“Dil Aashna Ki Kahani | Pyar Se Nafrat Tak Ka Safar | Emotional & Heart Touching Urdu Story”


 دل آشنا محبت سے انتقام تک کا سفر

بس کرو زریاب، وہ مر جائے گی!"
آمنہ بیگم نے چیخ کر اپنے بیٹے کے ہاتھ روکے تھے۔
زریاب کے چہرے پر غصے کی سرخی پھیل گئی تھی۔
"مر جائے تو اچھا ہے، مجھے ایک وارث نہیں دے سکی!"
یہ کہہ کر وہ پلٹا اور اس نے سامنے کھڑی نرمین کو نفرت بھری نگاہ سے دیکھا۔

نرمین ساکت کھڑی تھی، آنکھوں میں آنسوؤں کا طوفان،
ہونٹ کپکپا رہے تھے مگر الفاظ جیسے گم ہو چکے تھے۔
"زریاب، میں نے کیا نہیں کیا تمہارے لیے؟
تمہاری خوشی، تمہارا گھر، تمہارے خواب...
سب اپنے ہاتھوں سے سجائے مگر تمہیں کبھی نظر نہ آیا۔"

زریاب نے طنزیہ ہنسی کے ساتھ کہا،
"تمہارے خواب؟ خواب تو وہ دیکھتے ہیں جو کچھ حاصل کر سکیں،
تمہارے نصیب میں تو محرومی لکھی ہے نرمین۔"

نرمین نے سر جھکا کر نم آنکھوں سے کہا،
"وارث چاہیے نا تمہیں؟ تو سنو...
تم باپ بننے والے ہو... مگر اب کبھی اپنے بچے کی شکل نہیں دیکھ سکو گے۔
یہ میرا وعدہ ہے!"

یہ کہہ کر وہ دروازے کی طرف بڑھی۔
اس کے قدموں کے نیچے فرش نہیں، جیسے دل کی زمین کانپ رہی ہو۔
دروازہ زور سے بند ہوا اور زریاب کے دل میں ایک سناٹا اتر گیا۔

آمنہ بیگم صدمے سے کرسی پر بیٹھ گئیں۔
ان کی لرزتی آواز نکلی،
"بیٹا... عورت اگر اولاد نہ دے سکے تو لوگ اسے بانجھ کہتے ہیں،
مگر اگر مرد احساس کھو دے، تو وہ انسان نہیں رہتا۔"

زریاب نے نظریں چرا لیں۔
کمرے میں خاموشی گونجنے لگی۔
ایک طرف غرور جیتا تھا، دوسری طرف محبت ہار گئی تھی۔

نرمین طوفانی رات میں گھر سے نکلی۔
بارش کے قطرے جیسے اس کے آنسوؤں کے ساتھ مل گئے ہوں۔
وہ آسمان کی طرف دیکھ کر بولی،
"اے میرے رب... میں نے سب برداشت کیا،
اب بس تو مجھے حوصلہ دے، اور میرا انصاف تو خود کر۔"

ہوا کے جھونکوں نے اس کے الفاظ اڑا دیے،
مگر اس کے دل کی ٹوٹ پھوٹ، وقت کے ساتھ بھی نہ بھر سکی۔
ایک درد، ایک کہانی، ایک خاموش چیخ...
جو تقدیر کی دیواروں میں گم ہو گئی۔

نرمین طوفان میں بھیگتی سڑک پر چلتی جا رہی تھی۔
بارش کی بوندیں جیسے اس کے دِل کے زخموں کو اور گہرا کر رہی تھیں۔
چہرے سے بہتے آنسو اور پانی کے قطرے آپس میں مل کر
ایک ایسی کہانی لکھ رہے تھے جو شاید قسمت نے پہلے ہی لکھی تھی۔

وہ اپنے میکے پہنچی تو دروازے پر کھڑی ماں نے جیسے اسے پہچانا ہی نہ ہو۔
"نرمین... یہ کیا حال بنا رکھا ہے؟"
ماں کے لبوں سے نکلا ہوا جملہ جیسے اس کے اندر تک اُتر گیا۔
نرمین نے ماں کے گلے لگتے ہی رونا شروع کر دیا،
"امی... میں نے سب برداشت کیا... لیکن اب مجھ میں حوصلہ نہیں رہا۔"

