

اس دن سورج ذرا تیز تھا اسٹیشن کی پلیٹ فارم پر گرمی پھیل رہی تھی دھول اور شور کے درمیان انوشہ نے اپنی چادر سے چہرہ ڈھانپا اور تھوڑی دیر کے لیے دیوار سے ٹیک لگا لی تھی مگر بھوک کی ٹیس نے اسے پھر برش اٹھانے پر مجبور کر دیا وہ ہر آتے جاتے شخص سے امید باندھتی کہ شاید آج کوئی اس کے جوتے پالش کروائے گا مگر ہر بار مایوسی ملتی اور وہ پھر مسکرا دیتی جیسے خود کو یقین دلا رہی ہو کہ کل بہتر دن ہوگا اسی دوران ایک بڑی سیاہ گاڑی آ کر رکی دروازہ کھلا اور ایک شخص باہر نکلا جس کے لباس سے ظاہر تھا کہ وہ کسی بڑے عہدے پر ہوگا یا بہت مالدار آدمی ہوگا اس کے ہاتھ میں موبائل تھا اور چہرے پر تھکن مگر آنکھوں میں سختی تھی انوشہ بھاگ کر اس کے قریب گئی اور نرم لہجے میں بولی صاحب جوتے پالش کروا لیں بہت خوبصورت چمک آئے گی وہ شخص پہلے تو رکا نہیں مگر جب اس کی نظر انوشہ کے چہرے پر پڑی تو جیسے کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہو گیا جیسے ماضی کی کوئی بھولی ہوئی تصویر اس کے سامنے آ گئی ہو وہ کچھ دیر تک انوشہ کو دیکھتا رہا پھر آہستہ سے بولا تمہارا نام کیا ہے بچی انوشہ نے نظریں جھکا کر جواب دیا میرا نام انوشہ ہے صاحب وہ مسکرایا مگر مسکراہٹ کے پیچھے حیرانی چھپی ہوئی تھی اس نے جیب سے پیسے نکالے اور کہا آؤ میرے جوتے پالش کر دو وہ بیٹھ گئی برش چلنے لگا اور اس کے ہاتھوں سے چمک نکلنے لگی جیسے زندگی کا رنگ لوٹ آیا ہو وہ شخص مسلسل اس بچی کو دیکھتا رہا جیسے کسی کھوئی ہوئی چیز کی تلاش ختم ہو گئی ہو جب انوشہ نے جوتے چمکا کر واپس کیے تو اس نے جیب سے پانچ سو کا نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ میں رکھا انوشہ نے حیرت سے کہا صاحب اتنے پیسے میں نے صرف جوتے پالش کیے ہیں اس نے کہا باقی تمہارے مسکراہٹ کے ہیں تمہارے ہمت کے ہیں انوشہ کے چہرے پر حیرت کے ساتھ نرمی آ گئی اور اس کی آنکھوں میں پہلی بار خوشی کی چمک لہرائی وہ شخص تھوڑی دیر وہیں کھڑا رہا جیسے دل کچھ کہہ رہا ہو مگر الفاظ نہیں بن پا رہے پھر اس نے اپنی گاڑی کی طرف قدم بڑھائے لیکن اس کے قدم رک گئے جیسے دل نے کہہ دیا ہو کہ یہ بچی معمولی نہیں ہے اس کے اندر کوئی راز چھپا ہے وہ مڑا اور دوبارہ انوشہ کے پاس آیا پوچھا بیٹی تم یہاں اکیلی رہتی ہو انوشہ نے سر جھکا کر ہاں میں جواب دیا اور کہا مجھے اپنے گھر کا کچھ یاد نہیں بس اتنا پتہ ہے کہ میں چھوٹی تھی جب یہاں آ گئی تھی اس شخص کے دل پر جیسے کسی نے چوٹ ماری ہو اس نے ایک گہرا سانس لیا اور آہستہ سے کہا اگر تم چاہو تو میرے ساتھ چل سکتی ہو تمہیں کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی مگر انوشہ خاموش رہی اس کی آنکھوں میں خوف بھی تھا اور سوال بھی وہ نہیں جانتی تھی کہ قسمت اس کے لیے کیا لکھنے والی ہے

