اشاعتیں

جولائی, 2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

Mohabbat Mein Dhokay Ki Dardnaak Kahani | Heart Touching Urdu Story"

تصویر
رابیعہ نے جھاڑو دی، کچرا سمیٹا، اور کمر کے درد کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک نظر باورچی خانے کی طرف ڈالی۔ چولہا بند پڑا تھا، برتن دھلے نہیں تھے، اور فریج خالی۔ اُس نے آہستہ سے سانس لی، جیسے اپنے ہی اندر کے شور کو چپ کروانے کی کوشش کر رہی ہو۔ گھر میں سکوت تھا، لیکن وہ سکوت کسی امن کی علامت نہیں، بلکہ غربت کی گونگی چیخ تھی۔ بچپن سے لے کر شادی تک، اور پھر شادی کے بعد بھی، رابیعہ کی زندگی نے کبھی خوشی کا لمبا وقفہ نہیں دیکھا تھا۔ کبھی باپ کے بیمار ہونے کی وجہ سے اسکول چھوٹا، تو کبھی ماں کے کندھوں پر محنت کے بوجھ کو بانٹنے کے لیے کام پر جانا پڑا۔ شادی ہوئی تو دل میں ایک دبی دبی سی امید تھی، کہ شاید اب قسمت مہربان ہو جائے۔ لیکن زاہد… اس کا شوہر… ایک مزدور، جو دن بھر اینٹیں ڈھوتا، شام کو سارا بوجھ رابیعہ پر ڈال دیتا۔ نہ محبت، نہ لحاظ۔ صرف ذمہ داری، وہ بھی بےرخی کے ساتھ۔ آج بھی وہ صبح سات بجے گھر سے نکل گیا تھا۔ رات کو آٹھ بجے لوٹے گا۔ جوتے کی آواز دروازے پر گونجے گی، دروازہ کھلے گا، وہ اندر آئے گا، اور خاموشی سے چارپائی پر بیٹھ جائے گا۔ بات تب ہی کرے گا جب رابیعہ پانی دیر سے دے، یا کھانے میں نمک...

Main Yeh Shadi Nahi Manta - Sad Love Story

تصویر
  میں نہیں مانتا اس شادی کو نا اس  بچے کو کس کا گناہ میرے سر پر  تھوپ رہی ہو تم بے حیال لڑکی کی ۔ سالار نے سب کے سامنے شرجینہ  کے کردار پر کیچڑا چھال دیا تھا۔  سالار اس کی پھپھو کا بیٹا تھا،  سات سال کی طویل محبت کے بعد  اس نے شرجینہ کو چوری چھپے  نکاح پر راضی کیا تھا کیونکہ لمبا  عرصہ سے دو خاندانوں کے بیچ  دشمنی چل رہی تھی۔ شرجینہ کو  اس کی پھپھونے بے دردی سے  گھسیٹ کر گیٹ سے باہر پھینکا  تھا۔ وہ اپنا چہرہ چھپا کر وہاں سے  بھاگی، جیسے ہی بھائی تھی  سامنے سے آتی گاڑی کی زور دار  ٹکر سے اڑ کر وہ دور جا گری تھی ۔ تبھی گاڑی سے اتر کر وہ شخص  تیزی سے اس کی طرف بھاگا تھا۔ سالار حیدر، ولد حیدر اعوان، آپ کا  نکاح مناہل احمد ولد احمد سے با  عوض دس لاکھ حق مہر طے پایا۔  کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟ مولوی  صاحب نے نکاح کے کلمات ادا کرتے  ہوئے سالار سے پوچھا۔ رک جاؤ سالار  حیدر! شرجینہ حال کے پیچ و تاب  میں کھڑی ہو کر چلائی۔ حال میں  موجود سب لوگوں کی نظریں اس  کی طرف ہو...

