“Ek Ghalat Chahat Ki Kahani | Dil, Faislay Aur Pachtaway – Emotional Urdu Story”
“دل بہک گیا اور رشتے ٹوٹنے لگے”
میرا نام فہد ہے میں لاہور میں ایک چھوٹی سی پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتا تھا زندگی عام تھی مگر سکون بھری تھی کیونکہ میں نے اپنی پسند سے شادی کی تھی نادیہ سے میرا یونیورسٹی کا ساتھ تھا وہ سادہ مزاج لڑکی تھی مگر دل کی بہت صاف تھی میں نے اس کے ساتھ رہ کر سیکھا تھا کہ محبت کبھی ظاہری حسن میں نہیں ہوتی بلکہ دل کے سچ میں ہوتی ہے ہماری شادی دھوم دھام سے ہوئی تھی اور گھر والوں نے بھی خوشی خوشی قبول کیا تھا شادی کے بعد چند مہینے بڑے سکون سے گزرے نادیہ ہر صبح میرے لئے ناشتہ بناتی سلام کرتی اور مجھے رخصت کرتی تو میری ساری تھکن دور ہو جاتی تھی میں سمجھتا تھا کہ میری دنیا مکمل ہو چکی ہے
ایک دن نادیہ نے بتایا کہ اس کی چھوٹی بہن مائرہ امریکہ سے واپس آ رہی ہے وہ کچھ سال پڑھائی کے لیے گئی تھی اور انہی دنوں میں ہم دونوں کی شادی ہو گئی تھی اس نے کہا کہ مائرہ نے تو مجھے شادی میں بھی نہیں دیکھا میں نے ہنستے ہوئے کہا پھر تو وہ تمہیں دیکھ کر حیران رہ جائے گی نادیہ ہنسی اور بولی وہ بہت تیز مزاج ہے بس دیکھ لینا تم اس کی باتوں سے پریشان نہ ہونا میں نے کہا پریشان تو میں تمہارے بغیر ہوتا ہوں مائرہ سے بھلا کیا ڈرنا
اگلے دن ہم ائیرپورٹ گئے مائرہ باہر نکلی تو ایک لمحے کو میں جیسے رک گیا وہ میری توقع سے زیادہ بدل چکی تھی اس کا انداز مغربی ہو چکا تھا بال رنگے ہوئے چہرے پر عجیب سا اعتماد اور آنکھوں میں اک تیزی تھی وہ آگے بڑھی اور نادیہ سے لپٹ گئی پھر اس نے مجھے دیکھا اور سر ہلا کر سلام کیا ایک لمحے کو مجھے ایسا لگا جیسے میری نظر ٹھہر گئی ہو مگر میں نے فوراً اپنے دل کو ڈانٹا کہ یہ سوچ غلط ہے میں نادیہ کے ساتھ ہوں اور یہ سب فالتو خیالات ہیں
گھر کے راستے میں بھی مائرہ کی باتیں رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں وہ امریکہ کے قصے سنا رہی تھی اور نادیہ بے حد خوش ہو کر سنتی جا رہی تھی میں گاڑی چلا رہا تھا مگر دل میں ایک عجیب سی بے چینی تھی جیسے ماحول بدل رہا ہو جیسے کوئی نئی کہانی شروع ہونے والی ہو شام کو جب ہم گھر پہنچے تو نادیہ نے چائے بنائی اور مائرہ کو اپنے کمرے میں لے گئی وہ دونوں دیر تک ہنستی رہیں مگر میں خاموش بیٹھا رہا مجھے خود سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ مجھے کیا ہو رہا ہے نادیہ کمرے میں آئی تو میں نے مصنوعی مسکراہٹ سے کہا تم دونوں نے تو آج میرا وجود ہی بھلا دیا وہ ہنسی اور بولی ارے نہیں ایسی کوئی بات نہیں مائرہ نے تمہاری بہت تعریف کی ہے میں نے چونک کر پوچھا کس بات کی نادیہ نے کہا وہ کہہ رہی تھی کہ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے تم جیسا شوہر ملا ہے
میں نے سر جھکا لیا دل کے اندر کچھ ہلنے لگا تھا شاید فخر شاید غرور شاید کوئی ایسی چیز جو مجھے خود سے بھی چھپانی تھی مگر میں خاموش رہا اس رات نادیہ جلدی سو گئی مگر میں دیر تک جاگتا رہا چھت کو گھورتا رہا یہ سوچتا رہا کہ کیوں مجھے مائرہ کا خیال بے چین کر رہا ہے کیوں میری نظر بار بار اس کی یاد پر ٹھہر جاتی ہے میں نے دل کو سمجھایا کہ یہ صرف وہم ہے مگر وہم کبھی صرف وہم نہیں ہوتا وہ حقیقت کی پہلی دستک ہوتا ہے