ماں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا،
"بیٹی، مرد اگر دل سے نکل جائے تو جسم کے ساتھ رہنا عبادت نہیں، اذیت ہے۔
اللہ سب دیکھ رہا ہے، صبر کر۔"

چند دن گزرے، مگر نرمین کی خاموشی بڑھتی گئی۔
اس کی آنکھوں کے نیچے سیاہ دائرے جیسے اس کے اندر کے اندھیروں کا عکس تھے۔
راتوں کو وہ چھت تلے جاگتی رہتی،
ہونٹوں پر صرف ایک نام ہوتا — زریاب۔
وہی شخص جس کے لیے اس نے خود کو قربان کیا،
اب وہی اس کی زندگی کا سب سے بڑا دکھ بن چکا تھا۔

ایک رات نرمین کو تیز بخار چڑھ گیا۔
ماں کے ہاتھوں میں کپکپی تھی،
ڈاکٹر نے آ کر خبر دی —
"انہیں آرام چاہیے، اور ایک بات اور... یہ ماں بننے والی ہیں۔"

ماں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
اللہ نے اپنی بندی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا تھا۔
لیکن نرمین کے چہرے پر خوف چھا گیا۔
"امی... اگر زریاب کو پتا چلا تو وہ بچہ بھی ختم کر دے گا..."

ماں نے اس کا ہاتھ تھاما،
"نہیں بیٹی، اب یہ بچہ تمہاری زندگی کا سہارا ہے، تمہارا مان ہے۔
اللہ جسے چاہے، جب چاہے عزت دے۔"

دن گزرتے گئے، نرمین کا پیٹ بڑھتا گیا۔
ہر کمرہ، ہر دیوار، ہر شام اسے زریاب کی یاد دلاتی۔
وہ سوچتی، کیا وہ کبھی پلٹ کر آئے گا؟
کیا وہ جان پائے گا کہ جس عورت کو اس نے بانجھ کہا،
وہی اس کے وجود کو آگے بڑھا رہی ہے؟

ایک دن جب بارش پھر سے برسنے لگی،
نرمین نے ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے،
"یا رب، اگر میرا نصیب ٹوٹ گیا تو بھی میرا ایمان نہ ٹوٹنے دینا۔
اس بچے کو سلامت رکھنا، یہ میرا سب کچھ ہے۔"

کمرے میں اذان کی آواز گونجی۔
نرمین کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔
شاید پہلی بار اس کے دل کو سکون ملا تھا۔
اس نے پیٹ پر ہاتھ رکھا،
اور دھیرے سے کہا،
"میرے بچے... اب تم ہی میری دنیا ہو۔"

زریاب کے دن اب اندھیروں میں بدل چکے تھے۔
وہ دفتر میں بیٹھا رہتا، مگر نظر ہر فائل سے پھسل کر خلا میں جا ٹھہرتی۔
کبھی کھڑکی سے باہر جھانکتا تو بارش کی بوندیں اسے نرمین کی یاد دلا دیتیں،
وہی نرمین جو ہر بارش میں مسکرا کر کہتی تھی،
“زریاب، بارش رب کی رحمت ہوتی ہے، غم نہیں۔”

اب وہی بارش اس کے لیے عذاب بن چکی تھی۔
ایک رات جب سب لوگ سو گئے،
زریاب نے میز پر رکھی نرمین کی پرانی تصویر اٹھائی۔
اس کے ہونٹ کپکپانے لگے،
“کاش میں سمجھ پاتا کہ محبت شک پر قربان نہیں کی جاتی۔
کاش میں اُس کے صبر کو اُس کی خاموشی سے پڑھ لیتا…”

اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
دل میں جیسے طوفان مچ گیا ہو۔
وہ خود سے کہنے لگا،
“میں نے اسے صرف اپنی ضد کے لیے کھو دیا۔
میں نے اُس عورت کو رُلایا جو میری زندگی کی روشنی تھی۔”

