Sali Se Nikah Ka Faisla | Islamic Moral Story In Hindi Urdu | Best Islamic Story In Urdu | Sachi Kahani
سالی سے نکاح کا فیصلہ
دلاور کی زندگی ایک عام انسان کی طرح گزر رہی تھی، لیکن اس کی بیوی نائمہ کی بیماری نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا تھا۔ وہ حاملہ تھی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزور ہوتی جا رہی تھی۔ گھر کا ماحول سنسان، خاموش، اور درد میں لپٹا ہوا لگتا تھا۔ ان دنوں نائمہ کی چھوٹی بہن نورین، ان کی خدمت کے لیے شہر سے آئی ہوئی تھی۔ نورین نہایت باحیا، نیک دل اور عبادت گزار لڑکی تھی۔ ساری رات جاگ کر تہجد پڑھتی، قرآن کی تلاوت کرتی اور خاموشی سے نائمہ کی دیکھ بھال کرتی۔ دلاور اکثر اسے حیرت سے دیکھتا کہ اتنی کم عمر لڑکی میں اتنی برداشت اور صبر کہاں سے آیا۔
ایک رات نائمہ نے آنسو بھری آنکھوں سے دلاور کی طرف دیکھا اور دھیرے سے بولی، “اگر میرے ساتھ کچھ ہو گیا تو نورین سے شادی کر لینا، شاید میرے گناہ کم ہو جائیں گے۔” دلاور کے قدموں تلے زمین کھسک گئی، اس نے کانپتے ہوئے لہجے میں کہا، “یہ کیسی باتیں کر رہی ہو نائمہ، تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔” مگر قسمت کے لکھے کو کون بدل سکتا ہے۔
کچھ دن بعد وہ دن آیا جس کا سب کو خوف تھا۔ نائمہ کو زچگی کے دوران شدید تکلیف ہوئی۔ دلاور اسپتال کے دروازے پر دعائیں مانگتا رہا مگر جب ڈاکٹر باہر آئے تو ان کے چہرے کی خاموشی سب کچھ کہہ گئی۔ نائمہ دنیا چھوڑ چکی تھی۔ دلاور کے اندر جیسے سب کچھ ٹوٹ گیا، دل، سکون، امید، سب ریزہ ریزہ ہو گئے۔
گھر میں ایک طرف ننھا عبد اللہ اپنی ماں کے بغیر بلک رہا تھا، دوسری طرف نورین، جو ہر لمحہ نائمہ کی قبر پر جا کر دعا کرتی۔ وقت گزرا تو اہلِ خانہ نے دباؤ ڈالا کہ دلاور نورین سے نکاح کر لے تاکہ بچے کو ماں کا پیار مل سکے۔ دلاور نے بہت سوچا، دل میں عجیب کشمکش تھی، مگر آخر کار نکاح ہو گیا۔
نکاح کے بعد دلاور نے سوچا کہ شاید نورین اب اس کے قریب آ جائے گی، لیکن وہ ہمیشہ خاموش رہتی۔ تہجد میں بیٹھی رہتی، عبادت کرتی، اور دلاور سے نظریں چراتی۔ دلاور نے کئی بار اس سے بات کرنے کی کوشش کی، مگر وہ ہر بار یا تو کاموں میں لگ جاتی یا بہانہ بنا کر کمرہ چھوڑ دیتی۔ اس کا دل ٹوٹتا گیا۔
دلاور راتوں کو جاگتا، سوچتا کہ آخر نورین کے دل میں کیا ہے؟ کیا وہ بھی نائمہ کی طرح اس کے لیے کوئی قربانی دینے جا رہی ہے؟ یا پھر اس کے دل میں کوئی ایسا راز چھپا ہے جو اسے سکون لینے نہیں دیتا۔ ہر دن ایک نیا زخم بن کر آتا، ہر رات دعا بن کر ختم ہوتی۔
وقت گزرتا گیا، مگر دلاور کے دل کی ویرانی کم نہ ہوئی۔ گھر میں اب بھی نائمہ کی یادیں سانس لیتی محسوس ہوتی تھیں، ہر کمرے میں اس کی مسکراہٹ گونجتی تھی، ہر دیوار پر اس کی خوشبو بسی تھی۔ حِنا اگر کبھی نائمہ کے کپڑوں کو تہہ کرتی تو اس کے ہاتھ کانپنے لگتے، آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگتے، اور وہ خاموشی سے کسی کونے میں جا کر رونا شروع کر دیتی۔ دلاور یہ سب دیکھتا مگر کچھ کہہ نہ پاتا، کیونکہ اس کے دل میں بھی ایک ایسا طوفان برپا تھا جسے وہ کسی سے بیان نہیں کر سکتا تھا۔