اور میری زندگی پر پہلی دستک اسی رات پڑ چکی تھی
بس مجھے اس کی آواز ابھی واضح سنائی نہیں دے رہی تھی
اگلی صبح جب میں دفتر جانے کی تیاری کر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ نادیہ اور مائرہ دونوں کچن میں کھڑی تھیں نادیہ ناشتا بنا رہی تھی اور مائرہ کھڑی ہو کر اسے مسلسل دیکھ رہی تھی جیسے اسے گھر کے ہر کونے کا جائزہ لینا ہو جیسے وہ واپس آنے کے بعد یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو کہ یہاں اب کیا بدل چکا ہے میں نے سلام کیا تو مائرہ نے ہلکے سے جواب دیا اس کی آواز میں عجیب سی بے رخی تھی جیسے وہ ابھی بھی اسی دنیا میں ہو جہاں سے آئی ہے اور یہاں کے ماحول کو قبول کرنے میں اسے وقت لگ رہا تھا
میں ناشتہ کر رہا تھا کہ مائرہ اچانک بولی فہد مجھے لگا تھا تم زیادہ بولنے والے اور ہنسی مذاق والے انسان ہو مگر تم بہت سنجیدہ لگتے ہو میں نے نادیہ کی طرف دیکھا وہ مسکرا رہی تھی جیسے وہ اس جملے میں کوئی خاص بات محسوس نہ کر رہی ہو مگر مجھے لگا جیسے مائرہ نے یہ بات کچھ سوچ کر کہی ہو میں نے نرمی سے جواب دیا ہر شخص کا انداز الگ ہوتا ہے مائرہ نے کندھے اچکا کر کہا شاید مگر میں نے نادیہ کو بتایا تھا کہ تم بہت خوش مزاج ہو نادیہ فوراً بولی وہ خوش مزاج ہی ہیں بس تمہیں ان سے بات کرنے میں وقت لگے گا
میں دفتر گیا تو ذہن میں بار بار مائرہ کی آواز گونجتی رہی بے مقصد سوال بے وجہ باتیں مگر دل کو بے چین کرنے والی فطری بے چینی شام تک میرے ساتھ رہی میں گھر پہنچا تو دیکھا کہ نادیہ باورچی خانے میں مصروف ہے اور مائرہ لاؤنج میں بیٹھی ہے ہاتھ میں موبائل ہے اور کانوں میں ہینڈ فری میں نے قریب سے گزرتے ہوئے کہا سب ٹھیک ہے وہ چونکی اور اس نے ہینڈ فری نکالا اور بولی ہاں سب ٹھیک ہے بس کچھ پرانے دوستوں سے بات ہو رہی تھی پھر وہ ایک لمحے کو خاموش ہوئی اور بولی ویسے فہد تم بہت بدل گئے ہو میں حیران ہوا اور پوچھا میں کیسے بدل گیا ہوں وہ مجھے دیکھ کر بولی بس ایسا لگتا ہے کہ تم اب نادیہ سے ذرا دور ہو چکے ہو جیسے تمہارے اور اس کے بیچ کوئی جگہ بن گئی ہو
اس نے یہ کہا اور میں سکتے میں آ گیا میرے دل میں جیسے کسی نے گہرا وار کیا ہو میں نے سختی سے جواب دیا نادیہ میری بیوی ہے اور میرے دل میں اس کی جگہ کوئی نہیں وہ ہنس پڑی ایک ایسی ہنسی جس میں شرارت بھی تھی طنز بھی تھا اور کوئی عجیب سی گہرائی بھی تھی اس نے کہا اچھا تو پھر یہ تمہارے چہرے پر بے چینی کیسی ہے جب سے میں آئی ہوں تم عجیب ہو گئے ہو تمہاری آنکھیں کچھ اور کہہ رہی ہیں مگر تم خود کچھ اور بنے بیٹھے ہو
میں نے فوراً پلٹ کر کچن کی طرف دیکھا نادیہ نے شاید یہ بات نہ سنی ہو مگر مائرہ کی آواز میرے دل میں چبھ رہی تھی شاید اس لئے کہ اس نے وہ بات کہہ دی تھی جو میں خود سے بھی چھپا رہا تھا میں نے سخت سانس بھری اور کہا تم حد سے آگے بڑھ رہی ہو مائرہ اس نے بے فکری سے ہاتھ ہلایا اور بولی شاید مگر کبھی کبھی انسان کی آنکھیں وہ باتیں بتا دیتی ہیں جنہیں زبان کہنا نہیں چاہتی