چند دن بعد ایک دوست نے بتایا،
“زریاب… تمہیں پتا ہے نرمین ماں بننے والی ہے؟”
یہ سنتے ہی زریاب کی سانس جیسے رک گئی۔
دنیا اس کی نظروں کے سامنے گھوم گئی۔
وہ چیخا، “کیا کہا تم نے؟ ماں بننے والی ہے؟”
دوست نے افسوس سے سر ہلایا،
“ہاں… وہ اپنی ماں کے گھر ہے، بیمار بھی رہتی ہے۔”

زریاب کے ہاتھوں سے موبائل گر گیا۔
اس کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر آنے لگے
جب اُس نے نرمین کو طلاق کے لفظوں سے توڑا تھا۔
اب وہ ہر لفظ، ہر جملہ اُس کے کانوں میں زہر بن کر گونج رہا تھا۔

رات کے پچھلے پہر وہ سیدھا سڑکوں پر نکل گیا۔
بارش ہو رہی تھی،
ہوا سرد تھی،
اور اُس کے دل میں صرف ایک فریاد تھی،
“یا اللہ، اگر تُو چاہے تو مجھے اُس تک پہنچا دے۔
میں اُس کے قدموں میں گر کر معافی مانگنا چاہتا ہوں۔”

وہ چلتا گیا، بھٹکتا گیا،
آخرکار ایک دروازے پر جا رکا —
وہی گھر جہاں کبھی نرمین کے قہقہے گونجتے تھے۔
اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
ماں باہر آئیں،
زریاب کو دیکھ کر لمحہ بھر کے لیے خاموش ہو گئیں۔
“بیٹا... اب کیوں آئے ہو؟ دیر ہو گئی ہے۔”

زریاب نے قدموں میں سر رکھ دیا۔
“امی… میں نے گناہ کیا ہے، میں نے اپنی جنت کو خود جلایا۔
مجھے ایک بار اُس کا چہرہ دیکھنے دو۔”

ماں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
انہوں نے کہا،
“آج نرمین اسپتال میں ہے، اس کی حالت ٹھیک نہیں۔
دعا کرو کہ اللہ اُس پر رحم کرے۔”

یہ سنتے ہی زریاب کا دل جیسے بند ہو گیا۔
وہ دوڑتا ہوا اسپتال پہنچا۔
دروازے کے باہر کھڑا ہوا،
اندر سے ڈاکٹر کی آواز آ رہی تھی —
“مریضہ کمزور ہے، مگر ماں اور بچہ دونوں ابھی محفوظ ہیں۔”

زریاب کی آنکھوں سے شکر کے آنسو نکل پڑے۔
لیکن جب وہ کمرے میں داخل ہوا،
نرمین نے کمزور نظروں سے اُسے دیکھا۔
چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی،
جیسے دل نے کہہ دیا ہو،
“تو واپس آ گیا…”

زریاب نے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا،
“نرمین… مجھے معاف کر دو۔
میں نے تمہیں نہیں سمجھا،
میں نے تمہارے درد کو اپنی انا کے نیچے دفنا دیا۔
لیکن آج میں سب کچھ چھوڑنے آیا ہوں —
بس تم اور یہ بچہ چاہیے۔”

نرمین کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
وہ بولی،
“زریاب، محبت کبھی ختم نہیں ہوتی،
بس وقت کے ساتھ بدل جاتی ہے۔
اگر سچ میں تم بدل گئے ہو تو میرے بچے کے باپ بن کر جیو،
میری محبت کے شوہر بن کر نہیں۔”

یہ جملہ زریاب کے دل میں تیر کی طرح لگا۔
لیکن اُس نے سر جھکا کر کہا،
“میں وعدہ کرتا ہوں، اب یہ میرا مقصد ہے۔”