ایک دن دلاور نے نرمی سے کہا، “حِنا، میں جانتا ہوں تمہیں وقت چاہیے، مگر کم از کم مجھ سے دور تو مت رہو۔ ہم دونوں ایک ہی درد کے ساتھی ہیں۔”
حِنا نے نظریں جھکا کر جواب دیا، “میں آپ کا احترام کرتی ہوں، مگر دل کا بوجھ ابھی ہلکا نہیں ہوا۔ ہر بار جب آپ کو دیکھتی ہوں تو نائمہ یاد آ جاتی ہے، وہ لمحے آنکھوں میں زندہ ہو جاتے ہیں۔”
دلاور خاموش ہو گیا، کیونکہ وہ بھی جانتا تھا کہ محبت کے رشتے بھولے نہیں جاتے، بس دل کے کسی کونے میں دبا دیے جاتے ہیں، مگر مٹتے کبھی نہیں۔
رات کے سناٹے میں جب دلاور قرآن کھولتا تو اکثر وہی صفحہ کھل جاتا جہاں صبر اور تقدیر کا ذکر ہوتا۔ شاید اللہ اسے یاد دلا رہا تھا کہ جو گیا ہے وہ واپس نہیں آئے گا، مگر جو بچا ہے، اس کی حفاظت فرض ہے۔ عبداللہ اب بڑا ہو رہا تھا، “ابّو، امّی کہاں ہیں؟” وہ پوچھتا تو دلاور کے پاس الفاظ ختم ہو جاتے۔ اس وقت حِنا آہستہ سے آ کر بچے کو گود میں لے لیتی، “بیٹا، امّی جنت میں ہیں، تمہارے لیے وہاں دعا کرتی ہیں۔” اور دلاور صرف اسے دیکھتا رہ جاتا — وہ لمحہ اس کے دل میں جیسے سکون کے چند قطرے ڈال دیتا۔
ایک دن حِنا بیمار پڑ گئی۔ بخار نے اسے توڑ کر رکھ دیا۔ دلاور نے ساری رات اس کے سرہانے بیٹھ کر دعا کی۔ پہلی بار اسے احساس ہوا کہ وہ حِنا سے محبت کرنے لگا ہے، مگر یہ محبت عجیب تھی — اس میں ندامت بھی تھی، خوف بھی، اور شکر بھی۔ جب صبح حِنا کی آنکھ کھلی، تو اس نے دلاور کو قرآن ہاتھ میں لیے سوتا دیکھا۔ ایک پل کے لیے اس کے دل نے دھڑکنا بھول گیا۔ وہ جانتی تھی کہ دلاور کے دل میں احساس بدلنے لگا ہے، مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ اپنی بہن کی امانت ہے۔
“دلاور صاحب،” اس نے دھیرے سے کہا، “میں آپ کے لیے نہیں، بلکہ اس بچے کے لیے یہاں ہوں۔ نائمہ نے مجھ پر جو بھروسہ کیا تھا، وہ میں کبھی نہیں توڑ سکتی۔”
دلاور نے مسکرا کر کہا، “میں تم سے کچھ نہیں چاہتا، بس اتنا کہ کبھی یوں خاموش مت رہو کہ تمہارے آنسو میرے دل کو زخمی کر جائیں۔”
وقت اپنی رفتار سے چلتا رہا۔ دن رات کے بیچ اب ایک عجیب سا سکوت پھیل گیا تھا۔ دلاور کے دل میں محبت جاگنے لگی تھی، مگر حِنا کے دل میں قربانی کا جذبہ مضبوط ہوتا جا رہا تھا۔ وہ اپنے رب سے راتوں کو مانگتی، “یا اللہ! مجھے اتنی ہمت دے کہ میں اپنے جذبات کو عبادت بنا سکوں، گناہ نہیں۔”
وقت نے جیسے دلاور اور حِنا کے درمیان ایک خاموش معاہدہ لکھ دیا تھا — دونوں ایک دوسرے کے آس پاس تھے مگر دلوں میں دیواریں کھڑی تھیں۔ دلاور کبھی کبھی رات کے سناٹے میں جاگتا اور سوچتا کہ آخر زندگی نے اسے یہ موڑ کیوں دکھایا؟ ایک وقت تھا جب نائمہ کی ہنسی اس کی روح کو زندگی دیتی تھی، اور آج وہی ہنسی ایک یاد بن کر دل کے کسی گہرے کونے میں دفن ہو چکی تھی۔