اس رات میں نے بہت کوشش کی کہ نادیہ سے عام طرح کی بات کروں مگر ذہن میں ایک ہی سوال گردش کرتا رہا کیا واقعی میری آنکھوں میں کوئی ایسی بات تھی جو مائرہ نے دیکھ لی تھی اور میں بھی نہ دیکھ پایا تھا میں دل سے نادیہ سے محبت کرتا تھا مگر اچانک میری زندگی میں ایک عجیب سا سایہ اتر آیا تھا جسے میں ہٹا نہیں پا رہا تھا
رات گئے نادیہ سو گئی اور میں بے چین ہو کر اٹھا میں نے کھڑکی کھولی تو باہر ہوا چل رہی تھی مگر میرے دل کی ہوا رک گئی تھی جیسے ماحول میں کوئی انجانی تبدیلی آگئی ہو جیسے کہانی کا وہ رخ شروع ہو گیا ہو جس کا مجھے ڈر تھا اور شاید یہ ڈر حقیقت کا روپ لینے والا تھا
اگلے چند دن میرے لیے عجیب سے گزرنے لگے گھر میں سب کچھ معمول کے مطابق تھا مگر میرے اندر کچھ بدل رہا تھا جو میں چاہ کر بھی روک نہیں پا رہا تھا نادیہ ہمیشہ کی طرح میرا خیال رکھتی میرے لیے کھانا بناتی میرے کپڑے استری کرتی اور میری ہر بات پر ہنس دیتی مگر میرے دل کی گہرائی میں ایک بے نام سا اضطراب جنم لے چکا تھا جس کا نام لینے کی میں ہمت نہیں کرتا تھا یہ وہ احساس تھا جو میں کسی سے بانٹ نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کا وجود ہی میرے اپنے ضمیر کے خلاف تھا
ایک شام بارش ہو رہی تھی نادیہ نے کھانے کی میز لگائی اور وہ مائرہ کو بلا رہی تھی مگر وہ کمرے میں ہی رہی نادیہ نے مجھے دیکھ کر کہا شاید اس کا موڈ ٹھیک نہیں میں اسے لے آتی ہوں میں نے کہا چھوڑ دو وہ خود آجائے گی نادیہ مسکرا کر بولی تم دونوں ایک دوسرے سے ناراض تو نہیں میں نے فوراً کہا ایسی کوئی بات نہیں مگر میرا دل میرے الفاظ کی تصدیق نہیں کر رہا تھا
کچھ دیر بعد مائرہ باہر آئی اس نے بارش کی طرف دیکھا اور کہا لاہور کی بارشیں عجیب ہوتی ہیں انسان کے اندر تک چلی جاتی ہیں وہ سامنے آکر بیٹھ گئی اور اس نے نادیہ سے کہا باجی آپ کھانا نکالیں میں ذرا فہد سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں نادیہ بے فکری سے مسکرا کر چلی گئی مگر میرے اندر جیسے آگ جل اٹھی کہ وہ ایسی بات کیوں کر رہی ہے جیسے ہم دونوں کے درمیان کوئی خفیہ بات ہو
مائرہ نے آہستہ آواز میں کہا تم نے جانا ہے کہ میں تمہیں کیوں دیکھتی رہتی ہوں تم نے محسوس کیا ہے کہ تم میرے اندر تک اتر چکے ہو تم شاید خود کو روک رہے ہو مگر تمہاری خاموشی وہ سب کچھ بتا رہی ہے جو تم زبان سے نہیں کہہ سکتے میں حیرت سے کھڑا رہ گیا جیسے زمین پیروں سے کھسک گئی ہو میں نے سخت لہجے میں کہا تمہیں کچھ غلط فہمی ہو رہی ہے نادیہ میری بیوی ہے میری محبت ہے میرا گھر ہے میں اس کی امانت ہوں
مائرہ نے نظروں کو جھکایا اور دھیرے سے کہا ہاں وہ تمہاری محبت ہے مگر کبھی کبھی زندگی انسان کو ایک لمحہ ایسا دکھا دیتی ہے جو سب رشتوں کے بیچ آ کر کھڑا ہو جاتا ہے میں جانتی ہوں تم اچھے انسان ہو تم غلط قدم نہیں اٹھاؤ گے مگر تمہاری بے چینی تمہارے دل کی آواز ہے تم چاہو تو جھٹلا دو مگر دل کبھی جھوٹ نہیں بولتا فہد میں کوشش کر رہی ہوں مگر میں خود کو روک نہیں پا رہی