انوشہ نے سر جھکائے خاموشی اختیار کر لی اس کے دل میں ایک عجیب سا طوفان برپا تھا ایک طرف بھوک غربت اور تنہائی تھی تو دوسری طرف ایک اجنبی آدمی کی پیشکش جو اس کے لیے کسی خواب سے کم نہ تھی مگر اس کے اندر ایک خوف بھی تھا کہ کہیں یہ دھوکہ نہ ہو وہ آہستہ سے بولی صاحب آپ کون ہیں اس نے نرم لہجے میں کہا میرا نام ہارون ہے میں یہاں کے ایک بزنس گروپ کا مالک ہوں انوشہ نے حیرت سے کہا اتنے بڑے آدمی نے مجھ سے جوتے پالش کیوں کروائے ہارون نے آسمان کی طرف دیکھا اور بولا شاید اس لیے کہ زندگی نے مجھے دکھایا ہے کہ اصل سکون پیسے میں نہیں بلکہ احساس میں ہے اس کے دل میں ایک بھولا بسرا چہرہ ابھر آیا ایک ننھی سی بچی جو برسوں پہلے ایک حادثے میں کھو گئی تھی اس کا چہرہ انوشہ سے بہت ملتا جلتا تھا وہ کچھ دیر خاموش کھڑا رہا پھر بولا انوشہ اگر تم چاہو تو میرے ساتھ میرے گھر چل سکتی ہو میں تمہیں پڑھاؤں گا تمہیں نیا لباس دوں گا اور تمہاری زندگی بدل دوں گا انوشہ نے اپنے ہاتھوں میں پالش کا ڈبہ دیکھا اور دھیرے سے کہا صاحب میں ہر کسی پر یقین نہیں کرتی کیونکہ اکثر وعدے جھوٹے نکلے ہیں ہارون کے چہرے پر درد کی لکیر کھنچ گئی وہ بولا بیٹی میں تم سے وعدہ کرتا ہوں تمہیں کبھی دکھ نہیں دوں گا تمہیں وہ سب کچھ دوں گا جو تمہیں ملنا چاہیے تھا انوشہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اس نے پہلی بار محسوس کیا کہ کوئی اس کی بات سن رہا ہے کوئی اس کے وجود کو اہمیت دے رہا ہے ہارون نے ہاتھ بڑھایا مگر اس نے جھجک کر پیچھے ہٹنے کی کوشش کی پھر جیسے دل نے فیصلہ کر لیا ہو وہ آگے بڑھی اور آہستہ سے بولی اگر آپ سچ کہہ رہے ہیں تو میں چلتی ہوں ہارون کی آنکھوں میں نمی تھی وہ بولا آؤ بیٹی میری گاڑی میں بیٹھ جاؤ گاڑی چلی تو انوشہ نے شیشے سے باہر دیکھا اسٹیشن دور ہوتا جا رہا تھا جیسے اس کی پرانی زندگی پیچھے رہ گئی ہو اور ایک نیا سفر شروع ہونے والا ہو گاڑی ایک بڑے گھر کے سامنے رکی انوشہ نے حیرت سے آس پاس دیکھا اتنا خوبصورت گھر اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہی نوکرانیوں نے سلام کیا مگر انوشہ کے قدم کانپ رہے تھے ہارون نے نرمی سے کہا ڈرو نہیں یہ اب تمہارا گھر ہے وہ آہستہ سے بولی مگر میں تو ایک جوتے پالش کرنے والی لڑکی ہوں اس نے جواب دیا نہیں انوشہ اب تم وہ لڑکی نہیں اب تم ایک نئی کہانی کی شروعات ہو جسے قسمت نے خود لکھا ہے انوشہ کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے دل میں ایک عجیب سا سکون اترنے لگا جیسے برسوں بعد زندگی نے اس کے زخموں پر مرہم رکھ دیا ہو مگر اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس نئے گھر میں اس کی قسمت کا ایک نیا امتحان اس کا انتظار کر رہا ہے

رات کی ہوا نرم تھی چاند اپنے پورے حسن کے ساتھ آسمان پر چمک رہا تھا انوشہ اپنے نئے کمرے کی کھڑکی کے پاس بیٹھی تھی وہ سفید پردوں سے جھانکتی روشنی میں اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی جن ہاتھوں نے برسوں جوتے پالش کیے تھے آج وہ نرم بستر پر رکھے تھے دل میں ایک سوال تھا کیا واقعی قسمت بدل جاتی ہے یا یہ سب ایک خواب ہے اسی سوچ میں ڈوبی تھی کہ دروازہ آہستہ سے کھلا ہارون اندر آیا اس کے ہاتھ میں ایک پرانا فریم تھا اس نے کہا انوشہ میں تمہیں کچھ دکھانا چاہتا ہوں وہ فریم اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے بولا یہ میری بیٹی کی تصویر ہے جو برسوں پہلے کھو گئی تھی انوشہ نے تصویر پر نظر ڈالی تو اس کے دل کی دھڑکن رک سی گئی وہ بچی بالکل اس جیسی تھی وہ کانپتی ہوئی آواز میں بولی یہ تو میں ہوں ہارون کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے وہ بولا ہاں انوشہ تم ہی ہو میری کھوئی ہوئی بیٹی انوشہ کے قدموں تلے زمین نکل گئی اس کے لبوں سے بے اختیار نکلا ابو...! اور وہ دوڑ کر ان کے سینے سے جا لگی برسوں کی دوری، درد اور محرومی اس ایک لمحے میں ختم ہو گئی ہارون کے آنسو اس کے بالوں میں گر رہے تھے وہ بار بار کہہ رہا تھا بیٹی مجھے معاف کر دو میں نے تمہیں ڈھونڈنے کی ہر کوشش کی مگر زندگی نے تمہیں مجھ سے چھین لیا تھا انوشہ کے آنسو ہارون کے آنسوؤں میں مل گئے وہ کہنے لگی ابو میں نے آپ کو ہر رات یاد کیا ہے میں نے ہر دعا میں آپ کا نام لیا ہے مگر کبھی یقین نہیں آیا کہ آپ مل جائیں گے ہارون نے اسے مضبوطی سے سینے سے لگایا اور کہا آج کے بعد تم کبھی اکیلی نہیں رہو گی یہ گھر یہ سب کچھ تمہارا ہے انوشہ کی زندگی کا وہ لمحہ ایک خواب کی طرح تھا کل تک جو لڑکی اسٹیشن کے فرش پر بیٹھ کر جوتے پالش کرتی تھی آج وہ اپنے باپ کے بازوؤں میں سکون پا چکی تھی صبح جب سورج طلوع ہوا تو انوشہ نے کھڑکی سے باہر دیکھا روشنی پھیل رہی تھی جیسے اس کی قسمت میں بھی نیا سورج طلوع ہو گیا ہو اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور آہستہ سے کہا شکر ہے اے رب تو نے میری زندگی کو بکھرنے نہیں دیا بلکہ مجھے وہ پیار لوٹا دیا جس کی کمی نے میری روح کو رلایا تھا اس کے چہرے پر سکون تھا آنکھوں میں خوشی کے آنسو اور دل میں یقین کہ رب کبھی اپنی مخلوق کو اکیلا نہیں چھوڑتا زندگی کی سچائی یہی ہے کہ اندھیری رات کے بعد ہمیشہ ایک روشن صبح ضرور آتی ہے