Narma Ki Dardnaak Kahani – Ishq, Ghairat Aur Aansuon Se Bhari Taqdeer

تصویر
غربت کی زنجیروں میں جکڑا خواب رات کے پچھلے پہر نرمہ کی جھونپڑی میں صرف چولہے کی راکھ باقی تھی، اور دل کی راکھ بھی کچھ ایسی ہی۔ شوہر عادل کے چہرے پر مایوسی کی جالی جمی  ہوئی تھی۔ وہ کچھ بولتا نہیں تھا، صرف سوچتا تھا۔ نرمہ نے چپ چاپ ایک کپ چائے بنا کر اس کے سامنے رکھا، وہ کپ دیکھتا رہا، جیسے اس میں زندگی کے حل کی کوئی لکیر چھپی ہو۔ "عادل، ہم کب تک یوں ہی گزارہ کرتے رہیں گے؟" نرمہ کی آواز میں تھکن نہیں، بس سوال تھا۔ عادل نے لمبی سانس لی، "جب تک نصیب بدل نہیں جاتا، یا ہم کسی طرح تقدیر کو بدلنے پر مجبور نہ کر دیں۔" نرمہ نے عزم سے کہا، "میں کام پر جانا چاہتی ہوں، فیکٹری میں۔ سنا ہے شہر کے باہر جو نئی کپڑے کی فیکٹری کھلی ہے، وہاں عورتوں کو بھی رکھ رہے ہیں۔" عادل نے حیرت سے اسے دیکھا، "پر تم عورت ہو... اور وہاں کا ماحول؟" "عورت ہی ہوں، اسی لیے اپنے گھر کو سہارا دینا چاہتی ہوں۔" حصہ 2: فیکٹری، اجنبی راستے اور نئی آزمائشیں فیکٹری کے باہر لمبی قطار میں نرمہ بھی کھڑی تھی۔ چادر کے اندر چہرہ چھپائے، نظریں جھکائے، دل میں خوف اور امید کا توازن لیے۔ جب ...

"اداکارہ کی جذباتی کہانی،

تصویر
   بھائی شکریہ، میں خود چلی جاؤنگی۔“ اس نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ باتیں نہ بناؤ و یسے بھی آدھا دن گزر چکا ہے۔ کہاں پھر وگی ۔ میں آپ کو دوسرے راستے پر لے جا کر دور چھوڑ آؤنگا۔“ گر مگر وگر چھوڑ و ... آؤ وقت کو دیکھ کر اسے شاہکار کی بات ماننی پڑی۔ اچھے سے چادر اوڑھ کر وہ اس کے ساتھ بائیک پر بیٹھ گئی۔ واقعی میلے میں کافی رونق تھی۔ وہاں سے کچھ دور ہی اس نے چادرا تار کر تھیلے میں رکھ دی اور کمائی پر لگ گئی۔ بہت تیزی سے پوشیدہ تھیلا پیسوں کے مڑے تڑے نوٹوں سے بھر نے لگا تو اس کا دل خوشی کے مارے اچھلنے لگا۔ شام کے سائے پھیلنے لگے تو اس نے واپسی کا راستہ لیا۔ دو تین بار پولیس نے روکنے اور تلاشی لینے کی کوشش کی مگر وہ مالک کا بلیو پاس انہیں دکھاتی تو وہ لوگ کمپنی ہنسی نہیں کر پیچھے ہٹ جاتے۔ وہ جانتی تھی مالک شہر کا سرگرم مافیا ہے اور پولیس کو ہر ماہ اچھی خاصی رقم بطور نوالا ملتی ہے۔ اس کا بلیو پاس نہ صرف اس کی پولیس سے حفاظت کرتی ہے بلکہ شہر کے غنڈوں سے بھی اس کو بچاتی ہے۔۔ بے خبر ہے تو صرف معصوم شہری۔ مالک سے کہنا کبھی محفل میں ہمیں بھی دعوت دینا ایک پولیس والے نے پیچھے سے آواز لگائی مگر...

دل کی پرچھائیاں

تصویر
"تم جیسی جاہل لڑکی کو میں اپنی بیوی نہیں مانتا۔" اپنے سے دس سال چھوٹی زینب کو دور دھکیلتا کمرے سے نکل گیا اور اپنے گھر والوں کے لاکھ روکنے کے باوجود وہ ہمیشہ کے لیے امریکہ چلا گیا تھا۔ امریکہ میں گزرتے وقت کے ساتھ وہ ایک لڑکی کو پسند کرنے لگا تھا اور زینب کو بالکل فراموش کر چکا تھا۔ جب اچانک اسے اپنے دادا کے انتقال کی خبر ملی تھی تو وہ چار سال بعد پاکستان حویلی لوٹا تھا اور انتقال کے تیسرے دن ہی اس معصوم پری کو دیکھ کر مبہوت رہ گیا تھا جو اس کے نکاح میں تھی، پر یہ دیکھ کر تن بدن میں آگ لگی تھی کہ وہ تو اس سے کتراتی اسے مکمل نظر انداز کر رہی تھی۔ اسے اپنے کزن کے ساتھ بے تکلف ہوتا دیکھ وہ غصے سے پاگل ہو گیا... ہو چکی تھی۔ "دادا ایک ہی بات کہوں گا! اور اپنی پسند سے کروں گا۔۔" "اتنی لڑکیوں کے ساتھ میں تمہیں دیکھ چکا ہوں ظفر۔۔ کیا وہ تمہیں پسند نہیں ہوتیں؟" "نہیں! بس وقتی پسند دادا! کیا کروں میرے اسٹینڈرڈ کی نہیں ملتی۔۔ جو ملتی ہے کچھ دن ٹھیک رہتی ہے پھر اپنی اوقات پر آ جاتی ہے۔۔۔ پیسہ چاہیے تو تحفے چاہیے۔۔ عورت پیسے کے لیے ہی مرد کے پاس آتی ہے۔۔ بس! اگر آ...