میری سانس رُک گئی میری آواز بند ہو گئی اور میرا دل کسی وحشت کی دیوار سے ٹکرا گیا میں نے پیچھے ہٹ کر کہا تم خاموش رہو اس سے آگے کچھ کہنا گناہ ہو گا تم یہ بات پھر کبھی نہ دہرانا مائرہ نے لمبی نظر مجھ پر ڈالی جیسے وہ میری فیصلہ کن بات کو مان تو رہی تھی مگر اس کے اندر کوئی جنگ ابھی بھی ختم نہیں ہوئی تھی
نادیہ نے پیچھے سے آ کر آواز دی کھانا تیار ہے ہم دونوں چونک کر سیدھے ہو گئے نادیہ نے جیسے کچھ محسوس کیا ہو مگر وہ بولی نہیں وہ ہمیشہ کی طرح معصوم تھی بھروسے سے بھری ہوئی نرمی سے بھری ہوئی میں نے اس کی طرف دیکھا اور میرا دل کانپ اٹھا مجھے ایسا لگا جیسے میں کسی بہت بڑے دھوکے کے کنارے کھڑا ہوں اور مجھے صرف ایک قدم پیچھے ہٹ جانا چاہیے مگر وہ قدم اٹھ نہیں رہا تھا
رات گہری ہو گئی نادیہ سو گئی مگر میں جاگتا رہا میرے دل کی دیواروں پر مائرہ کی آواز مسلسل گونج رہی تھی تمہارے دل کی بے چینی چیخ رہی ہے فہد تم جھوٹ بول رہے ہو تم خود سے بھی
میں نے چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا جیسے اپنے ہی اندر سے بھاگ رہا ہوں مگر جذبات سے بھاگنا ممکن نہیں ہوتا جذبات وہ بارش ہیں جو چاہے جتنا روک لو کسی نہ کسی دراڑ سے اندر ٹپک ہی جاتے ہیں
اور میرے اندر اب بارش کی پہلی بوند گر چکی تھی
رات گہری تھی مگر میرے دل کے اندر ایک ایسی آگ جل رہی تھی جس نے میری نیند سکون اور سوچ سب کچھ جلا کر راکھ کر دیا تھا میں خود سے لڑ رہا تھا خود سے جھگڑ رہا تھا اور سب سے زیادہ خود سے شرما رہا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ جو احساس میرے دل میں مائرہ کے لیے پیدا ہو چکا ہے وہ غلط ہے نادیہ کی محبت بھروسہ اور پاکیزہ دل میرے سامنے کھڑے تھے اور میں ان کی نظروں میں کبھی گرنا نہیں چاہتا تھا مگر اندر کی ٹوٹ پھوٹ کسی انجام کی تلاش میں تھی
اگلے دن ماحول عجیب سا رہا نادیہ حسب معمول ہنستی رہی میرے اردگرد پھرتی رہی مگر میں اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھ پا رہا تھا مائرہ گھر کے کونے کونے میں خاموشی کی طرح موجود تھی وہ کچھ نہیں بول رہی تھی مگر اس کی آنکھوں میں وہی کیفیت تھی جو ہماری خاموشی میں چھپی ہوئی تھی جیسے دونوں کو احساس ہو چکا تھا کہ یہ خاموش راستہ کہیں خطرناک موڑ تک جا سکتا ہے
رات ہوئی تو نادیہ کے امی ابو آئے سب نے مل کر کھانا کھایا سب کے درمیان خوشی تھی ہنسی تھی مگر میں اندر سے ٹوٹ رہا تھا نادیہ کھانا بنا کر لا رہی تھی اور میں ہر لمحہ سوچ رہا تھا کہ میں اس محبت کا بدلہ کس طرح دے سکتا ہوں جسے میں نے خود داغدار کیا ہے وہ نیکی تھی میں کمزوری تھا وہ محبت تھی میں بے چینی تھا وہ روشنی تھی میں اندھیرا تھا
کھانے کے بعد مائرہ نے کہا میں چھت پر جاتی ہوں کچھ ہوا لیتی ہوں نادیہ نے کہا مجھے بھی سردی لگ رہی ہے تم ہی چلی جاؤ تم دونوں کو باتیں کرنی ہوں میں اندر کام کرتی ہوں نادیہ نے یہ ایسے کہا جیسے اسے یقین تھا کہ میرا اور مائرہ کا رشتہ بالکل صاف شفاف ہے وہ بھروسے سے پاک تھی جیسے ہم دونوں دنیا کے سب سے سچے انسان ہوں نادیہ کا بھروسہ میرے دل پر بھاری پتھر کی طرح گر گیا