وقت گزر گیا، سالوں بعد وہی لڑکی جو کبھی اسٹیشن پر جوتے پالش کرتی تھی، اب ایک تعلیم یافتہ اور باوقار لڑکی بن چکی تھی۔ قسمت نے اس کے زخموں پر مرہم رکھا تھا۔ اس کے چہرے پر وہی معصومیت تھی، مگر آنکھوں میں اب حوصلہ اور روشنی تھی۔ زندگی جیسے اس پر مسکرا رہی تھی۔

انوشہ اب ایک بڑی کمپنی میں کام کرنے لگی تھی۔ ایک دن دفتر میں ایک نوجوان آیا — بلند قامت، نفیس لباس میں، اور چہرے پر ایک خاص سکون۔ نام تھا ہارون علی، جو کمپنی کے مالک کا بیٹا تھا۔ اس کی نظریں جیسے کسی پر رکی ہوں — اور وہ تھی انوشہ۔

پہلی ملاقات میں ہی ہارون نے محسوس کیا کہ یہ لڑکی عام نہیں۔ گفتگو میں سادگی تھی مگر الفاظ میں ادب۔ اس کے چہرے پر غربت کا سایہ نہیں بلکہ ایمان اور عزت کا نور تھا۔

دونوں کے درمیان باتیں بڑھنے لگیں۔ انوشہ نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کوئی امیر شخص اس کے ماضی کے باوجود اس کے دل میں جگہ بنا سکتا ہے۔ مگر ہارون کے لہجے میں خلوص تھا، اور خلوص وہ شے تھی جو انوشہ نے ہمیشہ مانگی تھی۔

ایک شام وہ کمپنی کی چھت پر کھڑے سورج کو ڈوبتا دیکھ رہی تھی، ہارون آ کر بولا،

“زندگی کبھی آسان نہیں ہوتی، مگر جب نیت سچی ہو، تو راستے خود بن جاتے ہیں۔”

انوشہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، وہ آہستہ سے بولی،

“میں نے تو برسوں پہلے مانگا تھا کہ اللہ مجھے عزت دے، اب لگتا ہے اس نے میری سن لی۔”

وقت گزرتا گیا، اور ان کے دل ایک دوسرے سے جڑ گئے۔ ہارون نے اپنے والدین کو سب بتایا۔ پہلے تو حیرت ہوئی، مگر پھر جب انہوں نے انوشہ سے ملاقات کی، تو ان کی آنکھوں میں وہی عزت اور تربیت دیکھی جو امیری سے نہیں بلکہ کردار سے آتی ہے۔

شادی کا دن آیا، انوشہ نے سفید لباس پہنا، وہ چمک رہی تھی جیسے تقدیر نے اس کے دامن میں روشنی بھر دی ہو۔

جب نکاح ہوا، اس کی آنکھوں سے خاموش آنسو بہہ گئے — شکر کے، سکون کے، محبت کے۔

آج وہی لڑکی جو کبھی سرد بینچوں پر سو جاتی تھی، ایک بڑے گھر میں عزت و وقار سے جی رہی تھی۔ مگر وہ کبھی نہیں بھولی کہ اس کی اصل طاقت اس کی محنت اور دعا تھی۔ وہ اب بھی دل ہی دل میں رب سے کہتی —

“یا اللہ، جیسے تو نے میری سنی، ویسے ہر اُس بیٹی کی سن لے جو تنہا ہے مگر ا

مید پر زندہ ہے۔”


تبصرے

New Urdu Stories

ماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانیماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

فاطمہ اور عمران کی موٹر وے پر آخری ملاقات — ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

امتحان کی گزرگاہ: ایک مخلص انسان کی کہانی"