نرمین کی آنکھیں بند ہو گئیں،
اور ایک ننھے بچے کی رونے کی آواز پورے کمرے میں گونج اٹھی۔
زندگی جیسے ایک بار پھر لوٹ آئی تھی۔
رات کی سیاہی میں حویلی کا صحن خاموش کھڑا تھا۔ ہر طرف ویرانی تھی، بس رامین کے دل میں ایک طوفان برپا تھا۔ وہ حویلی کے اُس کمرے میں کھڑی تھی جہاں کبھی ہنسی گونجتی تھی، جہاں زارباب کے قہقہے گونجتے تھے۔ آج وہاں صرف خاموشی تھی — وہ خاموشی جو دل کے اندر چبھتی ہے۔

زارباب کے قدموں کی چاپ دروازے پر سنائی دی۔ وہ آہستہ سے اندر داخل ہوا، مگر اب وہ رامین کا زارباب نہیں رہا تھا۔ چہرے پر ندامت، آنکھوں میں شکست، اور دل میں وہ احساس جو شاید برسوں بعد جاگا تھا۔
“رامین… میں تھک گیا ہوں، لڑتے لڑتے، خود سے، قسمت سے، تم سے…”
اس کی آواز میں وہ کپکپاہٹ تھی جو صرف پچھتاوے کے بعد آتی ہے۔

رامین نے آہستہ سے رخ موڑا۔ آنکھوں کے کناروں پر آنسو چمک رہے تھے، مگر وہ مضبوط لہجے میں بولی،
“اب دیر ہو چکی ہے زارباب، جو دل ٹوٹ جاتا ہے، وہ دوبارہ پہلے جیسا نہیں ہوتا۔ تم نے مجھے توڑا بھی اور پھر میری محبت کو سزا بھی دی۔”

زارباب چند قدم آگے بڑھا، اس کے قریب آیا۔
“میں نے تمہیں کھونے کے بعد جانا کہ محبت حکم سے نہیں، دل سے ہوتی ہے۔ میں بدلہ لینا چاہتا تھا، مگر تم نے میرے اندر کے انسان کو زندہ کر دیا۔”

رامین نے آنکھیں بند کر لیں، اس کی سانس لرز رہی تھی۔
“اگر تم سچ میں بدل گئے ہو زارباب، تو اب میری زندگی میں واپس آنے کی کوشش مت کرنا۔ بس دعا کرنا کہ میں تمہیں معاف کر سکوں۔”

ہوا کا جھونکا کمرے میں داخل ہوا۔ دیوار پر لٹکی ہوئی تصویر ہلکی سی ہلی — وہ تصویر جس میں رامین اور زارباب مسکرا رہے تھے، وقت کے کسی پرانے لمحے میں۔

زارباب نے تصویر کو دیکھا، پھر آہستہ سے بولا،
“رامین، میں تمہیں کبھی نہیں بھول پاؤں گا۔ تم نے میری زندگی کا وہ باب بند کر دیا جس میں نفرت تھی، اور وہ دروازہ کھولا جس کے پیچھے انسانیت تھی۔”

رامین نے ایک خاموش نظر اس پر ڈالی، اور آہستہ سے دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔
چاندنی صحن پر پھیل رہی تھی، اور زارباب کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو اس چاندنی میں چمک رہے تھے۔
وہ زمین پر بیٹھ گیا، اور آسمان کی طرف دیکھ کر بس اتنا کہہ سکا،
“اے رب! میں ہار گیا، مگر شاید یہی ہار میرا اصل جیت بن گئی۔”

اگلی صبح حویلی کے صحن میں اذان کی آواز گونجی۔
رامین جا چکی تھی، مگر اس کی خوشبو اب بھی اس گھر میں بسی ہوئی تھی۔
زارباب نے آنکھیں بند کیں، دل پر ہاتھ رکھا، اور پہلی بار دل سے “استغفار” پڑھا۔

محبت ختم نہیں ہوئی تھی، وہ بس ایک دعا بن گئی تھی —
ایسی دعا جو ہر صبح زارباب کی سانسوں میں زندہ تھی، اور ہر شام رامین کے آنسوؤں میں۔







تبصرے

New Urdu Stories

ماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانیماں کی محبت – ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

فاطمہ اور عمران کی موٹر وے پر آخری ملاقات — ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

امتحان کی گزرگاہ: ایک مخلص انسان کی کہانی"