ایک رات جب دلاور اپنے بیٹے عبداللہ کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا، حِنا نے آہستہ سے آ کر دروازے پر دستک دی۔ دلاور نے چونک کر کہا، “آؤ، حِنا۔ تمھیں آرام کرنا چاہیے تھا۔”
حِنا نے نظریں جھکائے کہا، “دل نہیں مان رہا تھا۔ سوچا ذرا عبداللہ کو دیکھ لوں، ساری رات بخار میں تپتا رہا ہے۔”
دلاور نے دھیرے سے کہا، “اللہ بہتر کرے گا۔ تم دعا کرو، تمھاری دعا قبول ہوتی ہے۔”
یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ چند لمحے بعد اس نے نرمی سے کہا، “حِنا… اگر میں تم سے ایک بات پوچھوں تو برا تو نہیں مانو گی؟”
حِنا نے کہا، “نہیں، کہیے۔”
“کیا تم کبھی اپنے دل میں میرے لیے کوئی جگہ بننے دیتی ہو؟”
یہ سن کر حِنا کی آنکھوں میں ایک نمی تیر گئی۔ اس نے آہستہ سے جواب دیا، “میں انسان ہوں، میرے اندر احساسات بھی ہیں، کمزوریاں بھی، مگر دلاور صاحب… نائمہ صرف آپ کی بیوی نہیں تھی، وہ میری بہن بھی تھی۔ اور بہن کے حصے کا پیار میں کبھی خود پر حرام نہیں کر سکتی۔”
دلاور کے دل پر جیسے کسی نے پتھر رکھ دیا ہو۔ وہ بہت دیر تک اسے دیکھتا رہا۔ “میں تمھاری قربانی سمجھتا ہوں، حِنا، لیکن میرا دل اب خالی نہیں رہتا۔ تمھاری خاموشی میرے اندر شور مچاتی ہے۔”
حِنا نے کہا، “شاید یہی ہماری آزمائش ہے۔ آپ کا دل چاہتا ہے محبت کرے، اور میرا دل چاہتا ہے رب کی رضا میں راضی رہے۔”
اسی رات دلاور نے تہجد کے وقت دعا میں ہاتھ اٹھائے، “یا اللہ، اگر یہ محبت میرے حق میں بہتر نہیں تو اسے میری آزمائش بنا دے، میرے گناہ کا سبب نہیں۔”
دعا کے الفاظ جیسے اس کے دل سے نکل کر آسمان تک پہنچ گئے۔
چند دن بعد عبداللہ کی طبیعت بہتر ہو گئی، لیکن دلاور کی حالت بگڑنے لگی۔ مسلسل بخار، کمزوری، اور تھکن نے اسے نڈھال کر دیا۔ حِنا نے اس کی خدمت ایسے کی جیسے وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز ہو۔ وہ رات رات جاگتی، پانی دیتی، دوا کھلاتی، اور خاموشی سے آنسو پونچھتی۔
ایک رات جب دلاور کو ہوش آیا تو اس نے حِنا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور کہا، “اگر میری زندگی ختم ہو گئی تو وعدہ کرو تم اس بچے کو کبھی تنہا نہیں چھوڑو گی۔”
حِنا نے روتے ہوئے کہا، “ایسا مت کہیے، آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔ اللہ آپ کا سہارا ہے۔”
دلاور مسکرا کر بولا، “اللہ ہی تو سب کچھ ہے، اور تم اس کی سب سے بڑی نعمت ہو۔ کاش وقت ہمیں ایک دوسرے کا حق دیتا…”
حِنا پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ اس لمحے اسے احساس ہوا کہ محبت صرف چاہت کا نام نہیں، قربانی اور صبر کا دوسرا چہرہ بھی ہے۔
صبح جب سورج نکلا تو دلاور کی طبیعت کچھ بہتر تھی، مگر دلوں کا موسم اب بدل چکا تھا۔ حِنا کے دل میں ایک نئی دعا جنم لے چکی تھی —
“یا رب، اگر میری محبت حلال نہیں، تو اسے عبادت بنا دے۔ اگر یہ جدائی مقدر ہے، تو مجھے صبر دے۔”
دن گزرتے گئے، موسم بدلتے گئے مگر دلاور اور حِنا کی زندگی جیسے ایک جگہ آ کر رک گئی تھی۔ وہ دونوں ایک ہی گھر میں رہتے مگر ایک دوسرے سے جیسے میلوں دور تھے۔ دلاور کی آنکھوں میں اب بھی نائمہ کی یادوں کا عکس باقی تھا، اور حِنا کے دل میں ایک ایسا درد تھا جو کبھی زبان پر نہ آیا۔