میں چھت پر پہنچا تو مائرہ ہوا کے رخ پر کھڑی تھی آنکھوں میں نمی تھی اس نے میری طرف دیکھ کر کہا فہد انسان اپنی کمزوریوں سے بھاگ نہیں سکتا مگر اپنی نیکیوں سے جیت سکتا ہے میں نے سر جھکا کر کہا مائرہ یہ جو کچھ میرے دل میں ہے یہ غلط ہے میں خود کو بھی نہیں معاف کر سکتا تم مجھے بتاؤ یہ سب کس انجام پر جائے گا
مائرہ نے دیر تک میری طرف دیکھا پھر آہستہ سے بولی فہد میں نے تمہارے دل کی بے چینی محسوس کی ہے اس میں کوئی شک نہیں مگر میرے اندر تمہارے لیے کبھی بھی وہ نیت نہیں تھی جو تم سمجھتے ہو میرے دل میں تمہارے لیے صرف ہمدردی تھی صرف احترام تھا تم نے اسے جو رنگ دیا وہ تمہارے اندر کے خلا نے دیا میں وہ نہیں ہوں جو کسی رشتے کے درمیان آ جائے میں وہ بننا بھی نہیں چاہتی میں نادیہ کی محبت کی دشمن نہیں بننا چاہتی
میری آنکھیں نم ہو گئیں جیسے کسی نے مجھے آئینہ دکھا دیا ہو مائرہ نے کہا فہد نادیہ تمہاری زندگی ہے تمہاری سانس ہے اس کے ساتھ ایک لمحہ گزارنے کے لیے لوگ دعائیں مانگتے ہیں وہ محبت ہے جو قسمت والوں کو ملتی ہے وہ اکیلی ہے جو تمہیں خدا کی طرح چاہتی ہے اور تم اس کے دل کو ایسے زخم نہیں دے سکتے جو تم جیسے شخص کا مقدر نہیں ہونا چاہیے
میں ٹوٹ کر اس کے سامنے بیٹھ گیا اور کہا مائرہ مجھے معاف کر دو میں نے خود کو ضائع کیا ہے میں نے خود کو بددعا کے راستے پر ڈال دیا تھا اس نے نرمی سے سر ہلایا اور کہا تمہارے دل میں جو طوفان تھا وہ ابھی رکے گا مگر تمہیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ تم کس راستے پر رہو گے
نادیہ اوپر آئی تو ہماری گفتگو اچانک رک گئی اس کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی جیسے وہ سب جانتی ہو مگر کچھ بھی نہ بولے وہ بولی فہد نیچے چلو کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے مجھے تم پر فخر ہے اور ہمیشہ رہے گا یہ الفاظ میرے دل پر کسی روشنی کی لکیر کی طرح اتر گئے
اگلی صبح مائرہ نے گھر چھوڑ دیا وہ اپنے شہر واپس چلی گئی نادیہ کو کہا میں پڑھائی مکمل کرنا چاہتی ہوں اور وہ چلی گئی جاتے جاتے اس نے بس ایک جملہ کہا بہنوں کی زندگی میں بہنوئیوں کی جگہ صرف احترام ہے اس سے آگے کچھ بھی گناہ ہے اس سے آگے کچھ بھی موت ہے
اس کے جانے کے بعد نادیہ میرے پاس آئی اور بولی فہد زندگی میں جذبات آکر رک جاتے ہیں مگر انسان وہ ہے جو اپنے جذبات کو پاکیزہ رکھتا ہے میں نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا میں نے غلطی کی تھی مگر اب میں کبھی کسی راستے پر نہیں جاؤں گا جو تمہیں تکلیف دے نادیہ نے مسکرا کر کہا میں نے تمہیں چنا تھا میں تمہیں آج بھی چنتی ہوں
اس دن کے بعد میں نے نادیہ کی محبت کو عبادت بنا لیا اپنے گھر کو سکون بنا لیا اور اپنے دل کو مضبوط کر لیا کہ غلط راستے کبھی دل کے دروازے پر دستک نہ دیں محبت کبھی کبھی بھٹک جاتی ہے مگر سچی محبت ہمیشہ لوٹ آتی ہے اور میں لوٹ آیا تھا میں اپنی بیوی کے پاس اپنے ضمیر کے پاس اپنے ایمان کے پاس
کہانی ختم نہیں ہوئی دل بدل گیا روح بدل گئی اور یہی اصل انجام تھا
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
"Shukriya! Apka comment hamaray liye qeemati hai."