دیہاتی لڑکی سے دوستی

تصویر
 دیہاتی لڑکی میری بیگم کی شاپنگ کو آج ساتواں روز تھا اور ایک دن بعد وہ میکے جانے والی تھی جہاں اس نے ہمیں دن رہنا تھا آج سے پندرہ دن بعد اس کی بہن کی شادی تھی. اور اس کی امی یعنی میری ساس پچھلے کئی روز سے کال کر رہی تھی کہ میری بیٹی کو پہنچاد و اس کے بغیر کوئی کام نہیں ہو رہا ہے آج بدھ کا روز تھا اور بیگم نے جمعہ کے روز جانا تھا شام کے بعد میری زمینوں پر کام کرنے والے نعمت نے کال کی کہ صاحب میری امی کی طبیعت بہت خراب ہے اور ہم ڈاٹسن پر اس کو شہر کی ہسپتال میں لا رہے ہیں ہم آتے ہوئے آپ کی گلی سے گزر لیں گے اور میری بیگم آپ کے گھر رہے گی. نعت میری زمینوں پر کام کرتا تھا اور میرے آبائی گاؤں سے ذرا فاصلے پر میری زمینوں پر بنے میرے مکان میں اپنی فیملی سمیت رہتا تھا اس سے پہلے وہ اور اس کی امی رہتے تھے اس کا اپنا مکان نہیں تھا نعت کی عمر 18 سال تھی اور اس کی امی نے اپنی بیماری کو دیکھتے ہوئے نعت کی شادی تین ماہ قبل اپنے کسی دور دراز کے رشتہ داروں میں کر دی تھی اس کی دلہن کا نام زینت تھا اس کی شادی کے سارے اخراجات بھی میں نے برداشت کئے تھے. ان کی شادی بس نارمل سی تھی میرے ساتھ میری بیگم ب...

Lalachi Shohar Aur Bechari Doctor Biwi

تصویر
میرا نام نورین ہے، اور میں ایک میڈیکل اسٹوڈنٹ تھی… ایک خواب دیکھنے والی بیٹی… ایک عزت دار باپ کی بیٹی… میرے والد ایک پرائمری سکول کے ریٹائرڈ استاد تھے۔ ہمارا تعلق ایک چھوٹے سے قصبے سے تھا، مگر میرے خواب بڑے تھے۔ میں ہمیشہ سے ڈاکٹر بننا چاہتی تھی تاکہ اپنے والد کی خدمت کر سکوں، جنہوں نے اپنی پوری زندگی میری تعلیم پر لگا دی تھی۔ میری ایم بی بی ایس کی فائنل ائیر چل رہی تھی جب میرے لیے ایک رشتہ آیا۔ لڑکے کا نام کامران تھا۔ ہینڈسم، پڑھے لکھے ہونے کا دعویٰ کرنے والا، اور سب سے بڑھ کر، بزنس مین۔ میرے والد نے جب سنا کہ لڑکے کا کاروبار ہے تو وہ مان گئے، اور رشتہ طے پا گیا۔ شادی ہوئی… خوابوں کا آغاز… مگر حقیقت بہت مختلف تھی۔ شادی کے فوراً بعد ہی کامران کا رویہ بدل گیا۔ پہلے وہ مجھے کہتا تھا کہ تم اپنی پڑھائی مکمل کرو، میں سپورٹ کروں گا، لیکن اب وہ کہنے لگا: "ڈاکٹری چھوڑو… اتنی پڑھائی کا کیا فائدہ؟ میں کما رہا ہوں نا!" میں حیران تھی۔ جب میں نے احتجاج کیا تو اُس نے کہا: "اگر پڑھائی اتنی عزیز ہے تو اپنے باپ کے گھر چلی جاؤ!" میرے دل پر چوٹ لگی… وہ شخص جس کے ساتھ میں نے نئی زندگی ...