عبداللہ اب تین سال کا ہو چکا تھا، اور دلاور کی زندگی کا واحد سکون وہی بچہ تھا۔ ایک دن جب وہ کھیلتے کھیلتے حِنا کے پاس آیا تو بولا،
“امی، ابو ہمیشہ آپ کو اداس کیوں دیکھتے ہیں؟ کیا آپ ان سے ناراض ہیں؟”
یہ سن کر حِنا کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ وہ کچھ کہے بغیر عبداللہ کو سینے سے لگا کر بولی،
“نہیں بیٹا، میں ناراض نہیں ہوں، بس کبھی کبھی دل تھک جاتا ہے۔”
اس رات دلاور دیر سے گھر آیا۔ بخار نے اسے نڈھال کر رکھا تھا۔ حِنا نے دوا دی، تیمارداری کی، مگر وہ خاموش رہا۔
“کچھ کہنا ہے آپ کو؟” حِنا نے آہستہ سے پوچھا۔
دلاور نے نظریں جھکا کر کہا،
“ہاں، مگر اب شاید دیر ہو گئی ہے۔”
“دیر؟ کس بات کی؟”
دلاور نے گہرا سانس لیا، “محبت کے اقرار کی۔ حِنا، تمھاری خاموشی نے مجھے جینے نہیں دیا۔ میں تم سے کچھ مانگنا چاہتا ہوں… اگر تم اجازت دو تو؟”
حِنا کی آنکھیں بھر آئیں، “کیا مانگنا چاہتے ہیں آپ؟”
“ایک دعا… کہ اگلی زندگی میں اگر ملوں تو تم مجھے نائمہ کی طرح نہ، بلکہ میری اپنی بن کر ملنا۔”
یہ کہتے ہوئے دلاور کی آواز ٹوٹ گئی۔ وہ تھک کر لیٹ گیا، اور حِنا نے آہستہ سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ آنکھوں سے بہتے آنسو اس کے بالوں میں جذب ہو گئے۔
“اللہ کرے آپ ہمیشہ سلامت رہیں، یہی میری دعا ہے۔”
لیکن اس رات جیسے دعائیں بھی خاموش ہو گئی تھیں۔
صبح جب حِنا نے دروازہ کھولا تو دلاور پرسکون نیند میں تھا۔ اُس کے چہرے پر عجیب سا سکون تھا، جیسے برسوں کا بوجھ اتر گیا ہو۔ حِنا قریب گئی، اس کے ماتھے کو چھوا، مگر وہ لمس ہمیشہ کے لیے ٹھنڈا ہو چکا تھا۔
کمرے میں ایک خط رکھا تھا، دلاور کے ہاتھ کا لکھا ہوا —
> "حِنا،
تم نے اپنی قربانی سے میرا ایمان بچا لیا۔ میں گناہ کے قریب تھا مگر تم نے مجھے عبادت سکھا دی۔
اگر محبت حرام لگتی تھی تو تم نے اسے دعا بنا دیا۔
عبد اللہ کو میرا نہیں، اپنا بیٹا سمجھنا۔
میں جا رہا ہوں، مگر میرا دل تمھارے صبر کے قدموں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
— دلاور"
خط کے آخری لفظوں پر حِنا کے آنسو گرنے لگے۔ اس نے عبد اللہ کو گود میں اٹھایا اور آسمان کی طرف دیکھ کر بس اتنا کہا:
“یا رب، اس مرد کی محبت کا بدلہ اسے جنت میں دے دینا، کیونکہ اس نے دنیا میں صرف صبر کیا ہے۔”
اس دن کے بعد حِنا کبھی کسی سے زیادہ بات نہ کرتی۔ وہ عبداللہ کو پڑھاتی، نماز پڑھتی، اور رات کے آخری پہر رب کے سامنے بیٹھ کر دعا کرتی —
“محبت کبھی ختم نہیں ہوتی، وہ بس رنگ بدل لیتی ہے… کبھی آنسو بن جاتی ہے، کبھی دعا۔”
اور یوں یہ کہانی ختم ہوئی —
ایک بیوہ عورت کی خاموش عبادت اور ایک شوہر کے ادھورے احساسات کے ساتھ،
جہاں محبت گناہ نہیں، عبادت بن گئی۔
---

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
"Shukriya! Apka comment hamaray liye qeemati hai."