"مجھے طلاق نہیں چاہیئے – ایک عورت کی صبر، محبت اور قربانی کی داستان"

تصویر
"خدا کے لیے مجھے طلاق مت دیں۔۔ میں کبھی آپ کے سامنے نہیں آؤں گی۔۔" منتہا اپنے شوہر سرفراز کے قدموں میں گری تھی۔ شادی کو ایک سال ہو چکا تھا، مگر سرفراز نے نہ صرف کبھی محبت نہیں کی، بلکہ وہ اسے انسان بھی نہیں سمجھتا تھا۔ وہ یہ رشتہ صرف اپنی ماں کے دباؤ پر قبول کر چکا تھا۔ اس کی دل کی دنیا کسی اور کے گرد گھومتی تھی… اور اب وہ منتہا کو طلاق دے کر، اپنی محبوبہ سے نکاح کرنا چاہتا تھا۔ باب 1: منتہا کی شادی منتہا ایک سادہ، باحیا اور نرم مزاج لڑکی تھی۔ اُس کی ماں کی وفات کے بعد، اس کی خالہ نے اسے اپنی بیٹی کی طرح پالا تھا۔ خالہ کی خواہش تھی کہ اس کی بیٹی منتہا کی شادی اس کے بیٹے سرفراز سے ہو۔ سرفراز ایک خوبرو، تعلیم یافتہ مگر مغرور لڑکا تھا۔ اس کے دل میں پہلے ہی کسی اور کی محبت بسی ہوئی تھی۔ مگر ماں کے دباؤ پر وہ نکاح کے لیے راضی ہو گیا، بس صرف رسمی طور پر۔ نکاح کی رات، سرفراز نے منتہا کو صرف ایک جملہ کہا تھا: "یہ شادی میرے لیے صرف ایک مجبوری ہے… میری دل کی دنیا کہیں اور ہے… تم مجھ سے کوئی توقع نہ رکھنا۔" منتہا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، مگر اُس نے سر جھکا لیا اور کہا: "...

شیطانی عشق اور سچی محبت"

تصویر
 عمیر اور سارہ بچپن کے دوست تھے۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے لگتے تھے۔ مگر جیسے جیسے وقت گزرا، عمیر کے دل میں ایک شیطانی جذبہ جنم لینے لگا۔ وہ سارہ کی محبت کو اپنی مرضی کے تابع کرنا چاہتا تھا۔ سارہ نے جب اس کا بدلتا ہوا رویہ دیکھا تو اسے بہت دکھ ہوا۔ اس نے سوچا کہ کیا یہی محبت ہے؟ کیا عشق میں یہ شیطانی جذبہ ہوتا ہے جو دل کو توڑ دیتا ہے؟ لیکن سارہ نے ہار نہیں مانی۔ اس نے اپنے دل کی سچی محبت کا مظاہرہ کیا۔ اپنی قربانی اور محبت سے عمیر کو سمجھایا کہ حقیقی عشق میں اعتماد، عزت اور احترام ہونا چاہیے۔ آخرکار، عمیر نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا اور سچائی کو اپنایا۔ دونوں نے مل کر اپنی محبت کو شیطانی فتنہ سے پاک کر کے، ایک نیا آغاز کیا۔ یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ محبت میں کبھی بھی کسی پر ظلم یا قابو پانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ محبت وہ جذبہ ہے جو دلوں کو جوڑتا ہے، توڑ تا نہیں۔

فاطمہ اور عمران کی موٹر وے پر آخری ملاقات — ایک دل کو چھو لینے والی کہانی

تصویر
  فاطمہ اور عمران کی موٹر وے پر آخری ملاقات — ایک دل کو چھو لینے والی کہانی مس فاطمہ دو پٹہ اتار دیں، میں آپ کو  نہی گا عمران خان نے طنزیہ نظر اپنی سیکریٹری پر ڈالی جو گرمی سے پسینے میں بھیگی ہوئی تھی۔ موٹروے پر گرمی کی شدت کی وجہ سے عمران کی گاڑی کا اے سی بند ہو گیا تھا، تو اس نے گرمی سے بچنے کے لیے اپنی شرٹ کے بٹن کھول دیے، مگر فاطمہ کی موٹی چادر نے اسے بے ہوش کر دیا۔ عمران غصے سے گاڑی روکا۔ "پاگل لڑکی!" وہ اس کی چادر ہٹانے لگا اور اسے پانی پلانے لگا، لیکن آدھا پانی اس کی گردن سے گزر کر قمیض میں جذب ہو گیا۔ عمران بے اختیار فاطمہ کے دھڑکنوں پر ہاتھ رکھے رہ گیا۔ رات دھیرے دھیرے سرد ہوتی جا رہی تھی۔ گاڑی کے اندر مدھم سی روشنی تھی، لیکن باہر گہری تاریکی اور سناٹا تھا۔ فاطمہ گھبرا کر چادر سر پر سیدھی کرتے ہوئے باہر دیکھنے کی کوشش کی، مگر صرف سناٹے کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا۔ مایوسی سے اس نے اپنا رخ موڑ کر عمران کو دیکھا جو گاڑی کی سیٹ پر ایک ہاتھ سٹیئرنگ ویل پر اور دوسرے ہاتھ کی مٹھی بنا کر اپنی ٹانگ پر رکھے کسی گہرے سوچ میں تھا۔ فاطمہ نے گہرا سانس لیا، "اب ہمیں یہاں اور کتنی...